شیخ محمد عبداللّٰہ کی اس تاریخی تقریر کو کل کے مضمون میں جس مقام پر چھوڑا تھا، وہ آئین سازی کی پیچیدگی کی بات کررہے تھے اور آج جہاں سے ہم شروع کررہے ہیں، وہ جموںوکشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فوائد بیان کررہے ہیں، اپنے اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ اگر اس وقت جموںوکشمیر کے وزیراعظم کی اس تقریر کو عوام کے دل کی آواز بھی تصور کیا جائے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کے جذبات کیا تھے۔ آج اگر ان میں کوئی تبدیلی ہے تو کم از کم ہمیں سنجیدگی سے یہ تو سوچنا ہی ہوگا کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ وہ کشمیری عوام جنہوں نے تقسیم وطن کے بعد خوش دلی سے وابستگی اختیار کی تھی، آج سردمہری کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں؟ گوکہ مجھے ایسے تمام موضوعات پر تفصیل سے لکھناہے، تاہم بلاتاخیر وزیرداخلہ پی چدمبرم کے اتنا تو گوش گزار کردینا ضروری ہے کہ کشمیر کے موجودہ حالات کے لےے اگر وہ لشکرطیبہ کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں تو بیشک ہمیں یہ مان لینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر لشکرطیبہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب کیوں ہے؟ اتنی جوابدہی تو ان کی بنتی ہے کہ آخر ہماری خفیہ تنظیمیں اور فوج لشکرطیبہ کو ناکام کیوں نہیں بناپارہی ہےں۔ ہم کشمیر کے حالات کو پرامن کیوں نہیں بناپارہے ہیں؟
اور اب تقریر کا باقی حصہ:
بغیر مغالطہ کے آپ سبھی لوگ ہندوستان کے ساتھ ہمارے آئینی تعلق سے باخبر ہیں۔ ہمیں ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر ہے اور عوام و حکومت کی خیرخواہی بلاتوقف اور کثرت سے ہمیں حاصل ہے۔ ہندوستانی آئین (وفاقی) فیڈرل یونین کا قیام کرتا ہے اور اس نے دوسرے (Consituents) سے خودمختاری کی طاقت کے معاملے میں ہمارے ساتھ علیحدہ رویہ رکھا ہے۔ انسٹرومنٹ آف اکسیشن میں دفاع، خارجی امور اور مواصلات کو چھوڑ کر باقی ہمیں اپنے آئین کو بنانے کی پوری آزادی ہے۔ بطور اچھے پڑوسی جینے اور ترقی کرنے اور اپنے عوام کی برتری کے لئے یکساں جدوجہد میں میرامشورہ ہوگا، اپنی خودمختاری کی پوری طرح حفاظت کرتے ہوئے ہم اپنے ملک کا قیام اپنی بہترین روایات اور عوام کے بہترین ذہنوں کے ساتھ کرسکتے ہیںاور موافق آئینی انتظامات کے تحت یونین کے ساتھ ہم اس عظیم کا م میں وفاقی تعاون اور مدد حاصل کرنے کے لیے زور دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی یونین کو ہم اپنا بھرپور تعاون اور مدد دے سکتے ہیں۔
تاہم آپ سبھی کے لیے یہ آسان ہوگا کہ قانون اور نظم کے لیے ایک ایسادستاویز تیار کریں اور ساتھ ہی شہریوں کے لیے فرائض اور حقوق کا دستاویزبھی جس طرح سے ہم ریاست کی تیزی کے ساتھ ترقی کرنے کی تجویز اور قومی آمدنی کی ان کے درمیان برابر ی کے ساتھ تقسیم جن سے ہم نے عہد کیا ہے۔ اس مضبوط فیصلے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوگی۔ ہماری نیشنل کانفرنس کا اس اصول پر پختہ یقین ہے کہ بغیر قید رنگ و نسل سبھی لوگوں میں انسانیت یکساں طورپر ہے اور ان میں جو ایک بیماری جموں و کشمیر کے عوام کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہے، وہ ہے بے انتہا غربت اور اگر ہم صرف ان کی سیاسی آزادی کا تحفظ کردیں تو یہ ان کی مالی زندگی پر بہت زیادہ اثر نہیں ڈالے گی جب تک کہ ہم اقتصادی اور سماجی انصاف کی گارنٹی نہ عطا کردیں۔ نیو کشمیر میں ہماری سماجی پالیسی کے مقاصد کے بارے میں ایک تحریر ہے۔ یہ ایک تصویر پیش کرتی ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے عوام کی زندگی کس طرح ممکن بنانا چاہتے ہیں اور کس طرح ملک کے اقتصادی ادارے اس ضمن میں کام کریں گے تاکہ مقصد کو حاصل کیا جاسکے۔ جو سیاسی ڈھانچہ آپ بنانے جارہے ہیں وہ مثالی ہونا چاہےے۔
جس جموں و کشمیر کے لیے مستقبل کے جس سیاسی ڈھانچے کو آپ طے کرنے جارہے ہیں اس میں ہماری ریاست میں دوسرے سب نیشنل گروپس (Sub National) کے وجود کو بھی دھیان میں رکھا جانا چاہیے۔ حالانکہ ثقافتی طورپر ملی جلی تاریخ نے ہمارے درمیان ایک اتحاد ضرور قائم کیا ہے۔ وہ سبھی ایک ہی امیدوں اور آرزوؤں پر دھڑکتے ہیں اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ کو بانٹتے ہیں۔ ریاست کے اس بنیادی اتحاد کو قائم رکھنے کی گارنٹی کے دوران ہمارا آئین کسی خاص گروپ یا علاقے کے ہاتھوں میں اقتدار اور امتیازی حق یکجا ہونے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ بلکہ تمام گروپ کو اپنی ثقافتی شناخت کے ساتھ اور ریاست کے اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی اور پنپنے کے بہترین مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔ یہ ہماری سماجی اور اقصادی پالیسی کی ضرورت بھی ہونی چاہیے۔
آئےے اب ایک ایسا مسئلہ لیتے ہیں جو بنیادی اہمیت کا حاصل ہے اور جس میں ریاست کا بنیادی کردار بھی شامل ہوتاہے۔ اپنا فیصلہ خود کرنے والے عوام کی ایما کے آلہ کار کے طورپر آئین ساز اسمبلی جو اپنے آپ میں خودمختار بن گئی، وہ اب موجودہ حکمراں خاندان کے اس کے اختیارات کے معاملہ میں دوبارہ مستقبل کی جانچ کرکے فیصلہ کرے گی۔
یہ پوری طرح واضح ہے کہ یہ خاندان اسی پرانے اور غیر معتبر معاہدہ کی بنیاد پر اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی ہے۔ ’کشمیر چھوڑو، تحریک سے جڑے میرے مقدمے کے دوران میں نے اپنی پارٹی کا رخ واضح کردیا تھا جب میں نے کہاتھا:
’’ریاست جموں و کشمیرکے مستقبل کا آئینی ادارہ اس پرانے تعلق سے اختیارات حاصل نہیں کرے گا، جس کی مدت ختم ہورہی تھی اور جسے جلد ہی ختم ہوجانا تھا۔ یہ ادارہ ریاست کے عوام کی رائے پر ہی منحصر ہوسکتاہے۔ ریاست کے سربراہ کی خودمختاری کا منبع عوام ہوںگے۔
1946میں اس موقع پر میں نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ کس طرح ایک عام شخص عوام کے اعتماد پر آئینی سربراہ کے علامتی اختیارات حاصل کرسکتا ہے۔
’’ریاست اور اس کے سربراہ وہ علامتی اتھارٹی ہوتا ہے جس میں عوام اپنی امیدوں کے حصول اور حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے اعتماد کا اظہار کریں گے۔
ان اصولوں کے موافق اور عوام کی امیدوں کو پورا کرنے کے لیے آئینی سربراہ اپنے فرائض کو انجام دینے کے لیے منتخب کیا جائے گا اور جسے یہ اسمبلی منتخب کرکے ان کے حوالے کرے گی۔
جہاں تک میری پارٹی کا تعلق ہے، ہم اس بات سے مطمئن ہیں کہ ملوکیت موجودہ حالات کے تقاضوں اور منشا کے برعکس ہے اور آج جو ایک شہری دوسرے کے ساتھ برابری کے رشتہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ کسی بھی جمہوریت کا سب سے بڑا ٹیسٹ یہی ہے کہ یہ اپنے شہریوں کو مواقع کی برابری عطا کرتا ہے تاکہ کوئی بھی پوزیشن اور اتھارٹی کے معاملہ میں نقطۂ عروج پر پہنچ سکے۔ اس کے نتیجہ میں دنیا سے ملوکیت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ جیساکہ جاگیردارانہ نظام کے بارے میں ہورہا ہے۔ ہندوستان میں بھی آزادی سے قبل 6سو سے زائد نوابی ریاستوں کے حکمراں اپنے حقوق اور مراعات کا استعمال کررہے تھے۔ جمہوری نظام کے اپنانے کے بعد اس وقت 10سے کم ان میں سے باقی ہیں جو محدود دائرے میں اپنی ریاست کے آئینی سربراہ کی ذمہ داری نبھارہے ہیں۔
عوام سے مکمل اقتدار حاصل کرنے کے بعد یہ بالکل موزوں ہوگا کہ خیرسگالی کے طورپر مہاراجا ہری سنگھ کو ریاست کاپہلا آئینی سربراہ مان لیا جائے، لیکن میں افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے عوام کے سبھی طبقوں کا اعتماد پوری طرح کھودیا ہے۔ بدلے ہوئے حالات کے مطابق خود کو تبدیل نہ کرپانے کی ناکامی اور اہم مسائل پر ان کی فرسودہ رائے ان کو ریاست کے جمہوری صدر کے اعلیٰ عہدے کے لیے نااہل مقرر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، بطورحکمراں ماضی کا ان کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ باوقار طرز عمل، ذمہ داری اور غیر جانب دارانہ رویہ کے ساتھ عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ عوام آج بھی مشکل حالات میں ان کے ساتھ کھڑے نہ ہونے اور جموں میں اپنے طبقے کے ہی کچھ لوگوں کو تحفظ فراہم نہ کرنے کی ناکامی کو تکلیف اور افسوس کے ساتھ یاد کرتے ہےں۔
آخرکار ہم اس مسئلہ پر آگئے جس نے کشمیر کو پوری دنیا کی دلچسپی کا سامان بنادیا اور اسے اقوام متحدہ کے فورم کے سامنے لایاگیا۔ یہ آسان سا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہوگیا ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال کی مدت میں ہی لوگ خود سے سوال کرنے لگے ہیں کہ ’’کیا کوئی حل ہے؟‘‘ ہمارا جواب ہاں ہے۔ ہر چیز اس بات پر منحصر ہے کہ حل کے تلاش کے لیے منشا حقیقی ہے یا نہیں۔اگر ہم مسئلہ کا سیدھے طورپر سامناکرتے ہیں تو حل آسان ہے۔
مسئلہ کواس طرح پیش کیا جاسکتا ہے۔ پہلے کیا 1947میں پاکستان کا کشمیر پر حملے کا عمل کسی بین الاقوامی ضابطے سے اخلاقی یا قانونی طورپر درست تھا؟ سر اوون ڈکسن (Sir Owen Dixon)کا اس بارے میں فیصلہ بڑا آسان ہے۔ بالکل واضح انداز میں انہوں نے پاکستان کو حملہ آور قرار دیا ہے۔ دوسرے، کیا مہاراجا کا ہندوستان سے الحاق قانونی طور پر درست تھا یا نہیں؟ الحاق کے قانونی پہلو پر کسی بھی ذمہ دار یا آزاد شخص اور اتھارٹی کے ذریعہ سنجیدہ سوال نہیں اٹھایاگیا۔
دونوں جواب واضح طورپر صحیح ہیں۔ تب کشمیر سے جڑے مسئلے میں ہندوستان اور پاکستان کو برابر ٹھہرانے کا جواز کیا ہے؟ دراصل منطق کی طاقت نتیجے کی طرف لے جاتی ہے اور یہ کہ حملہ آور کو اپنی فوجیں ہٹانی چاہئیں اور اقوام متحدہ کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کو ریاست سے باہر نکالا جاتا ہے۔
اس مرحلے میں، ہندوستان خود ریاست کے عوام کو اپنی آزادنہ رائے کے اظہار کے لیے فکر مند ہے اور ہندوستان فوج کو ہٹانے کے کسی بھی خاطر خواہ منصوبے پر مدد کرتا ہے۔ وہ اپنی افواج ہٹالیں گے صرف کچھ پوسٹ پر ضروری گولہ بارود اکٹھا رہے گا تاکہ یہ پختہ ہوسکے کہ ماضی میں ہوئے پاکستانی حملے کا اعادہ نہ ہوسکے۔
ان دو اقدام سے ریاست میں نئے ماحول کے قیام میں مدد مل گئی ہوتی۔ بے دخل کےے گئے عوام کی باز آبادکاری اور بلدیاتی نظام کی بحالی ہوگئی ہوتی تو عوام نے اپنی رائے کا اظہار اور حتمی فیصلہ لے لیا ہوتا۔
ہم بطور حکومت اس بات کے خواہش مند ہیں کہ عوام اپنی مرضی کے مطابق ہماری زمین کامستقبل طے کریں گے۔ اگر تین ابتدائی عمل کرلیے گئے ہوتے تو اصولوں کے مطابق اور آزادانہ رائے دینے کے لیے ضروری حالات کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی مشاہدوں کی مدد لینے میں خوشی ہوتی۔
اس کے برعکس حملہ آور اور تحفظ فراہم کرنے والوں کو ایک ہی زمین پررکھا گیا۔ کئی طرح کے دباؤ میں اہم مسئلہ کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔
کئی بار ہماری زندگی اور اس کے جینے کے طریقہ کے معیار کے برخلاف ہماری ریاست کو مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک بار ہمارے ملک کی نگہبانی کی تجویز اگر دولت مشترکہ قوتوں کے زیرانتظام کی گئی تو اس سے خطرہ ہوسکتا ہے کہ پچھلے دروازے سے سامراجی پکڑ داخل ہوجائے۔ہمارے لوگ جو اس سے سخت نفرت کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہماری سرزمین پر بیرونی ممالک کی افواج کو بلانے کے خیال یا دولت مشترکہ افواج کے آنے سے ہمارے پڑوسیوں کے درمیان بھی شک پیدا ہوگا کہ ہم مستقبل میں ان کے خلاف استعمال ہونے کے لیے اپنی زمین کو بیس کے طورپر دے رہے ہیں۔ اس سے ہم بآسانی دوسرے کوریا میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
کیبنٹ مشن پلان نے 3تجاویز پیش کی تھیں، جن پر ہندوستانی ریاستیں مستقبل کے الحاق پر غور کرتے وقت عمل کرسکتی تھیں۔ ایک ریاست یا تو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرے یا پاکستان کے ساتھ اور ان میں کسی کے بھی ناکام رہنے پر اس کے آزاد رہنے کے اختیار کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ یہ تینوں متبادل لازماً ہماری ریاست کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ جب کہ برطانوی حکومت کی کوشش نوابی ریاستوں کے حق امتیاز کو تحفظ عطا کرنا تھا، عوامی نمائندوں کو عوام کی بہتری کا فروغ زیر غور ہونا چاہیے۔ وہ جو بھی اقدام کریں گے، اس کو جمہوری طور پر سماجی نظم کے قیام میں تعاون کرنا چاہیے۔ اس اعلیٰ سوچ کے تناظر میں فیصلہ کریں کہ ہماری ریاست کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونے یا پھر آزاد رہنے میں کیا فائدے اور نقصانات ہوں گے۔…(جاری)
اور اب تقریر کا باقی حصہ:
بغیر مغالطہ کے آپ سبھی لوگ ہندوستان کے ساتھ ہمارے آئینی تعلق سے باخبر ہیں۔ ہمیں ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر ہے اور عوام و حکومت کی خیرخواہی بلاتوقف اور کثرت سے ہمیں حاصل ہے۔ ہندوستانی آئین (وفاقی) فیڈرل یونین کا قیام کرتا ہے اور اس نے دوسرے (Consituents) سے خودمختاری کی طاقت کے معاملے میں ہمارے ساتھ علیحدہ رویہ رکھا ہے۔ انسٹرومنٹ آف اکسیشن میں دفاع، خارجی امور اور مواصلات کو چھوڑ کر باقی ہمیں اپنے آئین کو بنانے کی پوری آزادی ہے۔ بطور اچھے پڑوسی جینے اور ترقی کرنے اور اپنے عوام کی برتری کے لئے یکساں جدوجہد میں میرامشورہ ہوگا، اپنی خودمختاری کی پوری طرح حفاظت کرتے ہوئے ہم اپنے ملک کا قیام اپنی بہترین روایات اور عوام کے بہترین ذہنوں کے ساتھ کرسکتے ہیںاور موافق آئینی انتظامات کے تحت یونین کے ساتھ ہم اس عظیم کا م میں وفاقی تعاون اور مدد حاصل کرنے کے لیے زور دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی یونین کو ہم اپنا بھرپور تعاون اور مدد دے سکتے ہیں۔
تاہم آپ سبھی کے لیے یہ آسان ہوگا کہ قانون اور نظم کے لیے ایک ایسادستاویز تیار کریں اور ساتھ ہی شہریوں کے لیے فرائض اور حقوق کا دستاویزبھی جس طرح سے ہم ریاست کی تیزی کے ساتھ ترقی کرنے کی تجویز اور قومی آمدنی کی ان کے درمیان برابر ی کے ساتھ تقسیم جن سے ہم نے عہد کیا ہے۔ اس مضبوط فیصلے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوگی۔ ہماری نیشنل کانفرنس کا اس اصول پر پختہ یقین ہے کہ بغیر قید رنگ و نسل سبھی لوگوں میں انسانیت یکساں طورپر ہے اور ان میں جو ایک بیماری جموں و کشمیر کے عوام کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہے، وہ ہے بے انتہا غربت اور اگر ہم صرف ان کی سیاسی آزادی کا تحفظ کردیں تو یہ ان کی مالی زندگی پر بہت زیادہ اثر نہیں ڈالے گی جب تک کہ ہم اقتصادی اور سماجی انصاف کی گارنٹی نہ عطا کردیں۔ نیو کشمیر میں ہماری سماجی پالیسی کے مقاصد کے بارے میں ایک تحریر ہے۔ یہ ایک تصویر پیش کرتی ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے عوام کی زندگی کس طرح ممکن بنانا چاہتے ہیں اور کس طرح ملک کے اقتصادی ادارے اس ضمن میں کام کریں گے تاکہ مقصد کو حاصل کیا جاسکے۔ جو سیاسی ڈھانچہ آپ بنانے جارہے ہیں وہ مثالی ہونا چاہےے۔
جس جموں و کشمیر کے لیے مستقبل کے جس سیاسی ڈھانچے کو آپ طے کرنے جارہے ہیں اس میں ہماری ریاست میں دوسرے سب نیشنل گروپس (Sub National) کے وجود کو بھی دھیان میں رکھا جانا چاہیے۔ حالانکہ ثقافتی طورپر ملی جلی تاریخ نے ہمارے درمیان ایک اتحاد ضرور قائم کیا ہے۔ وہ سبھی ایک ہی امیدوں اور آرزوؤں پر دھڑکتے ہیں اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ کو بانٹتے ہیں۔ ریاست کے اس بنیادی اتحاد کو قائم رکھنے کی گارنٹی کے دوران ہمارا آئین کسی خاص گروپ یا علاقے کے ہاتھوں میں اقتدار اور امتیازی حق یکجا ہونے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ بلکہ تمام گروپ کو اپنی ثقافتی شناخت کے ساتھ اور ریاست کے اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی اور پنپنے کے بہترین مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔ یہ ہماری سماجی اور اقصادی پالیسی کی ضرورت بھی ہونی چاہیے۔
آئےے اب ایک ایسا مسئلہ لیتے ہیں جو بنیادی اہمیت کا حاصل ہے اور جس میں ریاست کا بنیادی کردار بھی شامل ہوتاہے۔ اپنا فیصلہ خود کرنے والے عوام کی ایما کے آلہ کار کے طورپر آئین ساز اسمبلی جو اپنے آپ میں خودمختار بن گئی، وہ اب موجودہ حکمراں خاندان کے اس کے اختیارات کے معاملہ میں دوبارہ مستقبل کی جانچ کرکے فیصلہ کرے گی۔
یہ پوری طرح واضح ہے کہ یہ خاندان اسی پرانے اور غیر معتبر معاہدہ کی بنیاد پر اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی ہے۔ ’کشمیر چھوڑو، تحریک سے جڑے میرے مقدمے کے دوران میں نے اپنی پارٹی کا رخ واضح کردیا تھا جب میں نے کہاتھا:
’’ریاست جموں و کشمیرکے مستقبل کا آئینی ادارہ اس پرانے تعلق سے اختیارات حاصل نہیں کرے گا، جس کی مدت ختم ہورہی تھی اور جسے جلد ہی ختم ہوجانا تھا۔ یہ ادارہ ریاست کے عوام کی رائے پر ہی منحصر ہوسکتاہے۔ ریاست کے سربراہ کی خودمختاری کا منبع عوام ہوںگے۔
1946میں اس موقع پر میں نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ کس طرح ایک عام شخص عوام کے اعتماد پر آئینی سربراہ کے علامتی اختیارات حاصل کرسکتا ہے۔
’’ریاست اور اس کے سربراہ وہ علامتی اتھارٹی ہوتا ہے جس میں عوام اپنی امیدوں کے حصول اور حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے اعتماد کا اظہار کریں گے۔
ان اصولوں کے موافق اور عوام کی امیدوں کو پورا کرنے کے لیے آئینی سربراہ اپنے فرائض کو انجام دینے کے لیے منتخب کیا جائے گا اور جسے یہ اسمبلی منتخب کرکے ان کے حوالے کرے گی۔
جہاں تک میری پارٹی کا تعلق ہے، ہم اس بات سے مطمئن ہیں کہ ملوکیت موجودہ حالات کے تقاضوں اور منشا کے برعکس ہے اور آج جو ایک شہری دوسرے کے ساتھ برابری کے رشتہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ کسی بھی جمہوریت کا سب سے بڑا ٹیسٹ یہی ہے کہ یہ اپنے شہریوں کو مواقع کی برابری عطا کرتا ہے تاکہ کوئی بھی پوزیشن اور اتھارٹی کے معاملہ میں نقطۂ عروج پر پہنچ سکے۔ اس کے نتیجہ میں دنیا سے ملوکیت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ جیساکہ جاگیردارانہ نظام کے بارے میں ہورہا ہے۔ ہندوستان میں بھی آزادی سے قبل 6سو سے زائد نوابی ریاستوں کے حکمراں اپنے حقوق اور مراعات کا استعمال کررہے تھے۔ جمہوری نظام کے اپنانے کے بعد اس وقت 10سے کم ان میں سے باقی ہیں جو محدود دائرے میں اپنی ریاست کے آئینی سربراہ کی ذمہ داری نبھارہے ہیں۔
عوام سے مکمل اقتدار حاصل کرنے کے بعد یہ بالکل موزوں ہوگا کہ خیرسگالی کے طورپر مہاراجا ہری سنگھ کو ریاست کاپہلا آئینی سربراہ مان لیا جائے، لیکن میں افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے عوام کے سبھی طبقوں کا اعتماد پوری طرح کھودیا ہے۔ بدلے ہوئے حالات کے مطابق خود کو تبدیل نہ کرپانے کی ناکامی اور اہم مسائل پر ان کی فرسودہ رائے ان کو ریاست کے جمہوری صدر کے اعلیٰ عہدے کے لیے نااہل مقرر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، بطورحکمراں ماضی کا ان کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ باوقار طرز عمل، ذمہ داری اور غیر جانب دارانہ رویہ کے ساتھ عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ عوام آج بھی مشکل حالات میں ان کے ساتھ کھڑے نہ ہونے اور جموں میں اپنے طبقے کے ہی کچھ لوگوں کو تحفظ فراہم نہ کرنے کی ناکامی کو تکلیف اور افسوس کے ساتھ یاد کرتے ہےں۔
آخرکار ہم اس مسئلہ پر آگئے جس نے کشمیر کو پوری دنیا کی دلچسپی کا سامان بنادیا اور اسے اقوام متحدہ کے فورم کے سامنے لایاگیا۔ یہ آسان سا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہوگیا ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال کی مدت میں ہی لوگ خود سے سوال کرنے لگے ہیں کہ ’’کیا کوئی حل ہے؟‘‘ ہمارا جواب ہاں ہے۔ ہر چیز اس بات پر منحصر ہے کہ حل کے تلاش کے لیے منشا حقیقی ہے یا نہیں۔اگر ہم مسئلہ کا سیدھے طورپر سامناکرتے ہیں تو حل آسان ہے۔
مسئلہ کواس طرح پیش کیا جاسکتا ہے۔ پہلے کیا 1947میں پاکستان کا کشمیر پر حملے کا عمل کسی بین الاقوامی ضابطے سے اخلاقی یا قانونی طورپر درست تھا؟ سر اوون ڈکسن (Sir Owen Dixon)کا اس بارے میں فیصلہ بڑا آسان ہے۔ بالکل واضح انداز میں انہوں نے پاکستان کو حملہ آور قرار دیا ہے۔ دوسرے، کیا مہاراجا کا ہندوستان سے الحاق قانونی طور پر درست تھا یا نہیں؟ الحاق کے قانونی پہلو پر کسی بھی ذمہ دار یا آزاد شخص اور اتھارٹی کے ذریعہ سنجیدہ سوال نہیں اٹھایاگیا۔
دونوں جواب واضح طورپر صحیح ہیں۔ تب کشمیر سے جڑے مسئلے میں ہندوستان اور پاکستان کو برابر ٹھہرانے کا جواز کیا ہے؟ دراصل منطق کی طاقت نتیجے کی طرف لے جاتی ہے اور یہ کہ حملہ آور کو اپنی فوجیں ہٹانی چاہئیں اور اقوام متحدہ کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کو ریاست سے باہر نکالا جاتا ہے۔
اس مرحلے میں، ہندوستان خود ریاست کے عوام کو اپنی آزادنہ رائے کے اظہار کے لیے فکر مند ہے اور ہندوستان فوج کو ہٹانے کے کسی بھی خاطر خواہ منصوبے پر مدد کرتا ہے۔ وہ اپنی افواج ہٹالیں گے صرف کچھ پوسٹ پر ضروری گولہ بارود اکٹھا رہے گا تاکہ یہ پختہ ہوسکے کہ ماضی میں ہوئے پاکستانی حملے کا اعادہ نہ ہوسکے۔
ان دو اقدام سے ریاست میں نئے ماحول کے قیام میں مدد مل گئی ہوتی۔ بے دخل کےے گئے عوام کی باز آبادکاری اور بلدیاتی نظام کی بحالی ہوگئی ہوتی تو عوام نے اپنی رائے کا اظہار اور حتمی فیصلہ لے لیا ہوتا۔
ہم بطور حکومت اس بات کے خواہش مند ہیں کہ عوام اپنی مرضی کے مطابق ہماری زمین کامستقبل طے کریں گے۔ اگر تین ابتدائی عمل کرلیے گئے ہوتے تو اصولوں کے مطابق اور آزادانہ رائے دینے کے لیے ضروری حالات کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی مشاہدوں کی مدد لینے میں خوشی ہوتی۔
اس کے برعکس حملہ آور اور تحفظ فراہم کرنے والوں کو ایک ہی زمین پررکھا گیا۔ کئی طرح کے دباؤ میں اہم مسئلہ کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔
کئی بار ہماری زندگی اور اس کے جینے کے طریقہ کے معیار کے برخلاف ہماری ریاست کو مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک بار ہمارے ملک کی نگہبانی کی تجویز اگر دولت مشترکہ قوتوں کے زیرانتظام کی گئی تو اس سے خطرہ ہوسکتا ہے کہ پچھلے دروازے سے سامراجی پکڑ داخل ہوجائے۔ہمارے لوگ جو اس سے سخت نفرت کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہماری سرزمین پر بیرونی ممالک کی افواج کو بلانے کے خیال یا دولت مشترکہ افواج کے آنے سے ہمارے پڑوسیوں کے درمیان بھی شک پیدا ہوگا کہ ہم مستقبل میں ان کے خلاف استعمال ہونے کے لیے اپنی زمین کو بیس کے طورپر دے رہے ہیں۔ اس سے ہم بآسانی دوسرے کوریا میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
کیبنٹ مشن پلان نے 3تجاویز پیش کی تھیں، جن پر ہندوستانی ریاستیں مستقبل کے الحاق پر غور کرتے وقت عمل کرسکتی تھیں۔ ایک ریاست یا تو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرے یا پاکستان کے ساتھ اور ان میں کسی کے بھی ناکام رہنے پر اس کے آزاد رہنے کے اختیار کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ یہ تینوں متبادل لازماً ہماری ریاست کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ جب کہ برطانوی حکومت کی کوشش نوابی ریاستوں کے حق امتیاز کو تحفظ عطا کرنا تھا، عوامی نمائندوں کو عوام کی بہتری کا فروغ زیر غور ہونا چاہیے۔ وہ جو بھی اقدام کریں گے، اس کو جمہوری طور پر سماجی نظم کے قیام میں تعاون کرنا چاہیے۔ اس اعلیٰ سوچ کے تناظر میں فیصلہ کریں کہ ہماری ریاست کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونے یا پھر آزاد رہنے میں کیا فائدے اور نقصانات ہوں گے۔…(جاری)
No comments:
Post a Comment