پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا گیا ہی، جس کے مطابق مغربی بنگال میں8, 23, 27اپریل011، آسام میں 4اور 11اپریل 2011، تمل ناڈو، کیرالہ اور پانڈیچری میں3اپریل011 میں ووٹ ڈالے جانے ہیں۔اگر پانڈیچری کے الیکشن کو مسلم ووٹ بینک کے لحاظ سے بہت زیادہ توجہ نہ دیں تو بھی باقی چار ریاستوں میں انتخابات کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہی۔ آسام میں تقریباً 33فیصد مسلمان ہیں، یعنی ہر تین میں سے ایک ووٹر مسلمان ہے جبکہ مغربی بنگال اور کیرالہ میں یہ فیصد تقریباً5%ہی، یعنی ہر چار میں سے ایک ووٹر مسلمان ہی۔ تمل ناڈو میں یہ تناسب ذرا کم ہی، وہاں مسلمانوں کی تعداد.6%ہی، تاہم اس ریاست میں بھی مسلمانوں کے ووٹ کو غیراہم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب اگر ہم ان چاروں ریاستوں کی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی پر نظر ڈالیں تو مغربی بنگال میں95میں صرف4یعنی 14%، آسام میں کل26میں2 یعنی 17%اور کیرالہ کی کل 140 سیٹوں میں6یعنی 11%، اسی طرح تمل ناڈو میں34میں صرف یعنی%مسلم نمائندے ہیں۔ اسمبلی یا پارلیمانی حلقوں کا جس طرح بٹوارہ ہوتا ہی، اس میں اس بات کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا کہ جس کی جتنی آبادی ہے اس کو اسی تناسب سے پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نمائندگی مل جائے گی، لہٰذا اگر مذکورہ بالا ریاستوں میں سے کچھ ایسے انتخابی حلقوں کی نشاندہی کربھی لی جائی، جہاں مسلمان فیصلہ کن تعداد میں موجود ہیں، وہ جیت سکتے ہیں تو بھی اس بات کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا کہ ان ریاستوں میں مسلمانوں کی جتنی آبادی ہی، انہیں اپنی اپنی ریاستوںمیں اسی تناسب سے نمائندگی حاصل ہوجائے گی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ پر نظر ڈالیں تو مغربی بنگال میں مسلمانوں کی حالت کو سب سے کمزور قرار دیا گیا ہی۔ اگر مسلمانوں کے حالات کو بہتر بنانے کی وجوہات پر غور کریں تو عرصۂ دراز سے جن نکات پر توجہ دلائی جاتی رہی ہی، وہ ہیں تعلیمی پسماندگی اور ملازمتوں کاحاصل نہ ہونا اور بھی وجوہات ہیں، مگر جن وجوہات پر سب سے زیادہ گفتگو کی جاتی ہی، وہ یہی ہیں کہ مسلمان تعلیمی اعتبار سے بہت پچھڑے ہیں اور روزگار کے معاملہ میں بھی یہی دلیل دی جاتی ہے کہ اگر معقول تعلیم ہی حاصل نہیں کریں گے تو روزگار کس طرح دستیاب ہوگا۔ یہاں اگر روزگار کا مطلب سرکاری ملازمت تصور کیا جائے تو حالت اور بھی تشویشناک نظر آتی ہی۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی اس قدر کم کیوں ہی، اگر صرف اسی موضوع پر گفتگو کریں گے تو باقی تمام پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالی جاسکتی۔ تاہم اتنا ذکر کردینا غیرمناسب نہیں ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم کا نہ ہونا تو ایک وجہ ہے ہی، مگر دوسری اور اہم وجہ ان کے ساتھ برتا جانے والا تعصب بھی ہی۔
آئیے ذرا باقی دو وجوہات پر غور کریں، یعنی تعلیمی پسماندگی اور روزگار کا حاصل نہ ہونا، اب یہاں روزگار سے مراد تمام طرح کے روزگار کی حصولیابی ہے تو یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں ہی، دیگر قوموں کے لوگ بھی تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں اور ملازمتوں کا سوال ان کے سامنے بھی ہی، مگر ہم یہاں صرف مذکورہ بالا چار ریاستوں کے انتخابات اور مسلمانوں کے مسائل کو لے کر گفتگو کا ارادہ رکھتے ہیں، باقی موضوعات پر پھر کبھی گفتگو کی جائے گی۔
تعلیمی پسماندگی کا مسئلہ ایک روز میں حل نہیں ہوسکتا، لمبا وقت درکار ہی۔ اسی طرح روزگار کا معاملہ ہے قومی اور ریاستی سطح پر روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا تو اس مسئلہ کے حل کی گنجائش سبھی کے لئے نکلی گی، اس میں مسلمانوں کے فیضیاب ہونے کی راہ بھی نکل آئے گی، لیکن ہم اس وقت بات کرنا چاہتے ہیں سیاسی نمائندگی پر اور وہ اس لئے کہ تمام طرح کے مسائل کا حل کسی نہ کسی طرح سیاست سے جڑتا ہی ہی۔ ہندوستانی قوم کے جو طبقے ایسے ہیں، جنہیں سیاسی نمائندگی، سیاسی سرپرستی، سیاسی توجہ حاصل ہی، ان کے سامنے یہ مسائل ہوتے ہوئے بھی اتنے پریشان کن نہیں ہوتی، جتنے کہ مسلمانوں کے لئے ہیں، یعنی تعلیمی پسماندگی کا اگر وہ شکار ہیں تو ان پر توجہ دینے والی سیاسی قیادت کوئی نہ کوئی ایسا راستہ نکال ہی دیتی ہی، جس سے ان کے لئے یہ روزگار کا مسئلہ اتنا پریشان کن ثابت نہیں ہوتا۔ مرکزی اور ریاستی سرکاروں کی متعدد اسکیمیں ایسی ہوتی ہیں، جس میں سرکاری امداد اور بینکوں سے قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کیا جاسکی۔ اس سے فیضیاب وہی ہوتے ہیں، جن کے پاس کوئی سیاسی سہارا ہی۔ سیاسی سرپرستی حاصل ہو تو پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اور معمولی تعلیم حاصل کرنے پر بھی کہیں نہ کہیں روزگار کا بندوبست ہوہی جاتا ہی۔ ایسی چھوٹی موٹی نوکریوں کی سرکاری سطح پر بھی کمی نہیں ہی، جو کم پڑھے لکھوں کو حاصل ہوجاتی ہے یا ہوسکتی ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمان اس زمرے میں بھی نہ آتے ہوں۔ ان میں اس درجہ تعلیم کی کمی ہو کہ وہ تیسرے اور چوتھے گریڈ کی سرکاری نوکریاں بھی حاصل نہ کرسکیں یا پرائیویٹ سیکٹر میں انہیں اوروں کی طرح مواقع نہ مل سکیں۔ ہم آج یہ گفتگو اسی لئے کرنا چاہتے ہیں کہ یہ تو آپ کے لئے ممکن نہیں ہے کہ مذکورہ بالا ریاستوں میں آپ اپنی آبادی کے تناسب سے امیدواروں کا انتخاب کرانے میں کامیاب ہوجائیں اور ان میں بھی ایسے لوگ منتخب ہوکر پہنچ جائیں جو اس قوم کے مسائل کے حل میں مکمل دلچسپی لے سکیں، پوری ایمانداری سے کام کرسکیں، لیکن ایک کام تو ایسا ہے جو آپ کرسکتے ہیں، لہٰذا آج کی تحریر میں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ اپنے ووٹ کے تناسب کو اپنی سیاسی طاقت میں کس طرح تبدیل کیا جائی، آج اس پرغور کرنا ہے آپ کو۔ یہ سیاسی طاقت آپ کو کس طرح حاصل ہوگی، کہاں کس کے ساتھ جانے سے حاصل ہوگی، کن نمائندوں کے ذریعہ حاصل ہوگی، کس پارٹی پر بھروسہ کرکے حاصل ہوگی، اس کا تجزیہ کرنا شروع کردیں۔ حالانکہ یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا، مگر آج سے بھی ہوجائے تو ووٹ ڈالنے کی تاریخ میں ابھی اتنا وقت ہے کہ آپ کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ الگ الگ ریاستوں میں آپ کی پسند الگ الگ ہوسکتی ہی۔ اب یہ دیکھنا آپ کا کام ہے کہ کہاں آپ کی سیاسی طاقت کس کے ساتھ کھڑے ہونے میں آپ کا بھلا ہے اور یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ آپ کی سیاسی طاقت کا معترف ہوگا یا نہیں۔ جذبات میں آکر کیا گیا کوئی بھی فیصلہ آپ کی سیاسی طاقت کو بے اثر کر سکتا ہی۔ ہمارا ووٹ نہ تو کسی کی دوستی پر نچھاور کردینے کے لئے ہونا چاہئی، نہ کسی سے دشمنی نکالنے کا ہتھیار۔ یہ خیرات میں دئے جانے کے لئے بھی نہیں ہے اور بخشش حاصل کرنے کے لئے بھی نہیں ہی۔ آج ہی آپ کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کن کن مسائل کا سامنا آپ کو کرنا ہوتا ہی، کن کن وجوہات کی بناپر آپ ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، آج اگر آپ اپنے ووٹ کا استعمال دوستی یا دشمنی کے لئے کرتے ہیں۔ کسی کو نذرانہ دینے یا بخشش پانے کے لئے کرتے ہیں تو آپ کے ووٹ کا جو بدل آپ نے خود طے کیا ہی، سمجھ لیجئے کہ اسی وقت وہ آپ کو مل گیا۔
یہ تو آپ کو بخوبی اندازہ ہے ہی کہ سیاسی قیادت، سیاسی طاقت، سیاسی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کن کن مسائل کاسامنا کرناپڑرہا ہی، لہٰذا ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت ہی۔ یہی ایک موقع آپ کے پاس ہوتا ہے جب آپ اپنے مسائل کے حل کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کرسکتے ہیں۔ ایک ووٹ کا مطلب آپ اپنے مسائل کے حل کی طرف ایک قدم آگے بڑھنے کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے اور آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے کی صورت میں بھی۔ آپ کا یہ ووٹ کس مقصد کی حصولیابی کے لئے ہے یہ سوچنا ہوگا۔ ذرا سی چوک آپ کے ووٹ کا مقصد تبدیل کرسکتی ہے اور اس نازک موڑ پر یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ یہ ریاستی انتخابات صرف اس ریاست کے رہنے والوں کے مقدر کا ہی فیصلہ کریں گی، لہٰذا وہ سوچیں کہ انہیں کیا کرنا ہی۔ نہیں!ایسا نہیں ہی۔ آپ یہ سوچ کر بے تعلق نہ رہیں کہ نہ تو آپ اس ریاست کے ووٹر ہیں اور نہ ان ریاستوں میں رہنے والوں کے مسائل سے آپ کا کوئی تعلق ہی۔ سب کو… سب کو جو جہاں بھی ہی، جس حیثیت میں بھی ہے مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ کہیں سے بھی کسی طرح بھی ایک چراغ روشن تو ہو۔مسائل کے حل کی شروعات کہیں سے تو ہو۔ دیکھئے کون آپ کے مسائل کے حل میں آپ کے لئے کتنا کارگر ثابت ہوسکتا ہی۔ مگر ایک بات کا خیال رکھیں، آپ کسی کا اعتماد اسی وقت حاصل کرسکتے ہیں، جب آپ اس پر بھرپور اعتماد کریں۔ کوئی آپ کی ضرورتیں تبھی پوری کرسکتا ہی، جب آپ اس کی ضرورت بن جائیں۔ جب اسے لگے کہ آپ کے بغیر اقتدار میں آنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے اور آپ پر مکمل اعتماد کیا جاسکتا ہی، تب ہی آپ کے اور اس کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم ہوسکتا ہے کہ کل آپ پورے بھروسے کے ساتھ اپنے مسائل کے حل کے لئے اس سے رجوع کرسکتے ہیں۔ قدم قدم پر ہر روز ایک نیا مسئلہ آپ کے سامنے ہوتا ہی۔ دینی مدارس کے خلاف محاذ آرائی کی جارہی ہی، ان کے تقدس کا سوال ہی، آپ کو ضرورت ہے ایسے مخلص اور ہمدردوں کی جو اس معاملہ میں کارگر ثابت ہوسکیں۔ آپ فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہیں۔ ایسے سیکولر چہرے جن کے ساتھ آپ نے اعتماد کا رشتہ قائم کرلیا ہی، آپ ان کے دروازے تک پہنچ سکتے ہیں۔ پورے حق کے ساتھ ان سے بات کرسکتے ہیں کہ یہاں صرف تعصب کی بنا پر آپ کی حق تلفی کی جارہی ہی۔ سماجی انصاف محض ایک لفظ نہیں ہی، بلکہ معاشرے میں تمام طرح کی ناانصافیوں سے نجات پانے کے لئے آپ کو ایسے منصف مزاج قائدین کی ضرورت ہوگی، جو ہر سطح پر آپ کو انصاف دلا سکیں۔ اب یہ انصاف آپ کو ملازمت کے معاملہ میں بھی درکار ہے اور حصول تعلیم کے مرحلہ میں بھی درکار ہی، معاشی بدحالی دور کرنے کے لئے بھی درکار ہے یا پھر وہ جو ناکردہ گناہوں کی سزا پانے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں، انہیں انصاف دلانے کے لئے درکار ہی۔ اس سب کے لئے راستہ تو سیاست کے دروازے سے ہوکر ہی گزرتا ہے اور وہ سیاست جو کل آپ کی قسمت کا فیصلہ کرے گی، آج آپ کی چوکھٹ پر ہی۔ ان کے سامنے اپنے مسائل رکھ دیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کے مسائل کے حل کے تئیں سنجیدہ ہوسکتے ہیں، آپ کے لئے کارآمد ہوسکتے ہیں تو انہیں صرف ایک ووٹ ہی نہ دیں، بلکہ ان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بھی قائم کریں اور ایک بات کا ضرور خیال رکھیں کہ یہ انتخابات ہر سطح پر فرقہ وارانہ کشیدگی دور کرنے کا ذریعہ بھی بنیں۔ اس لئے کہ ابھی تک کے انتخابات فرقہ وارانہ شکل اختیار کرلیتے ہیں، جہاں ہر طرح سے آپ ہی خسارے میں رہتے ہیں اور پھر پانچ سال تک قدم قدم پر اس کشیدگی کی قیمت چکاتے رہتے ہیں۔ اب انتخابات کم از کم آپ کی طرف سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے نہیں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم نظر آئیں۔ آپ کے ذریعہ دیا جانے والا ووٹ باقی تمام امیدواروں اور پارٹیوں پر یہ واضح کردے کہ آپ نے اس کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ آپ کو اس کی شکل میں اپنے مسائل کا حل نظر آتا ہی۔ نفرت، ناراضگی یا تعصب کی بنا پر آپ اسے ووٹ نہیں دے رہے ہیں۔ اگر کوئی دوسرا آپ کا ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے اپنے اندر ویسی ہی صفات پیدا کرنی ہوں گی کہ وہ آپ کے انتخاب کے دائرے میں آجائیں۔ ایسی صورت میں وہ بھی آپ کے ووٹ کا حق دار ہوسکتا ہے اور ایک بات کم از کم ایک ریاست میں آپ کی پسند ایک ہی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہر سیٹ پر آپ کی پسند بدل جائی۔ اس سے آپ کی طاقت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ساتھ ہی پارٹی کا انتخاب کرتے وقت یہ بھی خیال رہے کہ وہ اقتدار میں آسکتی ہے یا اقتدار میں حصہ دار بن سکتی ہے یا نہیں۔
3میں جانتا ہوں کہ میری یہ تحریر مغربی بنگال کے علاوہ دیگر ریاستوں میں ہر اس دروازے تک براہ راست نہیں پہنچ سکتی، جن کے لئے لکھی جارہی ہی۔ ہاں، مگر آپ چاہیں تو یہ ممکن ہوسکتا ہی۔ آپ میں سے جو اس تحریر کو ان کی زبان میں ترجمہ کرکے پہنچا سکتے ہیں، وہ ایسا کریں تو یہ مقصد حل ہوسکتا ہی، جو اس تحریر کا مفہوم مساجد، مدارس کے ذریعہ یا پھر فون پر اپنی گفتگو کے دوران پہنچا سکتے ہیں تو یہ کام آسان ہوسکتا ہی۔ ویسے میری ایک کوشش یہ بھی ہے کہ کیوں نہ ہم ایسے مواقع کا استعمال اردو کے فروغ کے لئے کریں۔ سوچیں اگر ایسا ممکن ہوجائے تو کتنا اچھا ہی۔
1 comment:
nice article
Post a Comment