میں نے کسی تبصرے کے بغیر شامل اشاعت کیا تھا کل بی رمن صاحب کی تحریر کو اور آج محترمہ برکھاد ت کے مضمون پر بھی کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے،جو 20مارچ بروز ہفتہ انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں شائع ہوا۔ان تحریروں کا ہر ہر لفظ چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ کہیں ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا ہے۔ ہمیں حقائق تک پہنچنے سے روکے جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔کوئی ہے جو نہیں چاہتا کہ ہم ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کی تہہ تک پہنچیں۔کیا یہ سمجھنا کوئی معمہ حل کرنے جیسا مشکل کام ہے کہ وہ کون ہے اور کیوں ایسا چاہتا ہے؟ کیا یہ اتنا پیچیدہ سوال ہے، جس کے جواب کے لئے ہمیں دماغ پر بہت زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت ہے؟نہیں! جواب بہت آسان ہے،پھر بھی ہم اتنی آسانی سے اس جواب تک پہنچنا نہیں چاہتے، کیوں کیا مجبوری ہے ہماری؟ کیوں ہمارے قلم اس روانی سے نہیں چلتے، جس روانی سے چلا کرتے ہیں؟کیوں ہماری زبان پر یہ نام آتے آتے رک جاتا ہے؟ہم سچ کو ببانگ دہل کہنے میں جھجکتے کیوں ہیں؟بہرحال دیر آید درست آید کی طرز پر فضا کچھ بدل رہی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کیلئے یہ ایک خوش آئند پیغام ہے اور ہم مطمئن اس لئے بھی ہیں کہ جو کچھ ہم نے حادثے کے فوراً بعد سے لکھنا شروع کیا،آج اسے ایسے معروف قلم کاروں کی تحریروں سے بڑی تقویت مل رہی ہے۔ ہم پھربہت پرزور انداز میں اس سے آگے کی کہانی تک پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تمام خاکہ ذہن میں ہے۔آج اور اسی وقت لکھا جا سکتا ہے،مگر ابھی تھوڑا انتظار۔اس صف میں کچھ اور لوگوں کو شامل ہو لینے دیجئے۔ یہ آواز ہر سمت سے اٹھنے دیجئے۔کہیں ایسا نہ لگے کہ جو کچھ ہم سامنے رکھ رہے ہیں وہ صرف ہم بول رہے ہیں، بلکہ ہر تحریر سے لگے کہ حق بول رہا ہے اور پھر جب یہ آواز پہنچے ہمارے ایوان اقتدار تک اور اس مرکزی کردار تک، جو سب کچھ آئینہ کی طرح صاف ہونے پر بھی آئینہ کو دھندلا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے تو پھر وہ مان لے گا کہ یہ جستجو لا حاصل ہے۔بے شک سچ کو ہزار پردوں سے ڈھک دیا جائے، مگرسچ کو عیاں ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ایک سا ئے کا تعاقبنئی دہلی نے عامر اجمل قصاب سے پوچھ گچھ کے لیے FBIکو اجازت دے دی تھی، لیکن امریکہ ڈیوڈ ہیڈلی کے معاملے میں ہندوستان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کررہا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی، جس نے ہندوستان کے خلاف جنگ کا ماحول تیار کیا اور ممبئی کو تباہ کرنے کی کوشش کی، آخر کاراس نے اپناگناہ قبول کرلیا ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ سب کچھ تباہ نہیں ہوا ہے،لیکن امریکہ کے ساتھ ڈیوڈ کے معاملے پر ہورہی پیش رفت سے ایسا لگ رہا ہے کہ ہندوستان اس شخص کو حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوگا جس نے ہندوستان میں سرحد پار سے آکر افرا تفری کا ماحول پیدا کیا،بم دھماکے کرائے، کئی جگہوں کا جائزہ لیا اور کئی لوگوں کو اپنے مشن میں شریک کیا، لیکن ظاہری طو رہم پھر بھی خوش ہیں کہ ہندوستان کی تحقیقاتی ایجنسیاں کسی نہ کسی شکل میں اس شخص سے پوچھ گچھ کرنے میںکامیاب ہوسکتی ہےں۔ تو کیا وہ حکومت جو ہیڈلی کی سپردگی کا مطالبہ کررہی تھی، اب ہیڈلی کی کم سزا پر خاموشی اختیار کرلینے میں ہی اپنی بہتری سمجھتی ہے۔ہمیں اس شرمندگی کو نہیںبھولنا چاہیے جب ہمارے ملک کی تحقیقاتی ایجنسی پہلی مرتبہ ڈیوڈ ہیڈلی سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے امریکہ گئی تھی تو اسے بغیرپوچھ گچھ کئے ہی واپس لوٹا دیا گیا تھا،جبکہ اجمل عامر قصاب سے پوچھ گچھ کے لیے ہندوستان نے ایف بی آئی کو پوری طرح چھوٹ دی تھی اور ایف بی آئی نے 9گھنٹے سے زیادہ قصاب سے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔6/11کے حملے میں 6امریکی باشندوں کی جان جانے سے ایف بی آئی نے خود بخود یہ سمجھ لیا تھا کہ اسے پوچھ گچھ کرنے کا پورا اختیارحاصل ہے،جبکہ اسی طرح کے حملے میں 100سے زائد ہندوستانیوں کی جان جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے ایک گہرا زخم لگا، اس معاملے میں ہمیں پوچھ گچھ کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ سب بھول جائے اور اسی میںخوش رہیے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہیڈلی سے پوچھ گچھ کا موقع مل سکتا ہے۔O اس عجیب دو رخے پن کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، فریب یا راز داری۔پچھلے کچھ مہینوں سے ہیڈلی کے پر اسرار ماضی کے بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ایک تو اس کی مختلف قسم کی آنکھیں یعنی ایک بھوری اور ایک نیلی Schizo Phreniaمیں ڈوبی ہوئی زندگی کی علامت ہوسکتی ہےں۔دوسرے ہمیں یہ پتہ ہے کہ اس کی دو بیویاں ہیں او رایک ماں ہے۔ ماں ایک Bar چلاتی ہے او رباپ جو پاکستانی سفیر ہے جس نے اسے شدت پسند ی کی طرف راغب کیا۔ ہیڈلی کو مشرق اور مغرب دونوں کی معلومات ہونے کی وجہ سے وہ امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایڈ منسٹریشن کے لیے مخبری کا کام کرنے لگا۔ اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ 1998میں ڈرگ اسمگلنگ کے ایک معاملے میں گرفتار ہونے پروہ اپنی0سال کی سزا کو دو سال میں تبدیل کرنے کے عوض میں مخبری کرنے کے لیے راضی ہوا تھا۔ اب کہانی یہاں پر ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ لیکن ایسا تو نہیں کہ ہیڈلی پاکستان میں منشیات کے راستے امریکی مخبرکی حیثیت سے لشکر طیبہ میں شامل ہوگیاہو؟ یایہ کہ کسی وجہ سے امریکہ کو فریب دے کر اس نے اس کے لیے کام کرنا بند تو نہیں کردیا تھا؟ اگر ایسا ہے تو کیا یہ 26/11سے پہلے ہوا؟ ایک آدمی کس طرح سے امریکہ میں اور امریکہ سے باہر یہاں تک دنیا بھر میں اتنی آسانی سے آتا جاتا رہا؟ یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ ہیڈلی اگر 26/11سے ایک مہینے قبل FBIکی تحقیقات کے دائرے میں تھا تو یہ اطلاع ہندوستان کو کیوں نہیں دی گئی ۔ یہاں تک کہ وہ ممبئی حملے کے پانچ ماہ بعد اپریل009میں ہندوستان آنے میںکیسے کامیاب رہا۔حالانکہ یہ تمام سوالات جاسوسی ناول پڑھنے والوں کے تصوراتی سوالات کہہ کر مسترد کردیئے گئے ہیں، لیکن اگر ہم سبھی غلط تھے تو کیا کوئی ہمیں یہ بتائے گا کہ اس کی متبادل کہانی کیا ہوسکتی ہے۔؟امریکہ نے ہندوستانی ایجنسی کو 26/11کے اہم کردار سے پوچھ گچھ کرنے سے یوں ہی منع نہیں کیا، بلکہ اس نے ہیڈلی کی جان بھی بچائی ہے۔اب یہ دوسرا موقع ہے جب ہیڈلی نے حراست کے دوران کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔ کیا یہ کسی کو شبہ میں ڈالنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ ممبئی کے فلم اداکار اور ’’جم‘‘ کے مالک راہل بھٹ جن کی کئی مہینوں تک ہیڈلی سے دوستی رہی، ان کا کہنا ہے کہ وہ ہیڈلی کو ہمیشہ ’’ایجنٹ ہیڈلی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ ’’وہ پُراسرار طریقے سے آتا تھا اور بات چیت بھی خفیہ طریقے سے کرتا تھا‘‘ اسے اپنے ٹارگیٹ کا علم تھا۔‘‘حکومت ان باتوں کو مسترد کرسکتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھٹ کو ہیڈلی کے جیل میں بند ہونے کی اطلاع امریکی حکام کی جانب سے ہندوستان کو بتانے سے پہلے ہی تھی۔ وزارت داخلہ کے مطابق ہیڈلی کے متعلق امریکہ کا انکار ہیڈلی کے ایجنٹ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے،لیکن ہندوستان کے اہم مطلوبہ دہشت گرد کے ساتھ امریکی رویہ کی وجہ سے اس پر تجسس کے معاملے کی وضاحت کیسے کی جاسکتی ہے؟امریکہ کے ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کے مخبر کے طور پر اگر ہیڈلی کا ماضی نہ دیکھا جائے تو بھی اس معاملے کو امریکہ کی جانب سے ہینڈل کیا جانا بھی عجیب لگتا ہے۔ ڈنمارک کے صحافیوں کے حوالے سے یہ خبر آئی ہے کہ ڈنمارک کے کا رٹونسٹ کے خلاف انتقامی کارروائی کے بارے میں ہیڈلی سے ڈنمارک کے تفتیش کاروں نے پہلے ہی پوچھ گچھ کرلی ہے، تو ایسے حالات میں ہندوستان کو اتنے لمبے عرصے سے کیوں پوچھ گچھ کی اجازت نہیں دی جارہی ہے؟ اس معاملے کو کوئی امریکہ مخالف ذہنیت کی وجہ سے نہیں اٹھارہا ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ اب یہ جاننے کی بے چینی بڑھ رہی ہے کہ امریکہ دہشت گردی مخالف جنگ میں ہندوستان کا سنجیدہ ساتھی ہے کہ نہیں! یا ہمیں یہ جنگ اکیلے ہی لڑنی ہوگی۔ اوباما انتظامیہ جس طرح افغانستان اور پاکستان کے متعلق پالیسی بنارہا ہے، اس سے پہلے ہی یہ لگ رہا ہے کہ اسے ہندوستان کی فکر نہیں ہے۔ ہیڈلی کا تجسس جس طرح برقرار ہے اس سے کبھی بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں امید کی جاسکتی ہے کہ ایک وسیع تناظر میں ہندوستانی حکومت کو اپنی ناراضگی ظاہر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیںہونی چاہیے۔ بہر حال ہیڈلی سے پوچھ گچھ کے لیے اسے ہندوستان کو سونپا جائے گا یا نہیں، اس پر ابھی غیر یقینی صورت حال برقرار ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ کیا یہ سچ مچ کی تفتیش ہوگی یا محض امریکہ کی منشا کے مطابق ہوگی؟ ابھی تک تو حکومت کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے جس کی وجہ سے کئی اور پریشان کن سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ایک0سالہ ماسٹر مائنڈ کو زندگی جینے کا حق مل جاتا ہے تو کیا 21سالہ قصاب جو ہیڈلی کے منصوبے کامحض ایک پیدل سپاہی ہے ، اسے ممکنہ موت کا سامنا کرنا چاہیے؟ برکھادت (گروپ ایڈیٹر،DTV)
Tuesday, March 23, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment