کشمیر اس سے پہلے بھی فوج کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ کیا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوا؟ 1953 اور990میں ہم کشمیر کو فوج کے حوالے کرکے دیکھ چکے ہیں۔ کیا فوج ہی مسئلہ کشمیر کا واحد حل نظر آتا ہے۔ اگرہاں، تو وہ تمام علاقہ جو نکسلیوں کی زد میں ہے، کیا وہاں بھی فوج کو تعینات نہیں کیا جانا چاہےے ؟ ایسے تمام سوالات پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگاہمیں بھی اورہماری حکومت کو بھی۔
کشمیر کی تاریخ سے، جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح کشمیریوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔ کیا کبھی بھی طاقت کا استعمال کارگرثابت ہوسکا ہے؟ 1931میں مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیاتھا۔ بیشمار جانیں گئیں، مگر نتیجہ کیا حاصل ہوا، انہیں خود کشمیر چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور جموں میں پناہ لینے کے لےے مجبور ہوئے۔ ملک کا بٹوارہ تو مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا، پھر کیوں مسلم اکثریت والی ریاست ہونے کے باوجود کشمیر کے ذمہ داروں نے پاکستان کی بجائے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا؟ صرف اسی لےے نا کہ قبائلیوں کا حملہ انہیں برداشت نہیں تھا اور اس حملہ کے پیچھے انہیں پاکستان کی شہ نظر آتی تھی۔ نتیجہ پاکستان سے ناراضگی اور پاکستان کے مقابلہ ہندوستان کو ترجیح دیا جانا۔ کیا یہ واقعات ہمیں نہیں سمجھاتے ہیں کہ زورزبردستی اور تشدد کا راستہ کشمیریوں کا ذہن نہیں بدل سکتا۔ کشمیر نے اس لےے ہمارا دامن تھاما، کیوں کہ اسے ہم پراعتماد تھا، ہماری محنت پر بھروسہ تھا، ہماری سیکولر قدروں پر یقین تھا، وہ ہماری مدد چاہتا تھا اپنے تحفظ کے لےے، کیوں کہ وہ تنہا ان مخالف حالات کا مقابلہ کرنے کا خود کو اہل نہیں پارہا تھا، وہ قبائلیوں کے حملہ سے پریشان تھا اور پاکستان کو اس لےے ذمہ دار مانتا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 1947میں ہی انہوں نے ایک خودمختار ریاست ہونے کا اعلان کردیا ہوتا۔ انہیں اچھی طرح احساس تھا، اپنی جغرافیائی/اسٹرٹیجک پوزیشن کا اور وہ سمجھتے تھے کہ بڑے اور طاقتور ملک ان کی اس انفرادی حیثیت کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں ان کے لےے پریشانیاں کھڑی کرسکتے ہیں۔ ایسی تمام متوقع پریشانیوں سے بچنے کے لےے انہوں نے ہندوستان کے ساتھ اپنے الحاق میں ہی کشمیر کی عافیت محسوس کی تھی۔ کشمیر اگر اسی طرح، جس طرح باقی ریاستیں ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہوئی تھیں، شمولیت کا فیصلہ کرتا تو یہ فیصلہ اسی وقت ہوگیا ہوتا۔ ہندوستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ان کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی کشمیر کے معاملہ کو دیگر تمام ریاستوں کے معاملہ سے کچھ الگ ہٹ کر نہ دیکھا ہوتا تو شیخ محمد عبداللہ بھی جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ کہلائے جاتے، وزیراعظم نہیں اور آرٹیکل70-کا نفاذ عمل میں نہ آیا ہوتا۔
کیا آج ہم نے یہ مان لیا ہے کہ تمام کشمیری علیحدگی پسند ہےں؟ کیا کشمیریوں کی زبان پر آزادی کے مطالبہ کے صرف ایک ہی معنی ہیںکہ وہ سب علیحدگی چاہتے ہیں؟ جس طرح کے حالات سے وہ گزر رہے ہیں، جس طرح انہیں اپنا گھر اور ریاست ایک قیدخانہ نظر آنے لگی ہے، کیا ان حالات سے نجات پانا ان کے لےے آزادی نہیں ہے۔ کیا امن و سکون کی زندگی اور ان حالات سے نجات ان کا حق نہیں ہے۔ آزادی کے معنی ہم ایک شہری کی حیثیت سے آزادی کے معنوں میں کیوں نہیں سمجھتے اور اگر ہم یہی مانتے ہیں کہ کشمیر میں سب کے سب علیحدگی پسند ہیں تو پھر جمہوری نظام میں حصہ لینے والے عمرعبداللہ کی پارٹی کی حمایت میں یا مخالفت میں ووٹ دینے والے کشمیری کون تھے۔ کیا وہ الیکشن کشمیرکے جمہوری عمل کا ایک حصہ نہیں تھا؟ کیا اس میں ان کی شرکت اس بات کی علامت نہیں تھی کہ وہ علیحدگی پسندنہیں، جمہوریت پسند ہیں۔ اور اگر کچھ دیر کے لےے ہم یہ مان بھی لیں کہ وہ سب کے سب علیحدگی پسند ہیں تو پھر کیا طاقت کے زور پر ہمیشہ انہیں اپنے ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ ہمیں کسی اور سمت میں سوچنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ان تمام سوالوں پر آج غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا ہمیں نہیں لگتا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کررہے ہیں، جو باقی ہندوستانیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ 5جولائی کو بھارت بند کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان سارے ہندوستان کے لےے تھا۔ ملک گیر پیمانہ پر مظاہرے ہوئے۔ عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ سڑکیں جام کردی گئیں، ریلیں روک دی گئیں، یہاں تک کہ ہوائی سفر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔صرف ممبئی ہوائی اڈہ پر اترنے اور پرواز کرنے والی 79اڑانیں اس روز رد کی گئیں۔ بیشتر مقامات پر مظاہرین اور پولس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ کوئی موت نہیں، صرف چند لوگ زخمی اور کہیں بھی پولس کو گولی چلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اب نظر اٹھا کر دیکھیں کشمیر میں مظاہرہ کرنے والوں سے کےے جانے والے سلوک پر۔
13اپریل کو سی آر پی ایف کے جوان جب سوپور میں مظاہرین کو منتشر کررہے تھے تو انہوں نے 17سالہ زبیراحمد بھٹ کو ندی میں کودنے کے لئے مجبور کیا اور تب تک اس پر پتھر برساتے رہے جب تک وہ ڈوب نہیں گیا۔پولس نے ڈوبنے کا معاملہ بتاکر کیس کو بند کردیا۔ اس دوران صرف 17دنوں میں1لوگوں کی موت ہوئی تھی، اس کے بعد1جون کو راجوری کدل علاقے میں پولس کا آنسو گیس گولا 17سالہ طفیل احمد مٹو کے سرپر لگا اور اس کی موت ہوگئی۔ پولس نے پہلے کہا کہ اس دن انہوں نے اس علاقے میں نہ تو گولی چلائی اور نہ ہی آنسو گیس کا گولا چھوڑا تھا۔ تاہم طفیل کی پوسٹ مارٹم رپوررٹ نے پختہ کردیا کہ اس کی موت آنسو گیس کے گولے سے ہی ہوئی تھی، جس نے اس کے دماغ او رکھوپڑی کو نقصان پہنچایا تھا۔ پولس نے معاملے کی جانچ کا حکم دیاتھا، لیکن رپورٹ ابھی منظرعام پر نہیں آئی ہے۔ طفیل کے والد محمد اشرف کا الزام ہے کہ حکومت ملزم کی شناخت کے باوجود اسے گرفتار نہیں کررہی ہے۔
طفیل کی موت کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے سیکڑوں کی تعداد میں لوگ پرانے شہر کی سڑکوں پر آئے۔مظاہرین کو منتشر کرتے وقت سی آر پی ایف نے ایک راہ گیر4سال کے محمد رفیق بنگرو کو پکڑ لیا اور بری طرح پٹائی کی ۔ایک ہفتے تک زندگی کے لئے جدوجہد کرنے کے بعد بنگرو نے ایس کے آئی ایم ایس میں آخری سانس لی ۔بنگرو کی آخری رسومات ادا کرنے کے دن0جون کو سی آر پی ایف نے مظاہرین پر بے تحاشہ گولیاں چلائیں اورمظاہرین کے بارے میں کہا گیاکہ ان نے نور باغ میں ایک بنکر پر حملہ کیا ہے۔ اس واردات میں بنگرو کے رشتہ دار جاوید احمد مالا کی گولی لگنے سے موقع پر ہی موت ہوگئی۔ جاویدمالا کی موت کے بعد پورے شہر میںپرتشدد مظاہرے ہوئے جس کے بعد حکام نے چاردن کے لئے کرفیو لگا دیا۔
25جون کو سوپور میں مارے گئے دو انتہا پسندوں کی نعش کا مطالبہ کررہے مظاہرین پر سی آر پی ایف نے گولی چلائی اور اس میں4سالہ شکیل احمد غنی اور 20سال کے فردوس احمد ککرو(akroo) مارے گئے۔
اس کے بعد سوپور اور اس کے قرب وجوار کے علاقے میں کرفیو نافذ کردیاگیا، تاہم 27جون کو مظاہرین کے ایک چھوٹے گروپ نے کرفیو کی خلاف ورزی کی اور نیم فوجی دستے کے جوانوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ سی آر پی ایف نے مظاہرین پر گولی چلائی جس میںسوپور کے کرال ٹینگ (ralteing) علاقے کے 30سالہ نوجوان بلال احمد وانی کی موت ہوگئی۔ بلال کی موت پر اپنے احتجاج کو درج کرتے ہوئے وزیر قانون اور نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر علی محمد ساگر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران الزام لگایا کہ سی آر پی ایف وزیر اعلیٰ کے احکامات ماننے سے انکار کررہی ہے اور شہریوں کو قتل کررہی ہے۔ ساگر نے گولی باری کو بے جوازقرار دیا تھا۔
29 جون کو ایک 9سال کے بچے کا قتل ہوا۔9جون کی دوپہر میں ڈیلینہ ورمل(elina Varmul) علاقے میں مظاہرین پر گولی باری میں 9 سال کے طفیل احمد راتھر کی موت ہوگئی۔ اسی طرح سوپور میں 21سال کے تجمل بشیر بھٹ کی موت ہوگئی۔
Bاس کے بعد جنوبی کشمیر میں تین نوجوان انچی ڈورا،اننت ناگ(nchidora) کے 17 سال کے شجاعت الاسلام واٹر گام ڈائل گام کے 17سالہ امتیاز احمد ایٹو اور 15سال کے اشتیاق احمد کھانڈے 30جون کو پولس کی گولیوں کا شکار ہوئے ۔ واضح ہو کہ شجاعت الاسلام کے والد محمد اشرف بابا ایک عالم دین تھے اور لوگوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے خصوصی طور پر یتیموں کو تعلیم دینے کے لئے جانے جاتے تھے۔ 1996میں حکومت کے بندوق برداروں نے بابا کا قتل کر دیا تھا۔ قتل کے بعد کنبے کی تمام ذمہ داریاں شجاعت الاسلام کے کاندھوں پر آگئی تھیں، جو اس وقت چپل کی ایک دکان پر سیلس مین کی نوکری کرتا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تیزی سے آتی پولس کی گاڑی کو دیکھ کر تینوں خوفزدہ ہوگئے تھے اور تیزی سے بھاگنے لگے ۔ نوجوان جس گھر میں پناہ کے لےے داخل ہوئے، اس کے صدر دروازے کو بند کرنا چاہاتو پولس اہلکار ایک سینئر افسر کی قیادت میں اندرداخل ہوگئے اور نزدیک سے نوجوانوں کو گولی ماری ۔ اس گولی باری میں دونوجوان موقع پر ہی مارے گئے جبکہ چار شدید طور پر زخمی ہوئے۔
قتل کے اس سلسلے نے ایک بار پھر سری نگر کا رخ کیا جہاں ایک لڑکی سمیت 4نوجوان 24گھنٹے کے اندر ہی سی آر پی ایف کی گولیوں کا شکار ہوئے ۔ 5جولائی کی دیر شام جب عوام کااندازہ تھا کہ حالات معمول پر آجائیں گے ۔ اسی دوران ریاستی وزیر نصیراسلم وانی کے قافلے پر بٹہ مالو علاقے میں پتھراؤ ہوا عوام کے غصے کو جانتے ہوئے بھی وزیر نے اپنے محافظوں کو پتھراؤ کرنے والوں کا تعاقب کرنے کی اجازت دی ۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ محافظوں نے گنگ باغ ، بٹہ مالو سری نگر کے 16سالہ مظفر احمد بھٹ کو پکڑ لیا او راس کی تب تک پٹائی کی جب تک اس کی موت نہ ہوگئی۔ نوجوان کی نعش کو نالے میں ڈبو دیا جسے دیررات نکالا گیا ۔ مقامی لوگ پوری رات اس واردات پر مظاہرہ کرتے رہے اور صبح میں جب یہ اطلاع ان لوگوں تک پہنچی جوکئی دنوں کے بعد اپنی دکانیں کھول رہے تھے تو انہوں نے اپنی دکانیں پھر سے بند کیں او ر بٹہ مالو اور آس پاس کے علاقے میں احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ 6جولائی کو جب مظفر احمد کی آخری رسومات کے لئے لوگ جا رہے تھے اس پر بھی فورسیز نے گولی چلائی جس کے نتیجے میں اسی علاقہ کے فیاض احمد ولد نظیر احمد کی موت ہوگئی ۔ اس کے بعد بٹہ مالو میںہی اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی 25سال کی فینسی دختر عبدالرحیم گورو بھی فورسیز کی گولی کا نشانہ بن گئی ۔ وہ دوسری منزل پر کھڑے ہو کر اپنے گھر سے باہر دیکھ رہی تھی۔ اس واردات کے کچھ منٹ بعد 16سال کا ایک اور نوجوان ابرار احمد خان ولد غلام نبی شہر کے قلبی علاقے مائسمہ میں فورسیز کی گولیوں کا شکار ہوگیا۔ ابرار پہلے ذکر کی گئی اموات کے خلاف احتجاج کے لےے جمع ہوئے لوگوں میں شامل تھا۔ دیگر کئی مظاہرین ان وارداتوں میں زخمی ہوئے، جن میں سے درجنوں افراد کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔
یہ تفصیل مجھے سری نگر میں اپنے نمائندے صریرخالد کی معرفت موصول ہوئی، حالانکہ جون کے دوسرے ہفتہ میں وہ خود وہاں موجود تھا اور اس نے خود تمام حالات کا جائزہ لیا۔ ہندوستان بھر میں اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لےے مظاہرے کہاں نہیں ہوتے۔ کیا ہم انہیں دبانے کے لےے وہی راستہ اختیار کرتے ہیں، جو کشمیر میں کیا جارہا ہے یا پھر ہم کہیں نہ کہیں اس دباؤ کا شکار ہےں، جسے ایک مخصوص ذہنیت نے پیدا کیا ہے اور فوج کی تعیناتی بھی کشمیر کے حالات کا تقاضہ ہونے سے زیادہ اس مخصوص ذہنیت کے لوگوں کی دلجوئی کے لےے ہے
کشمیر کی تاریخ سے، جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح کشمیریوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔ کیا کبھی بھی طاقت کا استعمال کارگرثابت ہوسکا ہے؟ 1931میں مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیاتھا۔ بیشمار جانیں گئیں، مگر نتیجہ کیا حاصل ہوا، انہیں خود کشمیر چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور جموں میں پناہ لینے کے لےے مجبور ہوئے۔ ملک کا بٹوارہ تو مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا، پھر کیوں مسلم اکثریت والی ریاست ہونے کے باوجود کشمیر کے ذمہ داروں نے پاکستان کی بجائے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا؟ صرف اسی لےے نا کہ قبائلیوں کا حملہ انہیں برداشت نہیں تھا اور اس حملہ کے پیچھے انہیں پاکستان کی شہ نظر آتی تھی۔ نتیجہ پاکستان سے ناراضگی اور پاکستان کے مقابلہ ہندوستان کو ترجیح دیا جانا۔ کیا یہ واقعات ہمیں نہیں سمجھاتے ہیں کہ زورزبردستی اور تشدد کا راستہ کشمیریوں کا ذہن نہیں بدل سکتا۔ کشمیر نے اس لےے ہمارا دامن تھاما، کیوں کہ اسے ہم پراعتماد تھا، ہماری محنت پر بھروسہ تھا، ہماری سیکولر قدروں پر یقین تھا، وہ ہماری مدد چاہتا تھا اپنے تحفظ کے لےے، کیوں کہ وہ تنہا ان مخالف حالات کا مقابلہ کرنے کا خود کو اہل نہیں پارہا تھا، وہ قبائلیوں کے حملہ سے پریشان تھا اور پاکستان کو اس لےے ذمہ دار مانتا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 1947میں ہی انہوں نے ایک خودمختار ریاست ہونے کا اعلان کردیا ہوتا۔ انہیں اچھی طرح احساس تھا، اپنی جغرافیائی/اسٹرٹیجک پوزیشن کا اور وہ سمجھتے تھے کہ بڑے اور طاقتور ملک ان کی اس انفرادی حیثیت کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں ان کے لےے پریشانیاں کھڑی کرسکتے ہیں۔ ایسی تمام متوقع پریشانیوں سے بچنے کے لےے انہوں نے ہندوستان کے ساتھ اپنے الحاق میں ہی کشمیر کی عافیت محسوس کی تھی۔ کشمیر اگر اسی طرح، جس طرح باقی ریاستیں ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہوئی تھیں، شمولیت کا فیصلہ کرتا تو یہ فیصلہ اسی وقت ہوگیا ہوتا۔ ہندوستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ان کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی کشمیر کے معاملہ کو دیگر تمام ریاستوں کے معاملہ سے کچھ الگ ہٹ کر نہ دیکھا ہوتا تو شیخ محمد عبداللہ بھی جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ کہلائے جاتے، وزیراعظم نہیں اور آرٹیکل70-کا نفاذ عمل میں نہ آیا ہوتا۔
کیا آج ہم نے یہ مان لیا ہے کہ تمام کشمیری علیحدگی پسند ہےں؟ کیا کشمیریوں کی زبان پر آزادی کے مطالبہ کے صرف ایک ہی معنی ہیںکہ وہ سب علیحدگی چاہتے ہیں؟ جس طرح کے حالات سے وہ گزر رہے ہیں، جس طرح انہیں اپنا گھر اور ریاست ایک قیدخانہ نظر آنے لگی ہے، کیا ان حالات سے نجات پانا ان کے لےے آزادی نہیں ہے۔ کیا امن و سکون کی زندگی اور ان حالات سے نجات ان کا حق نہیں ہے۔ آزادی کے معنی ہم ایک شہری کی حیثیت سے آزادی کے معنوں میں کیوں نہیں سمجھتے اور اگر ہم یہی مانتے ہیں کہ کشمیر میں سب کے سب علیحدگی پسند ہیں تو پھر جمہوری نظام میں حصہ لینے والے عمرعبداللہ کی پارٹی کی حمایت میں یا مخالفت میں ووٹ دینے والے کشمیری کون تھے۔ کیا وہ الیکشن کشمیرکے جمہوری عمل کا ایک حصہ نہیں تھا؟ کیا اس میں ان کی شرکت اس بات کی علامت نہیں تھی کہ وہ علیحدگی پسندنہیں، جمہوریت پسند ہیں۔ اور اگر کچھ دیر کے لےے ہم یہ مان بھی لیں کہ وہ سب کے سب علیحدگی پسند ہیں تو پھر کیا طاقت کے زور پر ہمیشہ انہیں اپنے ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ ہمیں کسی اور سمت میں سوچنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ان تمام سوالوں پر آج غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا ہمیں نہیں لگتا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کررہے ہیں، جو باقی ہندوستانیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ 5جولائی کو بھارت بند کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان سارے ہندوستان کے لےے تھا۔ ملک گیر پیمانہ پر مظاہرے ہوئے۔ عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ سڑکیں جام کردی گئیں، ریلیں روک دی گئیں، یہاں تک کہ ہوائی سفر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔صرف ممبئی ہوائی اڈہ پر اترنے اور پرواز کرنے والی 79اڑانیں اس روز رد کی گئیں۔ بیشتر مقامات پر مظاہرین اور پولس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ کوئی موت نہیں، صرف چند لوگ زخمی اور کہیں بھی پولس کو گولی چلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اب نظر اٹھا کر دیکھیں کشمیر میں مظاہرہ کرنے والوں سے کےے جانے والے سلوک پر۔
13اپریل کو سی آر پی ایف کے جوان جب سوپور میں مظاہرین کو منتشر کررہے تھے تو انہوں نے 17سالہ زبیراحمد بھٹ کو ندی میں کودنے کے لئے مجبور کیا اور تب تک اس پر پتھر برساتے رہے جب تک وہ ڈوب نہیں گیا۔پولس نے ڈوبنے کا معاملہ بتاکر کیس کو بند کردیا۔ اس دوران صرف 17دنوں میں1لوگوں کی موت ہوئی تھی، اس کے بعد1جون کو راجوری کدل علاقے میں پولس کا آنسو گیس گولا 17سالہ طفیل احمد مٹو کے سرپر لگا اور اس کی موت ہوگئی۔ پولس نے پہلے کہا کہ اس دن انہوں نے اس علاقے میں نہ تو گولی چلائی اور نہ ہی آنسو گیس کا گولا چھوڑا تھا۔ تاہم طفیل کی پوسٹ مارٹم رپوررٹ نے پختہ کردیا کہ اس کی موت آنسو گیس کے گولے سے ہی ہوئی تھی، جس نے اس کے دماغ او رکھوپڑی کو نقصان پہنچایا تھا۔ پولس نے معاملے کی جانچ کا حکم دیاتھا، لیکن رپورٹ ابھی منظرعام پر نہیں آئی ہے۔ طفیل کے والد محمد اشرف کا الزام ہے کہ حکومت ملزم کی شناخت کے باوجود اسے گرفتار نہیں کررہی ہے۔
طفیل کی موت کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے سیکڑوں کی تعداد میں لوگ پرانے شہر کی سڑکوں پر آئے۔مظاہرین کو منتشر کرتے وقت سی آر پی ایف نے ایک راہ گیر4سال کے محمد رفیق بنگرو کو پکڑ لیا اور بری طرح پٹائی کی ۔ایک ہفتے تک زندگی کے لئے جدوجہد کرنے کے بعد بنگرو نے ایس کے آئی ایم ایس میں آخری سانس لی ۔بنگرو کی آخری رسومات ادا کرنے کے دن0جون کو سی آر پی ایف نے مظاہرین پر بے تحاشہ گولیاں چلائیں اورمظاہرین کے بارے میں کہا گیاکہ ان نے نور باغ میں ایک بنکر پر حملہ کیا ہے۔ اس واردات میں بنگرو کے رشتہ دار جاوید احمد مالا کی گولی لگنے سے موقع پر ہی موت ہوگئی۔ جاویدمالا کی موت کے بعد پورے شہر میںپرتشدد مظاہرے ہوئے جس کے بعد حکام نے چاردن کے لئے کرفیو لگا دیا۔
25جون کو سوپور میں مارے گئے دو انتہا پسندوں کی نعش کا مطالبہ کررہے مظاہرین پر سی آر پی ایف نے گولی چلائی اور اس میں4سالہ شکیل احمد غنی اور 20سال کے فردوس احمد ککرو(akroo) مارے گئے۔
اس کے بعد سوپور اور اس کے قرب وجوار کے علاقے میں کرفیو نافذ کردیاگیا، تاہم 27جون کو مظاہرین کے ایک چھوٹے گروپ نے کرفیو کی خلاف ورزی کی اور نیم فوجی دستے کے جوانوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ سی آر پی ایف نے مظاہرین پر گولی چلائی جس میںسوپور کے کرال ٹینگ (ralteing) علاقے کے 30سالہ نوجوان بلال احمد وانی کی موت ہوگئی۔ بلال کی موت پر اپنے احتجاج کو درج کرتے ہوئے وزیر قانون اور نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر علی محمد ساگر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران الزام لگایا کہ سی آر پی ایف وزیر اعلیٰ کے احکامات ماننے سے انکار کررہی ہے اور شہریوں کو قتل کررہی ہے۔ ساگر نے گولی باری کو بے جوازقرار دیا تھا۔
29 جون کو ایک 9سال کے بچے کا قتل ہوا۔9جون کی دوپہر میں ڈیلینہ ورمل(elina Varmul) علاقے میں مظاہرین پر گولی باری میں 9 سال کے طفیل احمد راتھر کی موت ہوگئی۔ اسی طرح سوپور میں 21سال کے تجمل بشیر بھٹ کی موت ہوگئی۔
Bاس کے بعد جنوبی کشمیر میں تین نوجوان انچی ڈورا،اننت ناگ(nchidora) کے 17 سال کے شجاعت الاسلام واٹر گام ڈائل گام کے 17سالہ امتیاز احمد ایٹو اور 15سال کے اشتیاق احمد کھانڈے 30جون کو پولس کی گولیوں کا شکار ہوئے ۔ واضح ہو کہ شجاعت الاسلام کے والد محمد اشرف بابا ایک عالم دین تھے اور لوگوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے خصوصی طور پر یتیموں کو تعلیم دینے کے لئے جانے جاتے تھے۔ 1996میں حکومت کے بندوق برداروں نے بابا کا قتل کر دیا تھا۔ قتل کے بعد کنبے کی تمام ذمہ داریاں شجاعت الاسلام کے کاندھوں پر آگئی تھیں، جو اس وقت چپل کی ایک دکان پر سیلس مین کی نوکری کرتا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تیزی سے آتی پولس کی گاڑی کو دیکھ کر تینوں خوفزدہ ہوگئے تھے اور تیزی سے بھاگنے لگے ۔ نوجوان جس گھر میں پناہ کے لےے داخل ہوئے، اس کے صدر دروازے کو بند کرنا چاہاتو پولس اہلکار ایک سینئر افسر کی قیادت میں اندرداخل ہوگئے اور نزدیک سے نوجوانوں کو گولی ماری ۔ اس گولی باری میں دونوجوان موقع پر ہی مارے گئے جبکہ چار شدید طور پر زخمی ہوئے۔
قتل کے اس سلسلے نے ایک بار پھر سری نگر کا رخ کیا جہاں ایک لڑکی سمیت 4نوجوان 24گھنٹے کے اندر ہی سی آر پی ایف کی گولیوں کا شکار ہوئے ۔ 5جولائی کی دیر شام جب عوام کااندازہ تھا کہ حالات معمول پر آجائیں گے ۔ اسی دوران ریاستی وزیر نصیراسلم وانی کے قافلے پر بٹہ مالو علاقے میں پتھراؤ ہوا عوام کے غصے کو جانتے ہوئے بھی وزیر نے اپنے محافظوں کو پتھراؤ کرنے والوں کا تعاقب کرنے کی اجازت دی ۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ محافظوں نے گنگ باغ ، بٹہ مالو سری نگر کے 16سالہ مظفر احمد بھٹ کو پکڑ لیا او راس کی تب تک پٹائی کی جب تک اس کی موت نہ ہوگئی۔ نوجوان کی نعش کو نالے میں ڈبو دیا جسے دیررات نکالا گیا ۔ مقامی لوگ پوری رات اس واردات پر مظاہرہ کرتے رہے اور صبح میں جب یہ اطلاع ان لوگوں تک پہنچی جوکئی دنوں کے بعد اپنی دکانیں کھول رہے تھے تو انہوں نے اپنی دکانیں پھر سے بند کیں او ر بٹہ مالو اور آس پاس کے علاقے میں احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ 6جولائی کو جب مظفر احمد کی آخری رسومات کے لئے لوگ جا رہے تھے اس پر بھی فورسیز نے گولی چلائی جس کے نتیجے میں اسی علاقہ کے فیاض احمد ولد نظیر احمد کی موت ہوگئی ۔ اس کے بعد بٹہ مالو میںہی اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی 25سال کی فینسی دختر عبدالرحیم گورو بھی فورسیز کی گولی کا نشانہ بن گئی ۔ وہ دوسری منزل پر کھڑے ہو کر اپنے گھر سے باہر دیکھ رہی تھی۔ اس واردات کے کچھ منٹ بعد 16سال کا ایک اور نوجوان ابرار احمد خان ولد غلام نبی شہر کے قلبی علاقے مائسمہ میں فورسیز کی گولیوں کا شکار ہوگیا۔ ابرار پہلے ذکر کی گئی اموات کے خلاف احتجاج کے لےے جمع ہوئے لوگوں میں شامل تھا۔ دیگر کئی مظاہرین ان وارداتوں میں زخمی ہوئے، جن میں سے درجنوں افراد کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔
یہ تفصیل مجھے سری نگر میں اپنے نمائندے صریرخالد کی معرفت موصول ہوئی، حالانکہ جون کے دوسرے ہفتہ میں وہ خود وہاں موجود تھا اور اس نے خود تمام حالات کا جائزہ لیا۔ ہندوستان بھر میں اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لےے مظاہرے کہاں نہیں ہوتے۔ کیا ہم انہیں دبانے کے لےے وہی راستہ اختیار کرتے ہیں، جو کشمیر میں کیا جارہا ہے یا پھر ہم کہیں نہ کہیں اس دباؤ کا شکار ہےں، جسے ایک مخصوص ذہنیت نے پیدا کیا ہے اور فوج کی تعیناتی بھی کشمیر کے حالات کا تقاضہ ہونے سے زیادہ اس مخصوص ذہنیت کے لوگوں کی دلجوئی کے لےے ہے
No comments:
Post a Comment