H آج صبح کے اخبار کی انتہائی اہم خبر رام ولاس ویدانتی کا یہ بیان کہ’’ اجودھیا کی حدود میں بابری مسجد قابل قبول نہیں ہوگی۔‘‘ حالانکہ انہوں نے مسئلے کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی کوششوں کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بھی نئے سرے سے صلح صفائی کی مہم قابل تعریف ہے لیکن اجودھیا کی ’ثقافتی سرحد‘ کے اندر کسی بھی طرح کی نئی مسجد سنت دھرم چاریوںکو قبول نہیں ہوگی، یعنی بات کرو تو ذہن میں رہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ جو بھی ہو، آپ ایک تہائی زمین پر بھی مسجد کی تعمیر کی امید نہ رکھیں۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہاکہ اس سال ہری دوار کنبھ میلے کے دوران سنتوں کی سمیلن میں منظور قرار داد میں کہا گیا تھا کہ پوری ایکوائر زمین (7ایکڑ) میں شری رام کا شاندار مندر بنایا جائی۔ انہوں نے کہاکہ جو قرارداد سنتـدھرم چاریوں کے سمیلن میں منظور کی گئی تھی، سنت اب بھی اسی پر قائم ہیں۔ سمجھوتے کی کوششیں بھلے ہی خیرمقدم کے قابل ہیں لیکن سنتوں کی تجویز کی بنیادپر ہی ملک میں امن وامان برقرار رہے گا۔ اگر میں صرف ایک مضمون نہیں لکھ رہا ہوتا اور عدالت میں ایک وکیل کی حیثیت سے کھڑا ہوتا تو بیحد ادب کے ساتھ کہتا "Point to be noted my lord"حضوراعلیٰ یہ بات نوٹ کی جائے کہ ’’اس تجویز کی بنیاد پر ہی امن و امان برقرار رہے گا ورنہ…کیا ہوگا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اب تک کیا ہوتا رہا ہی۔
اور اب میں آتا ہوں آج کی شام کی سب سے اہم خبر پر۔ اس وقت میرے سامنے تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینل پر شاہی امام سیداحمدبخاری کی لکھنؤ پریس کانفرنس میں ہوئے ہنگامہ کی خبر چل رہی ہی۔ ارادہ نہیں تھا کہ آج کوئی مضمون لکھوں، لیکن ان دونوں واقعات نے مجبور کردیا کہ آج پھر مجھے بابری مسجداراضی کی ملکیت کے تعلق سے آئے 30ستمبر010کے فیصلہ پر لکھنا چاہئی۔ حالانکہ اس موضوع پر اب بہتر تو یہی ہے کہ جو بات ہو، وہ قانون کے جانکاروں کے ذریعہ اور قانون کی زبان میں ہی ہو، مگر کوئی بھی واقعہ جب ایک اہم خبر کی شکل میں سامنے آتا ہے تو ایک صحافی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسے مکمل حقائق کے ساتھ سامنے رکھے اور یہ روشنی ڈالنے کی بھی کوشش کرے کہ آخر اس خاموش ماحول میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کون اور کیوں کررہا ہی۔ 30ستمبر010کی شام چار بجے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں جج صاحبان کے ذریعہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد تقریباً ایسی تمام ہندو تنظیموں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کا خیرمقدم کیا تھا، جن کی جانب سے یہ خدشہ تھا کہ فیصلہ اگر ان کے حق میں نہیں ہوا اور انہیں پسند نہیں آیا تو ان کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے کو مل سکتا ہی۔ یہ وہ فیصلہ تھا، جس کی توقع مسلمان قطعاً نہیں کررہے تھے اور قانون کی جانکاری رکھنے والے و سیکولر عوام کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ جس بابری مسجد کو شہید کرنے کے جرم میں ملزمین کے خلاف عدالت میں مقدمہ زیرغور ہی۔ گزشتہ8برسوں سے لبراہن کمیشن اس پر نہ صرف جانچ کرتا رہا ہی، بلکہ پارلیمنٹ کو اپنی رپورٹ بھی پیش کرچکا ہی۔ کون کون اس جرم میں شامل نظر آتے ہیں، ان کے ناموں اور کارناموں کی نشاندہی بھی میڈیا کے ذریعہ منظرعام پر آتی رہی ہی۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسجد کو شہید کرنے کے لئے ذمہ دار ہیں یعنی مسجد کی عمارت کو مسمار کردینا قانونی جرم ہے تو یہ بات قیاس سے باہر کیسے ہوسکتی تھی کہ کم سے کم 6دسمبر992سے پہلے جن لوگوں پر، جس عبادت گاہ کو گرا دینے کا مقدمہ چل رہا ہی، اس کی اسی حیثیت کو واپس قائم کرنا تو انصاف کی پہلی شکل ہونی چاہئے تھی۔ اس کے بعد دیگر معاملات کو سامنے رکھ کر عدالت قانون کی روشنی میں جو بھی فیصلہ دیتی اس پر کوئی تبصرہ ہوتا، اسے قبول کیا جاتا یا عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا۔ اگر مسجد کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا گیا تو پھر مسجد کو شہید کرنے والوں کے خلاف چلنے والے مقدمے اور لبراہن کمیشن کی 18برسوں کی جدوجہد کے کیا معنی؟ یہ تمام باتیں فیصلہ سامنے آنے کے بعد ذہن کو پریشان کرنے لگیں، مگر اس خیال کو رد کرتے ہوئے بلاتاخیر وزیرداخلہ پی چدمبرم کا بیان متعدد بار سامنے آیا کہ اس سے نہ تو کوئی جرم کم ہوتا ہے اور نہ اس مقدمہ پر کوئی اثر پڑتا ہی، جو بابری مسجد کی شہادت پر چل رہا ہی۔ ایسا انہوں نے کس بنیاد پر کہا، یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم نے ان حالات کا ذکر اس وقت صرف اس لئے کیا کہ صاف یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ فیصلہ مسلمانوںکے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی قانون کی بنیادوں پر مبنی ہی، یہ بات قانون کے جانکار بشمول ہندو اور مسلمان بہت ہی مدلل انداز میں کہہ رہے ہیں، لیکن مسلمانوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور ہم نے جسارت کی اور اپنے پہلے ہی مضمون کی معرفت یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ جو بھی، جیسا بھی فیصلہ سامنے آیا ہے اور جس صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے اس پر ایسا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے کہ ملک اور قوم کے درمیان کوئی منفی پیغام جائے تو اس سمت میں بھی غور فرما کر دیکھ لیجئے کہ اگر ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو جو نہ تو پوری طرح آپ کے حق میں ہے اور قانونی تقاضوں پر مبنی، پھربھی ملک بھر میں امن و اتحاد کی خاطر منظور کرلیا گیا اور وہ جگہ جو مسجد کے لئے مختص کی گئی ہی، اس پر ازسرنوبابری مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے اور جس جگہ کا اعلان مندر کے حق میں کیا گیا ہی، وہاں بخوشی مندر کی تعمیر شروع کی جائی۔ حالانکہ سپریم کورٹ جانے کا دروازہ کھلا ہی۔ سپریم کورٹ سے انصاف کی امید بھی کی جاسکتی ہی، مگر جب آپ تمام حالات کو سامنے رکھ کر ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے لئے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہی۔ آج جو بیان سامنے آیا ہے رام ولاس ویدانتی کا، یہ صرف ان کی اپنی سوچ ہے یا اسے ایک اتفاق سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بہت بڑی بھول کربیٹھیں گی۔ اسی طرح شاہی امام سیداحمدبخاری کی پریس کانفرنس میں لکھنؤ میں جو واقعہ پیش آیا، اسے بھی اگر ہم نے محض ایک اتفاق سمجھ لیا تو یہ بھی ایک بہت بڑی بھول ہوگی۔ قطع نظر اس کے کہ 30ستمبر کے اس فیصلہ کے معاملہ میں شاہی امام کا نظریہ کیا ہے یا سیاسی اعتبار سے ان کا ذہن کیا ہے اور ان کا مزاج کتنا گرم ہے یا وہ کتنے مشتعل ہوجاتے ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سوال کرنے والا کون تھا؟ سوال کرنے والے کا ماضی کیا ہی؟ سوال کرنے والے کی نیت کیا ہوسکتی ہی؟ ہمارے سامنے صحافی کے تعلق سے تھانہ بازار صدر لکھنؤ ایف آئی آر نمبرـ96/08 تاریخ9نومبر008کی کاپی موجود ہی، وہ ان کے عمل اور مزاج کو سامنے رکھتی ہی، لیکن اس سب کے باوجود، جو کیا شاہی امام سیداحمدبخاری نے نہ تو اس کی تائید کی جاسکتی ہی، نہ اس کا دفاع کیا جاسکتا ہی۔ یہ غلط تھا، غیرمناسب تھا، انہیں اس درجہ مشتعل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ تمام طرح کے سوالات کا جواب انتہائی نرمی اور شائستگی سے دینا حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بیحد ضروری تھا اور آئندہ بھی ضروری ہی۔ اس لئے کہ منفی ذہن رکھنے والوں کو صرف ایک ایسے موقع کی تلاش ہی، جس کے ذریعہ اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کیا جاسکی، جیسا کہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ اگر وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے ان فرقہ پرست سیاستدانوں کی ذہنیت کو سمجھنے میں غلطی نہ کی ہوتی، انہیں سیاسی طاقت نہ بخشی ہوتی تو آج ان کی جو سیاسی حیثیت ہی، وہ ممکن نہیں تھی۔ 1951میں ہوئے پہلے پارلیمانی انتخاب سے لے کر 1984میں ہوئے پارلیمانی انتخابات کے پہلے تک جن سنگھ اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کو کبھی کوئی ایسی سیاسی حیثیت حاصل نہیں ہوسکی کہ وہ کسی کی سرکار بنواسکیں یا گرا سکیں، مگر 1989وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے ان کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرکے سیکولر ووٹوں کو بشمول مسلمانوں کے ان کے حق میں ووٹ گزارنے پر آمادہ نہ کیا ہوتا تو لال کرشن اڈوانی اور دیگر فرقہ پرست ذہن رکھنے والے سیاستدانوں کو مرکزی حکومت میں وہ مقام نہیں ملتا کہ ہم آج بھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہوتی۔ تاریخ کے اوراق کو ستر بہ ستر پڑھ کر سنانا اس وقت ممکن نہیں ہی، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ذرا یہ سمجھنے کی کوشش تو کریں کہ آخر ایسے تمام الزامات صرف مسلمانوں پر ہی کیوں لگتے رہے ہیں، جس سے ملک میں بدامنی کا ماحول پیدا ہو۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو۔ کیا ہر بار ان کی ہی غلطی ہوتی ہے یا انہیں سازش کا شکار اس ذہانت اور منصوبہ بندی کے ذریعہ بنایا جاتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو مجرم سمجھ بیٹھیں۔ بے قصور ہوتے ہوئے بھی خندہ پیشانی ہر جرم کو قبول کرلیں۔ تقسیم وطن ایک سیاست تھی۔ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے ایک جمہوری ملک میں ان کی سیاسی حیثیت کو بے معنی بنادینے کے لئے یہ ہوا اور بیحد چالاکی کے ساتھ، انتہائی دانشمندی کے ساتھ ایک ایسا چہرہ، ایک ایسا شخص تلاش کیا گیا، جس کے دل میں حسرت تھی اقتدار پانے کی اور پھر اس کی اس خواہش کی اس درجہ تشہیر کی گئی کہ ساری دنیا جانے کہ محمدعلی جناح نے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر الگ ملک لے لیاہی۔ اس وقت اس مختصر مضمون میں تقسیم کی مکمل داستان کو قلمبند کرنا ممکن نہیں ہی۔
اس کے بعد دامن پر لگا دہشت گردی کا داغ اور اس داغ کو مٹاتے مٹاتے وہ عظیم شخص (شہید ہیمنت کرکری) خود مٹ گیا، جو یہ ثابت کررہا تھا، بلکہ بہت حد تک ثابت کرچکا تھا کہ ہندوستان میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حادثات کے لئے ذمہ دار کون ہیں۔ یہ نیٹ ورک کتنا بڑا ہی۔ اس میں کس سطح کے لوگ شامل ہیں۔ ان کی حکمت عملی کیا ہی۔ انہیں اسلحہ کہاں سے ملتا ہی۔ انہیں ٹریننگ کیسے کیسے لوگ دیتے ہیں۔ ان کے منصوبے کیا ہیں۔ راقم الحروف کے پاس ایسا بہت کچھ ہی،جو اس نیٹ ورک کا انکشاف کرنے کے لئے کافی ہی۔ ایسا کیا بھی جاتا رہا ہے اور آگے بھی کیا جاسکتا ہی، مگر اس وقت بحث کا موضوع دہشت گردانہ واقعات کا تذکرہ نہیں ہی، ہمارے سامنے ہیں صرف دو خبریں، ایک خبر جو رام ولاس ویدانتی کے بیان پر مبنی ہے اور دوسری خبر جو شاہی امام سید احمدبخاری کی پریس کانفرنس میں ہوئے ہنگامہ پر مبنی ہی۔ دو الگ الگ باتیں ہیں، بظاہر ان میں کوئی ربط نہیں ہی، یہ کس خطرناک منصوبہ کا پیش خیمہ ہوسکتا تھا یا ہوسکتا ہی، یہ کہنا اس وقت آسان نہیں ہی۔ مگر کیا اب یہ سمجھنا بہت مشکل ہوگا کہ جن باتوں کو ہم بہت چھوٹا سمجھتے ہیں، وہ بعد میں کتنے بڑے اور خوفناک نتائج کی شکل میں سامنے آتی ہیں۔ ہماری زبان سے یہ کہلوانا مقصد تھا اور مقصد ہے کہ یہ فیصلہ ہمیں منظور نہیں ہی، تاکہ جواز فراہم کیا جاسکی، ایسے تمام بیانات کا جو رام ولاس ویدانتی کے بیان کی شکل میں سامنے آرہے ہیں یا ہندومہاسبھا کے کارکنان کے ذریعہ سامنے آچکے ہیں۔ انہیں انتظار ہے کسی ایسے ہی بہانے کا، جسے بنیاد بناکر پھر حالات کو کشیدہ بنایاجاسکے اور الزام مسلمانوں پر عائد کیا جاسکی، اس لئے کہ اب عوام ہندو اور مسلمان سبھی فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں سے اوب گئے ہیں۔ وہ کسی حالت میں بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے نظر نہیں آتی، اس لئے حالات اب سپریم کورٹ میں جانے کے بن رہے ہیں اور کہیں کوئی اشتعال نہیں ہی، لہٰذا انہیں چاہئے اب کچھ ایسے گرم بیانات، ایسی جوشیلی تقاریر جن کو بہانا بناکر وہ اپنے دل کا غبار نکال سکیں، اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہناسکیں۔
نہ جانے ہم الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے فوراً بعد ہی یہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ بابری مسجد کے لئے ایک تہائی زمین کا دیا جانا بھی ان کو قابل قبول نہیں ہوگا، جنہوں نے گزشتہ 20برسوں میں رام کے نام پر سیاست کرکے خود کو اس حیثیت میں لانے میں تو کامیابی حاصل کرہی لی کہ انہیں کئی بار مرکز میں حکومت کرنے کا موقع ملا۔ متعدد ریاستوں میں سرکار بنانے کا موقع ملا، مگر ہربار دوسروں کی مدد کے سہارے اور ان میں وہ شامل تھی، جو پوری طرح ان کے ہم خیال نہیں تھے اور ان کے ساتھ مل کر سرکار چلانے کے باوجود ایسے تمام مدعوں کو پس پشت ڈالنا مجبوری تھی، جن پر ان کا تعاون حاصل نہیں ہوسکتا تھا، لہٰذا اس ذہنیت کو درکار ہیںمزید0برس،تاکہ رام کے نام پر سیاست کو زندہ رکھ کر، رام مندر نہ بناکر، رام مندر کے نام پر سیاست کرسکیں، تاکہ ملک سے فرقہ پرستی مٹنے نہ پائی، ووٹوں کا بٹوارہ اسی بنیاد پر جاری رہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ یہ مسئلہ زندہ رہی۔ اگر وہاں مندر بھی بن گیا اور مسجد بھی بن گئی تو پھر اس فرقہ پرست سیاست کا مستقبل کیا ہوگا، لہٰذا ان کی اپنی ضروریات اور خواہشات کے پیش نظر سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کا جانا ضروری تھا اور ضروری ہی۔ ہم ہائی کورٹ کا فیصلہ قبول کرتے یا نہ کرتی، اس لئے کہ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئی، منصوبے انہی کے پورے ہوں گی۔ ان کے حق میں آیا تو باقی سب دل مسوس کر بیٹھ جائیں گی۔ صرف مسلمان ہی نہیں، خود کو سیکولر کہنے والے بھی اور فیصلہ اگر ان کے خلاف آیا تو پھر کس میں بوتا ہے کہ وہ اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنا دی۔ آخرحکومتوں کی بھی کچھ ذمہ داری ہوتی ہی، اگر ایسا نہیں ہوتا تو 24ستمبر، 28ستمبر اور پھر0ستمبر کیوں تاریخ پر تاریخ بدلتی۔ کیوں حکومت کو چپہ چپہ پر حفاظتی انتظامات کرنے کی ضرورت پڑتی۔ بار بار ہر سطح پر یہ اپیل جاری کی جاتی کہ امن و امان قائم رکھیں، فیصلہ جو بھی آئے سپریم کورٹ جانے کا راستہ سبھی کے لئے کھلا ہی۔ ذرا سوچئے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد کس طرح کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور کیا پھر اس وقت کسی بھی حکومت کے ذمہ داران کے پاس یہ کہنے کا موقع ہوسکتا ہے کہ امن و اتحاد قائم رکھیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اب آپ کے لئے فلاں دروازہ کھلا ہی، آپ وہاں جاکر اپنی بات کہہ سکتے ہیں، شاید اس وقت تک پوری طرح لبریز ہوچکا صبر کا پیمانہ چھلک جائی۔ اگر ایسا ہوا تو کون کیا پائے گا، کون کیا کھوئے گا، اسے سمجھنا بہت مشکل بھی نہیں ہی۔ مگر ہم سمجھیں تو…!اب بھی وقت ہے کہ ہم ان دو چھوٹے چھوٹے واقعات کو ذہن میں رکھیں، جن کو سامنے رکھ کر یہ مضمون لکھا گیا اور تہیہ کرلیں کہ اگر ہر روز ایسے درجنوں واقعات بھی سامنے ہیں،بھلے ہی وہ کسی سازش کا حصہ ہوں یا نہ ہوں، مگر ہم ان سے متاثر نہیں ہوں گی۔ ہم امن واتحاد کا دامن نہیں چھوڑیں گی، انہیں متعلقین کا ذاتی معاملہ مان کر بس ان تک ہی محدود رہنے دیں گی۔ پوری قوم کے ساتھ انہیں جوڑ کر چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان ملک کے حالات کو متاثر نہیں ہونے دیں گی۔
اور اب میں آتا ہوں آج کی شام کی سب سے اہم خبر پر۔ اس وقت میرے سامنے تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینل پر شاہی امام سیداحمدبخاری کی لکھنؤ پریس کانفرنس میں ہوئے ہنگامہ کی خبر چل رہی ہی۔ ارادہ نہیں تھا کہ آج کوئی مضمون لکھوں، لیکن ان دونوں واقعات نے مجبور کردیا کہ آج پھر مجھے بابری مسجداراضی کی ملکیت کے تعلق سے آئے 30ستمبر010کے فیصلہ پر لکھنا چاہئی۔ حالانکہ اس موضوع پر اب بہتر تو یہی ہے کہ جو بات ہو، وہ قانون کے جانکاروں کے ذریعہ اور قانون کی زبان میں ہی ہو، مگر کوئی بھی واقعہ جب ایک اہم خبر کی شکل میں سامنے آتا ہے تو ایک صحافی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسے مکمل حقائق کے ساتھ سامنے رکھے اور یہ روشنی ڈالنے کی بھی کوشش کرے کہ آخر اس خاموش ماحول میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کون اور کیوں کررہا ہی۔ 30ستمبر010کی شام چار بجے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں جج صاحبان کے ذریعہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد تقریباً ایسی تمام ہندو تنظیموں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کا خیرمقدم کیا تھا، جن کی جانب سے یہ خدشہ تھا کہ فیصلہ اگر ان کے حق میں نہیں ہوا اور انہیں پسند نہیں آیا تو ان کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے کو مل سکتا ہی۔ یہ وہ فیصلہ تھا، جس کی توقع مسلمان قطعاً نہیں کررہے تھے اور قانون کی جانکاری رکھنے والے و سیکولر عوام کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ جس بابری مسجد کو شہید کرنے کے جرم میں ملزمین کے خلاف عدالت میں مقدمہ زیرغور ہی۔ گزشتہ8برسوں سے لبراہن کمیشن اس پر نہ صرف جانچ کرتا رہا ہی، بلکہ پارلیمنٹ کو اپنی رپورٹ بھی پیش کرچکا ہی۔ کون کون اس جرم میں شامل نظر آتے ہیں، ان کے ناموں اور کارناموں کی نشاندہی بھی میڈیا کے ذریعہ منظرعام پر آتی رہی ہی۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسجد کو شہید کرنے کے لئے ذمہ دار ہیں یعنی مسجد کی عمارت کو مسمار کردینا قانونی جرم ہے تو یہ بات قیاس سے باہر کیسے ہوسکتی تھی کہ کم سے کم 6دسمبر992سے پہلے جن لوگوں پر، جس عبادت گاہ کو گرا دینے کا مقدمہ چل رہا ہی، اس کی اسی حیثیت کو واپس قائم کرنا تو انصاف کی پہلی شکل ہونی چاہئے تھی۔ اس کے بعد دیگر معاملات کو سامنے رکھ کر عدالت قانون کی روشنی میں جو بھی فیصلہ دیتی اس پر کوئی تبصرہ ہوتا، اسے قبول کیا جاتا یا عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا۔ اگر مسجد کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا گیا تو پھر مسجد کو شہید کرنے والوں کے خلاف چلنے والے مقدمے اور لبراہن کمیشن کی 18برسوں کی جدوجہد کے کیا معنی؟ یہ تمام باتیں فیصلہ سامنے آنے کے بعد ذہن کو پریشان کرنے لگیں، مگر اس خیال کو رد کرتے ہوئے بلاتاخیر وزیرداخلہ پی چدمبرم کا بیان متعدد بار سامنے آیا کہ اس سے نہ تو کوئی جرم کم ہوتا ہے اور نہ اس مقدمہ پر کوئی اثر پڑتا ہی، جو بابری مسجد کی شہادت پر چل رہا ہی۔ ایسا انہوں نے کس بنیاد پر کہا، یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم نے ان حالات کا ذکر اس وقت صرف اس لئے کیا کہ صاف یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ فیصلہ مسلمانوںکے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی قانون کی بنیادوں پر مبنی ہی، یہ بات قانون کے جانکار بشمول ہندو اور مسلمان بہت ہی مدلل انداز میں کہہ رہے ہیں، لیکن مسلمانوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور ہم نے جسارت کی اور اپنے پہلے ہی مضمون کی معرفت یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ جو بھی، جیسا بھی فیصلہ سامنے آیا ہے اور جس صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے اس پر ایسا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے کہ ملک اور قوم کے درمیان کوئی منفی پیغام جائے تو اس سمت میں بھی غور فرما کر دیکھ لیجئے کہ اگر ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو جو نہ تو پوری طرح آپ کے حق میں ہے اور قانونی تقاضوں پر مبنی، پھربھی ملک بھر میں امن و اتحاد کی خاطر منظور کرلیا گیا اور وہ جگہ جو مسجد کے لئے مختص کی گئی ہی، اس پر ازسرنوبابری مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے اور جس جگہ کا اعلان مندر کے حق میں کیا گیا ہی، وہاں بخوشی مندر کی تعمیر شروع کی جائی۔ حالانکہ سپریم کورٹ جانے کا دروازہ کھلا ہی۔ سپریم کورٹ سے انصاف کی امید بھی کی جاسکتی ہی، مگر جب آپ تمام حالات کو سامنے رکھ کر ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے لئے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہی۔ آج جو بیان سامنے آیا ہے رام ولاس ویدانتی کا، یہ صرف ان کی اپنی سوچ ہے یا اسے ایک اتفاق سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بہت بڑی بھول کربیٹھیں گی۔ اسی طرح شاہی امام سیداحمدبخاری کی پریس کانفرنس میں لکھنؤ میں جو واقعہ پیش آیا، اسے بھی اگر ہم نے محض ایک اتفاق سمجھ لیا تو یہ بھی ایک بہت بڑی بھول ہوگی۔ قطع نظر اس کے کہ 30ستمبر کے اس فیصلہ کے معاملہ میں شاہی امام کا نظریہ کیا ہے یا سیاسی اعتبار سے ان کا ذہن کیا ہے اور ان کا مزاج کتنا گرم ہے یا وہ کتنے مشتعل ہوجاتے ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سوال کرنے والا کون تھا؟ سوال کرنے والے کا ماضی کیا ہی؟ سوال کرنے والے کی نیت کیا ہوسکتی ہی؟ ہمارے سامنے صحافی کے تعلق سے تھانہ بازار صدر لکھنؤ ایف آئی آر نمبرـ96/08 تاریخ9نومبر008کی کاپی موجود ہی، وہ ان کے عمل اور مزاج کو سامنے رکھتی ہی، لیکن اس سب کے باوجود، جو کیا شاہی امام سیداحمدبخاری نے نہ تو اس کی تائید کی جاسکتی ہی، نہ اس کا دفاع کیا جاسکتا ہی۔ یہ غلط تھا، غیرمناسب تھا، انہیں اس درجہ مشتعل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ تمام طرح کے سوالات کا جواب انتہائی نرمی اور شائستگی سے دینا حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بیحد ضروری تھا اور آئندہ بھی ضروری ہی۔ اس لئے کہ منفی ذہن رکھنے والوں کو صرف ایک ایسے موقع کی تلاش ہی، جس کے ذریعہ اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کیا جاسکی، جیسا کہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ اگر وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے ان فرقہ پرست سیاستدانوں کی ذہنیت کو سمجھنے میں غلطی نہ کی ہوتی، انہیں سیاسی طاقت نہ بخشی ہوتی تو آج ان کی جو سیاسی حیثیت ہی، وہ ممکن نہیں تھی۔ 1951میں ہوئے پہلے پارلیمانی انتخاب سے لے کر 1984میں ہوئے پارلیمانی انتخابات کے پہلے تک جن سنگھ اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کو کبھی کوئی ایسی سیاسی حیثیت حاصل نہیں ہوسکی کہ وہ کسی کی سرکار بنواسکیں یا گرا سکیں، مگر 1989وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے ان کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرکے سیکولر ووٹوں کو بشمول مسلمانوں کے ان کے حق میں ووٹ گزارنے پر آمادہ نہ کیا ہوتا تو لال کرشن اڈوانی اور دیگر فرقہ پرست ذہن رکھنے والے سیاستدانوں کو مرکزی حکومت میں وہ مقام نہیں ملتا کہ ہم آج بھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہوتی۔ تاریخ کے اوراق کو ستر بہ ستر پڑھ کر سنانا اس وقت ممکن نہیں ہی، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ذرا یہ سمجھنے کی کوشش تو کریں کہ آخر ایسے تمام الزامات صرف مسلمانوں پر ہی کیوں لگتے رہے ہیں، جس سے ملک میں بدامنی کا ماحول پیدا ہو۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو۔ کیا ہر بار ان کی ہی غلطی ہوتی ہے یا انہیں سازش کا شکار اس ذہانت اور منصوبہ بندی کے ذریعہ بنایا جاتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو مجرم سمجھ بیٹھیں۔ بے قصور ہوتے ہوئے بھی خندہ پیشانی ہر جرم کو قبول کرلیں۔ تقسیم وطن ایک سیاست تھی۔ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے ایک جمہوری ملک میں ان کی سیاسی حیثیت کو بے معنی بنادینے کے لئے یہ ہوا اور بیحد چالاکی کے ساتھ، انتہائی دانشمندی کے ساتھ ایک ایسا چہرہ، ایک ایسا شخص تلاش کیا گیا، جس کے دل میں حسرت تھی اقتدار پانے کی اور پھر اس کی اس خواہش کی اس درجہ تشہیر کی گئی کہ ساری دنیا جانے کہ محمدعلی جناح نے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر الگ ملک لے لیاہی۔ اس وقت اس مختصر مضمون میں تقسیم کی مکمل داستان کو قلمبند کرنا ممکن نہیں ہی۔
اس کے بعد دامن پر لگا دہشت گردی کا داغ اور اس داغ کو مٹاتے مٹاتے وہ عظیم شخص (شہید ہیمنت کرکری) خود مٹ گیا، جو یہ ثابت کررہا تھا، بلکہ بہت حد تک ثابت کرچکا تھا کہ ہندوستان میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حادثات کے لئے ذمہ دار کون ہیں۔ یہ نیٹ ورک کتنا بڑا ہی۔ اس میں کس سطح کے لوگ شامل ہیں۔ ان کی حکمت عملی کیا ہی۔ انہیں اسلحہ کہاں سے ملتا ہی۔ انہیں ٹریننگ کیسے کیسے لوگ دیتے ہیں۔ ان کے منصوبے کیا ہیں۔ راقم الحروف کے پاس ایسا بہت کچھ ہی،جو اس نیٹ ورک کا انکشاف کرنے کے لئے کافی ہی۔ ایسا کیا بھی جاتا رہا ہے اور آگے بھی کیا جاسکتا ہی، مگر اس وقت بحث کا موضوع دہشت گردانہ واقعات کا تذکرہ نہیں ہی، ہمارے سامنے ہیں صرف دو خبریں، ایک خبر جو رام ولاس ویدانتی کے بیان پر مبنی ہے اور دوسری خبر جو شاہی امام سید احمدبخاری کی پریس کانفرنس میں ہوئے ہنگامہ پر مبنی ہی۔ دو الگ الگ باتیں ہیں، بظاہر ان میں کوئی ربط نہیں ہی، یہ کس خطرناک منصوبہ کا پیش خیمہ ہوسکتا تھا یا ہوسکتا ہی، یہ کہنا اس وقت آسان نہیں ہی۔ مگر کیا اب یہ سمجھنا بہت مشکل ہوگا کہ جن باتوں کو ہم بہت چھوٹا سمجھتے ہیں، وہ بعد میں کتنے بڑے اور خوفناک نتائج کی شکل میں سامنے آتی ہیں۔ ہماری زبان سے یہ کہلوانا مقصد تھا اور مقصد ہے کہ یہ فیصلہ ہمیں منظور نہیں ہی، تاکہ جواز فراہم کیا جاسکی، ایسے تمام بیانات کا جو رام ولاس ویدانتی کے بیان کی شکل میں سامنے آرہے ہیں یا ہندومہاسبھا کے کارکنان کے ذریعہ سامنے آچکے ہیں۔ انہیں انتظار ہے کسی ایسے ہی بہانے کا، جسے بنیاد بناکر پھر حالات کو کشیدہ بنایاجاسکے اور الزام مسلمانوں پر عائد کیا جاسکی، اس لئے کہ اب عوام ہندو اور مسلمان سبھی فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں سے اوب گئے ہیں۔ وہ کسی حالت میں بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے نظر نہیں آتی، اس لئے حالات اب سپریم کورٹ میں جانے کے بن رہے ہیں اور کہیں کوئی اشتعال نہیں ہی، لہٰذا انہیں چاہئے اب کچھ ایسے گرم بیانات، ایسی جوشیلی تقاریر جن کو بہانا بناکر وہ اپنے دل کا غبار نکال سکیں، اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہناسکیں۔
نہ جانے ہم الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے فوراً بعد ہی یہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ بابری مسجد کے لئے ایک تہائی زمین کا دیا جانا بھی ان کو قابل قبول نہیں ہوگا، جنہوں نے گزشتہ 20برسوں میں رام کے نام پر سیاست کرکے خود کو اس حیثیت میں لانے میں تو کامیابی حاصل کرہی لی کہ انہیں کئی بار مرکز میں حکومت کرنے کا موقع ملا۔ متعدد ریاستوں میں سرکار بنانے کا موقع ملا، مگر ہربار دوسروں کی مدد کے سہارے اور ان میں وہ شامل تھی، جو پوری طرح ان کے ہم خیال نہیں تھے اور ان کے ساتھ مل کر سرکار چلانے کے باوجود ایسے تمام مدعوں کو پس پشت ڈالنا مجبوری تھی، جن پر ان کا تعاون حاصل نہیں ہوسکتا تھا، لہٰذا اس ذہنیت کو درکار ہیںمزید0برس،تاکہ رام کے نام پر سیاست کو زندہ رکھ کر، رام مندر نہ بناکر، رام مندر کے نام پر سیاست کرسکیں، تاکہ ملک سے فرقہ پرستی مٹنے نہ پائی، ووٹوں کا بٹوارہ اسی بنیاد پر جاری رہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ یہ مسئلہ زندہ رہی۔ اگر وہاں مندر بھی بن گیا اور مسجد بھی بن گئی تو پھر اس فرقہ پرست سیاست کا مستقبل کیا ہوگا، لہٰذا ان کی اپنی ضروریات اور خواہشات کے پیش نظر سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کا جانا ضروری تھا اور ضروری ہی۔ ہم ہائی کورٹ کا فیصلہ قبول کرتے یا نہ کرتی، اس لئے کہ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئی، منصوبے انہی کے پورے ہوں گی۔ ان کے حق میں آیا تو باقی سب دل مسوس کر بیٹھ جائیں گی۔ صرف مسلمان ہی نہیں، خود کو سیکولر کہنے والے بھی اور فیصلہ اگر ان کے خلاف آیا تو پھر کس میں بوتا ہے کہ وہ اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنا دی۔ آخرحکومتوں کی بھی کچھ ذمہ داری ہوتی ہی، اگر ایسا نہیں ہوتا تو 24ستمبر، 28ستمبر اور پھر0ستمبر کیوں تاریخ پر تاریخ بدلتی۔ کیوں حکومت کو چپہ چپہ پر حفاظتی انتظامات کرنے کی ضرورت پڑتی۔ بار بار ہر سطح پر یہ اپیل جاری کی جاتی کہ امن و امان قائم رکھیں، فیصلہ جو بھی آئے سپریم کورٹ جانے کا راستہ سبھی کے لئے کھلا ہی۔ ذرا سوچئے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد کس طرح کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور کیا پھر اس وقت کسی بھی حکومت کے ذمہ داران کے پاس یہ کہنے کا موقع ہوسکتا ہے کہ امن و اتحاد قائم رکھیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اب آپ کے لئے فلاں دروازہ کھلا ہی، آپ وہاں جاکر اپنی بات کہہ سکتے ہیں، شاید اس وقت تک پوری طرح لبریز ہوچکا صبر کا پیمانہ چھلک جائی۔ اگر ایسا ہوا تو کون کیا پائے گا، کون کیا کھوئے گا، اسے سمجھنا بہت مشکل بھی نہیں ہی۔ مگر ہم سمجھیں تو…!اب بھی وقت ہے کہ ہم ان دو چھوٹے چھوٹے واقعات کو ذہن میں رکھیں، جن کو سامنے رکھ کر یہ مضمون لکھا گیا اور تہیہ کرلیں کہ اگر ہر روز ایسے درجنوں واقعات بھی سامنے ہیں،بھلے ہی وہ کسی سازش کا حصہ ہوں یا نہ ہوں، مگر ہم ان سے متاثر نہیں ہوں گی۔ ہم امن واتحاد کا دامن نہیں چھوڑیں گی، انہیں متعلقین کا ذاتی معاملہ مان کر بس ان تک ہی محدود رہنے دیں گی۔ پوری قوم کے ساتھ انہیں جوڑ کر چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان ملک کے حالات کو متاثر نہیں ہونے دیں گی۔
No comments:
Post a Comment