میں ہرروز ایک پورے صفحہ کا مضمون لکھتا ہوں اور تسلسل بنا رہتا ہے، مگر کئی بار جب مجھے محض چند سطریں لکھنی ہوتی ہیں تو یہ سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے، اس لےے کہ بہت سوچنا ہوتا ہے، بہت مطالعہ کرنا ہوتا ہے، وہ چند سطریں لکھنے کے لےے اور یہ بات بس اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ حتی الامکان کوشش ہی رہتی ہے کہ یہ چند سطریں پوری طرح غیرجانبدار حقائق پر مبنی نظر آئیں۔ اگر ذرا بھیـذرا بھی یہ تاثر چلا گیا کہ میں کسی ملک، ادارے یا واقعہ کے بارے میں ایک طے شدہ ذہن رکھتا ہوں تو تحریر بے معنی ہوجائے گی۔ میں نے جب بٹلہ ہاؤس کے مشتبہ انکاؤنٹر کے بارے میں لکھنا شروع کیا تو بہت آوازیں اٹھیں، مگر میں لکھتا رہا اس یقین کے ساتھ کہ انشاء اللہ ایک دن سچ سامنے آئے گا ضرور۔ کچھ لوگوں کو لگا کہ متعصب ذہن رکھتا ہوں، اس لےے یہ سب لکھ رہا ہوں، لیکن اللہ کا کرم ہے کہ آہستہ آہستہ تصویر صاف ہونے لگی، سچ سامنے آنے لگا اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے تو تقریباً یہ واضح کردیا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی حقیقت کیا ہے۔ حالانکہ رپورٹ تو اب آئی ہے، ہم نے تو ان تصویروں کو سامنے رکھ کر اور تجربہ کار ڈاکٹروں سے مشورہ کرکے جو بات کہی تھی، آج وہی سچ ثابت ہوئی ہے۔ اسی طرح 26/11/2008کوممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو گہرائی سے دیکھنے اور سمجھنے کے بعد ہم نے جو کچھ لکھا، وہ اب بھی حقیقت کا رنگ لیتا نظر آرہا ہے۔
ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا معاملہ بھی ہمارے لےے بٹلہ ہاؤس کے مشتبہ انکاؤنٹر اور ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی تحقیقات جیسا ہی ہے۔ اس لےے کہ ہم ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو صرف اور صرف 26/11تک ہی محدود کرکے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم پھر کہیں گے کہ ’ڈیوڈ کولمین ہیڈلی تو بس ایک نام ہے اور6/11 صرف ایک دہشت گردانہ حملہ‘، بات بس اتنی ہی نہیں ہے۔اگر ہم نے اس کے دوراندیش نتائج پر غور نہیں کیا تو ساری سچائی ہیڈلی کے نام کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔ فرض کیجئے کہ ڈیوڈ ہیڈلی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے خودکشی کرلی، تواب کیا کریں گے آپ؟ نہ امریکہ پر دباؤ ڈالنے کا کوئی مطلب، نہ دہشت گردانہ حملوں میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کے کردار سے پردہ اٹھنے کی امید۔
دوسری ایک اور انتہائی اہم وجہ ہے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو بچانے کی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دنیا بھر میں صرف ایک ہی ہیڈلی ہے، یعنی صرف ایک ہی ایف بی آئی یا سی آئی اے کا ایجنٹ ہے یا اور بھی ہیڈلی دنیا کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں؟ اور وہ تمام کے تمام آج امریکہ کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا امریکہ اس ہیڈلی کو بچاپاتا ہے؟ اگر ہاں، تو وہ تمام ہیڈلی دنیا کے چاہے جس کونے میں ہوں اور انہیں جو بھی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس ذمہ داری کو نبھانے میں جان لڑا دیں گے، اس لےے کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا تحفظ اس کے خاندان کو کسی طرح کی کوئی پریشانی کا نہ ہونا، ان سب کے لےے انتہائی حوصلہ افزا ہوگا… اور اگر ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو کسی بھی طرح کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سخت سزا ملتی ہے یا ہندوستان کے حوالے کردیا جاتا ہے تو پھر سبھی کا حوصلہ ٹوٹ جائے گااور امریکہ سے بھروسہ ٹوٹ جائے گا، پھر وہ ہیڈلی کی طرح سی آئی اے کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ امریکہ ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا۔ ہندوستان سے تعلقات ختم ہوجانے کی قیمت پر بھی نہیں۔ ہندوستان سے دشمنی کا رشتہ قائم ہوجانے کی صورت میں بھی نہیں (حالانکہ دونوں ہی باتوں کے امکان نہیں ہیں)، اس لےے کہ اس کی نظر ساری دنیا پر ہے اور کسی ایک ملک کی دوستی کی خاطر پوری دنیا کے حوالہ سے اپنے منصوبوں کو ناکامی کی طرف لے جانے کا فیصلہ کرلیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے۔
علاوہ ازیںکچھ باتوں پر ہمیں بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ ’’چائنا‘‘ مقابلتاً ہندوستان اورپاکستان کے ایک پرامن ملک ہے، جبکہ سرحدیں ہندوستان سے بھی ملتی ہیں اور پاکستان سے بھی۔ چین سب کچھ بھول کر صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اس نے اپنی ’مین پاور‘ کو ’منی پاور‘میں بدلنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ آج پوری دنیا میں کہیں بھی جائےے گھریلو ضروریات کی تقریباً سبھی اشیا چین کی بنی ہوتی ہیں، جو سستی دروں میں آپ کو مل جائیں گی۔ اسی طرح پوری دنیا میں کہیں بھی جائےے، خطرناک ہتھیار چاہے پولس کے کام آنے والے ہوں، فوج کے کام آنے والے یا پھر دہشت گردوں کے ہاتھ میںہوں، اسرائیل اور امریکہ کے بنے ہوئے ملیں گے۔ اگر چین کے تمام پروڈکٹس کی مارکیٹ یا کھپت ختم ہوجائے تو پھر چین کی معاشی حالت کیا ہوگی، آپ سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر پوری دنیا میں امن قائم ہوجائے، دہشت گردی سے نمٹنے کے لےے سرکاروں کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لےے ہتھیار خریدنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور نہ ہی دہشت گردی کا وجود باقی رہے تو پھر ایسی صورت میں امریکہ کی معاشی حالت کیا ہوگی، اس کا بھی آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ چین کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے پروڈکٹس کی مارکیٹ ختم ہو، جو کہ آپ کی گھریلو ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی پروڈکٹس کی مارکیٹ ختم ہو، اس لےے کہ وہ اس کی معاشی ضرورت کو پوری کرتے ہیں۔ پوری دنیا پر حکومت کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ تھیں وہ چند سطریں، جنہیں لکھنے کے لےے بہت سوچنا پڑا۔ اب پھر ذکر ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا اور ان سے جڑے تازہ انکشافات کا۔ جو خبر آج ہر طرف گرم ہے کہ اس کے کریڈٹ کارڈ کا بھگتان کس نے کیا، پہلے یہ اہم اطلاعات ملاحظہ فرمائیں، اس کے بعد روس میں دہشت گردی کے تازہ حادثے پر نظر ڈالیں اور پھر ان دونوں واقعات کو سامنے رکھ کر میری گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں۔
پاکستانی امریکی دہشت گرد ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے انٹر نیشنل کریڈٹ کارڈ کا بل کس نے ادا کیا، یہ وسیع ہوتی جانچ کے مرکز میں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے ہی کریڈٹ کارڈوں کے ذریعہ مشتبہ دہشت گردوں نے تقریباً 20سے 25 کروڑ روپے پورے ملک میں خرچ کئے ہیں۔ اس بل کی امریکہ، کناڈا اور نیپال میں ادائیگی کی گئی، جو کڑیوں کو جوڑتا ہے اور جس سے اس کے ماسٹرس کی شناخت ظاہر ہو سکتی ہے۔
خفیہ ایجنسیاں جو اقتصادی لین دین کی جانچ کر رہی ہیں اور متعدد شہروں میں جہادی نیٹ ورک اور ان کے سلیپر سیل کو تلاش کررہے ہیں، انہوںنے پایا کہ مشتبہ دہشت گرد امریکہ، کناڈا، برطانیہ، دبئی، نیپال اور بنگلہ دیش میں جاری انٹر نیشنل کریڈٹ کارڈوں کا استعمال کرتے رہے ہیں اور ان ممالک میں مقیم ان کے ہینڈلرس نے بلوں کو حاصل کیا۔ ایجنسیاں ادائیگی کے طریقِ کار اور ان کا فائدہ حاصل کرنے والوں کی پہچان کر رہی ہیں۔
یہ نہ حوالہ چینل ہے اور نہ ہی لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے تاجر جنہوں نے ملک کے اندر سرگرم دہشت گرد تنظیموں کی مالی مدد کی ہے۔ دہشت گردوں کو اب انٹرنیشنل کریڈٹ کارڈس دئے جارہے ہیں جو ہندوستان میں اپنے آپریشن کو انجام دینے کے لئے روپے نکالنے اور ٹھہرنے کے دوران اپنے بلوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
اعلیٰ ذرائع کے مطابق حفاظتی اور خفیہ ایجنسیوں نے پایا ہے کہ گزشتہ کچھ وقت میں مشتبہ دہشت گردوں نے اسی طرح کے کارڈوں کے ذریعہ 20 تا 25کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ بشمول دہلی، ممبئی، بنگلور، حیدرآباد اور کشمیر ملک کے مختلف حصوں سے روپے نکالے گئے جو ظاہر کرتاہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک کتناوسیع ہے اور کس قدر آسانی سے وہ سرولانس سسٹم کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اس سے دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈس کے وسیع اساس ظاہر ہو سکتے ہیں جو امریکہ، کناڈا اور یوروپ کے دوسرے ممالک میں ہیں۔ ہندوستان ان ممالک کی حکومتوں کے رابطہ میں ہے اور مشتبہ دہشت گردوں کی جانب سے کن لوگوں نے بل لیا اس کی تصدیق کر رہی ہے۔
اعلیٰ افسر کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے امریکہ اور یوروپ کی زمین سے کریڈٹ کارڈوں کے ذریعہ مالی مدد کا طریقہ پوری طرح نیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور متحدہ عرب امارات (UAE) جیسے ممالک سے دہشت گردوں کی مالی طور پر کی جارہی نگرانی کو دھوکہ دینے کے لئے ایساکیا گیا ہے۔
حکومت نے بینک اور مالی اداروں کو اپنے گاہکوں کو جاننے کی سخت ہدایت جاری کر رکھی ہے تاکہ دہشت گردی کو جائز سسٹم سے مالی مدد نہ حاصل ہو سکے۔ یہ حوالہ چینل پر سخت کارروائی کے علاوہ تھا جو ماضی میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملے کے بعد کئے گئے تھے اور جن کا تعلق ایسے مالی طریقوں سے تھا۔
…………
ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں امریکی بینکوں سے رابطہ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہیں، تاکہ ان لوگوں کی شناخت ہوسکے جنہوں نے امریکی دہشت گرد ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے دہشت گردی مشن کے دوران اس کے انٹرنیشنل کریڈٹ کارڈ کے بل حاصل کئے۔
حالانکہ ایف بی آئی نے این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کو ہیڈلی کے ساتھی ملزم تہور حسین رانا کی کمپنی ورلڈ امیگریشن کمپنی کو مالی مدد کرنے والا بتایا تھا اور جس نے اس کے جہادی مشن میں کور (Cover)بھی مہیا کرایا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ میں کس نے اس کے انٹرنیشنل کریڈٹ کارڈ کا بل حاصل کیا۔
ایک افسر کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی ہم ہیڈلی سے رابطہ حاصل کریں گے، اس سے پوچھ گچھ میں بھی ہم یہ سوال کریں گے۔‘ مزید کہا گیا ہے کہ ’ہندوستان ہیڈلی سے راست رابطہ کے لئے اس ہفتہ کے آخر میں امریکہ کو ایک خط روانہ کررہا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذریعہ امریکہ کے ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کو ہیڈلی سے سیدھے پوچھ گچھ کی تاریخ کے متعلق روانہ کئے جانے والا خط طے ہوگیا ہے۔
-افسر نے کہا کہ خط کے ذریعہ وزارت امریکی حکام کو بتائے گا کہ ہندوستانی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم تیار ہے اور امریکہ سے اجازت ملنے کے بعد وہ جاسکتی ہے۔ امریکی قانون کے مطابق امریکہ کا ڈپارٹمنٹ آف جسٹس ہندوستان کے ہیڈلی سے سیدھے پوچھ گچھ کے لئے شکاگو عدالت سے اجازت لینی ہوگی جو ہیڈلی کے معاملے کی سنوائی کررہی ہے۔ عدالت ہندوستانی تفتیش کاروں کو اجازت دینے سے قبل دہشت گرد کے وکیل کی رائے بھی لے گی۔ امریکی حکومت سے ہیڈلی کے سمجھوتے کے تحت ہندوستان کی پاکستانی امریکی دہشت گرد تک رسائی بیان، ویڈیو کانفرنسنگ یا خصوصی خط کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق ہندوستان تینوں ذرائع کی کوشش کرے گا اور خصوصی طور پر بیان یا سیدھے طور پر رابطہ کی کوشش کرے گی۔ ہندوستان نے ہیڈلی کے بیان درج کرنے کے لئے ایک مجسٹریٹ کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جوعدالت میں قابل قبول ثبوت ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجسٹریٹ کو تب روانہ کیا جائے گا جب امریکہ ہیڈلی کے بیان درج کرنے کی اجازت دے دے گا۔ سی آر پی سی کی دفعہ 164کے تحت بیان درج ہوگا جو ہندوستانی عدالت میں قابل قبول ہے۔ ممبئی میں جب ہیڈلی کے خلاف چارج شیٹ داخل کی جائے گی تب یہ بیان کافی اہم ہوگا۔ گزشتہ ہفتے ہیڈلی نے اپنے اوپر لگے 12دہشت گردی کے الزامات کو قبول کرلیا تھا جن میں سے 9معاملے 26/11کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے سے جڑے ہیں۔
ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا معاملہ بھی ہمارے لےے بٹلہ ہاؤس کے مشتبہ انکاؤنٹر اور ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی تحقیقات جیسا ہی ہے۔ اس لےے کہ ہم ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو صرف اور صرف 26/11تک ہی محدود کرکے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم پھر کہیں گے کہ ’ڈیوڈ کولمین ہیڈلی تو بس ایک نام ہے اور6/11 صرف ایک دہشت گردانہ حملہ‘، بات بس اتنی ہی نہیں ہے۔اگر ہم نے اس کے دوراندیش نتائج پر غور نہیں کیا تو ساری سچائی ہیڈلی کے نام کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔ فرض کیجئے کہ ڈیوڈ ہیڈلی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے خودکشی کرلی، تواب کیا کریں گے آپ؟ نہ امریکہ پر دباؤ ڈالنے کا کوئی مطلب، نہ دہشت گردانہ حملوں میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کے کردار سے پردہ اٹھنے کی امید۔
دوسری ایک اور انتہائی اہم وجہ ہے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو بچانے کی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دنیا بھر میں صرف ایک ہی ہیڈلی ہے، یعنی صرف ایک ہی ایف بی آئی یا سی آئی اے کا ایجنٹ ہے یا اور بھی ہیڈلی دنیا کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں؟ اور وہ تمام کے تمام آج امریکہ کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا امریکہ اس ہیڈلی کو بچاپاتا ہے؟ اگر ہاں، تو وہ تمام ہیڈلی دنیا کے چاہے جس کونے میں ہوں اور انہیں جو بھی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس ذمہ داری کو نبھانے میں جان لڑا دیں گے، اس لےے کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا تحفظ اس کے خاندان کو کسی طرح کی کوئی پریشانی کا نہ ہونا، ان سب کے لےے انتہائی حوصلہ افزا ہوگا… اور اگر ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو کسی بھی طرح کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سخت سزا ملتی ہے یا ہندوستان کے حوالے کردیا جاتا ہے تو پھر سبھی کا حوصلہ ٹوٹ جائے گااور امریکہ سے بھروسہ ٹوٹ جائے گا، پھر وہ ہیڈلی کی طرح سی آئی اے کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ امریکہ ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا۔ ہندوستان سے تعلقات ختم ہوجانے کی قیمت پر بھی نہیں۔ ہندوستان سے دشمنی کا رشتہ قائم ہوجانے کی صورت میں بھی نہیں (حالانکہ دونوں ہی باتوں کے امکان نہیں ہیں)، اس لےے کہ اس کی نظر ساری دنیا پر ہے اور کسی ایک ملک کی دوستی کی خاطر پوری دنیا کے حوالہ سے اپنے منصوبوں کو ناکامی کی طرف لے جانے کا فیصلہ کرلیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے۔
علاوہ ازیںکچھ باتوں پر ہمیں بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ ’’چائنا‘‘ مقابلتاً ہندوستان اورپاکستان کے ایک پرامن ملک ہے، جبکہ سرحدیں ہندوستان سے بھی ملتی ہیں اور پاکستان سے بھی۔ چین سب کچھ بھول کر صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اس نے اپنی ’مین پاور‘ کو ’منی پاور‘میں بدلنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ آج پوری دنیا میں کہیں بھی جائےے گھریلو ضروریات کی تقریباً سبھی اشیا چین کی بنی ہوتی ہیں، جو سستی دروں میں آپ کو مل جائیں گی۔ اسی طرح پوری دنیا میں کہیں بھی جائےے، خطرناک ہتھیار چاہے پولس کے کام آنے والے ہوں، فوج کے کام آنے والے یا پھر دہشت گردوں کے ہاتھ میںہوں، اسرائیل اور امریکہ کے بنے ہوئے ملیں گے۔ اگر چین کے تمام پروڈکٹس کی مارکیٹ یا کھپت ختم ہوجائے تو پھر چین کی معاشی حالت کیا ہوگی، آپ سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر پوری دنیا میں امن قائم ہوجائے، دہشت گردی سے نمٹنے کے لےے سرکاروں کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لےے ہتھیار خریدنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور نہ ہی دہشت گردی کا وجود باقی رہے تو پھر ایسی صورت میں امریکہ کی معاشی حالت کیا ہوگی، اس کا بھی آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ چین کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے پروڈکٹس کی مارکیٹ ختم ہو، جو کہ آپ کی گھریلو ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی پروڈکٹس کی مارکیٹ ختم ہو، اس لےے کہ وہ اس کی معاشی ضرورت کو پوری کرتے ہیں۔ پوری دنیا پر حکومت کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ تھیں وہ چند سطریں، جنہیں لکھنے کے لےے بہت سوچنا پڑا۔ اب پھر ذکر ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا اور ان سے جڑے تازہ انکشافات کا۔ جو خبر آج ہر طرف گرم ہے کہ اس کے کریڈٹ کارڈ کا بھگتان کس نے کیا، پہلے یہ اہم اطلاعات ملاحظہ فرمائیں، اس کے بعد روس میں دہشت گردی کے تازہ حادثے پر نظر ڈالیں اور پھر ان دونوں واقعات کو سامنے رکھ کر میری گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں۔
پاکستانی امریکی دہشت گرد ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے انٹر نیشنل کریڈٹ کارڈ کا بل کس نے ادا کیا، یہ وسیع ہوتی جانچ کے مرکز میں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے ہی کریڈٹ کارڈوں کے ذریعہ مشتبہ دہشت گردوں نے تقریباً 20سے 25 کروڑ روپے پورے ملک میں خرچ کئے ہیں۔ اس بل کی امریکہ، کناڈا اور نیپال میں ادائیگی کی گئی، جو کڑیوں کو جوڑتا ہے اور جس سے اس کے ماسٹرس کی شناخت ظاہر ہو سکتی ہے۔
خفیہ ایجنسیاں جو اقتصادی لین دین کی جانچ کر رہی ہیں اور متعدد شہروں میں جہادی نیٹ ورک اور ان کے سلیپر سیل کو تلاش کررہے ہیں، انہوںنے پایا کہ مشتبہ دہشت گرد امریکہ، کناڈا، برطانیہ، دبئی، نیپال اور بنگلہ دیش میں جاری انٹر نیشنل کریڈٹ کارڈوں کا استعمال کرتے رہے ہیں اور ان ممالک میں مقیم ان کے ہینڈلرس نے بلوں کو حاصل کیا۔ ایجنسیاں ادائیگی کے طریقِ کار اور ان کا فائدہ حاصل کرنے والوں کی پہچان کر رہی ہیں۔
یہ نہ حوالہ چینل ہے اور نہ ہی لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے تاجر جنہوں نے ملک کے اندر سرگرم دہشت گرد تنظیموں کی مالی مدد کی ہے۔ دہشت گردوں کو اب انٹرنیشنل کریڈٹ کارڈس دئے جارہے ہیں جو ہندوستان میں اپنے آپریشن کو انجام دینے کے لئے روپے نکالنے اور ٹھہرنے کے دوران اپنے بلوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
اعلیٰ ذرائع کے مطابق حفاظتی اور خفیہ ایجنسیوں نے پایا ہے کہ گزشتہ کچھ وقت میں مشتبہ دہشت گردوں نے اسی طرح کے کارڈوں کے ذریعہ 20 تا 25کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ بشمول دہلی، ممبئی، بنگلور، حیدرآباد اور کشمیر ملک کے مختلف حصوں سے روپے نکالے گئے جو ظاہر کرتاہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک کتناوسیع ہے اور کس قدر آسانی سے وہ سرولانس سسٹم کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اس سے دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈس کے وسیع اساس ظاہر ہو سکتے ہیں جو امریکہ، کناڈا اور یوروپ کے دوسرے ممالک میں ہیں۔ ہندوستان ان ممالک کی حکومتوں کے رابطہ میں ہے اور مشتبہ دہشت گردوں کی جانب سے کن لوگوں نے بل لیا اس کی تصدیق کر رہی ہے۔
اعلیٰ افسر کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے امریکہ اور یوروپ کی زمین سے کریڈٹ کارڈوں کے ذریعہ مالی مدد کا طریقہ پوری طرح نیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور متحدہ عرب امارات (UAE) جیسے ممالک سے دہشت گردوں کی مالی طور پر کی جارہی نگرانی کو دھوکہ دینے کے لئے ایساکیا گیا ہے۔
حکومت نے بینک اور مالی اداروں کو اپنے گاہکوں کو جاننے کی سخت ہدایت جاری کر رکھی ہے تاکہ دہشت گردی کو جائز سسٹم سے مالی مدد نہ حاصل ہو سکے۔ یہ حوالہ چینل پر سخت کارروائی کے علاوہ تھا جو ماضی میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملے کے بعد کئے گئے تھے اور جن کا تعلق ایسے مالی طریقوں سے تھا۔
…………
ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں امریکی بینکوں سے رابطہ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہیں، تاکہ ان لوگوں کی شناخت ہوسکے جنہوں نے امریکی دہشت گرد ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے دہشت گردی مشن کے دوران اس کے انٹرنیشنل کریڈٹ کارڈ کے بل حاصل کئے۔
حالانکہ ایف بی آئی نے این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کو ہیڈلی کے ساتھی ملزم تہور حسین رانا کی کمپنی ورلڈ امیگریشن کمپنی کو مالی مدد کرنے والا بتایا تھا اور جس نے اس کے جہادی مشن میں کور (Cover)بھی مہیا کرایا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ میں کس نے اس کے انٹرنیشنل کریڈٹ کارڈ کا بل حاصل کیا۔
ایک افسر کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی ہم ہیڈلی سے رابطہ حاصل کریں گے، اس سے پوچھ گچھ میں بھی ہم یہ سوال کریں گے۔‘ مزید کہا گیا ہے کہ ’ہندوستان ہیڈلی سے راست رابطہ کے لئے اس ہفتہ کے آخر میں امریکہ کو ایک خط روانہ کررہا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذریعہ امریکہ کے ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کو ہیڈلی سے سیدھے پوچھ گچھ کی تاریخ کے متعلق روانہ کئے جانے والا خط طے ہوگیا ہے۔
-افسر نے کہا کہ خط کے ذریعہ وزارت امریکی حکام کو بتائے گا کہ ہندوستانی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم تیار ہے اور امریکہ سے اجازت ملنے کے بعد وہ جاسکتی ہے۔ امریکی قانون کے مطابق امریکہ کا ڈپارٹمنٹ آف جسٹس ہندوستان کے ہیڈلی سے سیدھے پوچھ گچھ کے لئے شکاگو عدالت سے اجازت لینی ہوگی جو ہیڈلی کے معاملے کی سنوائی کررہی ہے۔ عدالت ہندوستانی تفتیش کاروں کو اجازت دینے سے قبل دہشت گرد کے وکیل کی رائے بھی لے گی۔ امریکی حکومت سے ہیڈلی کے سمجھوتے کے تحت ہندوستان کی پاکستانی امریکی دہشت گرد تک رسائی بیان، ویڈیو کانفرنسنگ یا خصوصی خط کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق ہندوستان تینوں ذرائع کی کوشش کرے گا اور خصوصی طور پر بیان یا سیدھے طور پر رابطہ کی کوشش کرے گی۔ ہندوستان نے ہیڈلی کے بیان درج کرنے کے لئے ایک مجسٹریٹ کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جوعدالت میں قابل قبول ثبوت ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجسٹریٹ کو تب روانہ کیا جائے گا جب امریکہ ہیڈلی کے بیان درج کرنے کی اجازت دے دے گا۔ سی آر پی سی کی دفعہ 164کے تحت بیان درج ہوگا جو ہندوستانی عدالت میں قابل قبول ہے۔ ممبئی میں جب ہیڈلی کے خلاف چارج شیٹ داخل کی جائے گی تب یہ بیان کافی اہم ہوگا۔ گزشتہ ہفتے ہیڈلی نے اپنے اوپر لگے 12دہشت گردی کے الزامات کو قبول کرلیا تھا جن میں سے 9معاملے 26/11کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے سے جڑے ہیں۔
No comments:
Post a Comment