Wednesday, August 11, 2010

لندن میں جشن آزادی کانفرنس

عزیز برنی

ورلڈ اسلامک فورم لندن کی جانب سے منعقد یوم آزادیِ ہند کی تقریبات کے سلسلے میں 8اگست کی شام 6 بجے 56 Big land street, E1 2ND London یعنی دار العلماء میں ایک اہم کانفرنس منعقد کی گئی ، جس کی صدارت فورم کے چیئرمین عالی جناب مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کی۔ دیگر اہم مقررین میں مفتی محفوظ الرحمٰن عثمانی بانی و مہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ، مدھوبنی ضلع سپول بہار (انڈیا) اور لندن میں روزنامہ جنگ کے سابق ایڈیٹر ظہور نیازی تشریف فرما تھے۔ راقم الحروف نے اس کانفرنس میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ۔ موضوع تھا’’ ہندوستان کی آزادی کے 62 برس کیا کھویا کیا پایا‘‘۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا لندن میں مسلم یکجہتی کی تصویر میرے سامنے اس کانفرنس کے شرکا میں آزادی سے قبل کے ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے ایک ساتھ موجود تھے۔جی ہاں ! ہندوستانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی، تینوں ممالک کے مسلمان اس وقت دارالعلماء کے اس خوبصورت ہا ل میں تشریف فرما تھے، جب میں ان کے درمیان گزشتہ 62 برس کے حالات پر اظہار خیال کر رہا تھا۔ظاہر ہے یہ درد تو سینے میں تھا ہی کہ کبھی ہم سب جو ایک ملک تھے، ایک قوم تھے ،آج سیاست کی چال بازیوں اور اقتدار کی تمنا نے ہمیں الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ دینے کے لئے وہ ملک اور وہ قوم سب سے زیادہ ذمہ دار ہے جس کی حکمت عملی ہی یہ ہے کہ پھوٹ ڈالو اور راج کرو۔ مجھے اس سے انکار نہیں تاہم ، یہ کہنا ہوگا کہ عجب اتفاق ہے یہ کہ جن کی حکمت عملی، جن کی پالیسی ہی یہ ہے کہ پھوٹ ڈالو اور راج کرو انھوں نے ہمارے ملک کو تو الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، مگر اپنے ملک میں ہمیں متحد کر دیا۔یعنی لندن ہی نہیں اگر انگلینڈ کے مختلف علاقوں میں مسلم کالونیوں کا ذکر کریں تو یہ فرق کرنا مشکل ہوگا کہ کہاں ہندوستانی ہیں، کہاں پاکستانی اور کہاں بنگلہ دیشی ۔ یہاں سب ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔لندن میں ایک جگہ کا نام ہے ’’وہائٹ چیپل‘‘تقریباً ایک لاکھ مسلمان یہاں رہتے ہیں، جن میں اکثریت بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمانوں کی ہے لیکن ہندوستانی مسلمان بھی خاصی تعداد میں یہاں مقیم ہیں ۔اس علاقے سے گزرنے پر آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ انگلینڈ میں نہیں بلکہ کسی مسلم علاقے میں چہل قدمی کر رہے ہیں ۔ دکانوں پر سائن بورڈ انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی ۔بڑی تعداد میں اسلامی لباس یعنی داڑھی ٹوپی، کرتا، پائجامہ، شیروانی اور برقع پوش خواتین۔ اتنا تو ہمیں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں بھی دیکھنے کو کم ہی ملتا ہے ۔اگر ہم پرانی دہلی اور جمنا پار کے کچھ علاقوں کی بات چھوڑ دیں تو ۔
میں نے اس سلسلے میں جس موضوع پر گفتگو کی آئندہ چند سطروں میں میں اس کا ذکرکروں گا، لیکن جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا یا جو بات سب سے زیادہ قابل توجہ تھی ،اس کا تذکرہ سب سے پہلے ۔
آج اسلام اور مسلمانوں کی تشہیر ساری دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔ 9/11 کے بعد تو میڈیا نے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی یہی شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ۔ انگلینڈ دہشت گردی کی وبا سے محفوظ ملک ہے، جبکہ انگلینڈ میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی مسلمان اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں،جن کا ذکر میں نے اپنے مضمون کی ابتدائی سطروں میں کیا ہے۔ برٹش پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والوں میں بھی ان کے نام شامل ہیں۔ میں ایک الگ مضمون میں یہ تفصیل پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ آبادی کے تناسب سے برٹش پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح کیا ہے اور ہندوستان میں کیا ہے؟ فی الحال میں ذکر کر رہا تھا مسلمان اور دہشت گردی کے حوالے سے ۔ میں نے دیکھا جس طرح بے خوف زندگی اور اسلامی شناخت کے ساتھ یہاں کے مسلمان جی رہے ہیں ۔اتنا مجھے بھٹکل ، دیو بند ،اعظم گڑھ یا بٹلہ ہائوس جیسے علاقوں میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہندوستان کے شاپنگ مالس میں تو سبھی ہندوستانیوں کو سیکورٹی جانچ سے گزرنا ہوتا ہے، لیکن انگلینڈ میں وہائٹ چیپل علاقے کے ایک شاپنگ مال میں بھی جانے کا اتفاق ہوا اور لندن کے سب سے بڑے شاپنگ مال ویسٹ فیلڈ میں بھی ۔کہیں کوئی سیکورٹی چیک نہیں ۔کیا یہ تمام باتیں ہمیں کچھ سیکھنے کے لئے مجبور نہیں کرتیں؟ آخر کس طرح ایسے ممالک نے اپنے عوام کے لئے بے خوف زندگی اور آسانیاں فراہم کی ہیں ؟کیا ہم ان کی زبان اور لباس کی نقل کے ساتھ ساتھ ان کی انتظامی صلاحیت سے ان کے جمہوری طریقوں سے بھی کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ یہ سوچنے کی ضرورت ہے ۔بے شک کہ ہماری جمہوریت پوری دنیا میں ایک الگ مقام رکھتی ہے ،مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہب اور ذات کے تنازعات اکثر و بیشتر ہماری جمہوریت پر حاوی ہونے لگتے ہیں ۔
اب ذکر اجلاس کے موضوع کے تحت کی گئی تقریر کا ۔تو بے شک لندن کے سامعین کے سامنے میری یہ باتیں نئی ہو سکتی ہیں، مگر اپنے ملک میں گزشتہ چند برسوں میں کشمیر سے کنیا کماری تک ایک کروڑ سے کہیں زیادہ لوگوں کے درمیان خود پہنچ کر میں یہ بات کہتا رہا ہوں کہ ہندوستان کا بٹوارہ دو قومی نظریہ کے تحت نہیں تھا ۔یہ ایک جھوٹا پروپیگنڈہ ہے ، یہ ایک گہری سازش ہے اور آزادی کے بعد کے 62 برسوں میں ہمیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی بنیاد اسی بٹوارے کی سیاست میں ہے۔ بات صرف اتنی بھی نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ اقتدار کے خواہشمند سیاست دانوں نے بٹوارے کی راہیں ہموار کیں ۔سچ یہ بھی ہے مگر اس سے بھی بڑا سچ ہے متعصب ذہنیت۔ وہی متعصب ذہنیت جس نے 1947 میں ہندوستان کے بٹوارے کی بنیاد رکھی ۔اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت یعنی پورے ملک میں فرقہ پرستی کا عالم ، مذہبی فسادات ،بشمول گجرات اور پھر اسی ذہنیت نے استعمال کیا دہشت گردی کا حربہ ۔یعنی مسلمان دہشت گرد ہیں،ڈھول پیٹا جائے ۔میں نے لندن کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے اسی بات کو قابل توجہ اس لئے قرار دیا کہ اگر مسلمان خاص طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے دہشت گرد ہیں ،یا ان سے دہشت گردی کا خطرہ ہے تو انگلینڈ اپنے ملک میں انھیں اس تعداد میں رہنے کی اجازت کیوں دے رہا ہے ؟ اور اگر ان ممالک کے باشندے انگلینڈ میں رہ کر دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن جب وہ پاکستان یاہندوستان میں ہوتے ہیں تو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث نظر آتے ہیں ۔تو ایسا کیوں ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم نے حقائق کی تہہ تک جانے کی کوشش ہی نہیں کی،جو ایک پروپیگنڈہ شروع کیا گیا ہم نے اسی پر بھروسہ کر لیا ۔ خود غرض فرقہ پرستی کی ذہنیت کے سیاست داں انتظامیہ اور میڈیا نے یہی تاثر پیش کیا کہ مسلمان دہشت گرد ہےں اور یہ مسئلہ مسلمانوںکے لئے اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ آج وہ ہر پل اسی دفاع میں ملوث نظر آتا ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے،اسلام امن کا پیغام دیتا ہے ۔ آج تعلیم اور ملازمت کی فکر بھی کہیں پیچھے چھوٹ گئی۔ سب سے بڑا سوال یہ بن گیا ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے …اور جو دہشت گرد ہیں ، کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ مسلمانو میں کوئی دہشت گرد نہیں ، ہر مذہب اور ہر قوم میں دہشت گرد ہو سکتے ہیں ،مگر اس وقت ہم بات ان لوگوں کی کر رہے ہیں ،جو دہشت گردی کے الزام میں پکڑے جا رہے ہیں، وہ ہندو ہیں اور جو دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے تھے لیکن آج بے گناہ ثابت ہو کر با عزت بری ہو رہے ہیں،وہ مسلمان ہیں۔
موجودہ مرکزی حکومت مسلمانون کے حقوق کے معاملے میں ابھی بھی پوری نہیں اتری ہے اور اس طرف گامزن بھی نظر نہیں آتی ۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق جو حقائق سامنے آئے ہیں ،ان کی روشنی میں حکومت کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ،ابھی یہ صیغۂ راز میں ہے ۔بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ کب آئے گااور وہ انصاف کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کر پائے گا، وہ بھی آنے والا وقت ہی بتائے گا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ بے شک اقلیتی ادارے ہیں،مگر حکومت کے لئے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں تاخیر کیوں ہے اس کا جواب بھی ہمارے ایچ آر ڈی منسٹر کپل سبل کے پاس ہی ہوگا۔ مسلمانوں کے ریزرویشن کے سوال پر بھی ابھی تک حکومت خاموش ہے،کیوں ؟ ایک روز اس سوال کا جواب بھی دینا ہی ہوگا۔
لندن جانے سے قبل اقلیتی امور کے وزیر محترم سلمان خورشید سے تفصیلی ملاقات ہوئی ۔گھنٹے بھر سے زیادہ چلی اس ملاقات میں انھوں نے ایسے تمام موضوعات پر مثبت رویے کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی ہر معاملے میں کچھ ہوگا۔ مردم شماری کے معاملے میں بھی انھوں نے سیکنڈ فیس میں مذہب اور زبان کا کالم ہونے کی یقین دہانی کرائی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کیا کیا کب کب ہوتا ہے ؟مگر ایک بات کے لئے ضرور موجودہ حکومت کو حق پسند قرار دیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ اس نے دہشت گردوں کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھنا شروع کیا ہے ۔ کوئی مذہبی یا تعصبی چشمہ اس کی آنکھوں پر نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات کے سابق وزیر داخلہ برائے مملکت امت شاہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے ہیں اور نریندر مودی کے چہرے سے بھی مسکراہٹ غائب ہو چکی ہے ۔بے شک وہ اپنی ریاست میں عوام کو مخاطب کرتے وقت دلیری کا مظاہرہ کریں مگر ان کی آواز اب کس قدر کمزور ہے اس کا اندازہ تو اب ان کے اپنے کانوں کو بھی ہوتا ہوگا۔ شہید ہیمنت کرکرے نے جو راہ دکھائی تھی ،اے ٹی ایس ایک حد تک اس پر گامزن نظر آنے لگی ہے۔ سادھوی پرگیہ سنگھ ،دیانند پانڈے اور پروہت جیسے لوگ جو چین کی سانس لینے لگے تھے ، اب پھر سے فکر مند نظر آنے لگے ہیں… اور بات بس اتنی ہی نہیں ہے بلکہ پورے ملک نے یہ دیکھ لیا ہے کہ فرقہ پرستی اور سیاست کا گٹھ جوڑ ملک کو کس سمت میں لے جا رہا ہے اور یہ ملک اور قوم کے لئے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے ۔
یہ تقریر خاصی طویل تھی ایک مختصر مضمون میں تمام نکات پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی ۔محترم مولانا عیسیٰ منصوری اور مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب کی عالمانہ تقاریر کی تفصیلات بھی اس وقت پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔انشا ء اللہ عالمی سہارا کے کسی خصوصی شمارے میں ہندوستان کے یوم آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں لندن میں منعقد اس کانفرنس کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ اس وقت اس مضمون کو یہیں ختم کرنا ہوگا، اس لئے کہ کل سے رمضان المبارک کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ظاہر ہے کہ اس درمیان نہ تو ہمارے قارئین کے پاس اتنی مہلت ہوگی کہ اخبار بینی کے لئے زیادہ وقت نکال سکیں اور نہ ہی راقم الحروف کے لئے یہ موقع کہ وہ ہر روز ایک مکمل صفحہ کا مضمون قلم بند کر سکے ۔لہٰذا عید تک اس سلسلے کو ملتوی کرنا ہوگا۔ ہاں مگر اس درمیان اگر کچھ انتہائی اہم واقعات سامنے آتے ہیں تو مختصراً ان پر تبصرہ جاری رہے گا۔
لیکن مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے نکسلائٹس کے تئیں جو رویہ اپنایا اسے دیکھنے کے بعد بھی اگر مسلم سیاست داں یا مسلمانوں کے ووٹ پر سیاست کرنے والے لیڈران ،کشمیر کے حالات پر توجہ نہ دیں تو اسے انتہائی افسوس ناک کہا جائے گا۔ اب بات کرتے ہیں ، بہار کی۔تو قوی امکان ہے کہ نومبر کا مہینہ بہار میں ریاستی انتخابات کا مہینہ ہوگا۔ آدھا اگست اور آدھا ستمبر رمضان میں نکل جائے گا۔ لہٰذا اس دوران بہار کی سیاست پر گفتگو کرنے کا زیادہ موقع نہیں ہوگا۔تاہم ایک تجویز میں بہار میں اپنے قارئین اور سیاست دانوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔یہ تو طے ہے کہ ملک اور قوم کا بھلا اسی میں ہے کہ پارٹی کوئی بھی ہو بر سر اقتدار آنے کا موقع انھیں ملے جو پوری ایمانداری کے ساتھ سیکولر ہوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں یقین رکھتے ہوں ۔اب اگر خالص سیاسی انداز میں بات کی جائے تو مسلمان، دلت اور یادو یہ تین ووٹ متحد ہو کر سوشل انجینئرنگ کے فارمولے کو عمل میں لائیں ۔یعنی سب کو ساتھ لے کر چلیں، بھلے ہی امیدوار کی شکل میں ، تو بر سر اقتدار آسکتے ہیں ۔بہار میں مسلمان ووٹ کس کو سامنے رکھ کر متحد کیا جاسکتا ہے ،اس پر غور کیا جائے ۔ یادوئوں میں کون اس اتحاد میں بہتر نمائندگی کر سکتا ہے ،یہ فیصلہ کر لیا جائے ۔دلتوں میں بہر حال رام ولاس پاسوان کا نام ہی سر فہرست نظر آتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا شرد یادو اور نتیش کمار پوری ایمانداری کے ساتھ پوری طرح بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق ختم کر سکتے ہیں ۔یا لالو پرساد یادو اور رام ولاس پاسوان سیٹوں کے بٹوارے کو خوش ا سلوبی سے نمٹا کر مسلمانوں کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں ۔ یا پھر نئے سرے سے مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش میں لگے ملائم سنگھ یادو رام ولاس پاسوان کے ساتھ مل کر بہار کے لئے ایک نیا فارمولہ سامنے رکھ سکتے ہیں ۔وہ بہار میں کسی بھی سیکولر اتحاد کے لئے کارگر ثابت ہو سکتا ہے ،جہاں تک کانگریس کا سوال ہے تو ان کے مسلم ریاستی صدر پارٹی کو اس پوزیشن میں لے آئیں گے کہ وہ حکومت بنا لے ،ابھی قیاس سے دور کی بات ہے ۔سرکار بنانے کا ارادہ رکھنے والوں کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ان کی امیدواری پر توجہ دی جائے، مسلمان، دلت اور یادو تین پرکشش ایماندار بھروسے مند چہرے ہوں ،تو بہار کو ایک پائیدار ،سیکولر اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والی سرکار مل سکتی ہے ۔پہل مسلمان کریں ،نیتائوں کا انٹر ویو لینا شروع کریں ، انھیں بتائیں کہ جس طرح آپ امیدواروں کا انٹرویو لیتے ہیں ،چونکہ انھیں آپ اپنا نمائندہ چننے کا ارادہ رکھتے ہیں،اس لئے اب آپ کو بھی اس انٹر ویو کے دور سے گزرنا ہوگا،کیونکہ ہم آپ کو اپنا نمائندہ چننے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔دیکھیں ان کا ٹریک ریکارڈ ، طلب کریں، ان سے بر سر اقتدار آنے کے بعد آپ کے لحاظ سے ان کے منصوبے کیا ہیں ۔کون آپ کو کتنی نمائندگی دینے کے لئے تیار ہے ۔ اہم قلم دانوں میں سے کون کون سا آپ کے پاس رہے گا۔ کم از کم ایک با اثر ڈپٹی چیف منسٹر سے کم تو بات نہ ہو۔وزیر اعلیٰ کا عہدہ ابھی دور کی بات ہے مگر رام ولاس پاسوان اس پر بخوشی تیار ہو سکتے ہیں ۔اگر وہ بہار کے چیف منسٹر ہوں تو ایک مسلمان اور ایک یادو دو ڈپٹی چیف منسٹر ہوں ، لالو پرساد یادو تو اس پیشکش کو تسلیم نہیں کریں گے،مگر ملائم سنگھ یادو کے لئے ہاتھ آگے بڑھانا کچھ مشکل نہیں ہوگا۔ ہاں پھر سوا ل یہ پیدا ہوگا کہ مسلمانوں کو متحد کرنے کی ذمہ داری کون قبول کرے؟ آخر بہار میں قد آور مسلمانوں کی کیا کمی ہے ؟ طارق انور کا نام سب پر بھاری اور بہار کے عوام کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار کی چاہ رکھنے والے سیاست دانوں کو بھی یہ فارمولہ سوٹ کرتا ہے یا نہیں۔
…………

No comments: