امرناتھ یاترا پر ابھی مزید لکھے جانے کی ضرورت ہے، اس لےے کہ گہرائی میں جانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ یاترا صرف مذہبی بنیادوں پر نہیں ہے، بلکہ اس میں فرقہ پرست طاقتوں کی گہری سازش نظر آتی ہے، لیکن جیسا کہ قارئین کو علم ہے کہ میں ’مسئلہ کشمیر‘ کو اس کی ابتدا سے لے کر چل رہا ہوں اور تاریخی دستاویز کے حوالہ سے وہ تمام حقائق منظرعام پر لانے کی کوششیں کررہا ہوں، جنہیں وقت کی دھول نے نجانے کہاں گم کردیا ہے۔ ایسا ہی ایک اہم دستاویز جو مہاراجا ہری سنگھ کے ذریعہ سردار پٹیل کو لکھے گئے خط کی شکل میں میرے سامنے ہے، میں اپنی آج اور کل کی تحریر میں اس خط کو شامل اشاعت کررہا ہوں۔ میں نے اس خط کے چند جملوں کو اس لئے انڈرلائن کردیا ہے کہ بعد میں اس پر گفتگو کروں گا، ٹھیک اس طرح جیسے کوئی وکیل عدالت میں کارروائی کے دوران جج کی خدمت میں کوئی خاص نکتہ پیش کرنے کے بعد عرض کرتا ہے کہ پوائنٹ ٹو بی نوٹیڈ می لارڈ (Point to be noted me lord)میں اس پر بعد میں بحث کرنے کی اجازت چاہوں گا، لہٰذا ملاحظہ فرمائیں یہ اہم دستاویز، اس کے بعد انشاء اللہ گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔
مہاراجا ہری سنگھ کا خط سردار پٹیل کے نام
سردار پٹیل کے شائع شدہ خطوط کی جلد نمبر ایک کے مطابق 31جنوری 1948 کو مہاراجا ہری سنگھ نے ایک طویل خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنی ذہنی اذیت کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’ہندوستانی افواج کے آنے کے بعد سے فوجی حالات افسوسناک ہوگئے ہیں۔ کچھ شروعاتی فائدے کے علاوہ جہاں تک وصولیابیوں کا سوال ہے،حالات منفی رہے ہیں۔‘
وادی میں ہندوستانی فوج تقریباً7 اکتوبر کو آئی، جب ہمارے قبضے میں تین چوتھائی پنچھ اور پورامیر پور ضلع تھا۔ تب سے ہم نے پنچھ کا ایک چھوٹا حصہ اور ضلع مظفر آباد کھویا ہے۔ بارہمولہ اور اری پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد حالات جوں کا توں بنے ہیں۔ دو ماہ گزر گئے ہیں اور ہندوستانی افواج ابھی تک اری میں مقیم ہےں۔ فوج نے پنچھ شہر کی جانب پیش قدمی کی، حالانکہ وہ وہاں پہنچے بھی لیکن بڑی قیمت ادا کرنے کے ساتھ اور آخر کار پنچھ جانے والی سڑک تباہ ہوگئی۔ پنچھ جاگیر جس کے چپے چپے پر ریاستی فوج کا قبضہ تھا، ہمیں یہاں سے پیچھے ہٹنا پڑا اور آخر کار پنچھ شہر کے علاو ہ پوری جاگیر کو کھونا پڑا جہاں 40 ہزار عوام، 4بٹالین (ریاستی اور ایک ہندوستانی) کے ساتھ محاصرہ میں تھے۔ حالات کسی بھی طرح سے اطمینان بخش نہیں ہےں۔ میں یہاں ذکر کرنا چاہوں گا کہ اگست ماہ کی ہلچل میں ریاستی فوج کی دو بٹالین کی مدد سے پوری پنچھ جاگیر پر دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا گیا۔ امن قائم ہوا، پورا محصول و صول ہوا اور انتظامیہ اپنا کام کرنے لگی۔ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں پنچھ میں دوبارہ پریشانیاں بڑھنی شروع ہوئیں اور ہماری افواج نے دسمبر کے آخر تک اس کی مزاحمت کی، لیکن کوئی مدد نہیں حاصل ہوئی اور آخر کار پنچھ شہر سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
مہاراجا ہری سنگھ آگے لکھتے ہیں کہ ’میر پور ضلع میں جب ہندوستانی فوج پہنچی ہمارے قبضہ میں منگلہ (Mangla) جھیلم نہر کے کنارے کے علاقے ہمارے قبضے میں تھے، لیکن گزشتہ دو ماہ کے اندر ہمارے قبضے سے منگلہ، علی بیگ، گرودوارہ اور میر پور شہر، بھیم برشہر (Bhimber) دیوا اور بٹالہ (Battala) گاؤں، راجوری شہر اور چھامب (Chhamb) اور نوشیرا سے لگے تمام علاقے نکل گئے۔ میر پور اور کوٹلی دونوں کے لئے ایک اہم مقام جھانگر کو ایک شکست کے بعد کھونا پڑا۔ یہ ناکامیاں ہم پر تو بہت بھاری پڑی ہی ہیں، ساتھ ہی ہندوستانی فوج کی عزت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ عوام فوج کا نتائج کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے اور نہ کہ اس کے بارے میں جاری پروپیگنڈہ سے۔ کٹھوا (Kathua) سیالکوٹ سرحد پر حملے تیز ہوگئے ہیں۔ ہر روز ایک کے بعد ایک اچانک حملے ہورہے ہیں۔ کئی گاوؤں کو نذرآتش کیا جا چکا ہے۔ عوام کو لوٹا گیا ہے، خواتین کو اغوا کیا گیاہے اور قتل کے بھی معاملے پائے گئے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں تمام سرحدی گاؤں خالی کئے جا چکے ہیں اور جموں شہر میں 70تا 80 ہزار مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں۔ فصل، گھر اور قیمتی اشیا ضائع ہوچکی ہیں۔ زیادہ تر لوگ جموں اور اس کے آس پاس کے علاقہ چھوڑ کر مغربی پنجاب روانہ ہو رہے ہیں۔ ایسے میں حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔
’ہندوستانی فوج کے بہترین ریکارڈس کے باوجود اس کا نام مٹی میں مل رہا ہے۔ میں کابینہ برائے جنگ کارکن تھا۔ عالمی جنگ کے دوران میں نے میدان جنگ کا دورہ کیا تھا۔ ہندوستانی فوج کا نام احترام کے ساتھ لیا جاتا تھا، لیکن مجھے یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ فوج ہر ایک زبان کی موضوع بحث بن گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی عزت کم ہورہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ فوج کی غلطی نہیں ہے بلکہ اس کی پالیسی کی کمی ہے جس پر عمل کیا جارہا ہے۔ کئی لوگوں کا تصور ہے کہ یہ کمانڈر کی غلطی ہے جو اس کام کے لئے نئے ہیں، جن فوجی افسروں کو 10 سے 15 سال جنرل بننے کے لئے انتظار کرنا ہوتاہے، انہیں اس آپریشن کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔
لوگوں کی رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی فوج کا نام مٹی میں مل رہا ہے۔ سردار بلدیو سنگھ ایک دن کے لئے یہاں آئے تھے۔ ہمارے سیاستدانوں،عوام کے نمائندوں، مجھے خود اور میرے وزیر اعظم کو جو کچھ کہنا تھا، جو انہوں نے سنا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے خفیہ طور پر بتایاکہ انہوں نے کچھ اقدام کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ صرف حکم سے کچھ نہیں ہونے والا ہے، جب تک کہ اس پر عمل نہ ہو۔ جب آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ یہاں دو دن گزارے تھے، تب کئی فیصلے لئے گئے تھے اور کئی معاملات میں آپ نے ہدایات بھی دی تھیں۔ آپ کے جانے کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہمارے اوپر سنگین حملے ہو رہے ہیں۔ اس عمل کے نتیجہ میں پاکستان روز بروز آگے بڑھ رہا ہے۔ کامیابی کے سبب ان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ وہ جائیدادوں کو لوٹ رہے ہیں اور جب وہ پاکستان لوٹتے ہیں تو اپنے ساتھ جانور اور خواتین کو بھی لے جارہے ہیں۔ وہ عوام کو اُکسا رہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ کتنا لوٹا اور ان کے علاقے میں حملے کے کیا فوائد ہیں۔ دوسری جانب ہمارے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان کے حوصلے پوری طرح ٹوٹ چکے ہیں اور کسی بھی اچانک حملے کی افواہ سے قبل ہی راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے عوام اپنے گاؤں سے 5 یا میل دور پر بھی آگ نظر آتے ہی گاؤں چھوڑ کر بھا گ رہے ہیں۔ جہاں تک ہندوستانی فوج کا سوال ہے وہ اپنے طے شدہ مقامات کو چھوڑ کر حملہ آوروں سے مقابلے کے لئے نہیں جاتے ہیں اور نہ ہی ایسا نظم ہے کہ جو ان سے لڑ کر واپس آئے۔
اس کام کی توقع کچھ ہوم گارڈس یا تقریباً تھکی ہوئی ایک پلاٹون ریاستی فوج سے کی جارہی ہے۔ ان کے لئے 500 یا ایک ہزار حملہ آوروں کو روک پانا کس طرح ممکن ہو سکتاہے؟ گزشتہ مرتبہ آپ نے گوریلا فوج کو ریاست میں روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کام کی ذمہ داری لینے کو کہا تھا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، ابھی تک کوئی بھی گوریلا فوج نہیں آئی ہے۔
… ایسے حالات میں بطور حکمراں میری پوزیشن بہت بری اور حیران کن ہو جاتی ہے۔ ریاست کے عوام لگاتار مجھے ٹیلی گرام روانہ کر رہے ہیں اور مدد طلب کر رہے ہیں۔ ہماری سوِل انتظامیہ نیشنل کانفرنس کے ہاتھوں میں ہے اور فوجی کارروائی کا ذمہ ہندوستان کے ہاتھوں میں ہے۔ سول یا فوجی سطح پر نہ تو میری کوئی آواز ہے اور نہ ہی طاقت۔ ریاستی فوجیں ہندوستانی فوج کے کمانڈر کے حکم کے ماتحت ہیں۔ اس طرح نتیجہ یوں ہے کہ میں خوفناک حالات کو دیکھ رہا ہوں۔ خواتین کے اغوا اور میرے عوام کے قتل اور لوٹ مار کو بے بسی کے ساتھ دیکھنے کے علاوہ بغیر طاقت کے میں ان کی ضرورت کے مطابق مدد بھی نہیں کر سکتا ہوں۔ ہر روز لوگ میرے پاس آرہے ہیں اور لوگوں کا آج بھی یقین ہے کہ یہ میرے اختیارات میں ہے کہ میں ان کی مدد کروں اور ان کے مسائل کا حل پیش کروں۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ دن بدن میری پوزیشن بہت بری ہوتی جارہی ہے۔ ایک جانب یہاں تک فوجی حالات ہمارے موافق نہیں ہیں اور شہر میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد داخل ہورہی ہے اور بغیر ہمارے جوابی حملہ کے پاکستان اچانک حملے کئے جارہا ہے۔
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں ’فوجی حالات کے علاوہ اقوام متحدہ کے تعلق سے جو کارروائی زیرالتوا ہے، اس سے نہ صرف مجھے بلکہ تمام ہندو اور سکھ کے ساتھ ریاست کے وہ لوگ جو نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھتے ہیں، کے لئے غیر یقینی حالات اور الجھاؤ پیدا ہورہاہے۔ یہ جذبات مضبوط ہونے کے جواز حاصل کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نقصان دہ فیصلہ کرے گی اور آخر کارریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو جائے گا۔ ایسے میں ہندو اور سکھ عوام نے ریاست سے باہر نکلنا شروع کردیا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کا نتیجہ ویسا ہی ہوگا جیسا مغربی پنجاب میں ہوچکا ہے اور اس لئے حادثے سے پہلے ریاست سے باہر نکلنا بہت بہتر ہے۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈران بھی ایسا محسوس کرتے ہیں کہ آخر کار سلامتی کونسل کے فیصلے کو قبول کرنے میں ان کو مایوسی ہوگی اور یہ ان کے لئے کسی بڑے حادثہ سے کم نہیں ہوگا۔
اس معاملے میں میری پوزیشن تشویش ناک ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں یقینی طور پر ہندوستان کے ساتھ الحاق کروں گا، اس خیال کے ساتھ کہ ہندوستان مجھے مصیبت میں نہیں چھوڑے گا اور یہ کہ میری پوزیشن اور میرے شاہی مراتب محفوظ رہےں گے۔ ایسا اس لئے کیونکہ داخلی انتظام کے معاملے میں میں نے حکومت ہند کے مشورہ کو منظور کیا ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کے ساتھ جاناہوتا تو یہ پوری طرح سے غیر ضروری ہوتا کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا جائے اور اپنے داخلی انتظام کو ہندوستانی یونین کی مرضی کے مطابق تبدیل کیا جائے۔ مجھے لگتاہے کہ داخلی انتظام یا الحاق کا سوال پوری طرح سے سلامتی کونسل کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، لیکن پورے معاملے کو بڑھایا گیاہے اور ایک ڈومینین کے ذریعہ دوسرے ڈومینین پر حملے پر سلامتی کونسل کے ذریعہ غور نہیں کیا گیاہے، لیکن عبوری حکومت کے قیام اور الحاق سے جڑے داخلی سوالوں کا ان کے ذریعہ نوٹس لیا گیاہے۔ سلامتی کونسل میں جانا اور پھر اس کونسل کے سامنے ایجنڈہ کی توسیع پر راضی ہونا ایک غلط قدم تھا۔ جتنی جلدی کونسل نے ایجنڈہ کی توسیع کی ہندوستانی یونین کو ریفرنس سے ہاتھ واپس کھینچ کر معاملے کو ختم کردینا چاہئے تھا۔
………………………………(جاری
مہاراجا ہری سنگھ کا خط سردار پٹیل کے نام
سردار پٹیل کے شائع شدہ خطوط کی جلد نمبر ایک کے مطابق 31جنوری 1948 کو مہاراجا ہری سنگھ نے ایک طویل خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنی ذہنی اذیت کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’ہندوستانی افواج کے آنے کے بعد سے فوجی حالات افسوسناک ہوگئے ہیں۔ کچھ شروعاتی فائدے کے علاوہ جہاں تک وصولیابیوں کا سوال ہے،حالات منفی رہے ہیں۔‘
وادی میں ہندوستانی فوج تقریباً7 اکتوبر کو آئی، جب ہمارے قبضے میں تین چوتھائی پنچھ اور پورامیر پور ضلع تھا۔ تب سے ہم نے پنچھ کا ایک چھوٹا حصہ اور ضلع مظفر آباد کھویا ہے۔ بارہمولہ اور اری پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد حالات جوں کا توں بنے ہیں۔ دو ماہ گزر گئے ہیں اور ہندوستانی افواج ابھی تک اری میں مقیم ہےں۔ فوج نے پنچھ شہر کی جانب پیش قدمی کی، حالانکہ وہ وہاں پہنچے بھی لیکن بڑی قیمت ادا کرنے کے ساتھ اور آخر کار پنچھ جانے والی سڑک تباہ ہوگئی۔ پنچھ جاگیر جس کے چپے چپے پر ریاستی فوج کا قبضہ تھا، ہمیں یہاں سے پیچھے ہٹنا پڑا اور آخر کار پنچھ شہر کے علاو ہ پوری جاگیر کو کھونا پڑا جہاں 40 ہزار عوام، 4بٹالین (ریاستی اور ایک ہندوستانی) کے ساتھ محاصرہ میں تھے۔ حالات کسی بھی طرح سے اطمینان بخش نہیں ہےں۔ میں یہاں ذکر کرنا چاہوں گا کہ اگست ماہ کی ہلچل میں ریاستی فوج کی دو بٹالین کی مدد سے پوری پنچھ جاگیر پر دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا گیا۔ امن قائم ہوا، پورا محصول و صول ہوا اور انتظامیہ اپنا کام کرنے لگی۔ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں پنچھ میں دوبارہ پریشانیاں بڑھنی شروع ہوئیں اور ہماری افواج نے دسمبر کے آخر تک اس کی مزاحمت کی، لیکن کوئی مدد نہیں حاصل ہوئی اور آخر کار پنچھ شہر سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
مہاراجا ہری سنگھ آگے لکھتے ہیں کہ ’میر پور ضلع میں جب ہندوستانی فوج پہنچی ہمارے قبضہ میں منگلہ (Mangla) جھیلم نہر کے کنارے کے علاقے ہمارے قبضے میں تھے، لیکن گزشتہ دو ماہ کے اندر ہمارے قبضے سے منگلہ، علی بیگ، گرودوارہ اور میر پور شہر، بھیم برشہر (Bhimber) دیوا اور بٹالہ (Battala) گاؤں، راجوری شہر اور چھامب (Chhamb) اور نوشیرا سے لگے تمام علاقے نکل گئے۔ میر پور اور کوٹلی دونوں کے لئے ایک اہم مقام جھانگر کو ایک شکست کے بعد کھونا پڑا۔ یہ ناکامیاں ہم پر تو بہت بھاری پڑی ہی ہیں، ساتھ ہی ہندوستانی فوج کی عزت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ عوام فوج کا نتائج کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے اور نہ کہ اس کے بارے میں جاری پروپیگنڈہ سے۔ کٹھوا (Kathua) سیالکوٹ سرحد پر حملے تیز ہوگئے ہیں۔ ہر روز ایک کے بعد ایک اچانک حملے ہورہے ہیں۔ کئی گاوؤں کو نذرآتش کیا جا چکا ہے۔ عوام کو لوٹا گیا ہے، خواتین کو اغوا کیا گیاہے اور قتل کے بھی معاملے پائے گئے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں تمام سرحدی گاؤں خالی کئے جا چکے ہیں اور جموں شہر میں 70تا 80 ہزار مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں۔ فصل، گھر اور قیمتی اشیا ضائع ہوچکی ہیں۔ زیادہ تر لوگ جموں اور اس کے آس پاس کے علاقہ چھوڑ کر مغربی پنجاب روانہ ہو رہے ہیں۔ ایسے میں حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔
’ہندوستانی فوج کے بہترین ریکارڈس کے باوجود اس کا نام مٹی میں مل رہا ہے۔ میں کابینہ برائے جنگ کارکن تھا۔ عالمی جنگ کے دوران میں نے میدان جنگ کا دورہ کیا تھا۔ ہندوستانی فوج کا نام احترام کے ساتھ لیا جاتا تھا، لیکن مجھے یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ فوج ہر ایک زبان کی موضوع بحث بن گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی عزت کم ہورہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ فوج کی غلطی نہیں ہے بلکہ اس کی پالیسی کی کمی ہے جس پر عمل کیا جارہا ہے۔ کئی لوگوں کا تصور ہے کہ یہ کمانڈر کی غلطی ہے جو اس کام کے لئے نئے ہیں، جن فوجی افسروں کو 10 سے 15 سال جنرل بننے کے لئے انتظار کرنا ہوتاہے، انہیں اس آپریشن کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔
لوگوں کی رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی فوج کا نام مٹی میں مل رہا ہے۔ سردار بلدیو سنگھ ایک دن کے لئے یہاں آئے تھے۔ ہمارے سیاستدانوں،عوام کے نمائندوں، مجھے خود اور میرے وزیر اعظم کو جو کچھ کہنا تھا، جو انہوں نے سنا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے خفیہ طور پر بتایاکہ انہوں نے کچھ اقدام کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ صرف حکم سے کچھ نہیں ہونے والا ہے، جب تک کہ اس پر عمل نہ ہو۔ جب آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ یہاں دو دن گزارے تھے، تب کئی فیصلے لئے گئے تھے اور کئی معاملات میں آپ نے ہدایات بھی دی تھیں۔ آپ کے جانے کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہمارے اوپر سنگین حملے ہو رہے ہیں۔ اس عمل کے نتیجہ میں پاکستان روز بروز آگے بڑھ رہا ہے۔ کامیابی کے سبب ان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ وہ جائیدادوں کو لوٹ رہے ہیں اور جب وہ پاکستان لوٹتے ہیں تو اپنے ساتھ جانور اور خواتین کو بھی لے جارہے ہیں۔ وہ عوام کو اُکسا رہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ کتنا لوٹا اور ان کے علاقے میں حملے کے کیا فوائد ہیں۔ دوسری جانب ہمارے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان کے حوصلے پوری طرح ٹوٹ چکے ہیں اور کسی بھی اچانک حملے کی افواہ سے قبل ہی راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے عوام اپنے گاؤں سے 5 یا میل دور پر بھی آگ نظر آتے ہی گاؤں چھوڑ کر بھا گ رہے ہیں۔ جہاں تک ہندوستانی فوج کا سوال ہے وہ اپنے طے شدہ مقامات کو چھوڑ کر حملہ آوروں سے مقابلے کے لئے نہیں جاتے ہیں اور نہ ہی ایسا نظم ہے کہ جو ان سے لڑ کر واپس آئے۔
اس کام کی توقع کچھ ہوم گارڈس یا تقریباً تھکی ہوئی ایک پلاٹون ریاستی فوج سے کی جارہی ہے۔ ان کے لئے 500 یا ایک ہزار حملہ آوروں کو روک پانا کس طرح ممکن ہو سکتاہے؟ گزشتہ مرتبہ آپ نے گوریلا فوج کو ریاست میں روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کام کی ذمہ داری لینے کو کہا تھا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، ابھی تک کوئی بھی گوریلا فوج نہیں آئی ہے۔
… ایسے حالات میں بطور حکمراں میری پوزیشن بہت بری اور حیران کن ہو جاتی ہے۔ ریاست کے عوام لگاتار مجھے ٹیلی گرام روانہ کر رہے ہیں اور مدد طلب کر رہے ہیں۔ ہماری سوِل انتظامیہ نیشنل کانفرنس کے ہاتھوں میں ہے اور فوجی کارروائی کا ذمہ ہندوستان کے ہاتھوں میں ہے۔ سول یا فوجی سطح پر نہ تو میری کوئی آواز ہے اور نہ ہی طاقت۔ ریاستی فوجیں ہندوستانی فوج کے کمانڈر کے حکم کے ماتحت ہیں۔ اس طرح نتیجہ یوں ہے کہ میں خوفناک حالات کو دیکھ رہا ہوں۔ خواتین کے اغوا اور میرے عوام کے قتل اور لوٹ مار کو بے بسی کے ساتھ دیکھنے کے علاوہ بغیر طاقت کے میں ان کی ضرورت کے مطابق مدد بھی نہیں کر سکتا ہوں۔ ہر روز لوگ میرے پاس آرہے ہیں اور لوگوں کا آج بھی یقین ہے کہ یہ میرے اختیارات میں ہے کہ میں ان کی مدد کروں اور ان کے مسائل کا حل پیش کروں۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ دن بدن میری پوزیشن بہت بری ہوتی جارہی ہے۔ ایک جانب یہاں تک فوجی حالات ہمارے موافق نہیں ہیں اور شہر میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد داخل ہورہی ہے اور بغیر ہمارے جوابی حملہ کے پاکستان اچانک حملے کئے جارہا ہے۔
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں ’فوجی حالات کے علاوہ اقوام متحدہ کے تعلق سے جو کارروائی زیرالتوا ہے، اس سے نہ صرف مجھے بلکہ تمام ہندو اور سکھ کے ساتھ ریاست کے وہ لوگ جو نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھتے ہیں، کے لئے غیر یقینی حالات اور الجھاؤ پیدا ہورہاہے۔ یہ جذبات مضبوط ہونے کے جواز حاصل کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نقصان دہ فیصلہ کرے گی اور آخر کارریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو جائے گا۔ ایسے میں ہندو اور سکھ عوام نے ریاست سے باہر نکلنا شروع کردیا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کا نتیجہ ویسا ہی ہوگا جیسا مغربی پنجاب میں ہوچکا ہے اور اس لئے حادثے سے پہلے ریاست سے باہر نکلنا بہت بہتر ہے۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈران بھی ایسا محسوس کرتے ہیں کہ آخر کار سلامتی کونسل کے فیصلے کو قبول کرنے میں ان کو مایوسی ہوگی اور یہ ان کے لئے کسی بڑے حادثہ سے کم نہیں ہوگا۔
اس معاملے میں میری پوزیشن تشویش ناک ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں یقینی طور پر ہندوستان کے ساتھ الحاق کروں گا، اس خیال کے ساتھ کہ ہندوستان مجھے مصیبت میں نہیں چھوڑے گا اور یہ کہ میری پوزیشن اور میرے شاہی مراتب محفوظ رہےں گے۔ ایسا اس لئے کیونکہ داخلی انتظام کے معاملے میں میں نے حکومت ہند کے مشورہ کو منظور کیا ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کے ساتھ جاناہوتا تو یہ پوری طرح سے غیر ضروری ہوتا کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا جائے اور اپنے داخلی انتظام کو ہندوستانی یونین کی مرضی کے مطابق تبدیل کیا جائے۔ مجھے لگتاہے کہ داخلی انتظام یا الحاق کا سوال پوری طرح سے سلامتی کونسل کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، لیکن پورے معاملے کو بڑھایا گیاہے اور ایک ڈومینین کے ذریعہ دوسرے ڈومینین پر حملے پر سلامتی کونسل کے ذریعہ غور نہیں کیا گیاہے، لیکن عبوری حکومت کے قیام اور الحاق سے جڑے داخلی سوالوں کا ان کے ذریعہ نوٹس لیا گیاہے۔ سلامتی کونسل میں جانا اور پھر اس کونسل کے سامنے ایجنڈہ کی توسیع پر راضی ہونا ایک غلط قدم تھا۔ جتنی جلدی کونسل نے ایجنڈہ کی توسیع کی ہندوستانی یونین کو ریفرنس سے ہاتھ واپس کھینچ کر معاملے کو ختم کردینا چاہئے تھا۔
………………………………(جاری
No comments:
Post a Comment