گفتگو جاری تھی، مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالہ اور آسام میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے حوالہ سی، اردو زبان کے تناظر میں، لیکن اس درمیان دیوریا اور گورکھپور کے دورہ پر جانا پڑا۔ لکھنا بہت متاثر ہوتا ہے اس سفر سی، لہٰذا اب اسے ذرا کم کرنا ہوگا۔ بہرحال پھر شروع کرتے ہیں وہیں سے جہاں بات چھوڑی تھی۔ ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ ان چاروں ریاستوں میں اردو زبان سوائے کچھ مقامات کے علاقائی عوام کی زبان نہیں ہی، حالانکہ اردو زبان سے واقفیت کچھ حد تک چاروں ریاستوں کے باشندوں کو ہی، لیکن مغربی بنگال میں بنگلہ، تمل ناڈو میں تمل، کیرالہ میں ملیالم اور آسام میں اسمی زبان علاقائی لوگوں کی پہلی پسند ہیں اس کے بعد انگریزی ہی، ہاں کچھ مخصوص مقامات پر دینی مدارس کی مہربانی سے اردو کا وجود ابھی باقی ہی۔ زبان کا تعلق قوم و معاشرے سے کیا ہوتا ہی، اسے بہت سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہی۔ میں آج اس انتہائی نازک موضوع پر گفتگو کا ارادہ رکھتا ہوں۔ آزادی سے قبل اردو ہندوستان کی قومی زبان تصور کی جاتی تھی، حالانکہ اس وقت انگریز حکمراں تھے اور انگریزی کا دبدبہ اس وقت بھی تھا، لیکن ہندوستان کی اکثریت اردو کو اپنی زبان تسلیم کرتی تھی، اسی لئے ہم نے اردو زبان کو اس وقت کی قومی زبان کہا، کیونکہ حکومت کی زبان یہی تھی، عدالتوں کی زبان یہی تھی، ہر خاص و عام کی زبان یہی تھی۔ انگریزوں کے خلاف ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دینے والی زبان یہی تھی۔ جدوجہد آزادی کی زبان یہی تھی۔ 1857سے لے کر947تک یعنی پہلی جنگ آزادی سے حصول آزادی تک اردو زبان نے ہی آزادی کی جنگ لڑی۔ ’اردوئے معلی‘(مولانا حسرت موہانی)،’ہمدرد‘(مولانا محمد علی جوہر)، ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ (مولانا ابوالکلام آزاد)، ’زمیندار‘(مولانا ظفر علی خاں) وہ نمائندہ اخبار تھی، جن کا تعلق اردو زبان سے تھا اور آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش تھی۔ اردو ادب یا شاعری کا ذکر کریں تو یہ سرمایہ ہماری آزادی کی تاریخ کا حصہ ہی۔ پنڈت رام پرساد بسمل سے منسوب:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہی
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہی
اے شہیدِ ملک و ملت میں ترے اوپر نثار
اب تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہی
وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہی
جیسے اشعار اردو زبان سے تعلق رکھنے والے مجاہدین آزادی نے دئی۔ یہ بلاتفریق مذہب و ملت ان کا جذبہ تھا۔ اگر پنڈت رام پرساد بسمل اردو زبان کی معرفت آزادی کا بگل بجا رہے تھے تو ظفر علی خاں، محمد حسین آزاد اور علامہ اقبال بھی اردو زبان میں کہے جانے والے اپنے نغموں کے ذریعہ آزادی کی جنگ لڑرہے تھی، جیسی:
ناقوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہی
مجھ کو اگر ہے عشق تو ہندوستاں سے ہی
تہذیب ہند کا نہیں چشمہ اگر ازل
یہ موجِ رنگ رنگ پھر آتی کہاں سے ہی
ذرّے میں گر تڑپ ہے تو اس خاک پاک سی
سورج میں روشنی ہے تو اس آسماں سے ہی
(ظفر علی خاں)
اے آفتاب صبح وطن تو کدھر ہے آج
تو ہے کدھر کہ کچھ نہیں آتا نظر ہے آج
بن تیرے ملک ہند کے گھر بے چراغ ہیں
جلتے عوض چراغ کے سینے میں داغ ہیں
(محمد حسین آزاد)
اگر ممکن ہو تو بھی آج رنگیں جام کے بدلی
لہو کے رنگ میں ڈوبا ہوا پرچم اٹھا ساقی
(علامہ اقبال)
یہ ہے وہ اردو زبان جسے ہندوستان کی تاریخ کبھی بھلا نہیں پائے گی، لیکن 1947میں حصول آزادی کے بعد ملک بٹا، زمین بٹی، زبان بٹی اور ہماری ہندوستانی تہذیب بھی ٹکڑوں میں بٹ گئی، جس کا خمیازہ ہمیں آج تک بھگتنا پڑرہا ہی۔ اردو زبان صرف ایک ووٹ سے پیچھے رہ کر قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں کرسکی، ہندی زبان کو یہ حق حاصل ہوا۔ کاش کہ عملی طور پر ہندی ہی ہماری قومی زبان تسلیم کرلی گئی ہوتی۔ تکنیکی اعتبار سے ضرور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندی کو ہمارے ملک کی قومی زبان ہونے کا مرتبہ حاصل ہی، لیکن حقیقت یہ نہیں ہی۔ اگر ایسا ہوتا تو مہاراشٹر اسمبلی میں ہندی زبان میں حلف لینے پر ابوعاصم اعظمی کو ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ہمیں اپنی گنگا جمنی تہذیب پر فخر ہی، مگر اب یہ تہذیب ماضی کی داستانوں میں ہی زیادہ نظر آتی ہی۔ حال کا حال تو بہت برا ہے اور مستقبل کا خدا جانی۔ اردو اب ملک کی قومی زبان نہیں ہے اور ہندی قومی زبان ہو کر بھی کل ہندوستان کی زبان نہیں ہی۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، بیشک یہ ہماری وسیع القلبی اور معاشرے کی ہمہ جہتی کی طرف اشارہ کرتی ہی، لیکن علاقائی زبانوں کے فائدوں کے ساتھ ساتھ ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ہماری قومی زبان ہندی کو ملک کی تمام ریاستوں میں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوسکا ہے کہ اسے قومی سطح پر رابطہ کی زبان تسلیم کیا جاسکی۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار اور راجستھان کے رہنے والے کثرت سے ہندی زبان کو عام بول چال میں استعمال کرتے ہیں، مگر جب ہم جنوب کی طرف رُخ کرتے ہیں تو آندھراپردیش کی ریاستی زبان تیلگو ہی، کرناٹک کی کنڑ، تمل ناڈو کی تمل اور کیرالہ میں ملیالم۔ دیگر ہندوستان کی بات کریں تو پنجاب میں پنجابی، گجرات میں گجراتی، مہاراشٹر میں مراٹھی زیادہ مقبول ہیں اور ان زبانوں کے بعد اگر کوئی رابطہ کی زبان ہے تو وہ انگریزی ہی، یعنی اردو اور ہندی کو جو دونوں ہی آزادی کے بعد ملک کی قومی زبان بننے کی دعویدار تھیں، لیکن اب قومی سطح پر اس حیثیت میں نظر نہیں آتیں۔ کچھ علاقوں میں ہندی سمجھی جاتی ہے اور بول لی جاتی ہی، اسی طرح اردو زبان بھی…
آزادی کے بعد سے متواتر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اردو ہندوستان کی زبان ہی۔ کسی مذہب یا فرقہ کی زبان نہیں ہی۔ ہم نے خود اپنی تحریر اور تقاریر کی معرفت بارہا کہا اور لکھا کہ جب پروفیسر گوپی چند نارنگ اور چندربھان خیال جیسے ناموں والے لوگ اردو زبان میں گفتگو کرتے ہیں، اردو ادب کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں تو یہ ملک کے 100کروڑ لوگوں کی زبان نظر آتی ہی، مگر جب پروفیسر ملک زادہ منظور احمد اور خلیق انجم جیسے اردوداں اردو زبان میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں تو یہ محض 20فیصد لوگوں کی زبان نظر آتی ہی۔ تمام کوششوں اور جدوجہد کے باوجود اس حقیقت سے اعتراف کرنا مجبوری بھی ہے اور ضروری بھی کہ آزادی کے دور کی یا اس کے فوراً بعد جوان ہونے والی نسل کی بات نہ کریں تو آج کی نسل میں اردو زبان سے تعلق ایک مخصوص فرقہ کا ہی ہوکر رہ گیا ہی۔ بہت حد تک اب یہ ملک کی اقلیت یعنی مسلمانوں کی زبان ہی بن کر رہ گئی ہی۔ بڑی تعداد میں وہی اردو کے زیادہ قریب نظر آتے ہیں، لہٰذا اگر اس سچائی کو آج تسلیم کرلیا جائے اور مجبوری میں نہیں، بلکہ بخوشی یہ اعلان کردیا جائے کہ ہم تو اردو کو ہندوستان کی زبان کی شکل میں ہی دیکھتے رہے اور ہمیشہ دیکھنا چاہتے تھی، ہم اسے نہ تو ریاستوں کی سرحدوں میں محدود رکھنا چاہتے تھی، نہ کسی مخصوص فرقہ یا طبقہ کی میراث، لیکن اگر آپ نے اب اسے ہماری زبان قرار دے ہی دیا ہے تو ہمیں بہ خندہ پیشانی آپ کا یہ تحفہ قبول ہی۔
اردو ہماری زبان ہی، ہمیں یہ تحفہ خوش دلی سے قبول ہی۔ ہم اس وقت بھی بہت خوش تھی، جب اردو کل ہند کی زبان تھی، ہم اس وقت اور بھی خوش ہوتی، جب آج بھی اردو کل ہندوستان کی زبان ہوتی۔ ہم اس حقیقت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اردو کے ہماری زبان ہونے کے کیا معنی ہیں۔ زبان کا معاشرہ پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اور زبان کا رشتہ کئی معنوں میں مذہب کے رشتہ سے بھی زیادہ مضبوط ثابت ہوتا ہی۔ عین ممکن ہے کہ میری یہ بات سب کے لئے قابل قبول نہ ہو، مگر میری تحریر کے اگلے چند جملے یہ واضح کردیں گے کہ میں ایسا کیوں لکھ رہا ہوں۔ میں نے تاریخ کے دامن میں جھانک کر دیکھا ہی، میں نے تقسیم وطن کے واقعات کو پڑھا ہی، میں نے مغربی اور مشرقی پاکستان کو جغرافیائی اعتبار سی، مذہبی اعتبار سے اور زبان کے اعتبار سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے رہنے والوں کا مذہب تو ایک ہی تھا، تقسیم ہند کے وقت ہندوستان سے الگ ہونے کی وجہ بھی ایک ہی تھی، اگر یہ وجہ مذہب تھی تو پھر مشرقی اور مغربی پاکستان ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکی۔ آخر کس بات نے دونوں کوجدا کردیا۔ میں اس وقت سیاسی وجوہات پر بات نہیں کررہا ہوں۔ میرا یہ مضمون زبان کی اہمیت کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ہی، لہٰذا اور جو بھی وجوہات رہی ہوں، زبان ایک بہت بڑی وجہ تھی مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلافات پیدا ہونے اور تعلق ختم ہوجانے کی۔اس لئے کہ مشرقی پاکستان کی زبان بنگلہ تھی، وہ مغربی بنگال کے نزدیک تھا، اس کی تہذیب، اس کی زبان مغربی پاکستان سے الگ تھی، لہٰذا دونوں قومیں ایک مذہب ہوتے ہوئے بھی زبان اور علاقہ کے اعتبار سے جدا تھیں، اس لئے ایک پاکستان رہ گیا اور دوسرے کا وجود بنگلہ دیش کی شکل میں عمل میں آیا۔
آج میں اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے زبان کے اس رشتہ کی اہمیت پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ تقسیم ہند 65برس پرانی داستان ہی۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کی کہانی بھی اتنی ہی پرانی ہی۔ میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کی تاریخ کا حوالہ دینے کی یہاں ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ میں صرف آج سے پچاس سال بعد کی صورتحال کو ذہن میں رکھ کر گفتگو کررہا ہوں۔ تمل ناڈو میں رہنے والوں کی زبان تمل ہی، وہ ہندو ہوں یا مسلمان۔ کیرالہ میں رہنے والوں کی زبان ملیالم ہی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، حالانکہ عرب سے آنے والے قافلہ نے سب سے پہلے اسی زمین پر قدم رکھا اور آج بھی کیرالہ کے مسلمانوں کی زندگی میں عربی طرز زندگی کی جھلک ملتی ہی۔ بہت سے لوگ عربی لباس میں آپ کو اس ریاست میں نظر آئیں گی، تاہم ان کی زبان ملیالم ہی۔ آسام اور مغربی بنگال کی صورتحال بھی کم و بیش یہی ہی۔ ان کی اپنی علاقائی زبانیں ہیں۔ بیشک اردو زبان کا مغربی بنگال سے گہرا رشتہ رہا ہی۔ اردو کا پہلااخبار ’’جام جہاں نما‘‘ اسی زمین سے شائع ہوا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ جیسے جریدے اسی پردیش(کولکاتہ) سے نکالی۔ اردو آج بھی یہاں زندہ ہی، مگر بنگلہ زبان بنگال کے ہر رہنے والے کی زبان ہی۔ ہمیں ان تمام زبانوں سے محبت ہی، ان کے اپنائے جانے میں کوئی برائی نہیں، مگر اردو وہ زبان ہے جو قومی سطح پر رابطہ کا ذریعہ بن سکتی ہے اور حالیہ ریاستی انتخابات وہ موقع ہیں، جب اردو کو رابطہ کی زبان بنایا جاسکتا ہی۔ ہمارے دینی مدارس اور شعروادب کی محفلیں بخوبی یہ کارنامہ انجام دے سکتی ہیں۔ کام ذرا مشکل ہی، مگر ناممکن نہیں۔ جنہیں ووٹ کی اہمیت کو سمجھنا اور سمجھانا ہی، وہ سیاسی اعتبار سے ان ریاستی انتخابات کو خوش آمدید کہیں اور جنہیں زبان کی اہمیت کو سمجھنا اور سمجھانا ہی، وہ انتخابات کو اردوزبان کے لحاظ سے خوش آمدید کہیں۔ ظاہر ہے اگر آپ نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کرلیا تو ان چار ریاستوں کے انتخابات صرف متعلقہ ریاستوں میں رہنے والوں کے لئے ہی نہیں ہوں گی، بلکہ اردو زبان سے محبت کرنے والے ہر ہندوستانی کے لئے انتہائی اہم ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں یہ درخواست کی تھی کہ میری اس تحریر کا ترجمہ مقامی زبان میں شائع کرکے یا پھر رابطہ کے لئے جو طریقہ بھی آپ کو مناسب لگے اپنائیں، مگر اس پیغام کو ہر گھر تک ضرور پہنچائیں۔ آج پھر میں یہی درخواست کررہا ہوں کہ جس طرح بھی ممکن ہو، اس پیغام کوان تک پہنچانے کا یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ شاید زبان کے فروغ اور تہذیب کی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام معاملات میں بھی یہ کوشش نتیجہ خیز ثابت ہو۔
No comments:
Post a Comment