خدا کے لےے اب تو ملک کو فرقہ پرست ذہنیت کی سیاست سے نجات دلا دیجئے۔ ترقی کی بات کیجئے، خوشحالی کی بات کیجئے، امن کی بات کیجئے، اتحادواخوت کی بات کیجئے۔ کیا ملا ہمیں اس مذہب کی سیاست سے؟ ملک کی تقسیم، ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون…، نفرت کی دیواریں…، غربت…، ذلت اور پریشانیاں۔
کوئی تو مذہب ہے امریکہ، برطانیہ اور کناڈا جیسے ممالک کے حکمرانوں کا بھی دیگر مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں وہاں۔ کیا ان ممالک میں یا ان جیسے دیگر تمام ترقی یافتہ ملکوں میں جو جمہوری قدروں میں یقین رکھتے ہیں، الیکشن مذہب کی بنیادوں پر لڑا جاتا ہے؟ سیاست مذہب کے نام پر کی جاتی ہے۔ ہم ہندو ہیں، مسلمان ہیں، سکھ ہیں، جب تک ہندوستان میں رہتے ہیں یہی شناخت رہتی ہے ہماری، مگر جب ہم ہندوستان سے باہر رہتے ہیں تو صرف ہندوستانی ہوتے ہیں، کوئی نفرت نہیں مذہب کے نام پر۔ اگر ہم ان ممالک میں ملازمت کرتے ہیں یا سیاست میں حصہ لیتے ہیں، بھلے ہی کسی امیدوار کو ووٹ دینے کے لےے ہمیں اپنا مذہب یاد نہیں رہتا، لیکن ہندوستان میں ہم اپنے مذہب کو بھول نہیں پاتے اور ایسا بھی نہیں کہ سچ مچ ہم نے مذہب کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا ہے۔ ہم اس وقت مذہبی نہیں ہوتے ہیں، جب ہمیں مذہبی ہونا چاہےے۔ آج ہم ایمانداری سے اپنے عمل کا احاطہ کریں۔ ہم ہندو ہیں یا مسلمان ہیں، کیا ہم اسی طرح اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادتوں میں مصروف رہتے ہیں، جیسا کہ ہمیں بتایاگیا ہے۔ کیا ہمارا عمل ہمارے مذاہب کی تعلیمات کے مطابق ہوتا ہے۔
ہزاروں بے گناہوں کا خون بہا دیا گیا رام مندر کے نام پر۔ 18برس ہوگئے بابری مسجد کی شہادت کو۔ اس درمیان کتنی بڑی تعداد میں رام کے نام پر سیاست کرنے والے شری رام جنم بھومی کے درشن کے لےے اجودھیا جاتے رہے ہیں۔ کیا امرناتھ یاترا اور ماتاویشنودیوی کے مندروں کی طرح؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب فرقہ پرستی سیاست کو اجودھیا میں لاکھوں لوگوں کو مذہبی جنون کے ساتھ بلانے کی ضرورت تھی تو کبھی رام شلاپوجن کے نام پر اور کبھی ’’مندر وہیں بنائیں گے‘‘ جیسے نعروں کے ساتھ لاکھوں لوگ وہاں جمع ہوتے رہے۔ آج سیاست کو ایسا ہی ہجوم، ایسا ہی مذہبی جنون امرناتھ یاترا کے لےے چاہےے۔ ان لوگوں نے0برس گزار لےے اقتدار کی چاشنی کے ساتھ رام مندر کے نام پر سیاست کرکے۔ مرکز میں حکومت کا خواب پورا ہوا، کئی کئی ریاستوں میں سرکار بنانے کا موقع ملا۔ اب جبکہ رام کے نام پر سیاست کا بازار ٹھنڈا پڑگیا تو اس رتھ یاترا کا رُخ کشمیر کی طرف مڑگیا، جس کے پہئے صرف اجودھیا کا راستہ جانتے تھے۔ انہیں لگتا ہے، شاید اگلے 20برس امرناتھ یاتراؤں کے نام پر سیاست کرنے کا موقع فراہم کردیں گے۔ بھلے ہی پھر ہزاروں بے گناہوں کا خون بہے، کشمیر کو فوج کے حوالے کردیا جائے، کشمیریوں کے لےے ان کا گھر قیدخانہ بنادیا جائے، معصوم بچے کبھی بھوک اور پیاس سے تو کبھی پولس یا فوج کی گولی سے دم توڑ دیں، بیماروں کو اسپتال تک جانے کا موقع ملے نہ ملے، لیکن کرفیو تو ہونا ہی چاہےے۔ صرف یہی تو ایک طریقہ ہے ہمارے پاس یہ ثابت کرنے کے لےے کہ کشمیر ہمارا ہے۔ ہمیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ کشمیریوں نے تو یہ اس وقت کہا تھا کہ ہندوستان ہمارا ہے، جب پاکستان ہر قیمت پر اسے اپنے ساتھ جوڑنا چاہتا تھا اور شاید 80فیصد مسلم اکثریت والی ریاست ہونے کی وجہ سے ہندوستان کو بھی یہ امید نہیں رہی ہوگی اور شاید انہیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ اس امرناتھ گپھا کی کھوج بھی چرواہے نے 1850میں کی تھی۔ اس کے بعد ہی ان یاتراؤں کا سلسلہ شروع ہوا۔
آج سیاست نے ہمارے عقائد کو، ہمارے جذبات کو اپنے کھیل کا مہرہ بنالیا ہے۔ انہوں نے جب جو چاہا،کہہ دیا کہ ہمارا خدا فلاں جگہ بستا ہے اور ہم جوق در جوق چل دےے امرناتھ یاترا کے لےے۔ اب ہمیں رام جنم بھومی کا تقدس نہیں پکارتا، اس لےے کہ سیاست کو اب ضرورت ہے امرناتھ یاترا کی۔ اب آپ دعا کیجئے کہ خدا نہ کرے اس مکمل یاترا کے دوران کسی کی غلطی سے، کسی کے غلط ارادے سے، کسی کی سازش سے، کسی حکمت عملی کے تحت کوئی پتھر کسی امرناتھ یاترا کے مسافر کو، کسی پولس کے سپاہی کو یا کسی فوجی جوان کو نہ لگ جائے، ورنہ صرف اتنا ہی نہیں کہ کئی بے گناہوں کی جان جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا، پھر ان میں 9سال کا بچہ بھی ہوسکتا ہے اور0سال کا ضعیف بھی، بلکہ مذہب کے نام پر، آستھا کے نام پر، کشمیر کے اس پتھریلے راستے سے اٹھی یہ چنگاری پورے ملک میں آگ لگنے کے حالات بھی پیدا کرسکتی ہے۔ آپ کو یاد ہے نا رام مندر کے نام پر جو کچھ ہوا، گجرات میںجو کچھ ہوا، کیسے ایک گمنام سیاستداں کا قدگجرات فسادات کے بعد اپنے پارٹی کے بڑے بڑے نیتاؤں سے بھی بڑا ہوگیا، صرف اس لےے کہ ہلاکتوں کے معاملہ میں اس کی زیرقیادت جو کچھ ہوا، اس نے لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے فسادات کے دوران ہوئی ہلاکتوں کو اعدادوشمار ودرندگی کے معاملے میں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ بس یہ سب ذہن میں محفوظ ہے اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھئے۔ جان لیجئے کہ امرناتھ یاترا کے دوران اگر یہ تنگ نظر سیاست مذہب پر حاوی ہوگئی تو کشمیر کی وادیوں میں جذبات کو مشتعل کرنے والے نعروں کی گونج اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک تحفظ کے نام پر تعینات فوج کا ہر سپاہی ان کے رنگ میں نہ رنگ جائے۔ پی اے سی کا تجربہ آپ بھولے نہیں ہوں گے۔یہ خدشہ مجھے اس لےے بھی ہے، کیوں کہ ایسی اطلاعات آنے لگی ہیںکہ امرناتھ یاتریوں پر دہشت گرد حملہ کرسکتے ہیں۔ آج جس وقت میں یہ مضمون لکھ رہا تھا، یعنی0جولائی کی شام ساڑھے تین بجے ہندی نیوز ایجنسی بھاشا کے ذریعہ جاری کی گئی خبر کے مطابق سرکار نے امرناتھ تیرتھ یاتریوں کے تحفظ کے لےے تعینات کےے گئے حفاظتی دستوں کو ہائی الرٹ پر رہنے کے لےے کہا ہے۔ انہیں یہ احکامات جاری کےے گئے ہیں کہ پاکستان میں قیام پذیر دہشت گرد تیرتھ یاتریوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ اعلیٰ افسران کے مطابق خفیہ ایجنسیوں نے کشمیر میں سرگرم دہشت گردوں اور سرحد کے اس پار موجود اپنے آقاؤں کے درمیان کی جانے والی بات چیت کو ریکارڈ کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امرناتھ یاتریوں پر حملہ کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک سینئر افسر نے بتایا کہ حفاظتی دستوں کی توجہ چونکہ اس وقت وادی کے پرتشدد علاقوں پر ہے، اس لےے دہشت گرد موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں، لہٰذا ہم نے ان تمام حالات کے مدنظر سب کو ہائی الرٹ کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس تیرتھ یاترا کو پرامن طریقہ سے مکمل کرانے کے لےے بڑی تعداد میں حفاظتی دستوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے امرناتھ یاترا کے دوران حفاظتی انتظامات کو چاق وچوبند رکھنے کی غرض سے تقریباً 8ہزارکے آس پاس تو حفاظتی جوانوں کی تعیناتی کی ہے۔ جنوبی کشمیر میں ہمالیہ کی پہاڑیوں پر بنی شیوجی کی گپھا تک پورے راستہ پر حفاظتی دستے تعینات کردئے گئے ہیں۔ اس یاترا کے لےے ملک بھر سے اب تک تقریباًلاکھ0ہزار عقیدت مندوں کا رجسٹریشن کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ یہ یاترا 25اگست تک چلے گی۔ یہ خبرہمیں پوری طرح محتاط رہنے کی ہدایت دیتی ہے۔کب کس کی شرارت مصیبت بن جائے، کہنا مشکل ہے اور ہاں،اس معاملہ میں سرکاروں سے کوئی امید نہ رکھیں، مذہبی نعروں کے سامنے وہ خود کو بے بس پاتی ہےں اور خودسپردگی میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہےں۔
کانگریس کی طرف بھی بہت زیادہ امید بھری نظروں سے مت دیکھئے، اس کے لےے تقسیم وطن سے لے کر آج تک یہ طے کرنا بہت مشکل رہا ہے کہ وہ سیکولرزم پر گامزن رہے یا جب جب ضرورت پڑے فرقہ پرستی کا چولہ پہننے سے بھی گریز نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب اسے لگتا ہے کہ مذہبی جذبات کو ہوا دے کر بی جے پی فائدہ اٹھا سکتی ہے تو وہ اس سے کئی قدم آگے بڑھ جاتی ہے، پھر چاہے بابری مسجد کا تالا کھولنے کا سوال ہو یا چبوترے کا شلانیاس، اسے کوئی جھجھک نہیں ہوتی۔ آج کشمیر میں فوج کی تعیناتی بھی فرقہ پرست سیاستدانوں پر کانگریس کے سبقت لے جانے کا ایک طریقہ ہے، وہ خود کو امرناتھ یاتریوں کے تحفظ کے لےے بی جے پی سے زیادہ فکرمند ثابت کرنا چاہتی ہے۔
شاید کانگریس یا بی جے پی دونوں آج تک ہندوستانی عوام کی اکثریت کا مزاج نہیں سمجھ پائیں۔ ہندوستان کی0فیصد ہندو آبادی ہے، لیکن کیا کبھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندوتوـہندوراشٹر کے نعرے سے یہ اتنی متاثر ہوئی کہ ایک بار بھی بی جے پی کو اکیلے دم پر سرکار بنانے کا موقع دیا۔ اگر وی پی سنگھ نے اپنی کانگریس دشمنی کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرکے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے کی تاریخ ساز غلطی نہ کی ہوتی تو شاید نہ کبھی اس کا اقتدار میں آنے کا خواب پورا ہوتا اور نہ ہماری فوج و بیورو کریسی میں فرقہ پرستی کے جراثیم داخل ہوپاتے۔
کانگریس ہمیشہ سیکولرزم کی وجہ سے اقتدار میں آئی، اسے اگر کسی وقت اقتدار سے باہر ہونا پڑا یا دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑی تو اسی وقت اس نے ہندوکارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔ کاش اس ملک کے سیاستداں اس سچائی کو سمجھ لیتے کہ 80فیصد ہندو آبادی، ہندو راشٹر کا خواب دکھانے والے ہندوتوکا نعرہ دینے والے اور کشمیر سے کنیاکماری تک مذہبی جنون پیدا کرنے والے لال کرشن اڈوانی کی ملک کا وزیراعظم بننے کی حسرت پوری نہیں کرتی، اسی طرح 80فیصد مسلم آبادی والا کشمیر مسلمانوں کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کے ساتھ الحاق میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ کیا یہ تمام سچائیاں ہماری آنکھیں کھولنے کے لےے کافی نہیں ہیں۔ کیا یہ اس حقیقت کا واضح ثبوت نہیں ہے۔ کچھ تنگ نظر، فرقہ پرست لوگ ہوں تو ہوں، ہندوؤں یا مسلمانوں کی اکثریت سیکولر مزاج رکھتی ہے، وہ فرقہ پرست نہیں ہے۔
ہم نے انگریزی بولنا سیکھ لیا، ہم نے انگریزی لباس پہننا سیکھ لیا، ہم نے انگریزی تہذیب اور طرز زندگی کو اپنا لیا، کاش ہم نے انگریزوں کا سیاسی شعور بھی سمجھ لیا ہوتا۔ وہ لوگ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ملک ترقی کرتے ہیں اور عوام خوشحال ہیں۔ ان کے دل اتنے کشادہ ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کسی بھی مذہب کا شہری ان کے یہاں آکر بس سکتا ہے، اپنے مذہب پر گامزن رہ سکتا ہے اور ان کے ملک کی سیاست میں حصہ بھی لے سکتا ہے، مگر افسوس کہ ہم اپنے ملک میں رہ کر ایسا نہیں کرسکتے۔ یہاں ہمیں ووٹ دیتے یا ووٹ مانگتے وقت ہندویامسلمان ہونے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔
Mکشمیر کا تحفظ ہندوستان میں سیکولرزم کا تحفظ ہے۔ کشمیر کی خوشحالی ہندوستان کی خوشحالی ہے۔ کشمیر کو ہم اپنے ملک کے نقشے کی مناسبت سے اپنے سر کا تاج کہتے رہے ہیں، اسے جوتے تلے روند کر ہم اپنے ملک یا اپنے ملک کے عوام کے ساتھ وفا نہیں کررہے ہیں۔ یہی وقت ہے اس فرقہ پرست ذہنیت کو شکست دینے کا، جس نے ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے، ہندوستانی عوام کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے۔ بےشک کشمیر ہمارا ہے، مگر ہر کشمیری کی عزت و آبرو اور وقار کے تحفظ کے ساتھ۔ جو صرف زمین کو اپنا سمجھتے ہیں اس زمین پر رہنے والوں کو نہیں، وہ نہ سچے ہندوستانی ہیں اور نہ انسانیت دوست۔
کوئی تو مذہب ہے امریکہ، برطانیہ اور کناڈا جیسے ممالک کے حکمرانوں کا بھی دیگر مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں وہاں۔ کیا ان ممالک میں یا ان جیسے دیگر تمام ترقی یافتہ ملکوں میں جو جمہوری قدروں میں یقین رکھتے ہیں، الیکشن مذہب کی بنیادوں پر لڑا جاتا ہے؟ سیاست مذہب کے نام پر کی جاتی ہے۔ ہم ہندو ہیں، مسلمان ہیں، سکھ ہیں، جب تک ہندوستان میں رہتے ہیں یہی شناخت رہتی ہے ہماری، مگر جب ہم ہندوستان سے باہر رہتے ہیں تو صرف ہندوستانی ہوتے ہیں، کوئی نفرت نہیں مذہب کے نام پر۔ اگر ہم ان ممالک میں ملازمت کرتے ہیں یا سیاست میں حصہ لیتے ہیں، بھلے ہی کسی امیدوار کو ووٹ دینے کے لےے ہمیں اپنا مذہب یاد نہیں رہتا، لیکن ہندوستان میں ہم اپنے مذہب کو بھول نہیں پاتے اور ایسا بھی نہیں کہ سچ مچ ہم نے مذہب کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا ہے۔ ہم اس وقت مذہبی نہیں ہوتے ہیں، جب ہمیں مذہبی ہونا چاہےے۔ آج ہم ایمانداری سے اپنے عمل کا احاطہ کریں۔ ہم ہندو ہیں یا مسلمان ہیں، کیا ہم اسی طرح اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادتوں میں مصروف رہتے ہیں، جیسا کہ ہمیں بتایاگیا ہے۔ کیا ہمارا عمل ہمارے مذاہب کی تعلیمات کے مطابق ہوتا ہے۔
ہزاروں بے گناہوں کا خون بہا دیا گیا رام مندر کے نام پر۔ 18برس ہوگئے بابری مسجد کی شہادت کو۔ اس درمیان کتنی بڑی تعداد میں رام کے نام پر سیاست کرنے والے شری رام جنم بھومی کے درشن کے لےے اجودھیا جاتے رہے ہیں۔ کیا امرناتھ یاترا اور ماتاویشنودیوی کے مندروں کی طرح؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب فرقہ پرستی سیاست کو اجودھیا میں لاکھوں لوگوں کو مذہبی جنون کے ساتھ بلانے کی ضرورت تھی تو کبھی رام شلاپوجن کے نام پر اور کبھی ’’مندر وہیں بنائیں گے‘‘ جیسے نعروں کے ساتھ لاکھوں لوگ وہاں جمع ہوتے رہے۔ آج سیاست کو ایسا ہی ہجوم، ایسا ہی مذہبی جنون امرناتھ یاترا کے لےے چاہےے۔ ان لوگوں نے0برس گزار لےے اقتدار کی چاشنی کے ساتھ رام مندر کے نام پر سیاست کرکے۔ مرکز میں حکومت کا خواب پورا ہوا، کئی کئی ریاستوں میں سرکار بنانے کا موقع ملا۔ اب جبکہ رام کے نام پر سیاست کا بازار ٹھنڈا پڑگیا تو اس رتھ یاترا کا رُخ کشمیر کی طرف مڑگیا، جس کے پہئے صرف اجودھیا کا راستہ جانتے تھے۔ انہیں لگتا ہے، شاید اگلے 20برس امرناتھ یاتراؤں کے نام پر سیاست کرنے کا موقع فراہم کردیں گے۔ بھلے ہی پھر ہزاروں بے گناہوں کا خون بہے، کشمیر کو فوج کے حوالے کردیا جائے، کشمیریوں کے لےے ان کا گھر قیدخانہ بنادیا جائے، معصوم بچے کبھی بھوک اور پیاس سے تو کبھی پولس یا فوج کی گولی سے دم توڑ دیں، بیماروں کو اسپتال تک جانے کا موقع ملے نہ ملے، لیکن کرفیو تو ہونا ہی چاہےے۔ صرف یہی تو ایک طریقہ ہے ہمارے پاس یہ ثابت کرنے کے لےے کہ کشمیر ہمارا ہے۔ ہمیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ کشمیریوں نے تو یہ اس وقت کہا تھا کہ ہندوستان ہمارا ہے، جب پاکستان ہر قیمت پر اسے اپنے ساتھ جوڑنا چاہتا تھا اور شاید 80فیصد مسلم اکثریت والی ریاست ہونے کی وجہ سے ہندوستان کو بھی یہ امید نہیں رہی ہوگی اور شاید انہیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ اس امرناتھ گپھا کی کھوج بھی چرواہے نے 1850میں کی تھی۔ اس کے بعد ہی ان یاتراؤں کا سلسلہ شروع ہوا۔
آج سیاست نے ہمارے عقائد کو، ہمارے جذبات کو اپنے کھیل کا مہرہ بنالیا ہے۔ انہوں نے جب جو چاہا،کہہ دیا کہ ہمارا خدا فلاں جگہ بستا ہے اور ہم جوق در جوق چل دےے امرناتھ یاترا کے لےے۔ اب ہمیں رام جنم بھومی کا تقدس نہیں پکارتا، اس لےے کہ سیاست کو اب ضرورت ہے امرناتھ یاترا کی۔ اب آپ دعا کیجئے کہ خدا نہ کرے اس مکمل یاترا کے دوران کسی کی غلطی سے، کسی کے غلط ارادے سے، کسی کی سازش سے، کسی حکمت عملی کے تحت کوئی پتھر کسی امرناتھ یاترا کے مسافر کو، کسی پولس کے سپاہی کو یا کسی فوجی جوان کو نہ لگ جائے، ورنہ صرف اتنا ہی نہیں کہ کئی بے گناہوں کی جان جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا، پھر ان میں 9سال کا بچہ بھی ہوسکتا ہے اور0سال کا ضعیف بھی، بلکہ مذہب کے نام پر، آستھا کے نام پر، کشمیر کے اس پتھریلے راستے سے اٹھی یہ چنگاری پورے ملک میں آگ لگنے کے حالات بھی پیدا کرسکتی ہے۔ آپ کو یاد ہے نا رام مندر کے نام پر جو کچھ ہوا، گجرات میںجو کچھ ہوا، کیسے ایک گمنام سیاستداں کا قدگجرات فسادات کے بعد اپنے پارٹی کے بڑے بڑے نیتاؤں سے بھی بڑا ہوگیا، صرف اس لےے کہ ہلاکتوں کے معاملہ میں اس کی زیرقیادت جو کچھ ہوا، اس نے لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے فسادات کے دوران ہوئی ہلاکتوں کو اعدادوشمار ودرندگی کے معاملے میں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ بس یہ سب ذہن میں محفوظ ہے اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھئے۔ جان لیجئے کہ امرناتھ یاترا کے دوران اگر یہ تنگ نظر سیاست مذہب پر حاوی ہوگئی تو کشمیر کی وادیوں میں جذبات کو مشتعل کرنے والے نعروں کی گونج اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک تحفظ کے نام پر تعینات فوج کا ہر سپاہی ان کے رنگ میں نہ رنگ جائے۔ پی اے سی کا تجربہ آپ بھولے نہیں ہوں گے۔یہ خدشہ مجھے اس لےے بھی ہے، کیوں کہ ایسی اطلاعات آنے لگی ہیںکہ امرناتھ یاتریوں پر دہشت گرد حملہ کرسکتے ہیں۔ آج جس وقت میں یہ مضمون لکھ رہا تھا، یعنی0جولائی کی شام ساڑھے تین بجے ہندی نیوز ایجنسی بھاشا کے ذریعہ جاری کی گئی خبر کے مطابق سرکار نے امرناتھ تیرتھ یاتریوں کے تحفظ کے لےے تعینات کےے گئے حفاظتی دستوں کو ہائی الرٹ پر رہنے کے لےے کہا ہے۔ انہیں یہ احکامات جاری کےے گئے ہیں کہ پاکستان میں قیام پذیر دہشت گرد تیرتھ یاتریوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ اعلیٰ افسران کے مطابق خفیہ ایجنسیوں نے کشمیر میں سرگرم دہشت گردوں اور سرحد کے اس پار موجود اپنے آقاؤں کے درمیان کی جانے والی بات چیت کو ریکارڈ کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امرناتھ یاتریوں پر حملہ کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک سینئر افسر نے بتایا کہ حفاظتی دستوں کی توجہ چونکہ اس وقت وادی کے پرتشدد علاقوں پر ہے، اس لےے دہشت گرد موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں، لہٰذا ہم نے ان تمام حالات کے مدنظر سب کو ہائی الرٹ کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس تیرتھ یاترا کو پرامن طریقہ سے مکمل کرانے کے لےے بڑی تعداد میں حفاظتی دستوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے امرناتھ یاترا کے دوران حفاظتی انتظامات کو چاق وچوبند رکھنے کی غرض سے تقریباً 8ہزارکے آس پاس تو حفاظتی جوانوں کی تعیناتی کی ہے۔ جنوبی کشمیر میں ہمالیہ کی پہاڑیوں پر بنی شیوجی کی گپھا تک پورے راستہ پر حفاظتی دستے تعینات کردئے گئے ہیں۔ اس یاترا کے لےے ملک بھر سے اب تک تقریباًلاکھ0ہزار عقیدت مندوں کا رجسٹریشن کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ یہ یاترا 25اگست تک چلے گی۔ یہ خبرہمیں پوری طرح محتاط رہنے کی ہدایت دیتی ہے۔کب کس کی شرارت مصیبت بن جائے، کہنا مشکل ہے اور ہاں،اس معاملہ میں سرکاروں سے کوئی امید نہ رکھیں، مذہبی نعروں کے سامنے وہ خود کو بے بس پاتی ہےں اور خودسپردگی میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہےں۔
کانگریس کی طرف بھی بہت زیادہ امید بھری نظروں سے مت دیکھئے، اس کے لےے تقسیم وطن سے لے کر آج تک یہ طے کرنا بہت مشکل رہا ہے کہ وہ سیکولرزم پر گامزن رہے یا جب جب ضرورت پڑے فرقہ پرستی کا چولہ پہننے سے بھی گریز نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب اسے لگتا ہے کہ مذہبی جذبات کو ہوا دے کر بی جے پی فائدہ اٹھا سکتی ہے تو وہ اس سے کئی قدم آگے بڑھ جاتی ہے، پھر چاہے بابری مسجد کا تالا کھولنے کا سوال ہو یا چبوترے کا شلانیاس، اسے کوئی جھجھک نہیں ہوتی۔ آج کشمیر میں فوج کی تعیناتی بھی فرقہ پرست سیاستدانوں پر کانگریس کے سبقت لے جانے کا ایک طریقہ ہے، وہ خود کو امرناتھ یاتریوں کے تحفظ کے لےے بی جے پی سے زیادہ فکرمند ثابت کرنا چاہتی ہے۔
شاید کانگریس یا بی جے پی دونوں آج تک ہندوستانی عوام کی اکثریت کا مزاج نہیں سمجھ پائیں۔ ہندوستان کی0فیصد ہندو آبادی ہے، لیکن کیا کبھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندوتوـہندوراشٹر کے نعرے سے یہ اتنی متاثر ہوئی کہ ایک بار بھی بی جے پی کو اکیلے دم پر سرکار بنانے کا موقع دیا۔ اگر وی پی سنگھ نے اپنی کانگریس دشمنی کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرکے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے کی تاریخ ساز غلطی نہ کی ہوتی تو شاید نہ کبھی اس کا اقتدار میں آنے کا خواب پورا ہوتا اور نہ ہماری فوج و بیورو کریسی میں فرقہ پرستی کے جراثیم داخل ہوپاتے۔
کانگریس ہمیشہ سیکولرزم کی وجہ سے اقتدار میں آئی، اسے اگر کسی وقت اقتدار سے باہر ہونا پڑا یا دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑی تو اسی وقت اس نے ہندوکارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔ کاش اس ملک کے سیاستداں اس سچائی کو سمجھ لیتے کہ 80فیصد ہندو آبادی، ہندو راشٹر کا خواب دکھانے والے ہندوتوکا نعرہ دینے والے اور کشمیر سے کنیاکماری تک مذہبی جنون پیدا کرنے والے لال کرشن اڈوانی کی ملک کا وزیراعظم بننے کی حسرت پوری نہیں کرتی، اسی طرح 80فیصد مسلم آبادی والا کشمیر مسلمانوں کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کے ساتھ الحاق میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ کیا یہ تمام سچائیاں ہماری آنکھیں کھولنے کے لےے کافی نہیں ہیں۔ کیا یہ اس حقیقت کا واضح ثبوت نہیں ہے۔ کچھ تنگ نظر، فرقہ پرست لوگ ہوں تو ہوں، ہندوؤں یا مسلمانوں کی اکثریت سیکولر مزاج رکھتی ہے، وہ فرقہ پرست نہیں ہے۔
ہم نے انگریزی بولنا سیکھ لیا، ہم نے انگریزی لباس پہننا سیکھ لیا، ہم نے انگریزی تہذیب اور طرز زندگی کو اپنا لیا، کاش ہم نے انگریزوں کا سیاسی شعور بھی سمجھ لیا ہوتا۔ وہ لوگ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ملک ترقی کرتے ہیں اور عوام خوشحال ہیں۔ ان کے دل اتنے کشادہ ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کسی بھی مذہب کا شہری ان کے یہاں آکر بس سکتا ہے، اپنے مذہب پر گامزن رہ سکتا ہے اور ان کے ملک کی سیاست میں حصہ بھی لے سکتا ہے، مگر افسوس کہ ہم اپنے ملک میں رہ کر ایسا نہیں کرسکتے۔ یہاں ہمیں ووٹ دیتے یا ووٹ مانگتے وقت ہندویامسلمان ہونے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔
Mکشمیر کا تحفظ ہندوستان میں سیکولرزم کا تحفظ ہے۔ کشمیر کی خوشحالی ہندوستان کی خوشحالی ہے۔ کشمیر کو ہم اپنے ملک کے نقشے کی مناسبت سے اپنے سر کا تاج کہتے رہے ہیں، اسے جوتے تلے روند کر ہم اپنے ملک یا اپنے ملک کے عوام کے ساتھ وفا نہیں کررہے ہیں۔ یہی وقت ہے اس فرقہ پرست ذہنیت کو شکست دینے کا، جس نے ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے، ہندوستانی عوام کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے۔ بےشک کشمیر ہمارا ہے، مگر ہر کشمیری کی عزت و آبرو اور وقار کے تحفظ کے ساتھ۔ جو صرف زمین کو اپنا سمجھتے ہیں اس زمین پر رہنے والوں کو نہیں، وہ نہ سچے ہندوستانی ہیں اور نہ انسانیت دوست۔
No comments:
Post a Comment