=میں نے اپنے کل کے مضمون میں مہاراجا ہری سنگھ کے ذریعہ سردار پٹیل کے نام لکھے گئے خط کے ان نکات پر بات کرنا شروع کی تھی، جنہیں انڈرلائن کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے میں نے اس خط کے لکھے جانے کی تاریخ 3جنوری948، یعنی مہاتماگاندھی جی کے قتل کے ٹھیک اگلے روز سامنے رکھا اور اس دن کے حالات کو بھی جو مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب میں درج کئے ہیں۔ اس کے بعد متعدد ایسے نکات ہیں، جنہیں زیربحث لایا جاسکتا ہے، لیکن میں گفتگو کو بہت طول نہیں دینا چاہتا، اس لےے صرف ان نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کررہا ہوں، جو انتہائی اہم ہیں۔مثلاً
مہاراجا ہری سنگھ نے اپنے مضمون میں لکھا کہ
!نہ صرف مجھے بلکہ تمام ہندو اور سکھوں کے ساتھ ریاست کے وہ لوگ جو نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھتے ہیں، کے لئے غیر یقینی حالات اور الجھاؤ پیدا ہورہاہے۔ یہ جذبات مضبوط ہونے کا جواز حاصل کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نقصان دہ فیصلہ کرے گی اور آخر کارریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو جائے گا۔ ایسے میں ہندو اور سکھ عوام نے ریاست سے باہر نکلنا شروع کردیا ہے۔…… نیشنل کانفرنس کے لیڈران بھی ایسا محسوس کرتے ہیں کہ آخرکار سلامتی کونسل کے فیصلہ کو قبول کرنے میں ان کو مایوسی ہوگی اور یہ ان کے لےے کسی بڑے حادثے سے کم نہیں ہوگا۔
مہاراجا ہری سنگھ کے خط کی مذکورہ بالا سطریں جنہیں ایک بار پھر میں نے قارئین کے سامنے رکھا، دو خاص پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
پہلا یہ کہ اقوام متحدہ کے فیصلہ کو لے کر اس وقت کی صورتحال یہ تھی کہ مہاراجا ہری سنگھ، ریاست کشمیر کے ہندو اور سکھ و نیشنل کانفرنس کے لیڈران ایسا محسوس کرتے تھے کہ فیصلہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی شکل میں سامنے آئے گا۔ اس فیصلہ کو لے کرصرف مہاراجا ہری سنگھ ہی پریشان نہیں تھے، بلکہ ریاست جموںوکشمیر کے عوام بھی پریشان تھے اور پریشانی کا عالم یہ تھا کہ ریاست کے ہندو اور سکھ وادی چھوڑ کر جانے لگے تھے۔ اتنا ہی نہیں اس خط کے مطابق نیشنل کانفرنس کے لیڈران بھی اس فیصلے کو لے کر مایوسی کا اظہار کررہے تھے اور اسے کسی بڑے حادثہ کی شکل میں دیکھ رہے تھے۔ اگر ہم 1989کے بعد کے حالات پر غور کریں تو بڑی تعداد میں ریاست کے ہندو کشمیر چھوڑنے کے لےے مجبور ہوئے اور اس کی سیدھی ذمہ داری کشمیر کے مسلمانوں پر عائد کی گئی۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کے انتہاپسندوں پر عائد کی گئی۔ میں ان کے بچاؤ میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا، لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ تقسیم وطن کے بعد سے ہی جموںوکشمیر خاص طور پر کشمیر کے ہندواور سکھوں نے ریاست کو چھوڑنے کا ذہن بنالیا تھا اور اس خط کی عبارت سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے فیصلہ کے قیاس کو لے کر آبادی کی اس منتقلی میں اور تیزی آئی تھی، کیوں کہ انہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جموں وکشمیر کا الحاق پاکستان میں ہوسکتا ہے، لہٰذا آج یہ الزام عائد کرنا قطعاً غیرمناسب ہوگا کہ ریاست کے ہندوؤں کو یا سکھوں کو وادی چھوڑنے کے لےے مسلمانوں نے مجبور کیا، بلکہ تقسیم وطن کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، ان میں ہندو ہوں یا مسلمان، انہیں یہی زیادہ مناسب لگا کہ جہاں وہ انتہائی اقلیت میں ہیں، وہ علاقہ چھوڑ کر اس طرف منتقل ہوجائیں، جہاں ان کی اپنی برادری یا مذہب کے لوگ زیادہ ہیں۔
دوسرا جو قابل غور پہلو ہے، وہ یہ کہ نیشنل کانفرنس کے لیڈران پاکستان کے ساتھ الحاق کے تصور سے ہی مایوس تھے، یعنی وہ اسے ناپسند کرتے تھے۔ اس وقت نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور ریاست کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ تھے اور آج جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ ان کے پوتے عمرعبداللہ ہیں، یعنی نیشنل کانفرنس کے لیڈران اس وقت بھی ہندوستان کے ساتھ ہی رہنا چاہتے تھے اور آج بھی۔ اب رہا سوال کشمیری عوام کا تو آج کی بدلی ہوئی صورتحال کی جو سچائی ہے، اس پر گفتگو اس مضمون کی آئندہ قسطوں میں کی جائے گی، لیکن اس وقت کشمیری عوام یعنی مسلمانوں کا فیصلہ بھی وہی تھا جو نیشنل کانفرنس کے لیڈران کاتھا، یعنی وہ ہندوستان کے ساتھ ہی رہنا چاہتے تھے، پاکستان کے ساتھ الحاق کا تصور بھی انہیں گوارا نہیں تھا۔ میں اس پر خصوصی توجہ اس لےے دلانا چاہتا ہوں کہ آج اگر کچھ علیحدگی پسند عناصر سرگرم ہیں اور وہ ہندوستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو اسے سب کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ ہی توجہ اس بات پر بھی دینی ہوگی کہ آخر ان کا علیحدگی پسندانہ ذہن کیوں بنا۔ جب ہم نکسلائٹ موومنٹ کی وجوہات پر غور کرنے کا ذہن رکھتے ہیں تو کیا ہمیں کشمیر کے موجودہ حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس انتہاپسندانہ مزاج کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہےے۔
مہاراجا ہری سنگھ اپنے اسی خط میں آگے لکھتے ہیں :
اس معاملے میں میری پوزیشن تشویش ناک ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں یقینی طور پر ہندوستان کے ساتھ الحاق کروں گا، اس خیال کے ساتھ کہ ہندوستان مجھے مصیبت میں نہیں چھوڑے گا اور یہ کہ میری پوزیشن اور میرے شاہی مراتب محفوظ رہےں گے۔ ایسا اس لئے کیونکہ داخلی انتظام کے معاملے میں میں نے حکومت ہند کے مشورہ کو منظور کیا ہے۔
اس تاریخی خط کی مذکورہ عبارت واضح طور پر یہ اشارہ کرتی ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے ذاتی مفادات کے پیش نظر اس وقت حکومت ہند کے ساتھ جموںوکشمیر کے عوام کی قیمت پر ایک سودا کیا تھا اور اس سودے بازی میں جہاں جموںوکشمیر کا الحاق ہندوستان کے حق میں کرنے کا فیصلہ تھا، وہیں دوسری طرف حکومت ہند کی جانب سے ان کے شاہی مرتبہ کا تحفظ بھی مانگا تھا، یعنی اس الحاق میں انہیں اس بات کی قطعاً فکر نہیں تھی کہ ریاست کے عوام کیا چاہتے ہےں؟ ان کی خواہش کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ قبائلیوں کی جانب سے کشمیر پر کئے گئے حملہ کو لے کر ریاست کے عوام خود پاکستان سے بدظن تھے اور اس کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے تھے، اس لےے کہ وہ مانتے تھے کہ کشمیر پر قبائلیوں کا حملہ پاکستان کی شہ پر ہے اور انہیں پاکستان سے مدد حاصل ہورہی ہے، لیکن ان سب کے قطع نظر خود مہاراجا ہری سنگھ کے اپنے ہی خط سے ان کی نیت واضح ہورہی ہے، جو خط ملک کی آزادی یا تقسیم وطن کے محض 5ماہ5دن بعد ہی لکھا گیا تھا۔
اپنے اس خط میں مہاراجا ہری سنگھ آگے لکھتے ہیں:
کئی بار مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے عمل کو واپس لے لینا چاہئے۔ہندوستانی یونین نے عبوری طور پر الحاق کو قبول کیا ہے اور اگر یونین ہمارے علاقے کو ہمیں واپس نہیں کرسکتی ہے اور سلامتی کونسل کے فیصلے کو قبول کرنے جارہی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں پاکستان کو منتقل کیا جاسکتا ہے تو ایسے میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے پر قائم رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔
میرے پاس ایک ممکن متبادل ہے اور وہ یہ کہ الحاق کے فیصلے کو واپس لے لیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کے ریفرنس کا معاملہ ختم ہوجائے کیونکہ ہندوستانی یونین کو اس کارروائی کو جاری رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے، اگر الحاق کے فیصلے کو واپس لے لیا جائے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ریاست الحاق سے پہلے کے حالات میں پہنچ جائے گی۔
آخری چند سطروں کو اس خط کے جواب میں رد کرتے ہوئے ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے جو خط لکھا تھا، وہ اپنے اس مسلسل مضمون کی آئندہ قسطوں میں شامل اشاعت کیا جائے گا۔ فی الحال ان سطروں کا حوالہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ مسلسل تذبذب کے عالم میں تھے اور وہ صرف اپنے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے پر بھی نظرثانی کررہے تھے اور ہندوستان کی حکومت کے ساتھ انہوں نے ان حالات میں جو الحاق کا فیصلہ کیا تھا، وہ بھی کچھ شرطوں پر مبنی تھا۔ اگر ریاست کے عوام کے مفادات پر اس وقت بحث نہ کریں تو واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کا بنیادی مقصد اپنی حکمرانی کا تحفظ تھا اور جب جب انہیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ حکومت ہند ان کی حکمرانی کا تحفظ نہیں کرپارہی ہے یا ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے کہ ان کی حکمرانی خطرے میں پڑجائے تو وہ کسی بھی حد تک جانے کے لےے تیار تھے۔
مہاراجاہری سنگھ کے اس خط کی آخری چند سطریں جنہیں میں نے نمایاں طور پر سامنے رکھا تھا، مندرجہ ذیل ہےں:
میں اپنی موجودہ زندگی سے بیزار ہوگیا ہوں اور یہ میرے لئے بہتر ہوگا کہ لڑتے ہوئے اپنی جان نچھاور کردوں بہ نسبت اس کے کہ اپنے لوگوں کی پریشانیوں کو بے یارو مددگار دیکھتا رہوں۔
مہاراجا ہری سنگھ کی مایوسی ان سطروں میں صاف طور پر نظر آتی ہے۔ اگر ان کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ اپنے حقوق کا تحفظ نہ ہونے کی صورت میں وہ خودکشی تک پر آمادہ تھے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آج اس ریاست کے عوام جس راستہ پر چل پڑے ہےں، اس صورتحال میں ان کے پاس کتنے متبادل موجود ہیں، یعنی جس طرح حالات سازگار نظر نہ آنے پر وہ کسی بھی حد تک جانے کے لےے تیار تھے، اسی طرح آج اس ریاست کے عوام حالات اپنے تئیں سازگار نہ دیکھ کر کسی بھی حد تک جاتے نظر آرہے ہےں۔
ہمیں اس تاریخی دستاویز کو سامنے رکھنے کی ضرورت صرف اس لےے محسوس ہوئی، تاکہ ہم ملک کے ذمہ داران کو یہ باور کراسکیں، ان سے یہ درخواست کرسکیں کہ کشمیر کے حالات صرف آج یا گزشتہ چند برسوں سے خراب نہیں ہیں، بلکہ کم و بیش تقسیم وطن کے بعد سے ہی انہیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہیں بار بار تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ پاکستان کے مقابلے ہندوستان کو ترجیح دی تھی، آج اگر ان میں سے کچھ لوگ بھی اس سے الگ ہٹ کر سوچنے لگے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اپنے من کے موافق حالات نہ دیکھ کر نظرثانی کا فیصلہ تو مہاراجا ہری سنگھ نے بھی کیا تھا۔ کیا ہم نے انہیں کسی پل بھی اس زمرے میں رکھا ہے، جس زمرے میں ہم آج نظرثانی کی بات کرنے والوں کو رکھتے ہیں؟ یہ آخری چند جملے لکھنے کی وجہ صرف اتنی ہے کہ تمام صورتحال پر ہمدردی اور سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے، نفرت کا جواب نفرت مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا۔ بہرحال مسئلہ کشمیر پر ابھی اور بہت کچھ لکھنا اور پیش کرنا باقی ہے، چونکہ مہاراجاہری سنگھ کے اس خط کی عبارت اور ہمارے تبصرہ کے بعد یہ لازمی ہے کہ ہم سردار پٹیل کی جانب سے دئے گئے جواب کا جزبھی قارئین کے سامنے پیش کریں، جس کا حوالہ ہم نے آج کے اس مضمون میں دیا ہے۔
اس خط کا جواب سردار پٹیل نے 9فروری948کو دیا اور اپنے جواب میں لکھا:
’مجھے اندازہ ہے کہ آپ کس قدر تشویشناک وقت سے گزر رہے ہیں۔ میں آپ کو اطمینان دلانا چاہوں گا، میں بھی کشمیر کے حالات اور جو کچھ اقوام متحدہ میں ہورہا ہے، اس پر کم پریشان نہیں ہوں، لیکن جو بھی موجودہ حالات ہوں، ناامیدی کے مشورے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔‘
اپنے اس مختصر سے جواب میں سردار پٹیل نے صرف ہلکی سی تسلی دے کر بات ختم کردی۔ ان تمام نکات پر کوئی معقول جواب نہیں دیا، جو مہاراجا ہری سنگھ نے سامنے رکھے تھے۔ ہماری تحقیق جاری ہے، اگر کہیں اس سے زیادہ تفصیل حاصل ہوتی ہے تو وہ شامل اشاعت کی جائے گی۔
……………
مہاراجا ہری سنگھ نے اپنے مضمون میں لکھا کہ
!نہ صرف مجھے بلکہ تمام ہندو اور سکھوں کے ساتھ ریاست کے وہ لوگ جو نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھتے ہیں، کے لئے غیر یقینی حالات اور الجھاؤ پیدا ہورہاہے۔ یہ جذبات مضبوط ہونے کا جواز حاصل کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نقصان دہ فیصلہ کرے گی اور آخر کارریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو جائے گا۔ ایسے میں ہندو اور سکھ عوام نے ریاست سے باہر نکلنا شروع کردیا ہے۔…… نیشنل کانفرنس کے لیڈران بھی ایسا محسوس کرتے ہیں کہ آخرکار سلامتی کونسل کے فیصلہ کو قبول کرنے میں ان کو مایوسی ہوگی اور یہ ان کے لےے کسی بڑے حادثے سے کم نہیں ہوگا۔
مہاراجا ہری سنگھ کے خط کی مذکورہ بالا سطریں جنہیں ایک بار پھر میں نے قارئین کے سامنے رکھا، دو خاص پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
پہلا یہ کہ اقوام متحدہ کے فیصلہ کو لے کر اس وقت کی صورتحال یہ تھی کہ مہاراجا ہری سنگھ، ریاست کشمیر کے ہندو اور سکھ و نیشنل کانفرنس کے لیڈران ایسا محسوس کرتے تھے کہ فیصلہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی شکل میں سامنے آئے گا۔ اس فیصلہ کو لے کرصرف مہاراجا ہری سنگھ ہی پریشان نہیں تھے، بلکہ ریاست جموںوکشمیر کے عوام بھی پریشان تھے اور پریشانی کا عالم یہ تھا کہ ریاست کے ہندو اور سکھ وادی چھوڑ کر جانے لگے تھے۔ اتنا ہی نہیں اس خط کے مطابق نیشنل کانفرنس کے لیڈران بھی اس فیصلے کو لے کر مایوسی کا اظہار کررہے تھے اور اسے کسی بڑے حادثہ کی شکل میں دیکھ رہے تھے۔ اگر ہم 1989کے بعد کے حالات پر غور کریں تو بڑی تعداد میں ریاست کے ہندو کشمیر چھوڑنے کے لےے مجبور ہوئے اور اس کی سیدھی ذمہ داری کشمیر کے مسلمانوں پر عائد کی گئی۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کے انتہاپسندوں پر عائد کی گئی۔ میں ان کے بچاؤ میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا، لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ تقسیم وطن کے بعد سے ہی جموںوکشمیر خاص طور پر کشمیر کے ہندواور سکھوں نے ریاست کو چھوڑنے کا ذہن بنالیا تھا اور اس خط کی عبارت سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے فیصلہ کے قیاس کو لے کر آبادی کی اس منتقلی میں اور تیزی آئی تھی، کیوں کہ انہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جموں وکشمیر کا الحاق پاکستان میں ہوسکتا ہے، لہٰذا آج یہ الزام عائد کرنا قطعاً غیرمناسب ہوگا کہ ریاست کے ہندوؤں کو یا سکھوں کو وادی چھوڑنے کے لےے مسلمانوں نے مجبور کیا، بلکہ تقسیم وطن کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، ان میں ہندو ہوں یا مسلمان، انہیں یہی زیادہ مناسب لگا کہ جہاں وہ انتہائی اقلیت میں ہیں، وہ علاقہ چھوڑ کر اس طرف منتقل ہوجائیں، جہاں ان کی اپنی برادری یا مذہب کے لوگ زیادہ ہیں۔
دوسرا جو قابل غور پہلو ہے، وہ یہ کہ نیشنل کانفرنس کے لیڈران پاکستان کے ساتھ الحاق کے تصور سے ہی مایوس تھے، یعنی وہ اسے ناپسند کرتے تھے۔ اس وقت نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور ریاست کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ تھے اور آج جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ ان کے پوتے عمرعبداللہ ہیں، یعنی نیشنل کانفرنس کے لیڈران اس وقت بھی ہندوستان کے ساتھ ہی رہنا چاہتے تھے اور آج بھی۔ اب رہا سوال کشمیری عوام کا تو آج کی بدلی ہوئی صورتحال کی جو سچائی ہے، اس پر گفتگو اس مضمون کی آئندہ قسطوں میں کی جائے گی، لیکن اس وقت کشمیری عوام یعنی مسلمانوں کا فیصلہ بھی وہی تھا جو نیشنل کانفرنس کے لیڈران کاتھا، یعنی وہ ہندوستان کے ساتھ ہی رہنا چاہتے تھے، پاکستان کے ساتھ الحاق کا تصور بھی انہیں گوارا نہیں تھا۔ میں اس پر خصوصی توجہ اس لےے دلانا چاہتا ہوں کہ آج اگر کچھ علیحدگی پسند عناصر سرگرم ہیں اور وہ ہندوستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو اسے سب کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ ہی توجہ اس بات پر بھی دینی ہوگی کہ آخر ان کا علیحدگی پسندانہ ذہن کیوں بنا۔ جب ہم نکسلائٹ موومنٹ کی وجوہات پر غور کرنے کا ذہن رکھتے ہیں تو کیا ہمیں کشمیر کے موجودہ حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس انتہاپسندانہ مزاج کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہےے۔
مہاراجا ہری سنگھ اپنے اسی خط میں آگے لکھتے ہیں :
اس معاملے میں میری پوزیشن تشویش ناک ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں یقینی طور پر ہندوستان کے ساتھ الحاق کروں گا، اس خیال کے ساتھ کہ ہندوستان مجھے مصیبت میں نہیں چھوڑے گا اور یہ کہ میری پوزیشن اور میرے شاہی مراتب محفوظ رہےں گے۔ ایسا اس لئے کیونکہ داخلی انتظام کے معاملے میں میں نے حکومت ہند کے مشورہ کو منظور کیا ہے۔
اس تاریخی خط کی مذکورہ عبارت واضح طور پر یہ اشارہ کرتی ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے ذاتی مفادات کے پیش نظر اس وقت حکومت ہند کے ساتھ جموںوکشمیر کے عوام کی قیمت پر ایک سودا کیا تھا اور اس سودے بازی میں جہاں جموںوکشمیر کا الحاق ہندوستان کے حق میں کرنے کا فیصلہ تھا، وہیں دوسری طرف حکومت ہند کی جانب سے ان کے شاہی مرتبہ کا تحفظ بھی مانگا تھا، یعنی اس الحاق میں انہیں اس بات کی قطعاً فکر نہیں تھی کہ ریاست کے عوام کیا چاہتے ہےں؟ ان کی خواہش کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ قبائلیوں کی جانب سے کشمیر پر کئے گئے حملہ کو لے کر ریاست کے عوام خود پاکستان سے بدظن تھے اور اس کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے تھے، اس لےے کہ وہ مانتے تھے کہ کشمیر پر قبائلیوں کا حملہ پاکستان کی شہ پر ہے اور انہیں پاکستان سے مدد حاصل ہورہی ہے، لیکن ان سب کے قطع نظر خود مہاراجا ہری سنگھ کے اپنے ہی خط سے ان کی نیت واضح ہورہی ہے، جو خط ملک کی آزادی یا تقسیم وطن کے محض 5ماہ5دن بعد ہی لکھا گیا تھا۔
اپنے اس خط میں مہاراجا ہری سنگھ آگے لکھتے ہیں:
کئی بار مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے عمل کو واپس لے لینا چاہئے۔ہندوستانی یونین نے عبوری طور پر الحاق کو قبول کیا ہے اور اگر یونین ہمارے علاقے کو ہمیں واپس نہیں کرسکتی ہے اور سلامتی کونسل کے فیصلے کو قبول کرنے جارہی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں پاکستان کو منتقل کیا جاسکتا ہے تو ایسے میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے پر قائم رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔
میرے پاس ایک ممکن متبادل ہے اور وہ یہ کہ الحاق کے فیصلے کو واپس لے لیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کے ریفرنس کا معاملہ ختم ہوجائے کیونکہ ہندوستانی یونین کو اس کارروائی کو جاری رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے، اگر الحاق کے فیصلے کو واپس لے لیا جائے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ریاست الحاق سے پہلے کے حالات میں پہنچ جائے گی۔
آخری چند سطروں کو اس خط کے جواب میں رد کرتے ہوئے ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے جو خط لکھا تھا، وہ اپنے اس مسلسل مضمون کی آئندہ قسطوں میں شامل اشاعت کیا جائے گا۔ فی الحال ان سطروں کا حوالہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ مسلسل تذبذب کے عالم میں تھے اور وہ صرف اپنے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے پر بھی نظرثانی کررہے تھے اور ہندوستان کی حکومت کے ساتھ انہوں نے ان حالات میں جو الحاق کا فیصلہ کیا تھا، وہ بھی کچھ شرطوں پر مبنی تھا۔ اگر ریاست کے عوام کے مفادات پر اس وقت بحث نہ کریں تو واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کا بنیادی مقصد اپنی حکمرانی کا تحفظ تھا اور جب جب انہیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ حکومت ہند ان کی حکمرانی کا تحفظ نہیں کرپارہی ہے یا ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے کہ ان کی حکمرانی خطرے میں پڑجائے تو وہ کسی بھی حد تک جانے کے لےے تیار تھے۔
مہاراجاہری سنگھ کے اس خط کی آخری چند سطریں جنہیں میں نے نمایاں طور پر سامنے رکھا تھا، مندرجہ ذیل ہےں:
میں اپنی موجودہ زندگی سے بیزار ہوگیا ہوں اور یہ میرے لئے بہتر ہوگا کہ لڑتے ہوئے اپنی جان نچھاور کردوں بہ نسبت اس کے کہ اپنے لوگوں کی پریشانیوں کو بے یارو مددگار دیکھتا رہوں۔
مہاراجا ہری سنگھ کی مایوسی ان سطروں میں صاف طور پر نظر آتی ہے۔ اگر ان کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ اپنے حقوق کا تحفظ نہ ہونے کی صورت میں وہ خودکشی تک پر آمادہ تھے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آج اس ریاست کے عوام جس راستہ پر چل پڑے ہےں، اس صورتحال میں ان کے پاس کتنے متبادل موجود ہیں، یعنی جس طرح حالات سازگار نظر نہ آنے پر وہ کسی بھی حد تک جانے کے لےے تیار تھے، اسی طرح آج اس ریاست کے عوام حالات اپنے تئیں سازگار نہ دیکھ کر کسی بھی حد تک جاتے نظر آرہے ہےں۔
ہمیں اس تاریخی دستاویز کو سامنے رکھنے کی ضرورت صرف اس لےے محسوس ہوئی، تاکہ ہم ملک کے ذمہ داران کو یہ باور کراسکیں، ان سے یہ درخواست کرسکیں کہ کشمیر کے حالات صرف آج یا گزشتہ چند برسوں سے خراب نہیں ہیں، بلکہ کم و بیش تقسیم وطن کے بعد سے ہی انہیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہیں بار بار تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ پاکستان کے مقابلے ہندوستان کو ترجیح دی تھی، آج اگر ان میں سے کچھ لوگ بھی اس سے الگ ہٹ کر سوچنے لگے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اپنے من کے موافق حالات نہ دیکھ کر نظرثانی کا فیصلہ تو مہاراجا ہری سنگھ نے بھی کیا تھا۔ کیا ہم نے انہیں کسی پل بھی اس زمرے میں رکھا ہے، جس زمرے میں ہم آج نظرثانی کی بات کرنے والوں کو رکھتے ہیں؟ یہ آخری چند جملے لکھنے کی وجہ صرف اتنی ہے کہ تمام صورتحال پر ہمدردی اور سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے، نفرت کا جواب نفرت مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا۔ بہرحال مسئلہ کشمیر پر ابھی اور بہت کچھ لکھنا اور پیش کرنا باقی ہے، چونکہ مہاراجاہری سنگھ کے اس خط کی عبارت اور ہمارے تبصرہ کے بعد یہ لازمی ہے کہ ہم سردار پٹیل کی جانب سے دئے گئے جواب کا جزبھی قارئین کے سامنے پیش کریں، جس کا حوالہ ہم نے آج کے اس مضمون میں دیا ہے۔
اس خط کا جواب سردار پٹیل نے 9فروری948کو دیا اور اپنے جواب میں لکھا:
’مجھے اندازہ ہے کہ آپ کس قدر تشویشناک وقت سے گزر رہے ہیں۔ میں آپ کو اطمینان دلانا چاہوں گا، میں بھی کشمیر کے حالات اور جو کچھ اقوام متحدہ میں ہورہا ہے، اس پر کم پریشان نہیں ہوں، لیکن جو بھی موجودہ حالات ہوں، ناامیدی کے مشورے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔‘
اپنے اس مختصر سے جواب میں سردار پٹیل نے صرف ہلکی سی تسلی دے کر بات ختم کردی۔ ان تمام نکات پر کوئی معقول جواب نہیں دیا، جو مہاراجا ہری سنگھ نے سامنے رکھے تھے۔ ہماری تحقیق جاری ہے، اگر کہیں اس سے زیادہ تفصیل حاصل ہوتی ہے تو وہ شامل اشاعت کی جائے گی۔
……………
No comments:
Post a Comment