Sunday, April 4, 2010

26/11

کا سچ جاننا ہے تو۔۔۔۔۔

عزیز برنی

جب کسی معاملہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنا ہو تو اس سے بے توجہی اختیار کرلیجئے۔ اس پر گفتگو بند کردیجئے۔ اگر کوئی ذکر چھیڑ بھی دے تو بات بدل دیجئے۔ کچھ مخصوص لوگوں تک یہ اطلاع پہنچا دیجئے کہ اس موضوع پر گفتگو ناپسندیدہ ہے، لہٰذا زیادہ بات نہ کریں۔ کوشش کیجئے کہ میڈیا بھی اس پر زیادہ توجہ نہ دے،بلکہ ہلکے پھلکے انداز میں کبھی کبھی خبر بھلے ہی آجائے، مگر یہ ایشو نہ بن پائے اس بات کا خاص خیال رکھا جائے۔ سماجی تنظیمیں اگر اس کو ایشو بناکر جلسے جلوس، دھرنا پردرشن کرنا چاہیں تو ان کی حوصلہ شکنی کی جائے، راستے میں رکاوٹیں ڈالی جائیں اور یہ سب کام اتنی دانشمندی اور خوبصورتی کے ساتھ ہو کہ عوام کی توجہ اس طرف مرکوز ہی نہ ہوپائے۔کیا ہیڈلی کو بچانے کی کوشش کرنے والے ایسا کچھ کررہے ہیں؟26نومبر008 کو ممبئی پر ہوا دہشت گردانہ حملہ اتنی بڑی بات تھی کہ اس پر گفتگو نہ ہو، اس سے تو کسی کو روکا نہیں جاسکتا، مگر ہاں گفتگو کسی خاص نتیجے پر نہ پہنچے، اس سمت میں کوششیں ضرور کی جاسکتی ہیں۔ آپ بھول گئے نہ انیتا اُدّیا کا نام؟ کہاں یاد ہے آپ کو؟ بات تو چھوٹی نہیں تھی! ہمارے ملک پر دہشت گردانہ حملہ کرنے آئے تقریباً تمام دہشت گردوں کو زندہ دیکھا تھا اس نے، جب وہ بدھوارا پر ربڑ کی کشتی سے اترے تھے، پھر اس کے بعد اسے مردہ خانہ شناخت کے لےے بھی لے جایا گیا تھا۔ یہ عینی شاہد اس قدر اہم تھی کہ بناپاسپورٹ اور ویزا کے انتہائی رازداری کے ساتھ اسے امریکہ لے جایا گیا۔ صبح کا سورج نکلنے سے قبل جب وہ گھر سے رفع حاجت کے لےے نکلی تو واپس اپنے گھر پہنچنے کی بجائے امریکہ پہنچ گئی۔ کچھ اخبارات نے توجہ دی، چھٹ پٹ خبریں ٹی وی پر بھی آئیں، پھر بات رفع دفع ہوگئی۔ کسی نے کہا یہاں چلی گئی، وہاں چلی گئی، امریکہ نہیں گئی، فلاں کے گھر چلی گئی تھی، کسی نے کہا امریکہ ہی گئی تھی، ایف بی آئی نے پوچھ تاچھ بھی کی تھی اس سے، پھر یوں ہوا کہ جتنے منھ اتنی باتیں، یعنی مقصد پورا ہوگیا، بات آئی گئی ہوگئی۔ کسی نے اس بات کو ایشو بنایا ہی نہیں۔اسی طرح کا ایک اور معاملہ۔یہ لڑکی Sandra Samuel ’’شبدہاؤس‘‘ میں رہنے والے ربی خاندان کی گھریلو ملازمہ تھی۔ جب اس حادثہ میں،… جیسی کہ اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی ربیavriel اور اس کی بیویivka اس دہشت گرانہ حملہ میں مارے گئے تو اس نے اپنی جان پر کھیل کر ان کے معصوم بچے کو بچایا اس گھریلو ملازمہ نے اور وہ اس بچہ سے اس قدر محبت کرتی تھی کہ اپنی سگی اولاد کوغیروں کے حوالے چھوڑ کر اس بچے کی پرورش کے لےے اسرائیل جاکر بس گئی۔ کیجئے یقین اسی کہانی پر، کیوں کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے آپ کے پاس۔ یہ گھریلو ملازمہ بھی عینی شاہد تھی اس دہشت گردانہ حملے کی۔ سب سچ جانتی تھی، ہمارے ملک کے ذمہ دار افسران کو بتاسکتی تھی۔ ہم نے ضرورت ہی نہیں سمجھی، پوچھ تاچھ کے لےے بھی اسے اسرائیل سے واپس ہندوستان لانے کی۔ اتنی اہم بات اس حد تک ذہن سے نکل گئی کہ اب مجھے اس کا نام بھی زبانی یاد نہیں۔ پرانی فائلوں سے تلاش کرکے لکھنے کی ضرورت پڑی، حالانکہ یہ ایک ایسی چشم دیدگواہ ہے، جو اس دہشت گردانہ حملے کے ٹھوس حقائق سے واقف ہے، بلکہ بہت حد تک بنیادی وجہ بھی سامنے رکھ سکتی ہے۔ کیا سچ مچ یہ اسرائیلی ربی اس حملے میں مارے گئے تھے؟ کیا ان کے مرنے کے بعد زخمی حالت کی تصویریں کہیں موجود ہیں؟ عمارت میں سی سی ٹی وی لگا تھا، ظاہر ہے ان کے فلیٹ میں بھی خفیہ کیمرے لگے ہوں گے، راقم الحروف نے پولس کے پہرے کے بیچ اس گلی کے اندر جاکر کچھ دکانداروں سے اسی وقت بات کی تھی، جنہوں نے یہ تصدیق کی کہ عمارت کے اندر کوئی باہری یا انجان شخص داخل ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ صدر دروازے پر خفیہ کیمرا لگا تھا۔ کون آنا چاہتا ہے، یہ تصدیق ہوجانے پر ہی اسے اندر داخلے کی اجازت ملتی تھی۔ بہرحال اس دہشت گردانہ حملے کے دوران کا منظر کیا تھا، کس نے کس پر گولیاں چلائیں، کون کس کی گولی سے مارا گیا یا زخمی ہوا، گھنٹوں تک وہاں رہ کر دہشت گردوں نے کس سے کیا بات کی، وہ گھریلو ملازمہ کس طرح اس بچے کو بچانے میں کامیاب ہوئی، Sandra Samuel نام کی اس ملازمہ کے خاندان کے کچھ لوگ تو ممبئی یا ہندوستان کے کسی بھی علاقے میں رہتے ہوں گے، وہ سب سامنے کیوں نہیں آئے، حادثے کے پہلے بھی اس اسرائیلی خاندان کے طرززندگی کے بارے میں کچھ تو وہ اپنے گھر جاکر باتیں کرتی ہوگی، اگر کوئی بات غیرمعمولی لگی ہوگی تو اس نے اپنے اہل خانہ کو بتایا ہوگا، کیسے لوگوں کا اس گھر میں آناجانا تھا، وہ کیا باتیں کرتے تھے، وہ دہشت گرد چہرے، زندہ اجمل عامر قصاب اور باقی لاشیں، اب ان میں ہیڈلی اور تہورحسین رانا کا نام بھی شامل کرلیجئے، کیا کبھی شبدہاؤس گئے تھے؟ کیا وہاں آتے جاتے تھے؟ ان سب میں حملے کے وقت کون کون دہشت گرد شبدہاؤس میںموجود تھا؟ اگر واقعی یہ ربی اور اس کی اہلیہ اس دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے تو کس دہشت گرد نے انہیں گولی ماری۔ اجمل عامر قصاب اور باقی لاشوں کے فوٹو دیکھ کر وہ کچھ تو بتا سکتی ہے۔میں ربی اور اس کی بیوی کے مارے جانے پر بار بار لفظ ’’اگر‘‘ کا استعمال کررہا ہوں۔ کچھ لوگوں کے لےے یہ اسی طرح قابل اعتراض ہوسکتا ہے، جس طرح دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد میرا یہ کہنا اور لکھنا قابل اعتراض تھا کہ میں یہ کیوں کہتا ہوں کہ ان دس کے علاوہ کوئی گیارہواں دہشت گرد بھی اس حملے میں شامل ہوسکتا ہے اور صرف اتنی سی بات پر مجھے غدارِوطن تک کہا گیا، انٹرنیٹ پر میرے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا، وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ کو خطوط لکھے گئے، میرے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔ بہرحال آج میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ میں اس وقت جو سوال اٹھا رہا ہوں اور لفظ ’’اگر‘‘ کے استعمال کے ساتھ اٹھا رہا ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کون ہیں، جنہوں نے اس اسرائیلی ربی اور اس کی اہلیہ کی لاش دیکھی۔ کس ڈاکٹر نے ان کا پوسٹ مارٹم کیا؟ ہونا تو یہ چاہےے تھا کہ یہ پوسٹ مارٹم ہندوستان میں ہمارے ڈاکٹروں کے ذریعہ کیا گیا ہوتا۔ دیر سے ہی سہی بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں مارے گئے عاطف اور ساجد کی پوسٹ مارٹم کی طرح ان کی رپورٹ بھی حاصل ہوئی ہوتی تو کچھ رازفاش ہوتے، اگر ہم اس حد تک دباؤ میں تھے کہ اس صورتحال میں ہمارے لےے یہ ممکن نہیں ہوسکا تو اسرائیل پہنچنے کے بعد تو ان لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہوا ہوگا، وہ رپورٹ کہاں ہے اور کیا کہتی ہے، کم ازکم ہم تو اس قیاس کو ایک دم سے خارج الامکان نہیں مانتے کہ یہ اسرائیلی ربی بھی ڈیوڈ کولمین ہیڈلی یا تہورحسین رانا جیسی ایک اور کڑی ہو… اور… اسے جان بوجھ کر دہشت گردانہ حملے میں مارا گیا دکھا دیا گیا ہو اور وہ گھریلو ملازمہ کیوں کہ سچ جانتی ہے اس لےے اسے سب کی نظروں سے ہٹالیا گیا ہو۔ خطرہ جب ایک گھر پر ہوتا ہے تو گھر کے لوگ ہر اس سمت میں سوچتے ہیں، جہاں سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ خطرہ اگر ملک پر ہو تو ہم سوچنا بند کیسے کردیں؟ آج اگر اس حملے کے تار امریکہ سے جڑتے نظر آرہے ہیں، بھلے ہی وہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ایف بی آئی ایجنٹ کی شکل میں ہوں تو پھر اسرائیل کو بنا تصدیق بغیر ہرپہلو سے کی گئی جانچ پڑتال کے کس طرح کلین چٹ دی جاسکتی ہے؟ سوچنا ہوگا، آخر راز کیا ہے Sandra Samuel نام کی اس گھریلو نوکرانی کے حادثے کے بعد سے نظروں سے اوجھل کردئےے جانے کا؟ کیوں اس کی واپسی کے بارے میں کوئی قدم ہماری حکومت نہیں اٹھاتی؟ کیوں ایک گواہ کے طورپر اس سے پوچھ گچھ کی ضرورت محسوس نہیں کرتی؟ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو وہ منظرعام پر لایا کیوں نہیں گیا؟ میڈیا نے اس معاملے کو بار بار اٹھایا کیوں نہیں؟ …… سوچئے، آپ کا ذہن کوئی جواب دے اگر تو بتائےے گا ضرور۔میں کیوں لکھ رہا ہوں، مسلسل ڈیوڈ کولمین ہیڈلی پر؟ کیا کوئی اور موضوع نہیں ہے لکھنے کے لےے؟ شاہی امام احمدبخاری ملے وزیراعظم سے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر پوسٹ مارٹم رپورٹ کو لے کر۔ مجھ سے امام بخاری صاحب کی طویل گفتگو ہوئی۔ انتہائی اہم موضوع ہے یہ، ہمارا ہی اٹھایا ہوا معاملہ ہے، لکھنے کی بیحد ضرورت ہے، مگر اوّلیت ابھی بھی ہیڈلی ہی کو کیوں؟ عاطف اور ساجد کے خاندان والوں کے درد کا احساس ہے مجھے۔ اعظم گڑھ کی مٹی نے ملک کو اتنی عظیم ہستیاں دی ہیں کہ اس زمین کو سلام کرنے کو دل چاہتا ہے۔ کوئی آنکھ اٹھاکر دیکھے اس طرف، کوئی آتنک گڑھ کہے، اچھا نہیں لگتا، مگر ایک گھر، ایک شہر اور ایک قوم سے زیادہ ایک ملک کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے ہمیں، اس لےے ملک کا خطرہ ہماری ذات پر خطرے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ اسی لےے جاری ہے گفتگو ہیڈلی پر۔قلم اٹھانا ہے نریندرمودی کی پیشی پر بھی۔ مضامین کی تو گنتی یاد نہیں، تین تین کتابیں بھی لکھی ہیں میں نے گجرات کے اس دردناک فساد پر، مگر اس وقت میں مسلسل لکھ رہا ہوں ہیڈلی پر اس لےے کہ آخر کوئی طوفان برپا کیوں نہیں ہوتا، اس بات پر کہ ہیڈلی وہ دہشت گرد جو ہمیں ہماری زمین پر ہوئے اس سب سے بڑے دہشت گردانہ حملے کا سچ بتا سکتا ہے، وہ ہمارے سپرد کیوں نہیں کیا جاتا؟وہ جو ہمیں اس دہشت گردانہ حملے سے ایف بی آئی اور سی آئی اے کے رشتے کا خلاصہ کرسکتا ہے، ہماری گرفت میں کیوں نہیں ہے؟ امریکہ جو ہمارا دوست ہے، ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے، وہ ہمارے دہشت گرد کو ہمارے سپرد کرتا کیوں نہیں؟ امریکہ جو صرف مہلک ہتھیاروں کا شبہ ہونے پر، دہشت گردی کا حامی ہونے کا گمان ہونے پر عراق کے منتخب صدر صدام حسین کی جان لینے کا فیصلہ کرسکتا ہے، عراق کو خاک اور خون میں ملاسکتا ہے وہ اور ہماری زمین پر دہشت گردی برپا کرنے والے ہیڈلی کے مجرم ثابت ہوجانے پر بھی اسے اپنی امان میں کیوں رکھتا ہے؟ اس کے لےے سزائے موت کے فیصلے سے انکار کیوں کرتا ہے؟ امریکہ جو بن لادین کے چھپے ہونے کے شک کی بنیاد پر افغانستان کو تباہ کرسکتا ہے، اس لےے کہ لادین اس کا دہشت گرد تھا، ہمارے دہشت گرد کو چھپائے کیوں بیٹھا ہے اور ہم چپ کیوں ہےں؟ یہ کوئی ایسی غیراہم خبر نہیں ہے کہ ایک بار دو چار کالم میں چھاپ دیا اور بات ختم ہو۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ ایک بار ہمارے کسی وزیر نے کوئی بیان دے دیا اور بات درگزر ہوگئی، اسی لےے تو میں نے لکھا تھا اپنی پچھلی تحریر میں کہ پٹنہ میں اگر شرکت کرپاتا تو جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس میں ضرور کہتا ’’کیوں نہیں ہرسمت سے یہ آواز اٹھتی کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ہمارا مجرم ہے، وہ دہشت گرد ہے، جس نے ہندوستان کی سالمیت پر حملہ کیاہے، ہمیں حق ہے اسے حاصل کرنے کا اور اپنے قانون کے مطابق اسے سزا دینے کا۔ ہمیں یہ کہنے میں جھجھک کیوں ہے کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دینے اور فروغ دینے کی بنیاد پر دہشت گرد ملک قرار دیا جاسکتا ہے تو امریکہ کے ذریعہ ایک دہشت گرد کو پناہ دینے کی واضح حقیقت سامنے آنے پر اسے کس نام سے پکارا جائے؟

No comments: