Wednesday, March 24, 2010

تقریر وزیراعظم کی، تحریر ویرسانگھوی کی، موضوع6/11

عزیز برنی…………………………………قسط 106

26 نومبر 2008کو ممبئی کے راستے ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کی سنجیدگی آج اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ باقی تمام مسائل چھوٹے نظر آتے ہیں۔آج میرے لئے یہ موضوع اس حد تک ریسرچ کا موضوع ہے کہ اس کے سوا کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔میں چاہتا تھا کہ آج اس ضمن میں ایک مفصل تحریر آپ کی خدمت میں پیش کروں ،مگر نہیں۔ابھی کچھ اور……، جو اس سلسلے کی اہم کڑی ثابت ہو سکتا ہے،لہٰذا پیش خدمت ہیں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی تقریر کے دو جملے، جو انھوں نے دہشت گردانہ حملے کے چند روز بعد 11دسمبر008کو اپنی تقریر کے دوران کہے اور پھر ویر سانگھوی کا مضمون،جو گزشتہ اتوار کو انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز میں شائع ہوا۔ازراہ کرم اس تسلسل کے تمام مضامین کا نہ صرف مطالعہ کریں، بلکہ انھیں محفوظ بھی رکھیں، اس لئے کہ یہ اس دور کی تاریخ ہے ۔
جہاں تک ممبئی کا سوال ہے، ےہ انتہائی منظم اور سفاکانہ حملہ تھا، جس کا مقصد وسیع پیمانے پر دہشت پیدا کرنا اور ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچانا تھا۔ اس حملے کے پےچھے جو طاقتیں کام کررہی تھیں، ان کا ارادہ ہماری سیکولر سیاست کو غیر مستحکم کرنا، فرقہ وارانہ پھوٹ ڈالنا اور ہمارے ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا تھا۔
ہماری فوری ترجیح ےہ ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں تحفظ کا جذبہ بحال کیا جائے۔ ہم ایسی صورتحال برداشت نہیں کرسکتے، جس میں دہشت گردوں یا دیگر انتہا پسند طاقتوں کے حملے سے ہمارے شہریوں کی سلامتی کو نقصان پہنچے۔
امریکہ کیا چھپانا چاہتا ہے؟
یہ ایک خیالی صورتحال ہے!تصور کیجئے کہ ہندوستانی پولس ایک ایسے شخص کو گرفتار کرتی ہے، جسے/11کے پلان کی پیشگی اطلاع ہواور وہ شخص صرف سازشی عناصر کے ساتھ کام ہی نہیں کرچکاہو، بلکہ اسے متعدد بار نیو یارک بھی بھیجاگیاہو، تاکہ حملہ کو کامیاب بنانے کیلئے دہشت گردوں کو اطلاعات فراہم کرسکے۔
فطری طور پر امریکہ یہ چاہے گا کہ اس شخص کواس کے حوالے کیاجائے، تاکہ حال کے دنوں میں ہونے والے بھیانک دہشت گردانہ حملوں میں اس کے ملوث ہونے کے سلسلے میں امریکی عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چلایاجائے۔اب ذرا یہ تصور کیجئے کہ ہندوستان حوالگی کے معاملہ میں نہ صرف بات چیت سے، بلکہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی،امریکی سراغ رساں ادارہ) کواس شخص سے پوچھ گچھ کی بھی اجازت دینے سے انکار کردے اور سنٹرل بیوروآف انویسٹی گیشن(سی بی آئی، ہندوستانی سراغ رساں ادارہ) اس بات پر مصر رہے کہ اس شخص سے براہ راست پوچھ گچھ کی اجازت دینے کاکوئی امکان نہیںہے، ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ پوچھ گچھ کے جواب میں جو بتائے گا، اس سے ایف بی آئی کو واقف کرادیاجائے گا۔
ہمارے اس تصوراتی منظر کو تھوڑا اور وسیع کیجئے! 9/11کے حملہ میں اس اہم ترین سراغ کو امریکہ کی رسائی میں دینے سے انکار کے بعد ہندوستان یہ اعلان کرے کہ اس شخص سے اس کی ایک ڈیل ہوگئی ہے اور وہ اپنے اوپر عائد کردہ تمام الزامات کو قبول کرے گا، اس لئے ہمارے قانون کے مطابق اس کو سزائے موت دینے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے اور نہ ہی اس بات کاکوئی امکان ہے کہ اس کے خلاف امریکی قانون کے تحت مقدمہ چلایاجائے۔اس ڈیل کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اسے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ اسے حوالے نہیں کیاجائے گااور جہاں تک سزا کا تعلق ہے اس کا اب بھی تعین کیاجاناباقی ہے، تاہم ہم نے اس دہشت گرد سے جو ڈیل کی ہے، اسی کی بنیاد پر اس کا فیصلہ کیاجائے گا۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس پر امریکہ کیسے ردعمل کرے گا؟
جواب واضح ہے،یہ ایک سفارتی حادثہ بن جائے گا۔امریکہ کا سکریٹری آف اسٹیٹ ہمارے وزیرداخلہ ( غالب امکان ہے کہ وزیراعظم) کو طلب کرے گااور اس بات پر زور دے گا کہ اس دہشت گردکو ایف بی آئی کے حوالے کیاجائے اور ہندوستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دھوکہ دہی کا الزام بھی لگایاجائے گا۔
ہم یہ سوال کریں گے کہ ہم اس پر کس طرح ہندوستان میں مقدمہ چلا سکتے ہیں، جبکہ وہ امریکہ میں ہونے والے جرم میں ملوث تھا؟اس کے بعد دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، یہ بھی ہو کہ ہمیں دی جانے والی امداد بھی بند کردی جائیں، اجلاس منسوخ کردیئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔
میں نے اس منظر نامہ کاخاکہ تیار کرنے میں کچھ وقت لگایا ہے، کیوں کہ یہ اس حقیقی واقعہ سے انتہائی بالمقابل اور متوازی ہے۔سوائے اس کے کہ اس کیس میں وہ دہشت گرد 9/11کی بجائے 26/11کے واقعہ میں ملوث ہے اور یہ ہندوستان نہیں،بلکہ امریکہ ہے، جو اسے حوالے کرنے سے انکار کررہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ جائیں چھلانگ لگادیں۔
یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ ڈیوڈ ہیڈلی کا کیس ہندوستانیوں میں اتنا زبردست ہیجان کیوں برپاکررہا ہے۔ ہمارے لئے 26/11اتنا ہی اہم ہے، جتنا امریکیوں کیلئے/11۔فرق صرف اتنا ہے کہ امریکہ وہ سب کچھ جانتا ہے، جو 9/11کے بعد اسے جانناچاہئے تھا،خاص طور سے جب القاعدہ نے باضابطہ اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
جبکہ ہندوستان اس حملہ کے بعد سے اب تک اس سازش کی تفصیلات کا سراغ لگانے میں مصروف ہے ۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے ہم سے کہاتھا کہ ڈیوڈ ہیڈلی6/11کے حملہ سے پہلے کئی مرتبہ ہندوستان آیا اور جاسوسی کرکے واپس گیاتھا۔ لہٰذا ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ایساشخص نہ صرف ہندوستانی عدالت سے سزاکا مستحق ہے،بلکہ اس سے ملنے والی اطلاعات6/11کے حملے کے سلسلے میں کئی رازوں سے بھی پردہ ہٹائیں گی۔مزید یہ بھی کہ ہیڈلی نے پونا کو بھی ممکنہ دہشت گردانہ حملہ کا ہدف بنایا ہو اور اس طرح کے اور کتنے دہشت گردانہ ٹارگٹ کا اس نے تعین کیا ہو، اس کے بارے میں ہمیں اس وقت تک علم نہیں ہوسکتا، جب تک ہم اس سے تفتیش نہیںکرتے۔
لہٰذا امریکہ اس طرح کیوں پیش آرہاہے؟امریکیوں کے بارے میں آپ جوچاہیں کہیں، تاہم یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا کی تمام انٹلی جینس ایجنسیوں کو ملوث کیا اور ان سے مسلسل مدد لی۔
اب وہ یہ تعاون خود کیوں نہیں کررہا ہے؟اب صرف ایک دہشت گرد کیلئے وہ ہندستان کو پرایا کیوں کررہاہے؟وہ ہندوستانی تفتیش کاروں کو ڈیوڈہیڈلی سے تفتیش کرنے کی اجاز ت نہ دے کر پونا جیسے حملوں میں اور لوگوںکے مارے جانے کی اجازت کیوں دے رہاہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان حقائق پر صرف ایک ہی توضیح فٹ بیٹھتی ہے اوراس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ
’’ڈیوڈ ہیڈلی ایک امریکی ایجنٹ ہے ‘‘
جب میں نے پہلی بار یہ مفروضہ ان صفحات پر پیش کیاتھاتو وہ پہلے تو حقیقت حال سے تھوڑا سا الگ محسوس ہورہاتھا، تاہم اب مجھے یہ دکھ ہورہاہے کہ اس مفروضہ میںپورا دم ہے اور ہر گزرنے والا دن اس تھیسس کی حمایت میں ایک ثبوت بنتا جارہاہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہیڈلی ( جو خود کو اس وقت دائود گیلانی کہتاتھا) منشیات کے الزام میں سزایافتہ تھا اور امریکی جیل میں بھی رہ چکاہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اس کے بعد جیل سے رہا کیاگیا اور ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن ( ڈی ای اے) کے حوالے کیاگیا، جس کے بارے میں کہاگیا ہے کہ وہ ( ڈی ای اے) اسے انڈر کوور ایجنٹ کے طور پر پاکستان بھیجنا چاہتا ہے ۔یہ تمام باتیں پبلک ریکارڈ میںہیں۔
امریکہ کی جانب سے ہیڈلی کو پاکستان بھیجے جانے اور کچھ مہینوں قبل اسے شکاگو ائیرپورٹ پر گرفتار کئے جانے کے دوران یہ کیا ہوا؟ ایک امریکی ایجنٹ ایک دہشت گرد میں کیسے بدل گیا؟اس کے بارے میں امریکہ نے کچھ نہیں کہا۔
واضح طور پر تین امکانات ہوسکتے ہیں۔اولاً یہ ممکن ہے کہ وہ ا ب بھی ڈی ای اے کا ایجنٹ ہو اوراسی ڈرگ ایجنسی کے پے رول پرجہادی گروپوں کے ساتھ ملوث ہو ۔
ثانیاً یہ بھی امکان ہے کہ وہ کبھی بھی صرف ڈی ای اے کا ہی ایجنٹ نہ رہا ہو۔/11کے بعد جب یہ پتہ چلا کہ جہادی نیٹ ورک میں امریکہ کے بھی کچھ ایجنٹ ہیں تو تمام امریکی ایجنسیاں دہشت گرد گروپوں کے خلاف متحد ہوگئیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ 9/11کے بعد وہ جیل سے فرار ہوا اور عدالت سے یہ کہاگیا ہو کہ وہ سی آئی اے کی بجائے ڈی ای اے کو مطلوب ہے، کیوں کہ اس پرڈرگ سے متعلق الزامات تھے۔
اگر آپ دوسرے امکان پر غور کریں گے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہیڈلی ڈبل ایجنٹ تھاجسے جہادی گروپوں میں دراندازی کیلئے بھیجاگیا، جس کے بعد وہ خود ہی دہشت گرد بن گیا اور اپنے امریکی آقائوں کو دھوکہ دیا ۔
دونوں امکانات کی وضاحت ضروری ہے ۔ امریکی ہمیں ہیڈلی سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کرنے دینا چاہتے۔وہ نہیں چاہتے ہیں کہ امریکی ایجنٹ ( سی آئی اے یا ڈی ای اے جو بھی ہو) کے طور پر ہیڈلی کا کردار سامنے آئے ۔
تاہم تیسرا امکان بھی ہے۔ ایک تھیوری جو امریکی میڈیا اور دی ڈیلی بیسٹ کی ویب سائٹ پر بھی ہے، وہ یہ کہ ہیڈلی اب بھی آخر تک امریکی ایجنٹ ہی ہو۔ ہیڈلی ایک ذریعہ تھا، جس نے امریکیوں کو6/11کے بارے میں بتایا،جس کے بعد امریکہ نے واقعہ سے قبل ایک وارننگ جاری کی (یہ وارننگ واضح نہیں ہونے کی وجہ سے ہماری ایجنسیوں نے اسے نظرانداز کردیا)
اگر آپ اس تھیوری پر غور کریں اور اسی پر ہندستانی ایجنسیوں کے کچھ افسران بھی غور کررہے ہیں کہ امریکیوں نے ہیڈلی کو واپس بلالیا، کیوں کہ انہیں یہ شبہ تھا کہ ہندوستانی ایجنٹوں کو اس کے بارے میں سچائی پتہ چل جائے گی۔انہوں نے یہ بہتر سمجھاکہ اسے غیر ملکی ایجنٹوں اور ایجنسیوں کی رسائی سے دور رکھنے کیلئے امریکی تحویل میں ہی لے لیاجائے۔
ہمارے پاس ایساکوئی پختہ ثبوت نہیں ہے کہ جس سے ہم کسی حتمی نتیجہ پر پہنچیں۔ یہ تینوں امکانات حقیقی واقعہ سے قریب تر ہیں، لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ اب کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ ڈیوڈ ہیڈلی کے کیس میں امریکہ ہندستان کے ساتھ انتہائی اجنبیت والا سلوک کررہا ہے، وہ کچھ چھپاناچاہتا ہے اور اسے خوف ہے کہ ہیڈلی اسے ظاہر نہ کردے ۔
ویر سانگھوی (ہندستان ٹائمز1مارچ010)

No comments: