آج کے دن کی ایک خاص پہچان یہ بھی ہے کہ اگر آپ کوئی بے وقوفی کی حرکت کریں یا آپ کا کوئی دانستہ عمل بے وقوفی سے بھرا ہو، تب بھی وہ قابل معافی ہے، کیونکہ آج پہلی اپریل ہے۔ نہیں، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ میں کوئی بے وقوفی کی بات کروں۔ اپنی دانست میں تو میں عقل مندی کی باتیں کرنے کی ہی کوشش کررہا ہوں، تاہم اگر یہ کسی کو بے وقوفی سے بھری لگےں تو وہ انہیں پہلی اپریل کی مناسبت سے قابل معافی تسلیم کرلے۔ بے شک میرا آج کا مضمون کل کی تحریر کے تسلسل میں ہی ہے، جہاں میں نے دہشت گردی کے واقعات کو ہتھیاروں کی فروخت سے جوڑتے ہوئے اپنی بات کہنے کی کوشش کی تھی اور پھر روس میں ہوئے حالیہ دہشت گردانہ حملہ کا ذکر کرنے جارہا تھا، مگر بات مکمل ہوتی اس سے قبل ہی وقت ختم ہوگیا یا یوں کہئے کہ جتنی جگہ میں مجھے اپنی بات کہنی تھی، وہ جگہ ختم ہوگئی، میرا صفحہ مکمل ہوگیا۔
بہرحال آج کی تحریر میں کچھ بہت پرانی یادوں سے شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ 1978-79کا دور رہا ہوگا، اکثر محبانِ اہل بیت سے ذکر حسین سننے کا موقع ملتا۔ فضائل بیان کرنے کے بعد جب وہ مصائب کی طرف آتے تو حضرت حسینؓ کی شہادت کامنظر بیان کرتے۔ انہیں شمر کا خنجر یاد رہتا۔ پھر وہ حضرت حسینؓ کے گلے پر چلائے جانے کا ذکر کرتے اور ہر بار میں نے یہی کہتے سنا کہ شمر ایک ایسا کندچھرا لے کر آیا، جس سے حضرت امام حسینؓ کا گلا کٹتا ہی نہ تھا۔ میں دیر تک سوچتا رہتا، خطیب کے خطاب کے دوران بھی اور ان کے خطبہ کے بعد بھی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ یزید کی فوج کو جو ایک سرچاہئے وہ حضرت امام حسینؓ کا سر تھا، پھریہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی شخص جو جنگ کے میدان میں لڑنے کے ارادے سے جائے، وہ ایسا ناقص ہتھیار لے کر ساتھ جائے، جو کسی مطلب کا نہ ہو۔ میں دیر تک سوچتا رہتا، ذہن یہ قبول کرنے کے لےے تیار نہ ہوتا کہ ظالم شمر کے ہاتھ میں چھراکند بھی ہوسکتا ہے۔ پھر یاد آتا مجھے اپنے طالب علمی کا وہ دور جب میں اپنے والدمحترم کی کلینک کے سامنے بیٹھنے والے ایک موچی (رام سوروپ) کو اپنا کام کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ میں نے بارہا یہ پایا کہ کسی بھی جوتے یا چپل میں پیوند لگانے سے قبل وہ سوکھے چمڑے کو کچھ دیر کے لےے پانی سے بھرے کٹورے میں پڑا رہنے دیتا اور جب چمڑا دیر تک پانی میں بھیگ کر نرم ہوجاتا تب وہ اسے بآسانی کاٹ لیتا۔ اسی دور میں میں نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ ضعیف اور کمزور مریضوں کو جن کی کھال خشک ہوگئی ہو، انجکشن لگانا مشکل ہوتا ہے بالمقابل کسی صحت مند نظر آنے والے شخص کے۔ پھر وہ دور بھی آیا، جب مجھے خود ذکرحسینؓ کا شرف حاصل ہوا(خدارا کسی فرقہ سے جوڑ کر نہ دیکھیں، میں مسلمان ہوں اور ہندوستانی ہوں، میرے لےے بس اتنا ہی کافی ہے) اور میں کربلا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا منظر بیان کرتے وقت جو کچھ سنتا چلا آیا تھا، اس کے الٹ کہا کہ حضرت حسینؓ کا گلا تین روز کی بھوک اور پیاس، کربلا کی تپتی ہوئی ریت، شدید گرمی اور عزیزواقارب کی شہادتوں کے احساس نے اس قدر خشک کردیا تھا کہ شمر کا بہترین اور تیزسے تیز چھرا بھی ان کی گردن کو بآسانی کاٹ نہیں پارہا تھا۔ سامعین نے جب میری اس دلیل کو سنا تو اس کم عمری میں بھی میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ایک زمانے سے ذکر حسینؓ سنتے چلے آئے ہیں، پر آپ نے جو بات آج کہی وہ دل کو چھوگئی۔
شاید کسی بھی بات کو بہت دیر تک سوچتے رہنے اور گہرائی سے مطالعے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کی عادت جو مجھے اس دور میں پڑی، وہ ابھی تک قائم ہے، فرق بس یہ پیدا ہوگیا ہے کہ تب میں کربلا کے میدان پر جو کچھ ہوا، اسے بہت گہرائی سے سوچتا تھا، یزید نے جو کیا، اسے بہت گہرائی سے سوچتا تھا اور آج جب پوری دنیا میں خون کی ندیاں بہانے والوں کی طرف نظر ڈالتا ہوں تو پھر اتنی ہی سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ آخر کون ہےں یہ خون کے پیاسے لوگ؟ ان کا مقصد کیا ہے؟ وہ چاہتے کیا ہیں؟ اگر یہ جنگ ہے تو کون کس کے خلاف جنگ لڑرہا ہے؟ اگر یہ جہاد تو وہ وجوہات کیا ہیں کہ جب جہاد ان پر فرض ہوگیا ہے اور جو ان کا نشانہ بنے، کیا انہیں اسلام پر عمل سے روک رہے تھے، اگر یہ مجاہد ہیں تو پھر ان کا اسلام سے رشتہ کیا ہے؟ بہت الجھے ہوئے سے سوال ہیں، قاتل مجھے مجاہد نہیں لگتا، اس کا نام کچھ بھی ہو، اس کا مذہب کچھ بھی ہو، ان کے ایسے اعمال سے مذہب کا کوئی رشتہ نہیں لگتا، یہی سوچوںکی گہرائی مجھے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی جیسے شخص کی ذہنیت کو پڑھنے کے لےے مجبور کردیتی ہے، اس کے آقاؤں کے مقصد کو سمجھنے کے لےے مجبور کردیتی ہے، اسی لےے میں لکھ دیتا ہوں کہ دہشت گرد ثابت ہوجانے پر بھی ہندوستان کا دوست امریکہ اس مجرم کو بچانا کیوں چاہتا ہے؟ امریکہ کاجو نظریہ 26/11کے دہشت گرد اجمل عامر قصاب کے لےے ہوتا ہے، وہی نظریہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے لےے کیوں نہیں ہوتا؟ وہ دو دہشت گردوں کو الگ الگ نظرےے سے کیوں دیکھتا ہے۔ اگر یہ مسلمان ہےں، اس کی سوچ کے مطابق مجاہد ہےں، اس کی تصدیق کے مطابق پاکستانی ہےں، اس کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکرطیبہ کے تربیت یافتہ ہیں تو پھر اجمل عامر قصاب اور ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو ایک زمرے میں رکھ کر دیکھنے میں اسے پریشانی کیا ہے؟ اور جب اس کی پریشانی پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا ہے تو سی آئی اے کے پرانے کارنامے یاد آجاتے ہیں۔ ایسا تو ہے نہیں کہ اس بدنامِ زمانہ امریکی خفیہ تنظیم نے اب بھجن کیرتن، روزہ نماز یا گرجا گھروں میں Prayerکی ذمہ داری سنبھال لی ہو اور اپنے پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لےے امن کی راہ پر چل پڑے ہوں۔ قوی امکان تو یہی نظر آتے ہیں کہ جیسے کوئی فراڈ کمپنی بھاری غبن کرنے کے بعد یا بلیک لسٹڈ ہوجانے کے بعد نئے نام سے اپنا پرانا دھندہ پھر شروع کردیتی ہے، سی آئی اے نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہوا اور ہمارے سامنے اتفاق سے جو ایک چہرہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا آگیا ہے، وہ صرف ایک چہرہ نہ ہو، بلکہ ایسے بیشمار چہرے دنیا کے چپے چپے پر موجود ہوں اور کچھ ایسی ہی سرگرمیوں میں مصروف ہوں، تبھی تو امریکہ اتنے دعویٰ کے ساتھ کہتا ہے کہ ایک اور6/11ہونے پر پاکستان کو بخشا نہیں جائے گا، یعنی پاکستان کو اگر نہیں بخشا جانا ہے تو اس کے لےے ہندوستان میں ایک اور6/11ہوجانا ہی کافی ہے۔ اب یہ6/11کس کے ذریعہ عمل میں آیا؟ ہوسکتا ہے یہ کوئی معمہ بن جائے۔ ہم جان کر بھی انجان بن جائےں۔ کیا پھر جسے بھی مجرم ثابت کرنا ہو، وہی مجرم ثابت ہوجائے اور ان دہشت گردانہ حملوں کا مقصد جن ناپاک عزائم کو پورا کرنا ہو، ان کی راہ آسان ہوجائے۔ ادھورا چھوڑتا ہوں میں اس بات کو یہیں، آپ بھی سوچئے میرے پاس کافی مواد ہے، مذکورہ بالا تمام باتوں کی کڑیاں جوڑنے کے لےے اور حقائق کی روشنی میں اس بات کو آگے بڑھانے کے لےے، لیکن اب میں ذکر کرنا چاہوں گا، روس میں ہوئے حالیہ دہشت گردانہ حملے کا، جہاں کل میں نے اپنا مضمون چھوڑا تھا۔ لہٰذا اب ملاحظہ فرمائیں یہ خبر، پھر اس کے بعد میری بات جاری رہے گی، مگر ہاں یہ ابھی میں آپ سب کے ذہن نشیں کردینا چاہتا ہوں کہ کوئی رشتہ تو ضرور ہے ہندوستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے طوفان کے بعد ان چنگاریوں کے روس تک پہنچنے کا۔
افغانـپاک دہشت گرد نیٹ ورک سے حملہ آوروں کا تعلق
ماسکو،0مارچ010(انڈوـایشین نیوز سروس)
روس کے وزیرخارجہ سرگیئی لاوروو نے کہا کہ ماسکو میں دو میٹرو اسٹیشنوں پر ہوئے دھماکوں کی سازش رچنے والوں کا تعلق افغانستانـپاکستان سرحد پر واقع دہشت گرد تنظیموں سے ہوسکتا ہے۔
خبررساں ایجنسی آرآئی اے نوووستی کے مطابق لاوروو نے کہا کہ اس بات کے امکان ہیں کہ ماسکو میں ہوئے دھماکوں کو غیرممالک کے تعاون سے انجام دیا گیا۔ انہوں نے کہا ’’فی الحال کسی بھی امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘‘
لاوروو نے کہا کہ ماسکو اس بات سے واقف ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع علاقوں میں دہشت گرد سرگرم ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ہم یہ جانتے ہیں کہ کئی دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف افغانستان میں حملے کرتی ہیں، بلکہ دیگر ممالک کو بھی اپنا نشانہ بناتی ہیں۔‘‘
روسی وزیرخارجہ نے بین الاقوامی برادری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرنے کی اپیل کی۔
…………………
ماسکو دھماکے: پاکـافغان دہشت گردوں کا ہاتھ!
ٹورنٹو/ماسکو،0مارچ010(ایجنسیاں)
روس کے وزیرخارجہ سرگیئی لاوروو کا کہنا ہے کہ ماسکو میں دو میٹرواسٹیشنوں پر پیرکے روز دھماکوں میں افعانستانـپاکستان سرحد پر سرگرمیاں چلانے والی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
لاوروو نے کہا کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ افغانستانـپاکستان سرحد کے شورش زدہ علاقہ کے اسلامی دہشت گردوں نے ماسکو میں ہوئے دھماکوں کے لےے مدد کی ہوگی۔ کناڈا میں جیـکے ممالک کے وزیرخارجہ کی میٹنگ میں انہوں نے یہ بات کہی۔
لاوروو نے کہا کہ ایسا امکان ہے کہ ماسکو میں ہوئے دھماکوں کو باہری تعاون سے انجام دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال کسی بھی امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
لاوروو نے کہا کہ ماسکو اس بات سے واقف ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد سرگرم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کئی دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف افغانستان میں حملے کرتے ہیں، بلکہ دیگر ممالک کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔
بیٹھک میں کناڈا کے وزیرخارجہ لارنس کینن نے کہا کہ ماسکو میں دو میٹرو اسٹیشنوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی ہم مذمت کرتے ہیں، جن میں کئی بے قصور ہلاک اور زخمی ہوئے۔ جیـممالک کے وزیرخارجہ نے حملہ میں مارے گئے لوگوں کے لواحقین کے تئیں گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔
اس میٹنگ میں روس، ناروے، امریکہ اور ڈنمارک کے وزیرخارجہ نے حصہ لیا۔ لاوروو نے کہا کہ مستقبل میں ایسے حملوں سے بچنے کے لےے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔
ماسکو میں پیرکے روز پہلا دھماکہ وسط ماسکو کے لبیانکااسٹیشن پر صبح 7بج کر 56منٹ پر ہوا۔ دوسرا دھماکہ نزدیکی پارک کلتری اسٹیشن پر 8بج کر0منٹ پر ہوا۔ ان دھماکوں میں کم ازکم 38لوگ ہلاک اور0سے زائد زخمی ہوئے۔
بہرحال آج کی تحریر میں کچھ بہت پرانی یادوں سے شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ 1978-79کا دور رہا ہوگا، اکثر محبانِ اہل بیت سے ذکر حسین سننے کا موقع ملتا۔ فضائل بیان کرنے کے بعد جب وہ مصائب کی طرف آتے تو حضرت حسینؓ کی شہادت کامنظر بیان کرتے۔ انہیں شمر کا خنجر یاد رہتا۔ پھر وہ حضرت حسینؓ کے گلے پر چلائے جانے کا ذکر کرتے اور ہر بار میں نے یہی کہتے سنا کہ شمر ایک ایسا کندچھرا لے کر آیا، جس سے حضرت امام حسینؓ کا گلا کٹتا ہی نہ تھا۔ میں دیر تک سوچتا رہتا، خطیب کے خطاب کے دوران بھی اور ان کے خطبہ کے بعد بھی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ یزید کی فوج کو جو ایک سرچاہئے وہ حضرت امام حسینؓ کا سر تھا، پھریہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی شخص جو جنگ کے میدان میں لڑنے کے ارادے سے جائے، وہ ایسا ناقص ہتھیار لے کر ساتھ جائے، جو کسی مطلب کا نہ ہو۔ میں دیر تک سوچتا رہتا، ذہن یہ قبول کرنے کے لےے تیار نہ ہوتا کہ ظالم شمر کے ہاتھ میں چھراکند بھی ہوسکتا ہے۔ پھر یاد آتا مجھے اپنے طالب علمی کا وہ دور جب میں اپنے والدمحترم کی کلینک کے سامنے بیٹھنے والے ایک موچی (رام سوروپ) کو اپنا کام کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ میں نے بارہا یہ پایا کہ کسی بھی جوتے یا چپل میں پیوند لگانے سے قبل وہ سوکھے چمڑے کو کچھ دیر کے لےے پانی سے بھرے کٹورے میں پڑا رہنے دیتا اور جب چمڑا دیر تک پانی میں بھیگ کر نرم ہوجاتا تب وہ اسے بآسانی کاٹ لیتا۔ اسی دور میں میں نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ ضعیف اور کمزور مریضوں کو جن کی کھال خشک ہوگئی ہو، انجکشن لگانا مشکل ہوتا ہے بالمقابل کسی صحت مند نظر آنے والے شخص کے۔ پھر وہ دور بھی آیا، جب مجھے خود ذکرحسینؓ کا شرف حاصل ہوا(خدارا کسی فرقہ سے جوڑ کر نہ دیکھیں، میں مسلمان ہوں اور ہندوستانی ہوں، میرے لےے بس اتنا ہی کافی ہے) اور میں کربلا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا منظر بیان کرتے وقت جو کچھ سنتا چلا آیا تھا، اس کے الٹ کہا کہ حضرت حسینؓ کا گلا تین روز کی بھوک اور پیاس، کربلا کی تپتی ہوئی ریت، شدید گرمی اور عزیزواقارب کی شہادتوں کے احساس نے اس قدر خشک کردیا تھا کہ شمر کا بہترین اور تیزسے تیز چھرا بھی ان کی گردن کو بآسانی کاٹ نہیں پارہا تھا۔ سامعین نے جب میری اس دلیل کو سنا تو اس کم عمری میں بھی میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ایک زمانے سے ذکر حسینؓ سنتے چلے آئے ہیں، پر آپ نے جو بات آج کہی وہ دل کو چھوگئی۔
شاید کسی بھی بات کو بہت دیر تک سوچتے رہنے اور گہرائی سے مطالعے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کی عادت جو مجھے اس دور میں پڑی، وہ ابھی تک قائم ہے، فرق بس یہ پیدا ہوگیا ہے کہ تب میں کربلا کے میدان پر جو کچھ ہوا، اسے بہت گہرائی سے سوچتا تھا، یزید نے جو کیا، اسے بہت گہرائی سے سوچتا تھا اور آج جب پوری دنیا میں خون کی ندیاں بہانے والوں کی طرف نظر ڈالتا ہوں تو پھر اتنی ہی سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ آخر کون ہےں یہ خون کے پیاسے لوگ؟ ان کا مقصد کیا ہے؟ وہ چاہتے کیا ہیں؟ اگر یہ جنگ ہے تو کون کس کے خلاف جنگ لڑرہا ہے؟ اگر یہ جہاد تو وہ وجوہات کیا ہیں کہ جب جہاد ان پر فرض ہوگیا ہے اور جو ان کا نشانہ بنے، کیا انہیں اسلام پر عمل سے روک رہے تھے، اگر یہ مجاہد ہیں تو پھر ان کا اسلام سے رشتہ کیا ہے؟ بہت الجھے ہوئے سے سوال ہیں، قاتل مجھے مجاہد نہیں لگتا، اس کا نام کچھ بھی ہو، اس کا مذہب کچھ بھی ہو، ان کے ایسے اعمال سے مذہب کا کوئی رشتہ نہیں لگتا، یہی سوچوںکی گہرائی مجھے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی جیسے شخص کی ذہنیت کو پڑھنے کے لےے مجبور کردیتی ہے، اس کے آقاؤں کے مقصد کو سمجھنے کے لےے مجبور کردیتی ہے، اسی لےے میں لکھ دیتا ہوں کہ دہشت گرد ثابت ہوجانے پر بھی ہندوستان کا دوست امریکہ اس مجرم کو بچانا کیوں چاہتا ہے؟ امریکہ کاجو نظریہ 26/11کے دہشت گرد اجمل عامر قصاب کے لےے ہوتا ہے، وہی نظریہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے لےے کیوں نہیں ہوتا؟ وہ دو دہشت گردوں کو الگ الگ نظرےے سے کیوں دیکھتا ہے۔ اگر یہ مسلمان ہےں، اس کی سوچ کے مطابق مجاہد ہےں، اس کی تصدیق کے مطابق پاکستانی ہےں، اس کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکرطیبہ کے تربیت یافتہ ہیں تو پھر اجمل عامر قصاب اور ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو ایک زمرے میں رکھ کر دیکھنے میں اسے پریشانی کیا ہے؟ اور جب اس کی پریشانی پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا ہے تو سی آئی اے کے پرانے کارنامے یاد آجاتے ہیں۔ ایسا تو ہے نہیں کہ اس بدنامِ زمانہ امریکی خفیہ تنظیم نے اب بھجن کیرتن، روزہ نماز یا گرجا گھروں میں Prayerکی ذمہ داری سنبھال لی ہو اور اپنے پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لےے امن کی راہ پر چل پڑے ہوں۔ قوی امکان تو یہی نظر آتے ہیں کہ جیسے کوئی فراڈ کمپنی بھاری غبن کرنے کے بعد یا بلیک لسٹڈ ہوجانے کے بعد نئے نام سے اپنا پرانا دھندہ پھر شروع کردیتی ہے، سی آئی اے نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہوا اور ہمارے سامنے اتفاق سے جو ایک چہرہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا آگیا ہے، وہ صرف ایک چہرہ نہ ہو، بلکہ ایسے بیشمار چہرے دنیا کے چپے چپے پر موجود ہوں اور کچھ ایسی ہی سرگرمیوں میں مصروف ہوں، تبھی تو امریکہ اتنے دعویٰ کے ساتھ کہتا ہے کہ ایک اور6/11ہونے پر پاکستان کو بخشا نہیں جائے گا، یعنی پاکستان کو اگر نہیں بخشا جانا ہے تو اس کے لےے ہندوستان میں ایک اور6/11ہوجانا ہی کافی ہے۔ اب یہ6/11کس کے ذریعہ عمل میں آیا؟ ہوسکتا ہے یہ کوئی معمہ بن جائے۔ ہم جان کر بھی انجان بن جائےں۔ کیا پھر جسے بھی مجرم ثابت کرنا ہو، وہی مجرم ثابت ہوجائے اور ان دہشت گردانہ حملوں کا مقصد جن ناپاک عزائم کو پورا کرنا ہو، ان کی راہ آسان ہوجائے۔ ادھورا چھوڑتا ہوں میں اس بات کو یہیں، آپ بھی سوچئے میرے پاس کافی مواد ہے، مذکورہ بالا تمام باتوں کی کڑیاں جوڑنے کے لےے اور حقائق کی روشنی میں اس بات کو آگے بڑھانے کے لےے، لیکن اب میں ذکر کرنا چاہوں گا، روس میں ہوئے حالیہ دہشت گردانہ حملے کا، جہاں کل میں نے اپنا مضمون چھوڑا تھا۔ لہٰذا اب ملاحظہ فرمائیں یہ خبر، پھر اس کے بعد میری بات جاری رہے گی، مگر ہاں یہ ابھی میں آپ سب کے ذہن نشیں کردینا چاہتا ہوں کہ کوئی رشتہ تو ضرور ہے ہندوستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے طوفان کے بعد ان چنگاریوں کے روس تک پہنچنے کا۔
افغانـپاک دہشت گرد نیٹ ورک سے حملہ آوروں کا تعلق
ماسکو،0مارچ010(انڈوـایشین نیوز سروس)
روس کے وزیرخارجہ سرگیئی لاوروو نے کہا کہ ماسکو میں دو میٹرو اسٹیشنوں پر ہوئے دھماکوں کی سازش رچنے والوں کا تعلق افغانستانـپاکستان سرحد پر واقع دہشت گرد تنظیموں سے ہوسکتا ہے۔
خبررساں ایجنسی آرآئی اے نوووستی کے مطابق لاوروو نے کہا کہ اس بات کے امکان ہیں کہ ماسکو میں ہوئے دھماکوں کو غیرممالک کے تعاون سے انجام دیا گیا۔ انہوں نے کہا ’’فی الحال کسی بھی امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘‘
لاوروو نے کہا کہ ماسکو اس بات سے واقف ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع علاقوں میں دہشت گرد سرگرم ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ہم یہ جانتے ہیں کہ کئی دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف افغانستان میں حملے کرتی ہیں، بلکہ دیگر ممالک کو بھی اپنا نشانہ بناتی ہیں۔‘‘
روسی وزیرخارجہ نے بین الاقوامی برادری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرنے کی اپیل کی۔
…………………
ماسکو دھماکے: پاکـافغان دہشت گردوں کا ہاتھ!
ٹورنٹو/ماسکو،0مارچ010(ایجنسیاں)
روس کے وزیرخارجہ سرگیئی لاوروو کا کہنا ہے کہ ماسکو میں دو میٹرواسٹیشنوں پر پیرکے روز دھماکوں میں افعانستانـپاکستان سرحد پر سرگرمیاں چلانے والی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
لاوروو نے کہا کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ افغانستانـپاکستان سرحد کے شورش زدہ علاقہ کے اسلامی دہشت گردوں نے ماسکو میں ہوئے دھماکوں کے لےے مدد کی ہوگی۔ کناڈا میں جیـکے ممالک کے وزیرخارجہ کی میٹنگ میں انہوں نے یہ بات کہی۔
لاوروو نے کہا کہ ایسا امکان ہے کہ ماسکو میں ہوئے دھماکوں کو باہری تعاون سے انجام دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال کسی بھی امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
لاوروو نے کہا کہ ماسکو اس بات سے واقف ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد سرگرم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کئی دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف افغانستان میں حملے کرتے ہیں، بلکہ دیگر ممالک کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔
بیٹھک میں کناڈا کے وزیرخارجہ لارنس کینن نے کہا کہ ماسکو میں دو میٹرو اسٹیشنوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی ہم مذمت کرتے ہیں، جن میں کئی بے قصور ہلاک اور زخمی ہوئے۔ جیـممالک کے وزیرخارجہ نے حملہ میں مارے گئے لوگوں کے لواحقین کے تئیں گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔
اس میٹنگ میں روس، ناروے، امریکہ اور ڈنمارک کے وزیرخارجہ نے حصہ لیا۔ لاوروو نے کہا کہ مستقبل میں ایسے حملوں سے بچنے کے لےے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔
ماسکو میں پیرکے روز پہلا دھماکہ وسط ماسکو کے لبیانکااسٹیشن پر صبح 7بج کر 56منٹ پر ہوا۔ دوسرا دھماکہ نزدیکی پارک کلتری اسٹیشن پر 8بج کر0منٹ پر ہوا۔ ان دھماکوں میں کم ازکم 38لوگ ہلاک اور0سے زائد زخمی ہوئے۔
No comments:
Post a Comment