بٹلہ ہاؤس پر ہم نے جو لکھا، پوسٹ مارٹم رپورٹ نے ثابت کردیا۔ 26/11اور ہیڈلی کے تعلق سے ہم نے جو لکھا، وہی اب ثابت ہورہا ہے۔ آج ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں برکھادت اور "www.outlookindia.com" میں بی رمن نے جو لکھا، وہ بھی ہمارے نظرےے کو صحیح ثابت کرتا ہے، یعنی ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کے بعد ہم نے جو لکھا، وہ سب سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہے، مگر اس سے کیا۔ ہم بس اپنی پیٹھ تھپتھپا سکتے ہیں۔ خوش ہوسکتے ہیں کہ ہمارا جو اندازہ تھا، وہ درست تھا۔ ہمارے کچھ چاہنے والے اسے ہماری دوراندیشی قرار دے کر تعریف کرسکتے ہیں، مگر بات تو تب ہے جب کوئی نتیجہ برآمد ہو۔ کیا بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی اب سی بی آئی انکوائری کی راہیں ہموار ہوگئی ہیں؟ کیا اس حادثے کا مکمل سچ اب بھی سامنے آسکے گا؟ اگر نہیں تو کیا نتیجہ اس سب کا۔ ہاں، ہم مایوس نہیں ہیں، حالات تو بدلے ہیں، ماحول میں مثبت تبدیلی آئی ہے، نتیجے کی امید بھی جگی ہے، مگر نتیجہ سامنے آنا بھی ضروری ہے۔
اسی طرح ہم نے اپنی پچھلی تحریروں میں ممبئی پر دہشت گردانہ حملے اور ہیڈلی کے تعلق سے جو کچھ لکھا، اس کی ایک ہلکی سی جھلک آج پیش کرنے جارہے ہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ آج جو باتیں ہمارے قومی میڈیا کے ذریعہ سامنے لائی جارہی ہیں، آپ کا روزنامہ راشٹریہ سہارا اپنے اس متواتر کالم کے تحت بہت پہلے وہ سب سامنے رکھ چکا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، تب کیا لکھا، تاکہ سند رہے۔
ایک سوال مثبت اور منفی سوچ (Positive/Negative Thinking)کا بھی ہے
قسطـ9(مورخہ:3-12-2009)
ہم مسلمان ہیں، ہم ہندو ہیں، ہم سکھ ہیں، یہ سب اپنی اپنی جگہ سچ ہے، مگر ہم سب ہندوستانی ہیں، کیا یہ سچ نہیں ہے؟ اس ملک کی آزادی کی جدوجہد میں کیا ہم سب شامل نہیں تھے؟ جب یہ ملک غلام تھا تو ہندو، مسلمان اور سکھ یکساں طور پر فرنگیوں کے ظلم کے شکار نہیں تھے؟ اگر ملک پھر غلام ہوگیا تو کیا ایک بار پھر ہمیں ایسی ہی پریشانیوں کا، تکلیفوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان ایک مضبوط اور بہت بڑا ملک ہے، اب اسے غلام بنانے کی کوشش کون کرسکتا ہے؟ اب یہ سوال بھی ذہن میں کیوں آیا کہ ملک غلام ہوسکتا ہے؟ ہم چاہیں تو سرے سے اس خیال کو نظرانداز کرسکتے ہیں اور اس سمت میں سوچنا غیرضروری قرار دے سکتے ہیں، مگر کوئی تاریخ داں کیا یہ بتائے گا کہ فرنگی جب لونگ الائچی کا کاروبار کرنے ہندوستان آئے، جب انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی تو اس وقت ہندوستان کے حکمرانوں کو یا ہندوستانی عوام کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ وہ غلام ہوگئے ہیں یا ہونے جارہے ہیں۔ ہمارے خیال میں قطعاً نہیں۔ انہوں نے تب ایسا سوچا بھی نہیں ہوگا، ورنہ مٹھی بھر گورے جو کاروبار کے بہانے یہاں داخل ہوئے تھے، الٹے پائوں لوٹ جاتے۔ نہ ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوتی، نہ ملک غلام ہوتا۔
5پھر اس کے بعد غلامی کے دور کا جائزہ لیں تو کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ٹکراؤ کے حالات قدم قدم پر پیدا کےے اور انہیں یہ اچھی طرح علم تھا کہ جب جب اس ملک کے ہندو اور مسلمان متحد ہوں گے، یہ ملک مضبوط ہوگا اور ان کی امیدیں پوری نہیں ہوں گی۔ انہیں ملک کو غلام بنائے رکھنے کا موقع نہیں ملے گا اور اگر یہ دونوں قومیں آپس میں لڑتی رہیں تو ملک کمزور ہوجائے گا، ان کی دفاعی قوت ختم ہوجائے گی اور پھر ہمارے لےے یہ آسان موقع ہوگا کہ ہندوستان کو اپنا غلام بنائے رکھےں۔ کیا یہی حکمت عملی اب کارفرما نہیں ہوسکتی؟
میں گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش نہیں کررہا ہوں، ایک مختصر مضمون میں انگریزوں کی 190سالہ غلامی کی داستان بھی بیان نہیں کی جاسکتی، میں صرف اور صرف فرنگیوں کی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرکے اپنی بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ ہم آزاد ہیں۔ ہمارا ملک آزاد ہے۔ بیشک ابھی تک سچائی تو یہی ہے، مگر کیا ہم ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل آزادی حاصل کرچکے ہیں۔ ہمیں اپنے تمام فیصلے لینے کا اختیار ہے، اپنی بات کو دلیلوں کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش اگر ہم نہ کریں تو کیا پوری ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات میں فیصلہ لینے کے لےے خودمختار ہیں۔ کیا ہمیں یقین ہے کہ ہم کسی سازش کا شکار نہیں ہورہے ہیں؟ کیا ہم وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک بار پھر ہندوستان کو کمزور کرنے، ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی منظم سازش نہیں کی جارہی ہے؟ کیا ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ ہندوستان کی تقسیم میں اس وقت کے ہندوستانی سیاستدانوں کے علاوہ اور کسی بیرونی طاقت کا اہم کردار نہیں تھا؟ محمد علی جناح کو تقسیم وطن کا ذمہ دار مان بھی لیں تو کیا لارڈ مائونٹ بیٹن کو اس صورتحال کے لےے قطعاً ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا؟ وقت کی دھول کے نیچے دبی اس سچائی کو ہمیں تاریخ کے دامن میں جھانک کر دیکھنا ہوگا، اس لےے کہ اب ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ یہ بم دھماکے صرف ہندوستان، پاکستان میں ہی کیوں ہورہے ہیں؟ فی الحال میں افغانستان اور عراق کی بات نہیں کررہا۔
امریکہ کے تعلق سے ہماری سوچ مثبت ہے، اس لےے ہم اس کے بارے میں کوئی غلط بات سوچ ہی نہیں سکتے۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اگر ایف بی آئی کا ایجنٹ ہے اور 26/11کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہے، تب بھی ہم امریکہ کے تعلق سے کوئی منفی بات نہیں سوچیں گے۔ تہورحسین رانا ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں شامل ہے، وہ اس سے چند روز قبل ممبئی میں موجود ہوتا ہے اور6نومبر کوچین سے جنوبی کوریا ہوتے ہوئے شکاگو(امریکہ)پہنچ جاتا ہے اور ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ اگر وہ ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں شامل ہے تو اسے امریکہ کا ہی اسے سب سے محفوظ ٹھکانا نظر آتا ہے؟ وہ امریکہ ہی کیوں پہنچتا ہے؟ کیا وہ دہشت گردوں کے لےے پناہ گاہ ہے؟ وہ پاکستان کیوں نہیں جاتا؟ چین سے پاکستان تو اس قدر نزدیک ہے کہ سرحدیں ملی ہوئی ہیں، وہ امریکہ کا ہی انتخاب کیوں کرتا ہے؟ 26/11کوممبئی میں بدھواراپیٹھ پر اترنے والے پاکستانی دہشت گردوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی انیتا اُدیا کو خفیہ طور پر بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے امریکہ کیوں لے جایا جاتا ہے۔ اس سے کیا بات چیت ہوئی، اسے کیوں منظرعام پر نہیں رکھا گیا؟ کیونکہ ہم امریکہ کے بارے میں منفی رائے نہیں رکھتے، لہٰذا اس سب پر نہ غور کرتے ہیں،نہ بات کرتے ہیں اور نہ ایسی خبروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایف بی آئی ہندوستان آکر 26/11کی جانچ میں حصہ لے۔ ہم اس پر آنکھ بند کرکے بھروسہ رکھےں۔ ہمیں یہ خیال ہی نہ آئے کہ ایف بی آئی اس لےے بھی جانچ میں دلچسپی لے سکتی ہے، تاکہ جان سکے کہ کہیں شک کی سوئی امریکہ کی طرف تو نہیں جارہی ہے۔ یہ ہماری مثبت سوچ ہے۔ ہیڈلی ایف بی آئی کا ایجنٹ بھی ہو اور لشکرطیبہ کا بھی، ہماری مثبت سوچ ہمیں اس سمت میں غور کرنے ہی نہیں دیتی کہ کیا لشکرطیبہ بھی ایف بی آئی کے کنٹرول میں ہے؟ کیا اس کی ایک Organ بھی ہوسکتی ہے؟ کس طرح اتنی آسانی سے وہ اپنے ایجنٹوں کو لشکرطیبہ میں داخل کرادیتے ہیں اور اگر یہ ان کے نیٹ ورک کا کمال ہے اور وہ ہمارے ہمدرد بھی ہیں تو پھر وہ ہمیں یہ جانکاری بروقت دے کر ہمیں تباہی سے بچاتے کیوں نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان اور عراق کو تو امریکہ نے خود تباہ کردیا۔ فلسطین کو اسرائیل کے ذریعہ تباہ کردیا اور اب وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو ہندوستان تباہ کرے، اس طرح اس کا کام ہوجائے اور کوئی بدنامی کا داغ بھی اس کے دامن پر نہ آئے۔
اگر ہے کوئی جواب اس کا تو بتاؤ!
قسطـ1 (مورخہ: 25-12-2009)
لاس اینجلس ٹائمس3-دسمبر
ٹائم لائن آف ڈیوڈ کولمین ہیڈلیـامریکی سرکار اور عدالت کے دستاویز کے مطابق
2005: ہیڈلی لشکر طیبہ کے لئے کام کرنے اور ہندوستان کا سفر کرکے نگرانی کے لئے تیار ہوگیا۔
2006فروری : اپنا نام دائود گیلانی سے ڈیوڈ ہیڈلی تبدےل کرلیا تاکہ ہندوستان میں خود کو بطور امریکی پیش کرسکے جو نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی پاکستانی۔
2006جون : شکاگو میں اپنے دوست تہور رانا سے ہندوستان میں رانا کے امیگریشن کاروبار کی شاخ کھولنے کی اجازت۔
2006ستمبر : ہندوستان میں کئی ہفتوں تک رہا اور پھر پاکستان روانہ ہوا۔
2007فروری : کئی ہفتوں تک ہندوستان کا سفر اور پھر پاکستان روانہ۔
2007ستمبر : کئی ہفتوں تک ہندوستان کا سفر اور پھر پاکستان روانہ۔
2008اپریل : لشکر طیبہ کے کہنے پر کئی ہفتوں تک ہندوستان کے سفر پر رہا۔ ممبئی کے ساحلی علاقے کی نگرانی کے لئے کشتی سے نگرانی کی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہیڈلی کے ذریعہ تیار ویڈیو کا استعمال 10دہشت گردوں نے کیا۔
2008جولائی : کئی ہفتوں تک ہندوستان میں رہا اور پھر پاکستان روانہ۔
2008اکتوبر : ڈنمارک کے اخبار میں شائع خاکے کے بعد Yahooپر ایک ڈسکشن گروپ پر اپنے جواب کے بعد ایف بی آئی نے نظر رکھنی شروع کی۔
فروری: پاکستان کے قبائلی علاقہ میں گیا، جہاں پاکستانی فوج کے میجر عبدالرحمن ہاشم سید نے لشکر طیبہ کے لوگوں سے ملوایا۔ جون میں واپس شکاگو آنے سے قبل ہیڈلی نے اپنی رضامندی سے رانا کوآگاہ کےا۔
15اگست: کوپن ہیگن کے سفر کے بعد اٹلانٹا پہنچا۔
3اکتوبر: شکاگو سے پاکستان روانہ ہونے سے قبل گرفتار۔
پشکر، گوا، پونے، ممبئی اور دہلی (جن شہروں میں ہیڈلی رکا تھا)،ہر جگہ چباڈ ہائوس کے آس پاس۔
مذکورہ بالا خبر ایک امریکی اخبار ’’لاس اینجلس ٹائمس‘‘ میں 13دسمبر کو شائع ہوئی اور کل اس کالم کے تحت شامل اشاعت کیا گیا مضمون ویرسنگھوی کا تھا،جو 20دسمبر009کو انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمس‘‘ میں شائع ہواـ اورـ اب ملاحظہ فرمائیں میری آج کی تحریر اور اپنی رائے سے بھی نوازیں۔ مضمون کے اختتام پر میرا فون، فیکس، ایـمیل، بلاگ موجود ہے اور ہاں! اس پیج کی پیشانی کے ساتھ شائع کےے جانے والے ’’ہیڈلی‘‘ کے پاسپورٹ کی تصاویر ضرور دیکھیں، جس پر امریکہ سے جاری ہونے کی تاریخ واضح طور پر نظر آرہی ہے۔
کون ہے اصل دہشت گردکیا میں پوچھ سکتا ہوں
قسطـ7(مورخہ: 01-01-10)
اب تک پڑھ چکے ہیںآپ، کس نے بدلوایا اس کا نام اور مذہب… کس نے دیا اسے باپ کا نیا نام… کس نے بنوایا دوسرا پاسپورٹ… کس نے دلوایا ویزا… کس نے مہیا کرائے جعلی دستاویز… کس نے دلوائی لشکرطیبہ کے کیمپوں میں ٹریننگ… کس نے بھیجا ایک سزایافتہ مجرم کو ہندوستان… کس نے فراہم کیا ہندوستان آنے کا فرضی جواز… کس نے بنوایا صرف ایک ہفتہ قبل تہورحسین رانا کا پاسپورٹ… کس کی ایما پر کھلی ممبئی میں ’’فرسٹ ورلڈ امیگریشن سروسز‘‘ … کس نے رسائی کرائی ہیڈلی کی یہودی کے ٹھکانوں تک… کس نے اسے ممبئی امریکن قونصلیٹ کے پاس گھر دلایا… کیوں اس کا امریکن قونصلیٹ میں بے روک ٹوک آنا جانا تھا… کس نے اسے ہندوستان میں گرفتاری سے بچایا… کس نے اسے ہندوستانی انٹلی جنس افسران سے بات کرنے سے روکااور کیوں… کون ہے جو ہندوستان میں تباہی برپا کرنے والے اس خطرناک دہشت گرد کو ہندوستان کے حوالے نہیں کرنا چاہتا…؟
ان میں سے کون سا سوال ایسا ہے، جس کا جواب آپ نہیں جانتے یا ہماری انٹلی جنس ایجنسیاں نہیں جانتیں یا ہماری حکومت نہیں جانتی… اگر ہے کوئی ایسا سوال تو ازراہِ کرم مطالعہ فرمائے ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘ میں میرے سلسلہ وار مضمون ’’آزاد بھارت کا اتہاس‘‘ کی قسط نمبرـ0ـ24-12-09) ’’یہ مضمون میرا نہیں ہے مگر…‘‘، قسط نمبرـ1ـ25-12-09) ’’اگر ہے کوئی جواب اس کا تو بتائو!‘‘ ،قسط نمبرـ2ـ26-12-09) ، قسط نمبرـ3ـ27-12-09)’’جو ہم نے لکھا وہی سابق ڈی جی پی مغربی بنگال نے بھی!‘‘،جو مذکورہ تاریخوں میں شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ دیکھ سکتے ہیں ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں ویر سنگھوی کا مضمونDid America keep mum on 26/11?"،0دسمبر009۔ ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ 13دسمبر009۔ ہندی روزنامہ ’’سنمارگ‘‘میں مضمون نگاردنیش چندرواجپئی، سابق ڈائرکٹر جنرل پولیس، مغربی بنگال،کولکاتاکا مضمون ’’6/11، ہیڈلی اور امریکہ‘‘۔ ’’سری لنکاکے اخبار ’’سری لنکاگارجین‘‘ میں بی رمن کا مضمون "Headley case: India as a soft state"، 20دسمبر009۔ ’’بھارت بچائو آندولن‘‘ تنظیم کی پریس ریلیزMumbai 26/11 Terror Attack"،6دسمبر009۔ANS (Indo-Asian News Service) کی4دسمبر009کی رپورٹ۔
٭ کیا اب بھی ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم رہنی چاہےے؟
٭ کیا اب بھی ہمیں اصل دہشت گردوں کو اور ان کی منشا کو نہیں سمجھنا چاہےے؟
٭ کیا اب بھی ہمیں ہندوستان کو تباہ و برباد کرنے والوں سے بازپرس نہیں کرنی چاہےے؟
اور…
٭ کیا اب بھی ہمیں بلاتفریق مذہب و ملت متحد ہوکر اپنے ملک کے تحفظ کے لےے کمربستہ نہیں ہوجانا چاہےے؟
سوچو آخر کب سوچو گے!
اب ایک آخری بات…
ہم کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ڈنمارک کے کارٹونسٹ کو مارنا چاہتا تھا، اس لےے ایف بی آئی نے اسے گرفتار کیا۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اپنے مخبر، اپنے جاسوس، اپنے پروردہ دہشت گرد کو ایک کٹرمسلمان کے طور پر پیش کرکے ساری دنیا کو گمراہ کرنے کی یہ ایک سازش ہو اور اسے ہندوستان کو سپرد نہ کرنے کا بہانا۔تفتیش کا سلسلہ جاری رہے گا اور تحریر کا بھی، مگر آج کے لےے بس اتنا ہی۔
اسی طرح ہم نے اپنی پچھلی تحریروں میں ممبئی پر دہشت گردانہ حملے اور ہیڈلی کے تعلق سے جو کچھ لکھا، اس کی ایک ہلکی سی جھلک آج پیش کرنے جارہے ہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ آج جو باتیں ہمارے قومی میڈیا کے ذریعہ سامنے لائی جارہی ہیں، آپ کا روزنامہ راشٹریہ سہارا اپنے اس متواتر کالم کے تحت بہت پہلے وہ سب سامنے رکھ چکا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، تب کیا لکھا، تاکہ سند رہے۔
ایک سوال مثبت اور منفی سوچ (Positive/Negative Thinking)کا بھی ہے
قسطـ9(مورخہ:3-12-2009)
ہم مسلمان ہیں، ہم ہندو ہیں، ہم سکھ ہیں، یہ سب اپنی اپنی جگہ سچ ہے، مگر ہم سب ہندوستانی ہیں، کیا یہ سچ نہیں ہے؟ اس ملک کی آزادی کی جدوجہد میں کیا ہم سب شامل نہیں تھے؟ جب یہ ملک غلام تھا تو ہندو، مسلمان اور سکھ یکساں طور پر فرنگیوں کے ظلم کے شکار نہیں تھے؟ اگر ملک پھر غلام ہوگیا تو کیا ایک بار پھر ہمیں ایسی ہی پریشانیوں کا، تکلیفوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان ایک مضبوط اور بہت بڑا ملک ہے، اب اسے غلام بنانے کی کوشش کون کرسکتا ہے؟ اب یہ سوال بھی ذہن میں کیوں آیا کہ ملک غلام ہوسکتا ہے؟ ہم چاہیں تو سرے سے اس خیال کو نظرانداز کرسکتے ہیں اور اس سمت میں سوچنا غیرضروری قرار دے سکتے ہیں، مگر کوئی تاریخ داں کیا یہ بتائے گا کہ فرنگی جب لونگ الائچی کا کاروبار کرنے ہندوستان آئے، جب انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی تو اس وقت ہندوستان کے حکمرانوں کو یا ہندوستانی عوام کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ وہ غلام ہوگئے ہیں یا ہونے جارہے ہیں۔ ہمارے خیال میں قطعاً نہیں۔ انہوں نے تب ایسا سوچا بھی نہیں ہوگا، ورنہ مٹھی بھر گورے جو کاروبار کے بہانے یہاں داخل ہوئے تھے، الٹے پائوں لوٹ جاتے۔ نہ ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوتی، نہ ملک غلام ہوتا۔
5پھر اس کے بعد غلامی کے دور کا جائزہ لیں تو کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ٹکراؤ کے حالات قدم قدم پر پیدا کےے اور انہیں یہ اچھی طرح علم تھا کہ جب جب اس ملک کے ہندو اور مسلمان متحد ہوں گے، یہ ملک مضبوط ہوگا اور ان کی امیدیں پوری نہیں ہوں گی۔ انہیں ملک کو غلام بنائے رکھنے کا موقع نہیں ملے گا اور اگر یہ دونوں قومیں آپس میں لڑتی رہیں تو ملک کمزور ہوجائے گا، ان کی دفاعی قوت ختم ہوجائے گی اور پھر ہمارے لےے یہ آسان موقع ہوگا کہ ہندوستان کو اپنا غلام بنائے رکھےں۔ کیا یہی حکمت عملی اب کارفرما نہیں ہوسکتی؟
میں گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش نہیں کررہا ہوں، ایک مختصر مضمون میں انگریزوں کی 190سالہ غلامی کی داستان بھی بیان نہیں کی جاسکتی، میں صرف اور صرف فرنگیوں کی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرکے اپنی بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ ہم آزاد ہیں۔ ہمارا ملک آزاد ہے۔ بیشک ابھی تک سچائی تو یہی ہے، مگر کیا ہم ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل آزادی حاصل کرچکے ہیں۔ ہمیں اپنے تمام فیصلے لینے کا اختیار ہے، اپنی بات کو دلیلوں کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش اگر ہم نہ کریں تو کیا پوری ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات میں فیصلہ لینے کے لےے خودمختار ہیں۔ کیا ہمیں یقین ہے کہ ہم کسی سازش کا شکار نہیں ہورہے ہیں؟ کیا ہم وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک بار پھر ہندوستان کو کمزور کرنے، ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی منظم سازش نہیں کی جارہی ہے؟ کیا ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ ہندوستان کی تقسیم میں اس وقت کے ہندوستانی سیاستدانوں کے علاوہ اور کسی بیرونی طاقت کا اہم کردار نہیں تھا؟ محمد علی جناح کو تقسیم وطن کا ذمہ دار مان بھی لیں تو کیا لارڈ مائونٹ بیٹن کو اس صورتحال کے لےے قطعاً ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا؟ وقت کی دھول کے نیچے دبی اس سچائی کو ہمیں تاریخ کے دامن میں جھانک کر دیکھنا ہوگا، اس لےے کہ اب ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ یہ بم دھماکے صرف ہندوستان، پاکستان میں ہی کیوں ہورہے ہیں؟ فی الحال میں افغانستان اور عراق کی بات نہیں کررہا۔
امریکہ کے تعلق سے ہماری سوچ مثبت ہے، اس لےے ہم اس کے بارے میں کوئی غلط بات سوچ ہی نہیں سکتے۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اگر ایف بی آئی کا ایجنٹ ہے اور 26/11کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہے، تب بھی ہم امریکہ کے تعلق سے کوئی منفی بات نہیں سوچیں گے۔ تہورحسین رانا ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں شامل ہے، وہ اس سے چند روز قبل ممبئی میں موجود ہوتا ہے اور6نومبر کوچین سے جنوبی کوریا ہوتے ہوئے شکاگو(امریکہ)پہنچ جاتا ہے اور ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ اگر وہ ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں شامل ہے تو اسے امریکہ کا ہی اسے سب سے محفوظ ٹھکانا نظر آتا ہے؟ وہ امریکہ ہی کیوں پہنچتا ہے؟ کیا وہ دہشت گردوں کے لےے پناہ گاہ ہے؟ وہ پاکستان کیوں نہیں جاتا؟ چین سے پاکستان تو اس قدر نزدیک ہے کہ سرحدیں ملی ہوئی ہیں، وہ امریکہ کا ہی انتخاب کیوں کرتا ہے؟ 26/11کوممبئی میں بدھواراپیٹھ پر اترنے والے پاکستانی دہشت گردوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی انیتا اُدیا کو خفیہ طور پر بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے امریکہ کیوں لے جایا جاتا ہے۔ اس سے کیا بات چیت ہوئی، اسے کیوں منظرعام پر نہیں رکھا گیا؟ کیونکہ ہم امریکہ کے بارے میں منفی رائے نہیں رکھتے، لہٰذا اس سب پر نہ غور کرتے ہیں،نہ بات کرتے ہیں اور نہ ایسی خبروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایف بی آئی ہندوستان آکر 26/11کی جانچ میں حصہ لے۔ ہم اس پر آنکھ بند کرکے بھروسہ رکھےں۔ ہمیں یہ خیال ہی نہ آئے کہ ایف بی آئی اس لےے بھی جانچ میں دلچسپی لے سکتی ہے، تاکہ جان سکے کہ کہیں شک کی سوئی امریکہ کی طرف تو نہیں جارہی ہے۔ یہ ہماری مثبت سوچ ہے۔ ہیڈلی ایف بی آئی کا ایجنٹ بھی ہو اور لشکرطیبہ کا بھی، ہماری مثبت سوچ ہمیں اس سمت میں غور کرنے ہی نہیں دیتی کہ کیا لشکرطیبہ بھی ایف بی آئی کے کنٹرول میں ہے؟ کیا اس کی ایک Organ بھی ہوسکتی ہے؟ کس طرح اتنی آسانی سے وہ اپنے ایجنٹوں کو لشکرطیبہ میں داخل کرادیتے ہیں اور اگر یہ ان کے نیٹ ورک کا کمال ہے اور وہ ہمارے ہمدرد بھی ہیں تو پھر وہ ہمیں یہ جانکاری بروقت دے کر ہمیں تباہی سے بچاتے کیوں نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان اور عراق کو تو امریکہ نے خود تباہ کردیا۔ فلسطین کو اسرائیل کے ذریعہ تباہ کردیا اور اب وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو ہندوستان تباہ کرے، اس طرح اس کا کام ہوجائے اور کوئی بدنامی کا داغ بھی اس کے دامن پر نہ آئے۔
اگر ہے کوئی جواب اس کا تو بتاؤ!
قسطـ1 (مورخہ: 25-12-2009)
لاس اینجلس ٹائمس3-دسمبر
ٹائم لائن آف ڈیوڈ کولمین ہیڈلیـامریکی سرکار اور عدالت کے دستاویز کے مطابق
2005: ہیڈلی لشکر طیبہ کے لئے کام کرنے اور ہندوستان کا سفر کرکے نگرانی کے لئے تیار ہوگیا۔
2006فروری : اپنا نام دائود گیلانی سے ڈیوڈ ہیڈلی تبدےل کرلیا تاکہ ہندوستان میں خود کو بطور امریکی پیش کرسکے جو نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی پاکستانی۔
2006جون : شکاگو میں اپنے دوست تہور رانا سے ہندوستان میں رانا کے امیگریشن کاروبار کی شاخ کھولنے کی اجازت۔
2006ستمبر : ہندوستان میں کئی ہفتوں تک رہا اور پھر پاکستان روانہ ہوا۔
2007فروری : کئی ہفتوں تک ہندوستان کا سفر اور پھر پاکستان روانہ۔
2007ستمبر : کئی ہفتوں تک ہندوستان کا سفر اور پھر پاکستان روانہ۔
2008اپریل : لشکر طیبہ کے کہنے پر کئی ہفتوں تک ہندوستان کے سفر پر رہا۔ ممبئی کے ساحلی علاقے کی نگرانی کے لئے کشتی سے نگرانی کی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہیڈلی کے ذریعہ تیار ویڈیو کا استعمال 10دہشت گردوں نے کیا۔
2008جولائی : کئی ہفتوں تک ہندوستان میں رہا اور پھر پاکستان روانہ۔
2008اکتوبر : ڈنمارک کے اخبار میں شائع خاکے کے بعد Yahooپر ایک ڈسکشن گروپ پر اپنے جواب کے بعد ایف بی آئی نے نظر رکھنی شروع کی۔
فروری: پاکستان کے قبائلی علاقہ میں گیا، جہاں پاکستانی فوج کے میجر عبدالرحمن ہاشم سید نے لشکر طیبہ کے لوگوں سے ملوایا۔ جون میں واپس شکاگو آنے سے قبل ہیڈلی نے اپنی رضامندی سے رانا کوآگاہ کےا۔
15اگست: کوپن ہیگن کے سفر کے بعد اٹلانٹا پہنچا۔
3اکتوبر: شکاگو سے پاکستان روانہ ہونے سے قبل گرفتار۔
پشکر، گوا، پونے، ممبئی اور دہلی (جن شہروں میں ہیڈلی رکا تھا)،ہر جگہ چباڈ ہائوس کے آس پاس۔
مذکورہ بالا خبر ایک امریکی اخبار ’’لاس اینجلس ٹائمس‘‘ میں 13دسمبر کو شائع ہوئی اور کل اس کالم کے تحت شامل اشاعت کیا گیا مضمون ویرسنگھوی کا تھا،جو 20دسمبر009کو انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمس‘‘ میں شائع ہواـ اورـ اب ملاحظہ فرمائیں میری آج کی تحریر اور اپنی رائے سے بھی نوازیں۔ مضمون کے اختتام پر میرا فون، فیکس، ایـمیل، بلاگ موجود ہے اور ہاں! اس پیج کی پیشانی کے ساتھ شائع کےے جانے والے ’’ہیڈلی‘‘ کے پاسپورٹ کی تصاویر ضرور دیکھیں، جس پر امریکہ سے جاری ہونے کی تاریخ واضح طور پر نظر آرہی ہے۔
کون ہے اصل دہشت گردکیا میں پوچھ سکتا ہوں
قسطـ7(مورخہ: 01-01-10)
اب تک پڑھ چکے ہیںآپ، کس نے بدلوایا اس کا نام اور مذہب… کس نے دیا اسے باپ کا نیا نام… کس نے بنوایا دوسرا پاسپورٹ… کس نے دلوایا ویزا… کس نے مہیا کرائے جعلی دستاویز… کس نے دلوائی لشکرطیبہ کے کیمپوں میں ٹریننگ… کس نے بھیجا ایک سزایافتہ مجرم کو ہندوستان… کس نے فراہم کیا ہندوستان آنے کا فرضی جواز… کس نے بنوایا صرف ایک ہفتہ قبل تہورحسین رانا کا پاسپورٹ… کس کی ایما پر کھلی ممبئی میں ’’فرسٹ ورلڈ امیگریشن سروسز‘‘ … کس نے رسائی کرائی ہیڈلی کی یہودی کے ٹھکانوں تک… کس نے اسے ممبئی امریکن قونصلیٹ کے پاس گھر دلایا… کیوں اس کا امریکن قونصلیٹ میں بے روک ٹوک آنا جانا تھا… کس نے اسے ہندوستان میں گرفتاری سے بچایا… کس نے اسے ہندوستانی انٹلی جنس افسران سے بات کرنے سے روکااور کیوں… کون ہے جو ہندوستان میں تباہی برپا کرنے والے اس خطرناک دہشت گرد کو ہندوستان کے حوالے نہیں کرنا چاہتا…؟
ان میں سے کون سا سوال ایسا ہے، جس کا جواب آپ نہیں جانتے یا ہماری انٹلی جنس ایجنسیاں نہیں جانتیں یا ہماری حکومت نہیں جانتی… اگر ہے کوئی ایسا سوال تو ازراہِ کرم مطالعہ فرمائے ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘ میں میرے سلسلہ وار مضمون ’’آزاد بھارت کا اتہاس‘‘ کی قسط نمبرـ0ـ24-12-09) ’’یہ مضمون میرا نہیں ہے مگر…‘‘، قسط نمبرـ1ـ25-12-09) ’’اگر ہے کوئی جواب اس کا تو بتائو!‘‘ ،قسط نمبرـ2ـ26-12-09) ، قسط نمبرـ3ـ27-12-09)’’جو ہم نے لکھا وہی سابق ڈی جی پی مغربی بنگال نے بھی!‘‘،جو مذکورہ تاریخوں میں شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ دیکھ سکتے ہیں ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں ویر سنگھوی کا مضمونDid America keep mum on 26/11?"،0دسمبر009۔ ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ 13دسمبر009۔ ہندی روزنامہ ’’سنمارگ‘‘میں مضمون نگاردنیش چندرواجپئی، سابق ڈائرکٹر جنرل پولیس، مغربی بنگال،کولکاتاکا مضمون ’’6/11، ہیڈلی اور امریکہ‘‘۔ ’’سری لنکاکے اخبار ’’سری لنکاگارجین‘‘ میں بی رمن کا مضمون "Headley case: India as a soft state"، 20دسمبر009۔ ’’بھارت بچائو آندولن‘‘ تنظیم کی پریس ریلیزMumbai 26/11 Terror Attack"،6دسمبر009۔ANS (Indo-Asian News Service) کی4دسمبر009کی رپورٹ۔
٭ کیا اب بھی ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم رہنی چاہےے؟
٭ کیا اب بھی ہمیں اصل دہشت گردوں کو اور ان کی منشا کو نہیں سمجھنا چاہےے؟
٭ کیا اب بھی ہمیں ہندوستان کو تباہ و برباد کرنے والوں سے بازپرس نہیں کرنی چاہےے؟
اور…
٭ کیا اب بھی ہمیں بلاتفریق مذہب و ملت متحد ہوکر اپنے ملک کے تحفظ کے لےے کمربستہ نہیں ہوجانا چاہےے؟
سوچو آخر کب سوچو گے!
اب ایک آخری بات…
ہم کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ڈنمارک کے کارٹونسٹ کو مارنا چاہتا تھا، اس لےے ایف بی آئی نے اسے گرفتار کیا۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اپنے مخبر، اپنے جاسوس، اپنے پروردہ دہشت گرد کو ایک کٹرمسلمان کے طور پر پیش کرکے ساری دنیا کو گمراہ کرنے کی یہ ایک سازش ہو اور اسے ہندوستان کو سپرد نہ کرنے کا بہانا۔تفتیش کا سلسلہ جاری رہے گا اور تحریر کا بھی، مگر آج کے لےے بس اتنا ہی۔
No comments:
Post a Comment