نریندرمودی اگر آج بھی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں تو اس کی وجہ ہے مرکزی حکومت میں مضبوط قوت ارادی کا نہ ہونا، ورنہ فروری002- کے فرقہ وارانہ فسادات میں گجرات کے چہرے پر بدنما داغ لگانے والا یہ شخص آج سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔ یہ بات اسی وقت متعدد ذمہ دارسیاستدانوں نے کہی تھی، جسے میں آج کے اپنے مضمون کے تسلسل میں اپنے قارئین کے سامنے رکھنے جارہا ہوں۔
نریندرمودی اگر آج بھی گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں تو اس کی وجہ ہمارے قانون کے اندر کچھ ایسے سوراخ بھی ہیں، جن سے ملنے والی آکسیجن ایسے لوگوں کو بھی زندگی بخشتی رہتی ہے، جن کی زندگی ملک اور قوم کے تئیں کسی ناسور سے کم نہیں ہوتی، ورنہ جس طرح 6دسمبر992کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد جن چار ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی سرکاریں تھیں، ان سبھی کو برخاست کردیا گیا تھا، اسی طرح نہ صرف یہ کہ نریندرمودی کو گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد برخاست کردیا جاتا، بلکہ پھر کبھی سیاست میں حصہ لینے کے لےے نااہل بھی قرار دے دیا جاتا۔ یہاں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاروں کو برخاست کردئے جانے کی نظیر اس لےے پیش کی گئی کہ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ملک کے سیکولرزم اور جمہوری نظام میں فرقہ پرستی کے لےے کوئی گنجائش نہیں ہے اور جس پارٹی کے عمل نے یہ ثابت کردیا کہ نہ تو اس کا جمہوریت پر یقین ہے اور نہ ہی وہ سیکولرزم پر گامزن ہے، اسی لےے ان ریاستی سرکاروں کو برخاست کردیا گیا، جہاں اس پارٹی کی سرکاریں تھیں، بھلے ہی وہ براہ راست بابری مسجد کی شہادت کے لےے ذمہ دار نہیں تھیں۔ آج ہمارے قانون داں حضرات کو اس سمت میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ 6دسمبر992کو ہوا، کیا اس کے 10 برس بعد گجرات میں نریندرمودی کی قیادت میں ہوئی مسلمانوں کی نسل کشی کتنا الگ معاملہ تھا۔
نریندرمودی آج بھی اگر گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں تو اس کی وجہ انتخابی نظام کی خامی و ووٹرس کا مکمل طور پر بیدار نہ ہونا وفرقہ پرستی و ذات پرستی کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں پھنس جانا بھی ہے۔
آج نریندرمودی سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کے معاملہ کو گجرات ریاست کے باہر لے جانے کی سی بی آئی کی کوششوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کیا گجرات ہندوستان کا حصہ نہیں ہے؟ گجرات کو ایک دشمن ملک کی طرح کیوں تصور کیا جارہا ہے؟‘ کاش کہ وہ اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھ لیتے تو انہیں اپنے ہر سوال کا جواب مل جاتا۔ ان کے دوراقتدار میں گجرات میں جو کچھ ہوا، اس پر ملک کے ذمہ داروں کی رائے کیا ہے اور کیا تھی، جب ہم آنے والی سطروں میں یہ بیان کریں گے تو وہ اچھی طرح سمجھ لیں گے کہ یہی وہ آئینہ ہے، جس میں ہم انہیں اپنا چہرہ دیکھنے کے لےے کہہ رہے ہیں۔ساتھ ہی ہم یہ بھی ذہن نشیں کرا دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس وقت کیوں خاموش رہے، جب سپریم کورٹ کے احکامات پر گودھرا سانحہ کی تحقیقات کو گجرات سے باہر منتقل کردیا گیا تھا۔آئےے اب بات کرتے ہیں سی بی آئی کے ذریعہ سہراب الدین انکاؤنٹر معاملہ کو گجرات کے باہر لے جانے کی کوشش کرنے پر نریندرمودی کے چراغ پا ہونے کی۔
!ابھی سی بی آئی کے ذریعہ کی گئی تفتیش پر مبنی وہ چارج شیٹ پوری طرح منظرعام پر آئی بھی نہیں ہے، جو نہ صرف نریندرمودی، ان کی سرکار، بلکہ سنگھ پریوار کے اس چہرے کو بے نقاب کرسکتی ہے، جس نے آزادی کے مسیحا مہاتماگاندھی کا قتل کرنے کے بعد ہی اپنی ذہنیت کو سامنے رکھ دیا تھا۔ ہمیں اندازہ ہے کہ یہ حقائق ایک عام ہندوستانی کے لےے ناقابل یقین ہوںگے کہ صرف امت شاہ ہی نہیں، صرف ونجارا ہی نہیں یا صرف وہ لوگ ہی نہیں، جن کے نام ابھی تک سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کے سلسلہ میں منظرعام پر آئے ہیں، بلکہ مکمل گجرات سرکار جس میں گلے گلے شامل نظر آسکتی ہے۔ غالباً نریندرمودی اسی لےے خوفزدہ ہیں کہ بات امت شاہ پر ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی ہرین پانڈیا کی طرح امت شاہ کی زبان خاموش ہوجانا مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے۔ دراصل نریندرمودی گجرات کے وزیراعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ وزیرداخلہ بھی خود ہی ہیں۔ امت شاہ تو ان کے ماتحت وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں دیکھتے رہے ہیں، وہ کابینہ درجہ کے وزیر نہیں تھے۔ویسے بھی ان کی شناخت مودی کے معتمد فرمانبردار اور حکم بجا لینے والے وزیر کی ہی رہی ہے اور جہاں تک سہراب الدین کو راستے سے ہٹانے کا معاملہ ہے تو یہ صرف ایک فرضی انکاؤنٹر ہی نہیں تھا۔ اس کے پس پردہ اور بہت کچھ تھا، پرتیں کھلنے دیجئے، کیا کیا چونکا دینے والے حقائق منظرعام پر آتے ہیں۔ مختصراً یہ سمجھیں کہ سہراب الدین کا فرضی انکاؤنٹر مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لےے، اسے مودی کا قاتل اور دہشت گرد ثابت کرنے کے لےے ہی نہیں نریندر مودی کا مہیمامنڈن (ثناخوانی) کرنے کے لےے، ان کے زیرسایہ چلنے والی تمام تر بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لےے ضروری ہوگیا تھا۔
o نہ جانے اب بھی مرکزی حکومت اتنی ہمت نہیں کرپارہی ہے کہ وہ واضح ثبوت ہونے پر گجرات سرکار کو برخاست کردے۔ نریندرمودی پر مقدمہ چلائے، تاکہ قانون کے مطابق انہیں سزا ملے۔ اگر اس معاملہ کو اتنا لمبا کھینچنے کی ضرورت صرف اس لےے محسوس کی جارہی ہے کہ جب تک الیکشن کا وقت نزدیک نہ آجائے، معاملہ کو طول دے کر ماحول سازی کی جاتی رہی تو یہ ایک مثبت سوچ نہیں ہے۔ اس سے اگر کانگریس کو یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ دیر تک ایسے معاملات کو موضوع بحث بنا کر عوام کی ذہن سازی کرے تو دوسری طرف فرقہ پرست طاقتوں کو بھی بچاؤ کے راستے نکالنے کے لےے موقع مل جاتا ہے اور بہرحال نریندرمودی چرب زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کام میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت کئی ایسی ذمہ دار شخصیتوں کے بیانات ہیں، جنہوں نے گجرات فسادات کے بعد ہی نریندرمودی کو برخاست کرنے کی بات کہی تھی، جو آج مرکزی حکومت میں وزیر ہیں یا پارلیمنٹ میں مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں۔ ہم نے جان بوجھ کر اس وقت مالیگاؤں تفتیش کے سلسلہ میں شہیدہیمنت کرکرے کے ذریعہ سامنے لائے گئے چہروں کا ذکر نہیں کیا اور ان کی اس کوشش کا ردعمل کیا ہوا، اس پر بحث نہیں کی، کیوں کہ اپنے اس قسطوار مضمون میں آئندہ ہم یہ واضح کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ عمل کے ردعمل کی یہ فلاسفی کس حد تک سنگھ پریوار کے پروردہ لوگوں کے دل و دماغ میں پیوست ہوگئی ہے اور وہ اس کے لےے کس حد تک جاسکتے ہیں۔
اب وہ بیانات جنہوں نے گجرات فسادات کے بعد ہی مودی کو برخاست کرنے کی بات کہی تھی:
پرنب مکھرجی (سینئر لیڈرکانگریسی)
ملک کی ایکتا اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری سرکار کی ہے، اگر وہ اسے نبھانے کے قابل نہیں تو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو بین الاقوامی سطح پر بھارت کی شبیہ ایک فسادی ملک کی شکل میں ابھرے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی،2مارچ002، صفحہـ، کالمـ)
کپل سبل(سینئر لیڈر کانگریسی)
نریندرمودی کو فوراً ان کی کرسی سے ہٹا کر فسادات کی جانچ سپریم کورٹ کے موجودہ جج سے کرانی چاہےے۔ گجرات کے ان واقعات سے ملک کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ وشوہندوپریشد اور بجرنگ دل، مجرموں، دہشت گردوں اور ٹھگوں اور غنڈوں کی جماعت ہے، جسے پچھلے تین برسوں سے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ ہر جگہ تناؤ اور تشدد پھیلا کر بی جے پی کی سیاست کو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں کیوں کہا جاتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو بڑھاوا دیتا تھا یا نازی ایک خاص فرقہ کا قتل عام کرتے تھے۔ اب تو ان کے بھائی ہمارے یہاں ہی موجود ہیں۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، جمعہ،مارچ002، صفحہـ، کالمـ)
ممتابنرجی (سابق مرکزی وزیر وصدرترن مول کانگریس)
گجرات میں جو بھی ہوا، وہ سنگین جرم ہے۔ ہمیں سبھی فرقوں کی عورتوں اور بچوں پر ہوئے مظالم کو دیکھ کر صدمہ پہنچا ہے۔ یہ کہتے ہوئے میرا سر شرم سے جھک رہا ہے کہ اب لیڈر لاشوں کے ڈھیر پر بھی کرسی کی سیاست کررہے ہیں۔ اگر اس قابل مذمت کام کو روکا نہیں گیا تو آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی،2مارچ002، صفحہـ)
ملائم سنگھ یادو(سابق وزیردفاع)
گجرات کے واقعات خوفناک ہیں۔ وہاں ساری گڑبڑیاں سرکار کے زیرنگرانی ہورہی ہیں، وہاں کچھ ایسا ہورہا ہے، جیسے روم جل رہا ہے اور نیروبانسری بجارہا ہو۔ گجرات کے واقعات کو گودھرا کا ردعمل کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا۔ گجرات کے واقعات ’’انسانیت کے قتل‘‘ جیسے ہیں اور ایک ریاست کے وزیراعلیٰ کو بچانے کے لےے ملک توڑنے کی سازش مناسب نہیں ہے۔ مودی سرکار فسادات کو روکنے کی بجائے انہیں بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، یکم مئی002، صفحہـ)
لالوپرسادیادو (صدرراشٹریہ جنتا دل)
گودھرا سانحہ کے پیچھے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سازش ہے۔ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کو ریاست کے عوام کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزام میں گرفتار کیا جانا چاہےے۔ شری واجپئی کروڑوں روپے کا پیکج دے کر مودی کا پاپ نہیں دھوسکتے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 3مئی002، صفحہـ)
جب تک مودی کو سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجا جائے گا، تب تک مہاتماجی کے گجرات میں شانتی نہیں ہوپائے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 15مئی002، صفحہـ)
امرسنگھ (جنرل سکریٹری سماجوادی پارٹی)
گجرات کا زخم مودی کے ہٹنے سے ہی بھرے گا۔ مودی ہندوتو کے ٹھیکیدار ہیں۔ آر ایس ایس کی تجربہ گاہ کے وہ ایک ایسے سائنسداں ہیں، جنہوں نے فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو پھیلانے والی لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 11مئی002، صفحہـ)
سیتا رام یچوری (سینئر لیڈر سی پی ایم ممبر پولٹ بیورو)
آزادی کے بعد بھارت کی تاریخ میں یہ پہلی بار سرکار اسپانسرڈ فسادات ہوئے ہیں۔ مرکزی سرکار نے آئین کی دفعہ 356-کے تحت کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ہے، اس لےے گجرات میں 356کے تحت صدرراج نافذ کیا جانا چاہےے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، ہفتہ،1مئی002، صفحہـ، کالمـ)
نریندرمودی اگر آج بھی گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں تو اس کی وجہ ہمارے قانون کے اندر کچھ ایسے سوراخ بھی ہیں، جن سے ملنے والی آکسیجن ایسے لوگوں کو بھی زندگی بخشتی رہتی ہے، جن کی زندگی ملک اور قوم کے تئیں کسی ناسور سے کم نہیں ہوتی، ورنہ جس طرح 6دسمبر992کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد جن چار ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی سرکاریں تھیں، ان سبھی کو برخاست کردیا گیا تھا، اسی طرح نہ صرف یہ کہ نریندرمودی کو گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد برخاست کردیا جاتا، بلکہ پھر کبھی سیاست میں حصہ لینے کے لےے نااہل بھی قرار دے دیا جاتا۔ یہاں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاروں کو برخاست کردئے جانے کی نظیر اس لےے پیش کی گئی کہ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ملک کے سیکولرزم اور جمہوری نظام میں فرقہ پرستی کے لےے کوئی گنجائش نہیں ہے اور جس پارٹی کے عمل نے یہ ثابت کردیا کہ نہ تو اس کا جمہوریت پر یقین ہے اور نہ ہی وہ سیکولرزم پر گامزن ہے، اسی لےے ان ریاستی سرکاروں کو برخاست کردیا گیا، جہاں اس پارٹی کی سرکاریں تھیں، بھلے ہی وہ براہ راست بابری مسجد کی شہادت کے لےے ذمہ دار نہیں تھیں۔ آج ہمارے قانون داں حضرات کو اس سمت میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ 6دسمبر992کو ہوا، کیا اس کے 10 برس بعد گجرات میں نریندرمودی کی قیادت میں ہوئی مسلمانوں کی نسل کشی کتنا الگ معاملہ تھا۔
نریندرمودی آج بھی اگر گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں تو اس کی وجہ انتخابی نظام کی خامی و ووٹرس کا مکمل طور پر بیدار نہ ہونا وفرقہ پرستی و ذات پرستی کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں پھنس جانا بھی ہے۔
آج نریندرمودی سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کے معاملہ کو گجرات ریاست کے باہر لے جانے کی سی بی آئی کی کوششوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کیا گجرات ہندوستان کا حصہ نہیں ہے؟ گجرات کو ایک دشمن ملک کی طرح کیوں تصور کیا جارہا ہے؟‘ کاش کہ وہ اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھ لیتے تو انہیں اپنے ہر سوال کا جواب مل جاتا۔ ان کے دوراقتدار میں گجرات میں جو کچھ ہوا، اس پر ملک کے ذمہ داروں کی رائے کیا ہے اور کیا تھی، جب ہم آنے والی سطروں میں یہ بیان کریں گے تو وہ اچھی طرح سمجھ لیں گے کہ یہی وہ آئینہ ہے، جس میں ہم انہیں اپنا چہرہ دیکھنے کے لےے کہہ رہے ہیں۔ساتھ ہی ہم یہ بھی ذہن نشیں کرا دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس وقت کیوں خاموش رہے، جب سپریم کورٹ کے احکامات پر گودھرا سانحہ کی تحقیقات کو گجرات سے باہر منتقل کردیا گیا تھا۔آئےے اب بات کرتے ہیں سی بی آئی کے ذریعہ سہراب الدین انکاؤنٹر معاملہ کو گجرات کے باہر لے جانے کی کوشش کرنے پر نریندرمودی کے چراغ پا ہونے کی۔
!ابھی سی بی آئی کے ذریعہ کی گئی تفتیش پر مبنی وہ چارج شیٹ پوری طرح منظرعام پر آئی بھی نہیں ہے، جو نہ صرف نریندرمودی، ان کی سرکار، بلکہ سنگھ پریوار کے اس چہرے کو بے نقاب کرسکتی ہے، جس نے آزادی کے مسیحا مہاتماگاندھی کا قتل کرنے کے بعد ہی اپنی ذہنیت کو سامنے رکھ دیا تھا۔ ہمیں اندازہ ہے کہ یہ حقائق ایک عام ہندوستانی کے لےے ناقابل یقین ہوںگے کہ صرف امت شاہ ہی نہیں، صرف ونجارا ہی نہیں یا صرف وہ لوگ ہی نہیں، جن کے نام ابھی تک سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کے سلسلہ میں منظرعام پر آئے ہیں، بلکہ مکمل گجرات سرکار جس میں گلے گلے شامل نظر آسکتی ہے۔ غالباً نریندرمودی اسی لےے خوفزدہ ہیں کہ بات امت شاہ پر ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی ہرین پانڈیا کی طرح امت شاہ کی زبان خاموش ہوجانا مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے۔ دراصل نریندرمودی گجرات کے وزیراعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ وزیرداخلہ بھی خود ہی ہیں۔ امت شاہ تو ان کے ماتحت وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں دیکھتے رہے ہیں، وہ کابینہ درجہ کے وزیر نہیں تھے۔ویسے بھی ان کی شناخت مودی کے معتمد فرمانبردار اور حکم بجا لینے والے وزیر کی ہی رہی ہے اور جہاں تک سہراب الدین کو راستے سے ہٹانے کا معاملہ ہے تو یہ صرف ایک فرضی انکاؤنٹر ہی نہیں تھا۔ اس کے پس پردہ اور بہت کچھ تھا، پرتیں کھلنے دیجئے، کیا کیا چونکا دینے والے حقائق منظرعام پر آتے ہیں۔ مختصراً یہ سمجھیں کہ سہراب الدین کا فرضی انکاؤنٹر مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لےے، اسے مودی کا قاتل اور دہشت گرد ثابت کرنے کے لےے ہی نہیں نریندر مودی کا مہیمامنڈن (ثناخوانی) کرنے کے لےے، ان کے زیرسایہ چلنے والی تمام تر بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لےے ضروری ہوگیا تھا۔
o نہ جانے اب بھی مرکزی حکومت اتنی ہمت نہیں کرپارہی ہے کہ وہ واضح ثبوت ہونے پر گجرات سرکار کو برخاست کردے۔ نریندرمودی پر مقدمہ چلائے، تاکہ قانون کے مطابق انہیں سزا ملے۔ اگر اس معاملہ کو اتنا لمبا کھینچنے کی ضرورت صرف اس لےے محسوس کی جارہی ہے کہ جب تک الیکشن کا وقت نزدیک نہ آجائے، معاملہ کو طول دے کر ماحول سازی کی جاتی رہی تو یہ ایک مثبت سوچ نہیں ہے۔ اس سے اگر کانگریس کو یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ دیر تک ایسے معاملات کو موضوع بحث بنا کر عوام کی ذہن سازی کرے تو دوسری طرف فرقہ پرست طاقتوں کو بھی بچاؤ کے راستے نکالنے کے لےے موقع مل جاتا ہے اور بہرحال نریندرمودی چرب زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کام میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت کئی ایسی ذمہ دار شخصیتوں کے بیانات ہیں، جنہوں نے گجرات فسادات کے بعد ہی نریندرمودی کو برخاست کرنے کی بات کہی تھی، جو آج مرکزی حکومت میں وزیر ہیں یا پارلیمنٹ میں مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں۔ ہم نے جان بوجھ کر اس وقت مالیگاؤں تفتیش کے سلسلہ میں شہیدہیمنت کرکرے کے ذریعہ سامنے لائے گئے چہروں کا ذکر نہیں کیا اور ان کی اس کوشش کا ردعمل کیا ہوا، اس پر بحث نہیں کی، کیوں کہ اپنے اس قسطوار مضمون میں آئندہ ہم یہ واضح کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ عمل کے ردعمل کی یہ فلاسفی کس حد تک سنگھ پریوار کے پروردہ لوگوں کے دل و دماغ میں پیوست ہوگئی ہے اور وہ اس کے لےے کس حد تک جاسکتے ہیں۔
اب وہ بیانات جنہوں نے گجرات فسادات کے بعد ہی مودی کو برخاست کرنے کی بات کہی تھی:
پرنب مکھرجی (سینئر لیڈرکانگریسی)
ملک کی ایکتا اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری سرکار کی ہے، اگر وہ اسے نبھانے کے قابل نہیں تو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو بین الاقوامی سطح پر بھارت کی شبیہ ایک فسادی ملک کی شکل میں ابھرے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی،2مارچ002، صفحہـ، کالمـ)
کپل سبل(سینئر لیڈر کانگریسی)
نریندرمودی کو فوراً ان کی کرسی سے ہٹا کر فسادات کی جانچ سپریم کورٹ کے موجودہ جج سے کرانی چاہےے۔ گجرات کے ان واقعات سے ملک کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ وشوہندوپریشد اور بجرنگ دل، مجرموں، دہشت گردوں اور ٹھگوں اور غنڈوں کی جماعت ہے، جسے پچھلے تین برسوں سے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ ہر جگہ تناؤ اور تشدد پھیلا کر بی جے پی کی سیاست کو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں کیوں کہا جاتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو بڑھاوا دیتا تھا یا نازی ایک خاص فرقہ کا قتل عام کرتے تھے۔ اب تو ان کے بھائی ہمارے یہاں ہی موجود ہیں۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، جمعہ،مارچ002، صفحہـ، کالمـ)
ممتابنرجی (سابق مرکزی وزیر وصدرترن مول کانگریس)
گجرات میں جو بھی ہوا، وہ سنگین جرم ہے۔ ہمیں سبھی فرقوں کی عورتوں اور بچوں پر ہوئے مظالم کو دیکھ کر صدمہ پہنچا ہے۔ یہ کہتے ہوئے میرا سر شرم سے جھک رہا ہے کہ اب لیڈر لاشوں کے ڈھیر پر بھی کرسی کی سیاست کررہے ہیں۔ اگر اس قابل مذمت کام کو روکا نہیں گیا تو آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی،2مارچ002، صفحہـ)
ملائم سنگھ یادو(سابق وزیردفاع)
گجرات کے واقعات خوفناک ہیں۔ وہاں ساری گڑبڑیاں سرکار کے زیرنگرانی ہورہی ہیں، وہاں کچھ ایسا ہورہا ہے، جیسے روم جل رہا ہے اور نیروبانسری بجارہا ہو۔ گجرات کے واقعات کو گودھرا کا ردعمل کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا۔ گجرات کے واقعات ’’انسانیت کے قتل‘‘ جیسے ہیں اور ایک ریاست کے وزیراعلیٰ کو بچانے کے لےے ملک توڑنے کی سازش مناسب نہیں ہے۔ مودی سرکار فسادات کو روکنے کی بجائے انہیں بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، یکم مئی002، صفحہـ)
لالوپرسادیادو (صدرراشٹریہ جنتا دل)
گودھرا سانحہ کے پیچھے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سازش ہے۔ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کو ریاست کے عوام کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزام میں گرفتار کیا جانا چاہےے۔ شری واجپئی کروڑوں روپے کا پیکج دے کر مودی کا پاپ نہیں دھوسکتے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 3مئی002، صفحہـ)
جب تک مودی کو سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجا جائے گا، تب تک مہاتماجی کے گجرات میں شانتی نہیں ہوپائے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 15مئی002، صفحہـ)
امرسنگھ (جنرل سکریٹری سماجوادی پارٹی)
گجرات کا زخم مودی کے ہٹنے سے ہی بھرے گا۔ مودی ہندوتو کے ٹھیکیدار ہیں۔ آر ایس ایس کی تجربہ گاہ کے وہ ایک ایسے سائنسداں ہیں، جنہوں نے فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو پھیلانے والی لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 11مئی002، صفحہـ)
سیتا رام یچوری (سینئر لیڈر سی پی ایم ممبر پولٹ بیورو)
آزادی کے بعد بھارت کی تاریخ میں یہ پہلی بار سرکار اسپانسرڈ فسادات ہوئے ہیں۔ مرکزی سرکار نے آئین کی دفعہ 356-کے تحت کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ہے، اس لےے گجرات میں 356کے تحت صدرراج نافذ کیا جانا چاہےے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، ہفتہ،1مئی002، صفحہـ، کالمـ)
2 comments:
espected Sir
Assalamualikum.... I hope u r fine... I am Ashfaque Ahmed From Bhatkal. Now in Dubai. apka har ek mazmoon apki har baat apki har ek awaz se ek hi baat samajh men ati he ke aap kitini saaf dil se kehte hain har baat ko.. Allha apko aur taraqqi de. bas ek guzarish thi. aap apni web site pe thoda bade alfaz men likhe karen take padhne men asani ho.. kehne ki galti kar baitha to mafi chata hoon
Post a Comment