اگر کوئی میرا قتل کرنا چاہتا ہے تو وہ مجھ پر گولی چلائے،چاقو سے وار کرے یا بم سے اڑا دے۔کیا فرق پڑتا ہے ! اگر میری جان چلی جاتی ہے تو ہتھیار کوئی بھی ہو۔ بس اسی طرح اگر کوئی میرے ملک کی دشمنی پر آمادہ ہے تو وہ القاعدہ ہو، لشکر طیبہ،ایف بی آئی یا سی آئی اے، کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر میرے ملک کے بے گناہ شہریوں کی جان جاتی ہے۔میرے ملک میں منافرت کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ تشدد پھوٹ پڑتا ہے۔ہم ایک طرف دہشت گردی کا شکار ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف فرقہ پرستی کے۔ ملک کا امن و امان تباہ ہو جاتا ہے ۔ہم خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں ۔پھر ایک بار تقسیم وطن جیسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر یہ جرم لشکر طیبہ کا ثابت ہو، القاعدہ کا،ایف بی آئی یا سی آئی اے کا،جن گھروں کا چراغ بجھ جائیں گے ،ہم انھیں پھر سے روشن تو نہیں کر سکتے،دلوں میں نفرت کی دیواریں جو کھڑی ہوجاتی ہیں، ہم انھیں ایک پل میں مٹا تو نہیں سکتے۔ہماری دشمنی پر آمادہ ہے پاکستان اور وہ اپنی دہشت گردتنظیموں کے ذریعے ہمارے ملک میں بم دھماکے کروارہا ہے یا پھر یہ چال امریکہ کی ہے اور وہ سی آئی اے اور ایف بی آئی کا استعمال کرکے القاعدہ اور لشکر طیبہ کے ذریعے یہ بم دھماکے کرارہا ہے ۔ہم اسے کتنا الگ الگ نظروں سے دیکھیں۔ میں جانتا ہوں میری اس بات پر بہت سے طاقتور لوگ چراغ پا ہو جائیں گے۔میں کیوں لشکر طیبہ اور القاعدہ کو ایف بی آئی اور سی آئی اے کے زمرے میں رکھ رہا ہوں ۔کیوں ان کا کردار ایک جیسا ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ 26/11/2008کو ممبئی کے راستے ہندوستان پر ہوا دہشت گردانہ حملہ میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کا کلیدی مجرم ڈیوڈ کولیمن ہیڈلی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔رہا ہوگا وہ القاعدہ یا لشکر طیبہ کا ایجنٹ، مگر ہندوستان آیا وہ ایک امریکی کی حیثیت سے۔دہشت گردی کا نشانہ بنائی جانے والی جگہوں کی نشاندہی کی اس نے ایف بی آئی کے ایجنٹ کی حیثیت سے۔مجھے معاف فرمائیں،یہی حقیقت ہے اس کی جب وہ پاکستان کی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ میں ایف بی آئی کے ذریعے شامل کرایا گیا تو وہ ایف بی آئی کے ایجنٹ کی حیثیت سے ہی شامل ہواتھا۔جب وہ منشیات کے جرم میں گرفتار ہوا اور چھوڑا گیا تو اسی وقت چھوڑا گیا جب اس نے امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے لئے استعمال ہونے کی رضامندی دی تھی۔اس کے بعد جو کچھ کیا اس نے ایف بی آئی کے ایجنٹ کی حیثیت سے کیا۔بدلے ہوئے نام اور ولدیت کے ساتھ اس کا جو پاسپورٹ بنا، وہ لشکر طیبہ یا القاعدہ کے اشارے پر نہیں ،ایف بی آئی یا سی آئی اے کے اشارے پرتھا۔اس لئے کہ پاکستان کی یہ دہشت گرد تنظیمیں امریکی حکمرانوں پر اس قدر اثر انداز نہیں ہو سکتیں کہ بدلے ہوئے ناموں اور ولدیت کے ساتھ پاسپورٹ جاری کرانے میں کامیابی حاصل کر لیں۔پھر جس طرح اس کی بار بار ہندوستان آمد ہوئی، ہندوستان میں لمبے عرصے تک قیام رہا اور بیشتر مقامات تک جانے کا موقع ملا، اس لئے کہ ہم اسے امریکی شہری اور غیر مسلم سمجھتے رہے،مسلمان یا پاکستانی نہیں، مگر امریکی حکومت تو بخوبی یہ جانتی تھی کہ اس کی اصلیت کیا ہے۔یہ کون سوچ سکتا ہے کہ پوری دنیا پر نظر رکھنے والی امریکی خفیہ ایجنسیاں اپنے ہی ایجنٹوں پر نظر نہ رکھتی ہوں۔ان کی نقل و حرکت سے بے خبر ہوں۔وہ کب،کہاں ،کیوں ہےں اور کیا کر رہے ہیں،ان کے ارادے کیا ہیں ،اس سے بے خبر ہوں۔ہمارا تو ماننا ہے کہ اپنے ایجنٹوں کی تمام نقل و حرکت،ان کو دی گئی ذمہ داری اور یہ ذمہ داری کو نبھانے کا طریقہ، سب کچھ ان خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ ہی طے ہوتا ہے۔کس طرح ایک ایسا دہشت گرد جس نے ہندوستان میں 9/11جیسا دہشت گردانہ حملہ کیا، بآسانی ہمارے ملک سے نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ہم قصاب کو پکڑے بیٹھے رہے اور یہی مان کر چلتے رہے کہ 26/11کے جرم میں مرکزی کردار اجمل عامر قصاب کا ہے،لشکر طیبہ کا ہے،پاکستان کا ہے۔ہم کبھی 10 کی گنتی سے آگے بڑھے ہی نہیں۔ہم 11ویں کے نام پر اس طرح واویلا مچانے لگتے،گویا اس 11ویں شخص کا مطلب ہمیں سے ہے۔پھر یہ ڈیوڈ کولیمن ہیڈلی کہاں سے آگیا؟ایف بی آئی اور امریکہ سے اس کا تعلق کیسے پیدا ہو گیا؟پھر امریکہ جو ہمارا دوست ہے اس نے کیوں نہیں ہمیں بروقت یہ جانکاری دی؟ کیوں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ بآسانی ہندوستان کی سرحد سے بہت دو ر چلا جائے؟ ان کی پناہ میں چلاجائے؟ وہ اس کی راہ فرار کا راستہ نکال لیں؟ اپنے یہاں اس کی گرفتاری دکھائیں؟ پھر امریکی قانون کے مطابق ساری کہانی کچھ اس طرح تیار کریں کہ نہ ہندوستانی افسر اس سے پوچھ گچھ کر پائیں،نہ اسے ہندوستان لایا جا سکے۔اسے وہ جب تک چاہیں اپنی قید میں رکھیں اور ہوسکتا ہے یہ قید بھی دنیا دکھاوے کی ہو۔جب کوئی اس سے مل ہی نہیں سکتا تو کب اور کہاں وہ ایک اور بدلے ہوئے نام سے امریکہ کی کسی عیش گاہ میں شاندار زندگی گزارتا رہے،ہم ڈیوڈ کولیمن ہیڈلی پر نظر رکھیں۔اس کے نام کی لکیر پیٹتے رہیں۔اس کی ایک تصویر بھی ہمارے پاس نہ ہو اور وہ کسی رابرٹ ولیم کے نام سے پھر امریکہ کے کسی شہر میں نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر چکا ہو او ر اس سے بھی کیا بعید کہ ذرا سی پلاسٹک سرجری کرا کر،اپنے چہرے میں تھوڑی سی تبدیلی کرا کر پھر وہ ہمارے ملک میں چلا آئے۔کوئی نیا دہشت گردانہ حملہ پلان کرنے کے لئے نئے نام اور نئی ولدیت کے ساتھ۔ آخر ہندوستان کا چپہ چپہ اس نے دیکھا ہے۔وہ ہماری کمزوریوں سے واقف ہے،بچ نکلنے کے طریقے جانتا ہے۔اسے اپنے امریکی آقائوں پر مکمل اعتماد ہے، جو بار بار اسے گرفتار کرتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں۔ہو سکتا ہے وہ اپنی گرفتاری اور رہائی کو کچھ اسی انداز میں دیکھتا ہو، جیسے ہمارے یہاں کچھ سیاستداں صبح کو گرفتار ہوتے ہیں اور شام کو رہا ہو جاتے ہیں، پھر پھول مالائوں سے ان کا استقبال ہوتا ہے۔ہو سکتا ہے ہندوستان کی دشمنی پر تعینات کرنے والے اس کی کامیابی کے بعد اس کا ایسا ہی استقبال کرتے ہوں۔یہ گرفتاری اور مقدمہ کا ڈرامہ صرف زمانے کو دکھانے کے لئے ہو۔میں نے اس ضمن میں کئی مضامین لکھے ہیں۔آج وہ سب میرے سامنے ہیں۔کل جب بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں مارے گئے عاطف اور ساجد کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ دیکھ رہا تھا تو اس واقعہ کے تعلق سے میں نے جو کچھ لکھا، اس کی فائل میرے سامنے تھی اور آج پھر ایک بار ان مضامین کے تراشے حوالوں کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا اور صرف قارئین ہی کیوں،حکومت ہند اور ہمارے اس زاویے سے سوچنے پر چراغ پا ہو جانے والوں کے سامنے بھی رکھنا چاہتا تھا کہ دیکھو جو کچھ ہم نے لکھا تھا وہی سب تو اب پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی کہہ رہی ہے، لیکن رات ہی رات میں حالات بدل گئے۔پھر بٹلہ ہائوس انکائونٹر کا یہ معاملہ پس پشت چلا گیا۔میں اس پر کچھ اور لکھتا، اس سے پہلے ہیڈلی کا معاملہ سامنے آگیا اور اس کے ساتھ ہی اس سلسلے میں لکھے گئے میرے مضامین کی ایک اور فائل میرے سامنے آگئی۔جو کچھ میں نے بہت پہلے لکھا تھا وہی اب ڈیوڈ ہیڈلی اور امریکہ کے معاملے میں سامنے آرہا ہے۔میں کوئی نجومی نہیں ہوں۔غیر معمولی ذہین اور ایسی انوکھی صلاحیتوں کا مالک بھی نہیں ہوں،جو میرے سوا کسی کے پاس نہ ہوں۔میں کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں، اگر کوئی بھی شخص پوری طرح متوجہ ہو کر اپنی قوم،ملک یا انسانیت کے تحفظ کو ذہن میں رکھ کر سوچے گا تو خود بخود یہ تما م باتیں اس کے ذہن میں آنے لگیں گی۔کیا ہماری خفیہ ایجنسیوں میں اپنی قوم، ملک یا انسانیت کے لئے ایسا جذبہ نہیں ہے؟ نہیں ایسا نہیں سوچا جا سکتا۔پھر کیا کوئی مجبوری ان کے سامنے ہے؟ کیا وہ ایسی ذہنیت رکھتے ہیں کہ لشکر طیبہ،القاعدہ اور پاکستان سے آگے بڑھ کر سوچنا ہی نہیں چاہتے؟ یا پھر ایف بی آئی،سی آئی اے اور امریکہ کے بارے میں وہ چاہ کر بھی سوچ نہیں پاتے؟ ہمارے ملک کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ امریکہ کے دورے پر گئے۔پھر سعودی عرب کے دورے پر بھی۔دہشت گردی کے سوال پر دونوں جگہ ان کی گفتگو ہوئی۔سعودی عرب میں یہ گفتگو کس قدر با معنی تھی، اس کا بہتر اندازہ تو ہمارے وزیر اعظم کو ہی ہوگا، لیکن امریکہ میں دہشت گردی کے موضوع پر گفتگو انتہائی اہم قرار دی جا سکتی ہے۔ اس گفتگو میں کیاانیتا ادیا کے سوا ل پر بھی بات ہوئی،جس کے بارے میں خبریں گرم تھیں کہ 26نومبر008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث دہشت گردوں کو زندہ دیکھنے والی وہ تنہا عینی شاہد ہے اور جسے انتہائی خفیہ طریقے سے امریکہ لے جایا گیا تھا۔ کیا امریکی سفر کے دوران اور امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کے دوران بدلے ہوئے نام اور ولدیت،جعلی پاسپورٹ کے ذریعے ہندوستان آنے والے ڈیوڈ کولیمن ہیڈلی کے بارے میں کوئی بات ہوئی، جو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث پایا گیا ہے، ہمیں نہیں معلوم۔26/11دہشت گردانہ حملے کے بعد کم و بیش امریکہ کے جتنے بھی سربراہان اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران نے ہندوستان کا دورہ کیا،پاکستان پر حملے کی بات ضرور کہی،یعنی تقریباً تمام نے ہندوستان کے ذریعے پاکستان پر حملہ کئے جانے کا ماحول بنایا،ترغیب دی اور بہت حد تک آمادہ کیا۔یہ دانشمندی تھی حکومت ہند کی کہ اس نے کسی آخری نتیجے پر پہنچنے سے پہلے جنگ کا راستہ نہیں اپنایا، مگر جو ماحول بنا اس میں پاکستان کے تئیں شدید نفرت اور جنگ کے حالات پیدا ہو گئے تھے ،اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہمارے سامنے اجمل عامر قصاب سے بھی بڑا دہشت گرد چہرہ ہے ڈیوڈ کولیمن ہیڈلی کاہے،جسے امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے،جس نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا ہے،جس نے 26/11کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں اپنے کردار کی مکمل وضاحت کی ہے ۔اب کیا کہیں گے امریکی حکمراں اور خفیہ تنظیموں کے افسران۔کیا جو بات وہ پاکستان کے تعلق سے کہہ رہے تھے،اب اپنے تعلق سے بھی کہہ سکتے ہیں ؟} ہم نے مانا کہ جو سوچ ہم پاکستان کے لئے رکھتے ہیں،وہ سوچ ہم امریکہ کے لئے نہیں رکھتے۔پاکستان کے ساتھ جس قدر تلخ ترش لہجے میں ہم بات کر سکتے ہیں، امریکہ کے بارے میں نہیں۔ہم پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں القاعدہ، لشکر طیبہ اور خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کے حوالے سے جو کچھ کہہ سکتے ہیں، وہ ایف بی آئی یا سی آئی اے کے تعلق سے نہیں، مگر کیا اس سے کسی کا جرم چھوٹا ہو جاتا ہے؟یہ الگ بات ہے کہ ہم اس تیور کے ساتھ امریکہ سے بات نہ کریں، مگر دہشت گردی کا بہانہ بنا کر امریکہ نے پوری دنیا میں جو دہشت گردی کی فضا پیدا کی ہے،اسے دیکھ اور سمجھ کر بھی کیا خاموش رہ جانا چاہئے؟ کیا اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر نہیں اٹھایا جانا چاہئے؟میرے سامنے اس وقت ٹی وی نیوزچینل ’’آج تک‘‘ کی ایک تازہ رپورٹ ہے، جس میں اس نے ڈیوڈ کولیمن ہیڈلی کے تازہ بیان کے حوالے سے کچھ نکات سامنے رکھے ہیں۔میں اپنے قارئین کی خدمت میں انھیں لفظ بہ لفظ پیش کر دینا چاہتا ہوں،اس کے بعد میری کل کی تحریر میں آپ پڑھیں گے،ڈیوڈ کولیمن ہیڈلی کے تعلق سے جو کچھ میں نے گزشتہ دنوں لکھا اس کے اہم اقتباسات۔وہ اس لئے کہ اگر بروقت ہماری حکومت اور خفیہ تنظیموں نے اس طرف توجہ دی ہوتی اور ان خدشا ت کو ذہن میں رکھا ہوتا تو آج ہم جس درجہ خود کو ہیڈلی کی سپردگی کے معاملے میں لاچار اور بے بس محسوس کر رہے ہیں،شاید یہ صورتحال نہ ہوتی اور ہم نے کوئی راستہ نکال لیا ہوتا۔گناہ قبول موت کی سزا سے بچا ہیڈلی:’آج تک‘پاکستان کے ایک سابق سفارتکار اور فلاڈیلفیا کے ایک سوشلائٹ کے بیٹے ہیڈلی نے اپنے اوپر لگے سبھی بارہ الزامات میں اپنا جرم تسلیم کر لیا ہے۔اس معاملے کی سنوائی تقریباً آدھے گھنٹے تک چلی۔ایف بی آئی نے شکاگو کے رہنے والے 49سالہ ہیڈلی کو گزشتہ برس 3اکتوبر کو گرفتار کیا تھا۔ہیڈلی نے امریکی ضلع جج ہیری لینن بیور کو بتایا کہ وہ اپنا پچھلا بیان بدلتے ہوئے اپنے جرم کو قبول کرنا چاہتا ہے۔سمجھا جاتا ہے کہ ہیڈلی نے سزائے موت سے بچنے کے لئے اور کم و آسان سزا پانے کے لئے اپنا جرم قبول کیا ہے۔ بہرحال فیڈرل استغاثہ کے ساتھ ہوئے سمجھوتے کے مطابق اسے سزائے موت نہیں دی جائے گی اور اس کو ہندوستان، پاکستان و ڈنمارک کے سپرد بھی نہیں کیا جائے گا۔سمجھوتے کے مطابق وہ دہشت گردی کے خلاف جانچ میں سرکار کو تعاون دے گا۔پاکستانی نژاد امریکی شہری اور لشکر طیبہ کے دہشت گرد ڈیوڈ کولیمن ہیڈلی نے شکاگو کی ایک عدالت کے سامنے اپنی سزا کم کرنے کے لئے کی گئی اپیل میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔اپنے 35صفحات پرمشتمل حلف نامے میں ہیڈلی نے امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کے اپنے پچھلے ریکارڈ کا حوالہ دیا،جب اسے 1998میں امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی نے گرفتار کیا تھا۔حلف نامہ کہتا ہے کہ ہیڈلی کے سابقہ بیان اور مستقبل میں متوقع تعاون کے مدنظر امریکہ کے اٹارنی جنرل نے الینائے کے ناردرن ضلع کے امریکی اٹارنی کو ہیڈلی کے خلاف موت کی سزا کی مانگ نہیں کرنے کے لئے نامزد کیا ہے۔حلف نامہ کے مطابق ہیڈلی یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ اس معاہدہ کو توڑتا ہے،اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایسی صورت میں سرکار اس سمجھوتے کو بے اثر کر سکتی ہے،تب سرکار موت کی سزا کی مانگ نہ کرنے کے اپنے فیصلے کو ماننے کے لئے مجبور نہیں ہوگی ۔
Saturday, March 20, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment