حق اور انصاف کے قتل کے مترادف ہے وزیرداخلہ کا یہ فیصلہ۔ کیوں جمہوریت گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں ؟ پی چدمبرم کا یہ کہنا ’’کہ نیائک جانچ(عدالتی جانچ) نہیں‘‘، کیا ان کا یہ فیصلہ ایک مخصوص قوم کے لےے اننیائے (ناانصافی) برداشت کرنے کا اعلان نہیں ہے؟ اگر انہیں لگتا ہے کہ نیائک جانچ پولس فورس کا منوبل (حوصلہ) توڑ دے گی تو ہمیں لگتا ہے کہ دہشت گردی کا الزام ایک پوری قوم کا منوبل توڑ دے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کی حوصلہ شکنی حق اور انصاف کا تقاضا ہے اور کس کی حوصلہ افزائی باطل کی حمایت ہے۔ انہیں اگر فکر ہے چند گنہگاروں کو بچانے کی اس لےے کہ سچ سامنے آنے سے ان کا جرم ثابت ہوسکتا ہے، وہ چہرے بے نقاب ہوسکتے ہیں تو ہمیں فکر ہے، ان سب کو اس الزام سے بچانے کی، جو سچ سامنے نہ آنے کی وجہ سے گنہگاروں کے زمرے میں رکھے جارہے ہیں۔
کرنل پروہت اور میجر اپادھیائے کا مجرمانہ چہرہ سامنے آیا تو کیا اس سے ہماری فوج کا منوبل گرا؟ اس کی حوصلہ شکنی ہوئی؟ ہمارا فوج پر سے اعتماد کمزور ہوا؟ نہیں، قطعاً نہیں۔ عشرت جہاں، سہراب الدین شیخ، راہل راج اور پرجیاپتی جیسے سیکڑوں انکاؤنٹرس کی اصلیت سامنے آئی، داغدار پولس والوں کا چہرہ سامنے آگیا تو کیا محض اس وجہ سے ہمارا پولس فورس پر سے اعتماد ختم ہوگیا؟ کیا ملک کے کسی بھی کونے سے فرضی انکاؤنٹرس کی بنیاد پر پولس کے خلاف کوئی مہم چلائی گئی؟ نہیں، قطعاً نہیں۔ مادھوری گپتا کے غدار ثابت ہونے سے کیا ہمارا اپنے سفارتکاروں سے بھروسہ اٹھ گیا؟ نہیں، قطعاً نہیں۔ اسی طرح بٹلہ ہاؤس کا سچ سامنے آنے سے بھی اگر دوچار پولس والوں کا جرم سامنے آجاتا تو کیا محض اس بنیاد پر ہمارا پولس فورس پر سے بھروسہ اٹھ جاتا؟ نہیں قطعاً نہیں، لیکن وزیرداخلہ نے عدالتی جانچ سے صاف انکار کرکے ثابت کردیا کہ وہ سچ کو سامنے نہیں آنے دینا چاہتے، لہٰذا بحیثیت وزیرداخلہ ہمارا ان پر بھروسہ کیسے قائم رہ سکتا ہے۔
بٹلہ ہاؤس کے جس انکاؤنٹر کو وہ صحیح ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس پر روزاوّل سے ہی سوال اٹھ رہے ہیںاور اب تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے بھی بہت حد تک سچ کو بے نقاب کردیا ہے۔ بالفاظ دیگر اس مشتبہ انکاؤنٹر کی اصلیت کو سامنے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا اب ایسا کیا ہے، جسے وہ چھپانا چاہتے ہیں؟ یقینا یہ دوچار پولس والوں کے گرفت میں آجانے سے زیادہ بڑی اور سنجیدہ بات ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ہماری سرکار یا وزیرداخلہ محض چند پولس والوں کا گناہ سامنے آجانے سے تو خوفزدہ ہو نہیں سکتے۔ کیا انہیں ڈر ہے کسی ایسے راز سے پردہ اٹھ جانے کا، جو پولس والوں کے بے نقاب ہوجانے پر سب کے سامنے آسکتا ہے۔ اگر صرف فرضی انکاؤنٹرس میں شامل ہونے والے پولس اہلکاروں کو بچانا ہی حکومتوں کا مقصد رہا ہوتا تو کوئی بھی انکاؤنٹر فرضی ثابت ہوتا ہی نہیں اور نہ مندرجہ ذیل 7فرضی معاملوں میں Compensation دیا جاتا۔
شریمتی آشا ارون گاولی، فائل نمبرـ21/13/97-98
شری چھٹی سنگھ، فائل نمبرـ812/4/97-98
برج موہن پراشر، فائل نمبرـ4657/24/97-98
امیتیش شرما، فائل نمبرـ731/4/2002-2003
شری یوگیش، فائل نمبرـ247/12/2002-2003
پپلی ولدیت منگل، فائل نمبرـ519/24/2003-2004
محمد سیفی، فائل نمبرـ79/1/2003-2004
اس کے علاوہ ہم نے جن دیگر انکاؤنٹروں کی مثال درج بالا سطروں میں دی، نہ تو وہ فرضی ظاہر ہوتے اور نہ ان انکاؤنٹروں سے وابستہ پولس اہلکارسزا کے مستحق سمجھے جاتے، لہٰذا اگر یہ بٹلہ ہاؤس کے انکاؤنٹر کا سوال محض ایک اور انکاؤنٹر کا سوال ہوتا تو اتنا وبال نہ ہوتا، ضرور پس پردہ اس سے جڑی کوئی اور بات ہے، تبھی تو یہ سوال ہماری مرکزی حکومت کے وقار کا سوال بن گیا ہے اور ہمارے وزیرداخلہ کی انا کا۔ ورنہ ایسا کیا ہے، جسے وہ چھپانا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے سچ کا سامنے آنا منسلک پولس اہلکاروں کا جرم سامنے آنے تک ہی محدود نہیں رہے گا، بلکہ پولس کا استعمال کرنے والے وہ چہرے بھی سامنے آئیں گے، ان کی نیت بھی سامنے آئے گی، جنہیں بچانے کی کوشش پی چدمبرم کررہے ہیں، اگر ایسا ہے تو ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے اقتدار کی چادر سے ایسے تمام گنہگاروں کے چہروں کو چھپا لینے کی کوشش کریں، مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم میں بھی یہ حوصلہ ہے کہ اپنے قلم کی نوک سے ان کے اس فریب کی چادر کو تار تار کردیں گے اور اصل مجرم سات پردوں میں چھپے رہے تب بھی ان کے چہرے سب کو صاف صاف نظر آنے لگیں گے۔
بٹلہ ہاؤس اب صرف ایک کیس نہیں، ایک پیمانہ ہے، ایک بیرومیٹر ہے، ایک خاص قوم کے تئیں حکومت کے نظریات کو سمجھنے کا۔ ہماری آزادی کو اب1برس گزر چکے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے کہ مٹھی بھر فرقہ پرست یا تنگ نظر سیاستداں تقسیم وطن کا الزام ایک قوم پر لگا کر ان کا حوصلہ توڑ دیں، ان کی وطن سے وفاداری کو مشکوک بنادیں، ان پر غداری کا الزام لگادیں اور وہ قوم چپ رہے، مسلسل اپنے دامن پر اس داغ کو لے کر سرجھکائے رہنے کو مجبور رہے، احساس کمتری کا شکار ہے، بہت ثبوت دے چکی یہ قوم ملک سے وفاداری کے اور ضرورت پڑنے پر آگے بھی دے سکتی ہے، مگر الزام برداشت نہیں کرسکتی۔ بات چاہے 1857 یعنی پہلی جنگ آزادی کی مہم کی ہویا857سے لے کر947تک یعنی0برس تک جاری رہی آزادی کی جدوجہد کی۔ یہ قوم کبھی پیچھے نہیں ہٹی۔ ایک لمبی فہرست ہے، ایک طویل تاریخ ہے ملک پر جانثاری کی، پھر آزادی کے بعد بھی چاہے 1965میں پاکستان کے خلاف جنگ میں ویرعبدالحمید کا کارنامہ ہو یا کارگل کی جنگ میں کیپٹن حنیف الدین کا کردار۔ یہ قوم نہ کبھی پیچھے ہٹی ہے اور نہ کبھی پیچھے ہٹے گی، تو پھر ایسا کیوں ہو کہ جب جس کا دل چاہے غداروطن کا الزام لگادے، اس قوم کے ماتھے پر دہشت گرد کا لیبل چسپاں کردے اور یہ خاموش رہے، کچھ نہ کہے۔ سچ کو سامنے لانے کی مانگ میں ایسا کیا ہے، جسے ناقابل قبول سمجھا جائے یا ایسی مانگ کرنے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے، ان کے اس سوال پر اعتراض کیا جائے۔ نہیں اس میں ایسا کچھ بھی نہیںہے، لیکن سچ کو سامنے لانے کے اس مطالبے نے ان سب کی نیت کو اجاگرکردیا، جو اس سچ کو چھپانے کے لےے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہےں۔
گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے لکھنے کا وقت نکالنا قطعاً ممکن نہیں تھا، اس لےے کہ ایک خاص موضوع پر ریسرچ اور درجن بھر سے زیادہ بہار، بنگال اور اترپردیش کے دوردراز علاقوں میں عوام کے درمیان جاکر اظہارخیال کی مجبوری جس نے اس سلسلہ کو کچھ وقت کے لےے روک دیاتھا۔ اگر وزیرداخلہ کا بٹلہ ہاؤس پر تازہ بیان نہ آیا ہوتا تو شاید آج بھی لکھا جانا ممکن نہیں ہوپاتا، لیکن اب خاموش رہنا مشکل ہے۔ 4روز قبل ضلع گونڈاکے ہلدھرمئو میں ایک خصوصی کانفرنس منعقد کی گئی جس کا عنوان تھا ’’مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب اور ان کا حل‘‘۔ راقم الحروف نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قوم کے اعتماد کا توڑ دیا جانا ہی سب سے بڑی وجہ ہے اس قوم کی پسماندگی کی اور اگر اس قوم کو پسماندگی سے نکالنا ہے تو اس کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ بٹلہ ہاؤس کے معاملہ کو بھی ہم ایسا ہی مانتے ہیں کہ دہشت گرد کا لیبل چسپاں کرکے، یہ ایک قوم کے اعتماد کو توڑ دینے کی سازش ہے۔ مجھے اس ضمن میں متواتر لکھنا ہے اور میں اپنے تمام ائمہ کرام سے آج یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ سچ کو سامنے لانے کی آواز اب وہ مساجد اور مدارس سے بھی بلند کریں۔ میں آج جو کچھ لکھ رہا ہوں، اسے جمعہ کی نماز سے قبل اپنے خطبوں میں جگہ دینے کی زحمت فرمائیں۔ ہر نماز کے بعد اللہ سے دعا کریں کہ بے گناہوں کو انصاف ملے اور تلاش حق کی اس جستجو میں ہمیں کامیابی ملے۔ اسی سوچ کے پیش نظر میں ہلدھرمئو، گونڈا کی مخصوص کانفرنس میں کی گئی اپنی تقریر کے چند اقتباسات کل شائع کی جانے والی اپنی اس مسلسل تحریر کے ساتھ شامل اشاعت کرنے کی کوشش کروںگا، تاکہ یہ باور کراسکوں کہ دراصل ایسی تمام کوششیں اس قوم کا اعتماد توڑ دینے کے لےے ہیں۔ انہیں صرف بٹلہ ہاؤس کے مشتبہ انکاؤنٹر کی شکل میں ہی نہ دیکھا جائے، انہیں صرف عاطف اور ساجد یعنی دو نوجوانوں کے قتل تک ہی محدود نہ سمجھا جائے، بلکہ ایک پوری قوم کے وقار اور اعتماد کو توڑ دینے کی کوشش کی شکل میں دیکھا جائے۔ اگر عدالتی جانچ ہوگئی ہوتی، ان کا جرم ثابت ہوگیا ہوتا تو ہم حکومت کی آواز میں آواز ملا کر کہتے کہ جس کا جو جرم سامنے آیاہے، اسے اس جرم کے مطابق سزا دی جائے، لیکن اگر جرم سامنے آیا ہی نہیں، عدالتی جانچ کے ذریعہ اس جرم کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہی نہیں گئی تو پھر ہم مجرم کیسے مان لیں؟
کرنل پروہت اور میجر اپادھیائے کا مجرمانہ چہرہ سامنے آیا تو کیا اس سے ہماری فوج کا منوبل گرا؟ اس کی حوصلہ شکنی ہوئی؟ ہمارا فوج پر سے اعتماد کمزور ہوا؟ نہیں، قطعاً نہیں۔ عشرت جہاں، سہراب الدین شیخ، راہل راج اور پرجیاپتی جیسے سیکڑوں انکاؤنٹرس کی اصلیت سامنے آئی، داغدار پولس والوں کا چہرہ سامنے آگیا تو کیا محض اس وجہ سے ہمارا پولس فورس پر سے اعتماد ختم ہوگیا؟ کیا ملک کے کسی بھی کونے سے فرضی انکاؤنٹرس کی بنیاد پر پولس کے خلاف کوئی مہم چلائی گئی؟ نہیں، قطعاً نہیں۔ مادھوری گپتا کے غدار ثابت ہونے سے کیا ہمارا اپنے سفارتکاروں سے بھروسہ اٹھ گیا؟ نہیں، قطعاً نہیں۔ اسی طرح بٹلہ ہاؤس کا سچ سامنے آنے سے بھی اگر دوچار پولس والوں کا جرم سامنے آجاتا تو کیا محض اس بنیاد پر ہمارا پولس فورس پر سے بھروسہ اٹھ جاتا؟ نہیں قطعاً نہیں، لیکن وزیرداخلہ نے عدالتی جانچ سے صاف انکار کرکے ثابت کردیا کہ وہ سچ کو سامنے نہیں آنے دینا چاہتے، لہٰذا بحیثیت وزیرداخلہ ہمارا ان پر بھروسہ کیسے قائم رہ سکتا ہے۔
بٹلہ ہاؤس کے جس انکاؤنٹر کو وہ صحیح ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس پر روزاوّل سے ہی سوال اٹھ رہے ہیںاور اب تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے بھی بہت حد تک سچ کو بے نقاب کردیا ہے۔ بالفاظ دیگر اس مشتبہ انکاؤنٹر کی اصلیت کو سامنے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا اب ایسا کیا ہے، جسے وہ چھپانا چاہتے ہیں؟ یقینا یہ دوچار پولس والوں کے گرفت میں آجانے سے زیادہ بڑی اور سنجیدہ بات ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ہماری سرکار یا وزیرداخلہ محض چند پولس والوں کا گناہ سامنے آجانے سے تو خوفزدہ ہو نہیں سکتے۔ کیا انہیں ڈر ہے کسی ایسے راز سے پردہ اٹھ جانے کا، جو پولس والوں کے بے نقاب ہوجانے پر سب کے سامنے آسکتا ہے۔ اگر صرف فرضی انکاؤنٹرس میں شامل ہونے والے پولس اہلکاروں کو بچانا ہی حکومتوں کا مقصد رہا ہوتا تو کوئی بھی انکاؤنٹر فرضی ثابت ہوتا ہی نہیں اور نہ مندرجہ ذیل 7فرضی معاملوں میں Compensation دیا جاتا۔
شریمتی آشا ارون گاولی، فائل نمبرـ21/13/97-98
شری چھٹی سنگھ، فائل نمبرـ812/4/97-98
برج موہن پراشر، فائل نمبرـ4657/24/97-98
امیتیش شرما، فائل نمبرـ731/4/2002-2003
شری یوگیش، فائل نمبرـ247/12/2002-2003
پپلی ولدیت منگل، فائل نمبرـ519/24/2003-2004
محمد سیفی، فائل نمبرـ79/1/2003-2004
اس کے علاوہ ہم نے جن دیگر انکاؤنٹروں کی مثال درج بالا سطروں میں دی، نہ تو وہ فرضی ظاہر ہوتے اور نہ ان انکاؤنٹروں سے وابستہ پولس اہلکارسزا کے مستحق سمجھے جاتے، لہٰذا اگر یہ بٹلہ ہاؤس کے انکاؤنٹر کا سوال محض ایک اور انکاؤنٹر کا سوال ہوتا تو اتنا وبال نہ ہوتا، ضرور پس پردہ اس سے جڑی کوئی اور بات ہے، تبھی تو یہ سوال ہماری مرکزی حکومت کے وقار کا سوال بن گیا ہے اور ہمارے وزیرداخلہ کی انا کا۔ ورنہ ایسا کیا ہے، جسے وہ چھپانا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے سچ کا سامنے آنا منسلک پولس اہلکاروں کا جرم سامنے آنے تک ہی محدود نہیں رہے گا، بلکہ پولس کا استعمال کرنے والے وہ چہرے بھی سامنے آئیں گے، ان کی نیت بھی سامنے آئے گی، جنہیں بچانے کی کوشش پی چدمبرم کررہے ہیں، اگر ایسا ہے تو ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے اقتدار کی چادر سے ایسے تمام گنہگاروں کے چہروں کو چھپا لینے کی کوشش کریں، مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم میں بھی یہ حوصلہ ہے کہ اپنے قلم کی نوک سے ان کے اس فریب کی چادر کو تار تار کردیں گے اور اصل مجرم سات پردوں میں چھپے رہے تب بھی ان کے چہرے سب کو صاف صاف نظر آنے لگیں گے۔
بٹلہ ہاؤس اب صرف ایک کیس نہیں، ایک پیمانہ ہے، ایک بیرومیٹر ہے، ایک خاص قوم کے تئیں حکومت کے نظریات کو سمجھنے کا۔ ہماری آزادی کو اب1برس گزر چکے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے کہ مٹھی بھر فرقہ پرست یا تنگ نظر سیاستداں تقسیم وطن کا الزام ایک قوم پر لگا کر ان کا حوصلہ توڑ دیں، ان کی وطن سے وفاداری کو مشکوک بنادیں، ان پر غداری کا الزام لگادیں اور وہ قوم چپ رہے، مسلسل اپنے دامن پر اس داغ کو لے کر سرجھکائے رہنے کو مجبور رہے، احساس کمتری کا شکار ہے، بہت ثبوت دے چکی یہ قوم ملک سے وفاداری کے اور ضرورت پڑنے پر آگے بھی دے سکتی ہے، مگر الزام برداشت نہیں کرسکتی۔ بات چاہے 1857 یعنی پہلی جنگ آزادی کی مہم کی ہویا857سے لے کر947تک یعنی0برس تک جاری رہی آزادی کی جدوجہد کی۔ یہ قوم کبھی پیچھے نہیں ہٹی۔ ایک لمبی فہرست ہے، ایک طویل تاریخ ہے ملک پر جانثاری کی، پھر آزادی کے بعد بھی چاہے 1965میں پاکستان کے خلاف جنگ میں ویرعبدالحمید کا کارنامہ ہو یا کارگل کی جنگ میں کیپٹن حنیف الدین کا کردار۔ یہ قوم نہ کبھی پیچھے ہٹی ہے اور نہ کبھی پیچھے ہٹے گی، تو پھر ایسا کیوں ہو کہ جب جس کا دل چاہے غداروطن کا الزام لگادے، اس قوم کے ماتھے پر دہشت گرد کا لیبل چسپاں کردے اور یہ خاموش رہے، کچھ نہ کہے۔ سچ کو سامنے لانے کی مانگ میں ایسا کیا ہے، جسے ناقابل قبول سمجھا جائے یا ایسی مانگ کرنے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے، ان کے اس سوال پر اعتراض کیا جائے۔ نہیں اس میں ایسا کچھ بھی نہیںہے، لیکن سچ کو سامنے لانے کے اس مطالبے نے ان سب کی نیت کو اجاگرکردیا، جو اس سچ کو چھپانے کے لےے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہےں۔
گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے لکھنے کا وقت نکالنا قطعاً ممکن نہیں تھا، اس لےے کہ ایک خاص موضوع پر ریسرچ اور درجن بھر سے زیادہ بہار، بنگال اور اترپردیش کے دوردراز علاقوں میں عوام کے درمیان جاکر اظہارخیال کی مجبوری جس نے اس سلسلہ کو کچھ وقت کے لےے روک دیاتھا۔ اگر وزیرداخلہ کا بٹلہ ہاؤس پر تازہ بیان نہ آیا ہوتا تو شاید آج بھی لکھا جانا ممکن نہیں ہوپاتا، لیکن اب خاموش رہنا مشکل ہے۔ 4روز قبل ضلع گونڈاکے ہلدھرمئو میں ایک خصوصی کانفرنس منعقد کی گئی جس کا عنوان تھا ’’مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب اور ان کا حل‘‘۔ راقم الحروف نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قوم کے اعتماد کا توڑ دیا جانا ہی سب سے بڑی وجہ ہے اس قوم کی پسماندگی کی اور اگر اس قوم کو پسماندگی سے نکالنا ہے تو اس کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ بٹلہ ہاؤس کے معاملہ کو بھی ہم ایسا ہی مانتے ہیں کہ دہشت گرد کا لیبل چسپاں کرکے، یہ ایک قوم کے اعتماد کو توڑ دینے کی سازش ہے۔ مجھے اس ضمن میں متواتر لکھنا ہے اور میں اپنے تمام ائمہ کرام سے آج یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ سچ کو سامنے لانے کی آواز اب وہ مساجد اور مدارس سے بھی بلند کریں۔ میں آج جو کچھ لکھ رہا ہوں، اسے جمعہ کی نماز سے قبل اپنے خطبوں میں جگہ دینے کی زحمت فرمائیں۔ ہر نماز کے بعد اللہ سے دعا کریں کہ بے گناہوں کو انصاف ملے اور تلاش حق کی اس جستجو میں ہمیں کامیابی ملے۔ اسی سوچ کے پیش نظر میں ہلدھرمئو، گونڈا کی مخصوص کانفرنس میں کی گئی اپنی تقریر کے چند اقتباسات کل شائع کی جانے والی اپنی اس مسلسل تحریر کے ساتھ شامل اشاعت کرنے کی کوشش کروںگا، تاکہ یہ باور کراسکوں کہ دراصل ایسی تمام کوششیں اس قوم کا اعتماد توڑ دینے کے لےے ہیں۔ انہیں صرف بٹلہ ہاؤس کے مشتبہ انکاؤنٹر کی شکل میں ہی نہ دیکھا جائے، انہیں صرف عاطف اور ساجد یعنی دو نوجوانوں کے قتل تک ہی محدود نہ سمجھا جائے، بلکہ ایک پوری قوم کے وقار اور اعتماد کو توڑ دینے کی کوشش کی شکل میں دیکھا جائے۔ اگر عدالتی جانچ ہوگئی ہوتی، ان کا جرم ثابت ہوگیا ہوتا تو ہم حکومت کی آواز میں آواز ملا کر کہتے کہ جس کا جو جرم سامنے آیاہے، اسے اس جرم کے مطابق سزا دی جائے، لیکن اگر جرم سامنے آیا ہی نہیں، عدالتی جانچ کے ذریعہ اس جرم کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہی نہیں گئی تو پھر ہم مجرم کیسے مان لیں؟
1 comment:
محترم عزیز برنی صاحب بہت خوب !آپ کی ہمت اور دور اندیشی کو سلام ۔
Post a Comment