کبھی کبھی لکھتے وقت میں اس بات کا خیال نہیں رکھتا کہ میرا مضمون ادبی یا صحافتی قدروں کا کس حد تک پابند رہا ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی یہ کوئی ایسی تحریر نہیں ہوتی، جسے قابل ذکر تصور کیا جاسکے۔ بیشتر خامیاں ہوسکتی ہیں، اس لےے کہ ہرروز وقت ہی کتنا ہوتا ہے لکھنے اور نظرثانی کے لےے اور پھر میری توجہ کا مرکز تو صرف اور صرف ایک بات ہوتی ہے،وہ یہ کہ کیا میری تحریر سے وہ پیغام میرے قارئین اور معاشرے تک پہنچ رہا ہے یا نہیں، جو میں پہنچانا چاہتا ہوں؟ اگر ہاں، تو پھر آپ میری خوشی اور اطمینان کا اندازہ نہیں کرسکتے، جس طرح ایک بنجرتسلیم کی جانے والی زمین میں مالی کی کاوشیں خوبصورت پھول کھلا دیتی ہیں اور پھر اپنے خوشنما چمن کو دیکھ کر اس کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے، بس ایسی ہی کچھ ذہنی کیفیت میری بھی ہوتی ہے۔
یوں تو دنیا بھر میں خواتین کو مردوں کے برابر حیثیت حاصل نہیں ہے۔ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک اور تمام طرح کے حقوق انسانی کا خیال رکھنے کا دعویٰ کرنے والے ملک امریکہ میں بھی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی کا فیصدمردوں کے آس پاس نہیں ہے۔ اب رہا سوال مسلم خواتین کا تو جناب سیاست کی بات تو چھوڑئےے، معاشرے کے کسی بھی میدان میں وہ بھلے ہی کتنی ہی کامیاب رہی ہوں،ان کے حوالے سے بس ایک ہی بات ذہن نشیں کرائی جاتی ہے کہ وہ انتہائی پسماندہ ہیں، چہاردیواری میں قید ہیں، ان کے پاس ترقی کے مواقع بالکل نہیں ہیں، ان سے کسی بھی طرح کی کامیابی کی توقع نہیں کی جاسکتی اور شاید ہمارے مذہبی، سیاسی، سماجی رہنما بھی اسی کو سچ مان بیٹھے ہیں۔ اس لےے مسلم خواتین سے کوئی توقع نہیں رکھتے، کم ازکم سیاسی میدان میں تو قطعاً نہیں، لہٰذا اب سفر کی شروعات بس یہیں سے کرنی ہے۔ اردو صحافت جسے گزرے زمانے کی بات کہہ کر بھلادیا گیا تھا اور جس سے خاطرخواہ کامیابی کی امید ٹوٹ گئی تھی۔ اگر اس زبان کی صحافت ایک نیا انقلاب برپا کرسکتی ہے، فرقہ پرست طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں سیکولرزم کی مضبوطی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے، تمام دنیا میں دہشت گردی کو اسلام کے نام سے منسوب کرنے کے ارادوں کو ناکام بناسکتی ہے، اگر یہ ہوا تو پھر یقین جانئے ’خواتین ریزرویشن بل‘ کی منظوری اس پسماندہ قوم کی پسماندہ تسلیم کی جانے والی خواتین کو بھی تاریخ ساز ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔
مرد حضرات بیشک میری اس تحریر کو پڑھیں، اگر وہ اس سے اتفاق نہ رکھتے ہوں، تب بھی ٹھنڈے دماغ سے ایک مرتبہ اس پر غور ضرور کریں، مگر میری یہ تحریر بالخصوص اپنے ملک کی خواتین کے لےے ہے اور ان میں بھی میری توجہ کا مرکز ’مسلم خواتین‘ ہیں۔ نہیں، کوئی تنگ نظری نہیں، وجہ صرف اتنی ہے کہ جنہیں اس معاملے میں سب سے زیادہ پسماندہ سمجھ لیا گیا ہے اور جن سے کسی کو کوئی امید نہیں ہے، حتیٰ کہ ان کے اپنوں کو بھی نہیں، میں اس تحریری سلسلہ کا آغاز کرتے ہوئے انہیںذہنی طور پر اس سطح تک لے جانا چاہتا ہوں، جہاں سے نہ صرف ان کے دامن پر لگائے جانے والے داغ مٹ سکیں، بلکہ وہ ترقی اور کامیابی کی ایک ایسی تاریخ ساز نظیر دنیا کے سامنے رکھ سکیں، جس کا کوئی ثانی نہ ہو۔
وہ بھی 8مارچ کا دن تھا، جب محمدعلی کلے نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی اور یہ بھی 8مارچ کا ہی دن تھا، جب ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں خواتین ریزرویشن بل کو پیش کیا گیا۔میں اپنی بات کو کہنے کے لےے یا یوں کہےے کہ ذہنوں میں پیوست کرنے کے لےے کبھی خبروں کا سہارا لیتا ہوں، کبھی تاریخی حوالے پیش کرتا ہوں تو کبھی مخالف نظریات رکھنے والوں کے بیانات یا ان کی کتابوں کے تراشے اپنی تحریر کا حصہ بناکر پیش کرتا ہوں۔ اسی جستجو میں آج میں دنیا کی ایک نامور شخصیت محمد علی کلے کی نجی زندگی کی ایک مختصر جھلک اپنے قارئین کی خدمت میں اس یقین کے ساتھ پیش کررہا ہوں کہ ان سب کو صرف اسے پڑھنا ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی زندگی کے لےے مشعل راہ بنانا ہے۔تو آئےے پہلے ایک نظر کاشس مارکیولس کلے (Cassius Marcellus Clay)عرف محمد علی کلے کی زندگی کے نشیب و فراز پر، پھر بات آپ کی پستی سے بلندی کی جانب پرواز پر۔
’’کاشس مارکیولس کلےCassius Marcellus Clay)جن کو آج پوری دنیا محمد علی کلے کے نام سے جانتی ہے اور دنیا کے کئی معتبر اداروں کے ذریعہ صدی کی شخصیت کا خطاب پانے والے اس سیاہ فام شخص نے 17جنوری 1942میں امریکی شہر لوئسولی میں غریب والدین کے یہاں جب آنکھ کھولی تو چار وں طرف نسل پرستی کے سیاہ بادل تھے۔ کاشس کلے کے چھوٹے بھائی روڈی نے ان کے بچپن کے شوق کے بارے میں جو کچھ بتایا، اس سے علی کے باکسنگ کے شوق اور جنون پر روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ (کلے) ان سے کہتے تھے کہ وہ ان پر پتھر ماریں، میں ان کے حکم کی تعمیل یہ سوچتے ہوئے کرتا تھا کہ شاید وہ پاگل ہیں، لیکن ہر مرتبہ وہ میرے پتھر سے بچ جاتے تھے، چاہے میں کتنی ہی تیزی سے پتھر پھینکوں اورکتنے ہی پتھر پھینکوں، کیا مجال کہ کوئی ایک پتھر بھی ان کے لگ جائے۔ میرے پتھر سے کبھی ان کو چوٹ نہیں لگی۔
ایک مرتبہ 1954میں جب وہ 12سال کے تھے تو وہ کولمبیا آڈیٹوریم میں اپنی نئی سائیکل لے کر گئے، وہاں کسی نے اسے چرا لیا۔وہ روتے ہوئے ایک پولس والے کے پاس پہنچے۔ اس پولس والے جس کا نام جو مارٹن تھا، اس نے کلے کو بہلاتے ہوئے کہا کہ وہ ان کو مکے بازی سکھائیں گے، تاکہ وہ اپنی سائیکل چرانے والے کی دھنائی کریں۔ یہ وہی جو مارٹن تھے جو بعد میں محمد علی کلے کے ٹرینر بنے اور ان کوباکسنگ کا پہلا سبق دیا۔’’ اپنے حریف کو چیلنج کرنے سے پہلے لڑنا سیکھو۔‘‘ اسی گر کو سیکھ کر کلے نے باکسنگ کاسب سے پہلا مقابلہ جیتا۔ اس مقابلے میں چار ڈالر کا انعام پانے سے شروعات کرنے والے کلے آگے چل کر دنیا کے سب سے بڑے ہیوی ویٹ چمپئن بنے۔ جو مارٹن کا کہنا ہے کہ وہ (کلے) میدان میں صرف اس لیے کامیاب رہا کہ وہ پکے ارادے والا لڑکا تھا۔ اس میں منزل حاصل کرنے کے لیے قربانی کا جذبہ تھا۔ اس کی کوئی حوصلہ شکنی نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے جتنے لڑکوں کو تربیت دی، ان میں وہ سب سے زیادہ سخت جان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کامیابی اس کے قدم چومتی رہی۔956میں Novice Golden Gloves Champion Ship جیتی۔اس کے بعد959 میں لائٹ ہیوی ویٹ کا قومی خطاب جیتا۔
1960کے اولمپک میں جیت درج کرانے والے لائٹ اور ہیوی ویٹ اولمپک چمپئن محمد علی کو یہ خطاب سائیکل چوری کے واقعہ کے صرف 6سال بعد ہی مل گیا تھا،لیکن امریکہ کے لیے اتنی قربانی دینے والے اور اعزاز جیتنے والے اس شخص کو نیو یارک کے ریستوراں میں یہ احساس دلایا گیا کہ اس کی جلد کا رنگ سیاہ ہے، لہٰذا اس کو ایک الگ میز پر بیٹھنا ہوگا۔
اپنے دل میں آگے بڑھنے کی آگ لیے کاشس کلے نے 1963 میں انگلینڈ میں برطانیہ کے ہیوی ویٹ چمپئن ہینری کو پر کو 25ہزار شائقین کے جم غفیر کے سامنے دھول چٹادی۔964میں کلے نے ہیوی ویٹ چمپئن سونی لسٹنSonny Listion) پر سبقت حاصل کرلی۔ یہ وہی Sonny Listionتھا، جس نے باکسنگ میںاپنی ہیبت قائم کر رکھی تھی۔ اس طرح کلے 25 فروری 1964 کو، جب کلے کی عمر محض 22سال تھی، وہ ہیوی ویٹ چمپئن بن کر ابھرے۔ کامیابی اور عظمت کے اس مقام پر پہنچنے کے اگلے ہی روز، یعنی 26 فروری 1964کو کلے نے اپنے مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کردیا۔ مبصرین نے اس اعلان کو دولت اور توقیر کے آگے بہت بڑی رکاوٹ قراردیا، لیکن انہوں نے تمام نکتہ چینیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا نام محمد علی کلے رکھ لیا۔ 6 مارچ 1964 میں جب حکومت امریکہ نے محمد علی کلے سے ویتنام جنگ میں خدمات انجام دینے کے لیے کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ویتنام کے لوگوں سے ان کا کوئی جھگڑا نہیںہے۔ یہ بات حکومت کو ناگوار گزری اور ان کو مختلف باکسنگ ایسو سی ایشنوں کی رکنیت سے محروم کردیا گیا، جوفریزر کو کئی اعزاز دیے گئے اور کلے پر پابندی عائد کردی گئی۔ یہ پابندی ساڑھے تین سال تک قائم رہی، لیکن مزید پیش قدمیوں سے اس شیرکو کوئی نہیں روک پایا۔ محمد علی نے عدالت میں اپنا موقف رکھا۔ کئی ریاستوں اور باکسنگ ایسوسی ایشنوں نے ان کو مقابلہ آرائی کے لیے رِنگ میں اترنے کی اجازت دینی شروع کر دی۔ 8 مارچ 1971کو ان کا مقابلہ ان کے پکے دشمن جو فریزر سے ہوا۔ اس مقابلے کو تاریخ میں Fight of the Century بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ علی کا مقابلہ ایک ایسے شخص سے تھا کہ جسے ان کی رنگ سے غیرحاضری کے دوران باکسنگ کے خطاب دئےے گئے تھے۔ اس مقابلے پر پورے امریکہ کی نگاہ تھی۔ ہر شخص اس تاریخی لمحہ کا گواہ بننا چاہتا تھا ا ور وہی ہوا، جس پر محمد علی کلے کو یقین تھا۔ انہوںنے جو فریزر کوپندرہویں مکے میں ہی ڈھیر کردیا۔ اس کے بعد ان کی کامیابیوں کے دروازے کھلنے لگے۔ کچھ دن کے بعد امریکہ کی سپریم کورٹ نے ویتنام نہ جانے کے محمد علی کلے کے موقف کو درست قرار دیا اور ان تمام مقدمات سے بری کردیا، جو حکومت نے ان پر عائد کےے تھے۔ وہ ایک بار پھر سرخ رو ہوکر ابھرے اور رنگ میں بھی کامیابیوں کا سلسلہ پھر چل نکلا۔ ایک بار پھریکم اکتوبر975میں تیسری بار ان کا مقابلہ اپنے جانی دشمن جوفریزر سے ہوا۔ اس مقابلے میں جسے باکسنگ کی تاریخ کا سب سے بڑامقابلہ کہا جاتا ہے، فریزر نے شکست کھائی۔ وہ پوری دنیا میں مظلوموں کے مسیحا اور کسی حد تک عالم اسلام میں ہیرو بن کر ابھرے۔ 15ستمبر 1978میں ان کو دنیا کاسب سے بڑا اعزاز ملا۔ وہ تین مرتبہ ہیوی ویٹ چمپئن قرار دیے گئے ۔ 39 سال کی عمر میں ٹریور بریک سے ہارنے کے بعد انہو ںنے باکسنگ کو خیرباد کہا، لیکن باکسنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود ان کو عزت و احترام حاصل رہا۔ 1998میں اقوام متحدہ نے ان کو اپنا پیامبر امن مقرر کیا اور 1999 میںایک ممتاز عالمی اسپورٹ میگزین "Sports Illustrated" نے اُنہیں ’’صدی کا بہترین کھلاڑی‘‘ اور بی بی سی نے ’’صدی کی اسپورٹ شخصیت‘‘ قرار دیا۔ کھیل کود میں دلچسپی کے باوجود وہ فلاحی اور مذہبی کاموں میں مصروف رہے۔ انہی خدمات کے اعتراف میں محمد علی کلے کو 2005 میں امریکہ کا سب سے بڑا اعزاز "Presidential Medel of Freedom" دیا گیا۔ آج ان کی بیٹی لیلیٰ علی اپنے والد محمد علی کلے کی باکسنگ میں شاندار روایت کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ 2002 میں لاس ویگاس میں آئی بی اے خطاب جیت کر سرخیوں میں آنے والی لیلیٰ نے 24مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور وہ ہر مقابلے میں سرخرو ہوئی ہیں۔‘‘
یوں تو دنیا بھر میں خواتین کو مردوں کے برابر حیثیت حاصل نہیں ہے۔ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک اور تمام طرح کے حقوق انسانی کا خیال رکھنے کا دعویٰ کرنے والے ملک امریکہ میں بھی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی کا فیصدمردوں کے آس پاس نہیں ہے۔ اب رہا سوال مسلم خواتین کا تو جناب سیاست کی بات تو چھوڑئےے، معاشرے کے کسی بھی میدان میں وہ بھلے ہی کتنی ہی کامیاب رہی ہوں،ان کے حوالے سے بس ایک ہی بات ذہن نشیں کرائی جاتی ہے کہ وہ انتہائی پسماندہ ہیں، چہاردیواری میں قید ہیں، ان کے پاس ترقی کے مواقع بالکل نہیں ہیں، ان سے کسی بھی طرح کی کامیابی کی توقع نہیں کی جاسکتی اور شاید ہمارے مذہبی، سیاسی، سماجی رہنما بھی اسی کو سچ مان بیٹھے ہیں۔ اس لےے مسلم خواتین سے کوئی توقع نہیں رکھتے، کم ازکم سیاسی میدان میں تو قطعاً نہیں، لہٰذا اب سفر کی شروعات بس یہیں سے کرنی ہے۔ اردو صحافت جسے گزرے زمانے کی بات کہہ کر بھلادیا گیا تھا اور جس سے خاطرخواہ کامیابی کی امید ٹوٹ گئی تھی۔ اگر اس زبان کی صحافت ایک نیا انقلاب برپا کرسکتی ہے، فرقہ پرست طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں سیکولرزم کی مضبوطی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے، تمام دنیا میں دہشت گردی کو اسلام کے نام سے منسوب کرنے کے ارادوں کو ناکام بناسکتی ہے، اگر یہ ہوا تو پھر یقین جانئے ’خواتین ریزرویشن بل‘ کی منظوری اس پسماندہ قوم کی پسماندہ تسلیم کی جانے والی خواتین کو بھی تاریخ ساز ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔
مرد حضرات بیشک میری اس تحریر کو پڑھیں، اگر وہ اس سے اتفاق نہ رکھتے ہوں، تب بھی ٹھنڈے دماغ سے ایک مرتبہ اس پر غور ضرور کریں، مگر میری یہ تحریر بالخصوص اپنے ملک کی خواتین کے لےے ہے اور ان میں بھی میری توجہ کا مرکز ’مسلم خواتین‘ ہیں۔ نہیں، کوئی تنگ نظری نہیں، وجہ صرف اتنی ہے کہ جنہیں اس معاملے میں سب سے زیادہ پسماندہ سمجھ لیا گیا ہے اور جن سے کسی کو کوئی امید نہیں ہے، حتیٰ کہ ان کے اپنوں کو بھی نہیں، میں اس تحریری سلسلہ کا آغاز کرتے ہوئے انہیںذہنی طور پر اس سطح تک لے جانا چاہتا ہوں، جہاں سے نہ صرف ان کے دامن پر لگائے جانے والے داغ مٹ سکیں، بلکہ وہ ترقی اور کامیابی کی ایک ایسی تاریخ ساز نظیر دنیا کے سامنے رکھ سکیں، جس کا کوئی ثانی نہ ہو۔
وہ بھی 8مارچ کا دن تھا، جب محمدعلی کلے نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی اور یہ بھی 8مارچ کا ہی دن تھا، جب ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں خواتین ریزرویشن بل کو پیش کیا گیا۔میں اپنی بات کو کہنے کے لےے یا یوں کہےے کہ ذہنوں میں پیوست کرنے کے لےے کبھی خبروں کا سہارا لیتا ہوں، کبھی تاریخی حوالے پیش کرتا ہوں تو کبھی مخالف نظریات رکھنے والوں کے بیانات یا ان کی کتابوں کے تراشے اپنی تحریر کا حصہ بناکر پیش کرتا ہوں۔ اسی جستجو میں آج میں دنیا کی ایک نامور شخصیت محمد علی کلے کی نجی زندگی کی ایک مختصر جھلک اپنے قارئین کی خدمت میں اس یقین کے ساتھ پیش کررہا ہوں کہ ان سب کو صرف اسے پڑھنا ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی زندگی کے لےے مشعل راہ بنانا ہے۔تو آئےے پہلے ایک نظر کاشس مارکیولس کلے (Cassius Marcellus Clay)عرف محمد علی کلے کی زندگی کے نشیب و فراز پر، پھر بات آپ کی پستی سے بلندی کی جانب پرواز پر۔
’’کاشس مارکیولس کلےCassius Marcellus Clay)جن کو آج پوری دنیا محمد علی کلے کے نام سے جانتی ہے اور دنیا کے کئی معتبر اداروں کے ذریعہ صدی کی شخصیت کا خطاب پانے والے اس سیاہ فام شخص نے 17جنوری 1942میں امریکی شہر لوئسولی میں غریب والدین کے یہاں جب آنکھ کھولی تو چار وں طرف نسل پرستی کے سیاہ بادل تھے۔ کاشس کلے کے چھوٹے بھائی روڈی نے ان کے بچپن کے شوق کے بارے میں جو کچھ بتایا، اس سے علی کے باکسنگ کے شوق اور جنون پر روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ (کلے) ان سے کہتے تھے کہ وہ ان پر پتھر ماریں، میں ان کے حکم کی تعمیل یہ سوچتے ہوئے کرتا تھا کہ شاید وہ پاگل ہیں، لیکن ہر مرتبہ وہ میرے پتھر سے بچ جاتے تھے، چاہے میں کتنی ہی تیزی سے پتھر پھینکوں اورکتنے ہی پتھر پھینکوں، کیا مجال کہ کوئی ایک پتھر بھی ان کے لگ جائے۔ میرے پتھر سے کبھی ان کو چوٹ نہیں لگی۔
ایک مرتبہ 1954میں جب وہ 12سال کے تھے تو وہ کولمبیا آڈیٹوریم میں اپنی نئی سائیکل لے کر گئے، وہاں کسی نے اسے چرا لیا۔وہ روتے ہوئے ایک پولس والے کے پاس پہنچے۔ اس پولس والے جس کا نام جو مارٹن تھا، اس نے کلے کو بہلاتے ہوئے کہا کہ وہ ان کو مکے بازی سکھائیں گے، تاکہ وہ اپنی سائیکل چرانے والے کی دھنائی کریں۔ یہ وہی جو مارٹن تھے جو بعد میں محمد علی کلے کے ٹرینر بنے اور ان کوباکسنگ کا پہلا سبق دیا۔’’ اپنے حریف کو چیلنج کرنے سے پہلے لڑنا سیکھو۔‘‘ اسی گر کو سیکھ کر کلے نے باکسنگ کاسب سے پہلا مقابلہ جیتا۔ اس مقابلے میں چار ڈالر کا انعام پانے سے شروعات کرنے والے کلے آگے چل کر دنیا کے سب سے بڑے ہیوی ویٹ چمپئن بنے۔ جو مارٹن کا کہنا ہے کہ وہ (کلے) میدان میں صرف اس لیے کامیاب رہا کہ وہ پکے ارادے والا لڑکا تھا۔ اس میں منزل حاصل کرنے کے لیے قربانی کا جذبہ تھا۔ اس کی کوئی حوصلہ شکنی نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے جتنے لڑکوں کو تربیت دی، ان میں وہ سب سے زیادہ سخت جان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کامیابی اس کے قدم چومتی رہی۔956میں Novice Golden Gloves Champion Ship جیتی۔اس کے بعد959 میں لائٹ ہیوی ویٹ کا قومی خطاب جیتا۔
1960کے اولمپک میں جیت درج کرانے والے لائٹ اور ہیوی ویٹ اولمپک چمپئن محمد علی کو یہ خطاب سائیکل چوری کے واقعہ کے صرف 6سال بعد ہی مل گیا تھا،لیکن امریکہ کے لیے اتنی قربانی دینے والے اور اعزاز جیتنے والے اس شخص کو نیو یارک کے ریستوراں میں یہ احساس دلایا گیا کہ اس کی جلد کا رنگ سیاہ ہے، لہٰذا اس کو ایک الگ میز پر بیٹھنا ہوگا۔
اپنے دل میں آگے بڑھنے کی آگ لیے کاشس کلے نے 1963 میں انگلینڈ میں برطانیہ کے ہیوی ویٹ چمپئن ہینری کو پر کو 25ہزار شائقین کے جم غفیر کے سامنے دھول چٹادی۔964میں کلے نے ہیوی ویٹ چمپئن سونی لسٹنSonny Listion) پر سبقت حاصل کرلی۔ یہ وہی Sonny Listionتھا، جس نے باکسنگ میںاپنی ہیبت قائم کر رکھی تھی۔ اس طرح کلے 25 فروری 1964 کو، جب کلے کی عمر محض 22سال تھی، وہ ہیوی ویٹ چمپئن بن کر ابھرے۔ کامیابی اور عظمت کے اس مقام پر پہنچنے کے اگلے ہی روز، یعنی 26 فروری 1964کو کلے نے اپنے مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کردیا۔ مبصرین نے اس اعلان کو دولت اور توقیر کے آگے بہت بڑی رکاوٹ قراردیا، لیکن انہوں نے تمام نکتہ چینیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا نام محمد علی کلے رکھ لیا۔ 6 مارچ 1964 میں جب حکومت امریکہ نے محمد علی کلے سے ویتنام جنگ میں خدمات انجام دینے کے لیے کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ویتنام کے لوگوں سے ان کا کوئی جھگڑا نہیںہے۔ یہ بات حکومت کو ناگوار گزری اور ان کو مختلف باکسنگ ایسو سی ایشنوں کی رکنیت سے محروم کردیا گیا، جوفریزر کو کئی اعزاز دیے گئے اور کلے پر پابندی عائد کردی گئی۔ یہ پابندی ساڑھے تین سال تک قائم رہی، لیکن مزید پیش قدمیوں سے اس شیرکو کوئی نہیں روک پایا۔ محمد علی نے عدالت میں اپنا موقف رکھا۔ کئی ریاستوں اور باکسنگ ایسوسی ایشنوں نے ان کو مقابلہ آرائی کے لیے رِنگ میں اترنے کی اجازت دینی شروع کر دی۔ 8 مارچ 1971کو ان کا مقابلہ ان کے پکے دشمن جو فریزر سے ہوا۔ اس مقابلے کو تاریخ میں Fight of the Century بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ علی کا مقابلہ ایک ایسے شخص سے تھا کہ جسے ان کی رنگ سے غیرحاضری کے دوران باکسنگ کے خطاب دئےے گئے تھے۔ اس مقابلے پر پورے امریکہ کی نگاہ تھی۔ ہر شخص اس تاریخی لمحہ کا گواہ بننا چاہتا تھا ا ور وہی ہوا، جس پر محمد علی کلے کو یقین تھا۔ انہوںنے جو فریزر کوپندرہویں مکے میں ہی ڈھیر کردیا۔ اس کے بعد ان کی کامیابیوں کے دروازے کھلنے لگے۔ کچھ دن کے بعد امریکہ کی سپریم کورٹ نے ویتنام نہ جانے کے محمد علی کلے کے موقف کو درست قرار دیا اور ان تمام مقدمات سے بری کردیا، جو حکومت نے ان پر عائد کےے تھے۔ وہ ایک بار پھر سرخ رو ہوکر ابھرے اور رنگ میں بھی کامیابیوں کا سلسلہ پھر چل نکلا۔ ایک بار پھریکم اکتوبر975میں تیسری بار ان کا مقابلہ اپنے جانی دشمن جوفریزر سے ہوا۔ اس مقابلے میں جسے باکسنگ کی تاریخ کا سب سے بڑامقابلہ کہا جاتا ہے، فریزر نے شکست کھائی۔ وہ پوری دنیا میں مظلوموں کے مسیحا اور کسی حد تک عالم اسلام میں ہیرو بن کر ابھرے۔ 15ستمبر 1978میں ان کو دنیا کاسب سے بڑا اعزاز ملا۔ وہ تین مرتبہ ہیوی ویٹ چمپئن قرار دیے گئے ۔ 39 سال کی عمر میں ٹریور بریک سے ہارنے کے بعد انہو ںنے باکسنگ کو خیرباد کہا، لیکن باکسنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود ان کو عزت و احترام حاصل رہا۔ 1998میں اقوام متحدہ نے ان کو اپنا پیامبر امن مقرر کیا اور 1999 میںایک ممتاز عالمی اسپورٹ میگزین "Sports Illustrated" نے اُنہیں ’’صدی کا بہترین کھلاڑی‘‘ اور بی بی سی نے ’’صدی کی اسپورٹ شخصیت‘‘ قرار دیا۔ کھیل کود میں دلچسپی کے باوجود وہ فلاحی اور مذہبی کاموں میں مصروف رہے۔ انہی خدمات کے اعتراف میں محمد علی کلے کو 2005 میں امریکہ کا سب سے بڑا اعزاز "Presidential Medel of Freedom" دیا گیا۔ آج ان کی بیٹی لیلیٰ علی اپنے والد محمد علی کلے کی باکسنگ میں شاندار روایت کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ 2002 میں لاس ویگاس میں آئی بی اے خطاب جیت کر سرخیوں میں آنے والی لیلیٰ نے 24مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور وہ ہر مقابلے میں سرخرو ہوئی ہیں۔‘‘
No comments:
Post a Comment