Wednesday, July 14, 2010

30

جنوری کو مہاتماگاندھی کا قتل اور31جنوری کو یہ خط

عزیز برنی

پہلے مہاراجا ہری سنگھ کے ذریعہ سردار پٹیل کو لکھے گئے خط کا باقی حصہ، اس کے بعد ان نکات پر تبصرہ جنہیں انڈرلائن کیا گیا ہے۔
اوپر ذکر کئے گئے حالات میں میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے کہ میں کون سے اقدام کرسکتا ہوں، جس سے حالات درست ہو جائیں۔
کئی بار مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے عمل کو واپس لے لینا چاہئے۔ہندوستانی یونین نے عبوری طور پر الحاق کو قبول کیا ہے اور اگر یونین ہمارے علاقے کو ہمیں واپس نہیں کرسکتی ہے اور سلامتی کونسل کے فیصلے کو قبول کرنے جارہی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں پاکستان کو منتقل کیا جاسکتا ہے تو ایسے میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے پر قائم رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔ کچھ وقت کے لئے یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں لیکن یہ بے معنی ہے کیونکہ آخر کاراس سے شاہی سلسلے کا خاتمہ ہوگا اور ریاست میںہندو اور سکھوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔ میرے پاس ایک ممکن متبادل ہے اور وہ یہ کہ الحاق کے فیصلے کو واپس لے لیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کے ریفرنس کا معاملہ ختم ہوجائے کیونکہ ہندوستانی یونین کو اس کارروائی کو جاری رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے، اگر الحاق کے فیصلے کو واپس لے لیا جائے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ریاست الحاق سے پہلے کے حالات میں پہنچ جائے گی۔ تاہم ان حالات میں ہندوستانی فوج کو لے کر دشواری ہوگی… اسے رضا کارانہ طور پر ریاست کی مدد کرنی ہوگی۔ میں نجی طور پر ریاست کی مدد کے لئے اپنی اور ہندوستانی افواج کی کمانڈ اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے تیار ہوں۔ میں خود فوج کی قیادت کرنے کے لئے تیار ہوں اور ہندوستان اگر راضی ہو تو ان کی فوج کو بھی قیادت دینے کے لئے تیار ہوں، میں اپنے ملک کو آپ کے کسی بھی جنرل سے زیادہ بہتر جانتا ہوں اور آپ کے جنرل کو کئی ماہ یا سال لگیںگے جاننے میں اور جرأت مندانہ انداز میں ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہوں نہ کہ یہاں صرف بیٹھنے اور کچھ نہ کرنے کے لئے ۔یہ آپ پر ہے کہ دونوں حالات میں ہندوستانی یونین اسے قبول کرے گی یا نہیں، چاہے الحاق واپس ہو جائے یا جاری رہے۔ میں اپنی موجودہ زندگی سے بیزار ہوگیا ہوں اور یہ میرے لئے بہتر ہوگا کہ لڑتے ہوئے اپنی جان نچھاور کردوں بہ نسبت اس کے کہ اپنے لوگوں کی پریشانیوں کو بے یارو مددگار دیکھتا رہوں۔
ایک اور متبادل جو میرے ذہن میں آتا ہے یہ کہ اگر میں کچھ نہ کروں، میں ریاست چھوڑکر( مختصر دست برادری) اور کہیں باہر مقیم ہو جاؤں تاکہ عوام یہ نہ سوچیں کہ میں ان کے لئے کچھ کرسکتا ہوں۔ اپنی شکایتوں کے لئے وہ سول انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں یا پھر ہندوستانی فوج کو جو ریاست کے دفاع کی ذمہ دار ہے ۔ ایسے میںو اضح طور پر ذمہ داری یا تو ہندوستانی یونین کی ہوگی یا پھر شیخ عبداللہ کے انتظامیہ کی۔ اگر کوئی تنقید ہوگی تو جو ذمہ دار ہیں ان کی اور عوام کی پریشانیوں کی ذمہ داری میری نہیں ہوگی۔ یقینا مجھے اندازہ تھا جب میں نے مسٹرمینن کے مشورے پر کشمیر کو چھوڑا تھا، لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ میں سری نگر سے بھاگ گیا ہوں اور وہ کہیں گے میں نے ان کے برے حالات میں ان کو چھوڑ دیا ہے، لیکن اس کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا کہ تنقید سے بچے رہنے کے لئے ایسے عہدے پر برقرار رہنا جو کچھ کرنہ سکے۔ یقینا اگر میں ریاست کے باہر جاتا ہوں تو میں عوام کو اعتماد میں لے کر جاؤں گا اور ان کو وہ وجوہات بھی بتاؤں گا کہ میں کیوں باہر جارہا ہوں۔‘‘
تیسرا متبادل جو اس صورتحال میں سامنے آیا ہے، وہ یہ کہ ہندوستانی ڈومینین دفاعی تعلق سے اپنی ذمہ داری کو مؤثر انداز سے انجام دیں اور پاکستان کی جانب سے ہو رہے حملوں کو روکنے کے لئے پختہ انتظام کرے اور نہ صرف حملہ آوروں بلکہ تمام باغیوں کو بھی ریاست کے باہر کردے۔یہ تبھی ممکن ہے جب ڈومینین حقیقت میں جنگ کرے۔ اس نے ابھی تک لڑائی کو ٹالا ہے ۔دو یا تین بہادرانہ جنگیں ان حالات کو ختم کردےں گی اور اگر اس میں دیر ہوتی ہے تو کوئی بڑی آفت آسکتی ہے۔ کشمیر کے معاملے میں پاکستان ،ہندوستانی ڈومینین کے مقابلے زیادہ منظم ہے اور جیسے ہی برف پگھلے گی وہ ہر جانب سے حملہ کرنا شروع کردے گا اور لداخ کا صوبہ بھی دشمن کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ وادی اور پوری سرحد پر موجودہ فوج کی تعداد سے دوگنی فوج سے حملہ ہوگا اور جموں وکشمیر اس کی حفاظت نہیں کرپائے گا۔
جو کچھ بھی ایک ماہ قبل ہونا چاہئے اور حاصل کیا جانا چاہئے تھا وہ آئندہ ماہ میں حاصل کیا جاسکتا ہے،لیکن اگر معاملے میں دیر کی گئی اور اقوام متحدہ ریفرنس کے تعلق سے اگر سمجھوتے کارویہ اور حالات جوں کے توں رہے تو ایک ماہ کے اختتام پر حالات اور بھی خراب ہو جائےں گے۔
اس لئے اگر ہندوستانی یونین پوری طرح اور بااثر انداز سے لڑنے کا اپنا ذہن بناتی ہے تو مجھے اوپر ذکر کئے گئے دو متبادل میں سے فیصلہ کرنا ہوگا۔‘‘
میں نے اس خط کے جن نکات کو خصوصی توجہ کے لےے انڈرلائن کیا ہے، ان میں پہلا نکتہ تھا کہ یہ خط مہاراجہ ہری سنگھ نے 31جنوری 1948کو لکھا۔ ہمارے ملک کی آزادی میں مہاتماگاندھی کا کیا رول ہے، یہ کسی سے چھپا نہیں تھا۔ 30جنوری948کو ناتھورام گوڈسے کے ذریعہ مہاتماگاندھی کا قتل کردیا گیا۔ یقینا یہ اطلاع مہاراجا ہری سنگھ تک بھی پہنچی ہوگی۔ اس کے باوجود انہیں یہ خط لکھنے کی فکر رہی، انہیں قطعاً اس بات کا احساس نہیں رہا کہ پورا ملک سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ سردار پٹیل خود وزیرداخلہ ہیں اور مہاتماگاندھی کے قتل کو لے کر جو ماحول پیدا ہوا ہے، اس میں سردارپٹیل کی ذہنی کیفیت ایسی نہیں ہوگی کہ انہیں اس وقت کوئی خط لکھا جائے اور موجودہ حالات میں ان سے یہ توقع کی جائے کہ فوری طور پر وہ کوئی اقدام کرپانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
یا پھر مہاراجا ہری سنگھ سردار پٹیل کے ساتھ ایسی ذہنی وابستگی رکھتے ہوں گے کہ انہیں یہ اندازہ ہوگا کہ مہاتماگاندھی کے قتل کے باوجود وہ اس خط پر توجہ ضرور دیں گے۔ ساتھ ہی 31جنوری948کو مہاراجا ہری سنگھ کے ذریعہ لکھا گیا یہ خط اس بات کا بھی اندازہ کراتا ہے کہ سردار پٹیل کی ذہنیت کا انہیں جو بھی اندازہ رہا ہو، بہرحال خود ان کے لےے آزادی کے مسیحا موہن داس کرم چند گاندھی کا قتل اتنی بڑی بات نہیں تھی کہ ان کی آخری رسومات تک انتظار کیا جاتا، بلکہ اصولاً ہونا تو یہ چاہےے تھا کہ وہ تیرہویں تک کوئی خط و کتابت نہ کرتے، مگر حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ 13دن سے پہلے ہی یعنیفروری948کو مہاراجا ہری سنگھ کو اپنے خط کا جواب بھی مل گیا۔ اب میں چند جملے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’انڈیا وینس فریڈم‘‘ سے نقل کرنا چاہوں گا، جس میں انہوں نے ان حالات کا ذکر کیا ہے، جو اچانک مہاتماگاندھی کے قتل کے بعد پیدا ہوگئے تھے۔
’’گاندھی جی کے قتل سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ میں اس دن کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ ہم لوگ جدید ہندوستان کے عظیم سپوت کی زندگی کی حفاظت کرنے میں کیسے ناکام ہوگئے۔ بم کے واقعہ کے بعد یہ سمجھنا فطری تھا کہ پولیس اور دہلی کی سی آئی ڈی ان کے تحفظ کے لےے اجتماعی قدم اٹھائے گی، اگر ایک عام آدمی کی زندگی پر حملہ ہوتا ہے تب بھی پولیس خاص دھیان دیتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب دھمکی بھرے خط یا پمفلٹ ملتے ہیں۔ گاندھی جی کے معاملہ میں صرف خط، پمفلٹ یا لوگوں کی دھمکی ہی نہیں تھی، بلکہ ایک بم بھی پھینکا جاچکا تھا۔ یہ ہندوستان کی ایک عظیم شخصیت کی زندگی کا سوال تھا اور اس کے بعد بھی کوئی کارگر قدم نہیں اٹھایا گیا۔
اس پورے معاملے میں جو بات سب سے زیادہ دھیان کے قابل ہے، وہ یہ کہ سردار پٹیل گاندھی جی کے خلاف ہوگئے تھے۔ جب گاندھی جی نے مسلمانوں کی حفاظت کے سوال پر بھوک ہڑتال کی تو وہ ناراض تھے۔ پٹیل یہ سمجھتے تھے کہ یہ بھوک ہڑتال ان کے خلاف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرے انہیں بمبئی جانے سے روکنے پر بھی انہوں نے رکنے سے انکار کردیا۔
ان کے اس رویہ کا مقامی پولیس پر بدبختانہ اثر پڑا۔ مقامی حکام سردار پٹیل کی جانب دیکھتے تھے اور جب انہوں نے گاندھی جی کے تحفظ کے لےے کوئی خاص ہدایت نہیں کی ہے، اس لےے انہوں نے کوئی قدم اٹھانا ضروری نہیں سمجھا۔
گاندھی جی کے سورگ واس پر پٹیل کی بے حسی اتنی واضح تھی کہ لوگوں نے اسے محسوس کیا۔ اس واقعہ کے بعد فطری طور پر غصہ کی لہر پھیل گئی۔ کچھ لوگوں نے سردار پٹیل پر کھلے عام ناکارہ ہونے کا الزام لگایا۔ جے پرکاش نارائن نے اس مسئلہ کو اٹھانے میں بے مثل بہادری دکھائی۔ گاندھی جی کے سورگ واس پر رنج و غم کا اظہار کرنے کے لےے بلائی گئی ایک میٹنگ میں جے پرکاش نارائن نے صاف لفظوں میں کہا کہ بھارت سرکار کے وزیرداخلہ اس واقعہ کی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔ انہوں نے سردار پٹیل سے وضاحت چاہی کہ آخر کیوں گاندھی جی کی حفاظت کے لےے کارگرقدم نہیں اٹھائے گئے، جبکہ گاندھی جی کے قتل کے لےے لوگوں کو ورغلانے کے لےے کھلے عام تشہیر کی جارہی تھی اور ان پر بم پھینکا گیا تھا۔
کلکتہ کے جناب پرفل چندر گھوش نے بھی یہی آواز اٹھائی۔ انہوں نے گاندھی جی کی قیمتی زندگی بچانے میں ناکام رہنے پر بھارت سرکار کی نکتہ چینی بھی کی۔ انہوں نے بتایا کہ سردار پٹیل کی سیاسی زندگی گاندھی جی کی مرہون منت ہے۔ آخر آج وہ ایک مضبوط لیڈر اور وزیرداخلہ ہیں، وہ کیسے واضح کرسکتے ہیں کہ گاندھی جی کی زندگی بچانے کے لےے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟
سردار پٹیل نے ان الزامات کو خاص طور سے اپنے خلاف لیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں بہت افسوس تھا، لیکن انہوں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی کہ لوگ اس طرح ان پر کھلے عام الزام لگارہے ہیں۔
ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے واقعات میں دیکھا گیا کہ اس وقت فرقہ واریت کا زہر کتنے اندر تک سرایت کرچکا تھا۔ پورا ملک اس قتل سے غم میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن کچھ شہروں میں لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ خوشی کا اظہار کرنے کے لےے تقریبات منعقد کیں۔ ایسا خاص طور پر گوالیار اور جے پور شہروں میں ہوا۔ مجھے اس سے تکلیف پہنچی، جب میں نے سنا کہ ان دونوں شہروں میں کھلے عام مٹھائیاں تقسیم کی جارہی تھیں اور کچھ لوگ بے شرمی سے کھلے عام خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ پورا ملک رنج و غم میں ڈوبا ہوا تھا اور لوگوں کا غصہ ان سبھی لوگوں کے خلاف تھا، جو گاندھی جی کے دشمن سمجھے جاتے تھے۔ اس افسوسناک واقعہ کے دو یا تین ہفتہ بعد ہی ہندومہاسبھا اور آر ایس ایس کے لیڈر باہر آکر لوگوں کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی اس وقت ہندومہاسبھا کے صدر اور مرکزی وزیر تھے۔ وہ اپنے گھر سے باہر آنے کی ہمت نہیں کرتے تھے اور کچھ دنوں کے بعد انہوں نے مہاسبھا سے استعفیٰ دے دیا

No comments: