آج کی اس تحریر سے قبل میرا جو آخری مضمون آپ کی نگاہوں کی زینت بنا، وہ اسیمانند کے اقبالِ جرم کے حوالہ سے تھا اور آج جب عرصۂ دراز کے بعد ایک بار پھر میں نے قلم اٹھایا ہے تو اتفاق یہ ہے کہ پھر اسیمانند کا اقبالیہ بیان میرے ہاتھ میں ہے اور اب یہ صرف میرے ہاتھ میں ہی نہیں، بلکہ ہندوستان کے کروڑوں عوام کے ہاتھوں میں ہی۔ مگرافسوس صدافسوس کہ جن ہاتھوں میں اس اقبالیہ بیان کو سب سے پہلے ہونا چاہئے تھا، ابھی تک بھی یہ ان ہاتھوں میں نہیں ہی۔ بیشک میرا اشارہ ممبئی کی خصوصی مکوکا عدالت کے جج وائی ڈی شنڈے سے ہی، جنہیں 8فروری 2011کو سماعت کے دوران ان 9ملزمان (سلمان، فارسی، شبیر احمد، نوراللہ دوحہ، رئیس احمد، محمد علی، آصف خاں، جاوید شیخ، فاروق انصاری اور ابراراحمد)کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا، جو 2006میں ہوئے مالیگاؤں بم دھماکوں میں بحیثیت ملزم گرفتار کئے گئے تھے اور آج بھی ناکردہ گناہوں کی سزا برداشت کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ 8فروری کوبہت امید کے ساتھ انہوں نے انصاف کی دہلیز پر دستک دی تھی کہ اب تو اسیمانند کے اقبالیہ جرم نے انہیں بے گناہ ثابت کردیا ہی، لہٰذا انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے مزید قیدوبند کی صعوبتیں برداشت نہیں کرنا ہوں گی اور اب وہ کھلی ہوا میں سانس لے سکیں گی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ قانون کی پیچیدگیاں ان کے راستہ میں سب سے بڑی دیوار بن گئیں۔ سی بی آئی کی فرض شناسی پر ہم کیا کہیں، اسیمانند کا اقبالیہ بیان خود اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اگر انہوں نے حقائق کی تہہ تک جانے کی کوشش کی ہوتی، سی بی آئی نے اپنے کام کو ایمانداری سے انجام دیا ہوتا تو جو کچھ اسیمانند نے اپنے اقبالیہ بیان میں اب کہا، وہ اس سے بہت پہلے بھی سی بی آئی کی رپورٹ کی شکل میں منظرعام پر آگیا ہوتا، اصل مجرم سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور بے گناہوں کو سزا پانے کے لئے مجبور نہیں ہونا پڑتا۔ مگر بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی، آج اس وقت جب ان کے پاس یہ موقع تھا کہ انہوں نے اسیمانند سے سبق حاصل کرکے اپنے ضمیر کی آواز کو سن لیا ہوتا تو کم از کم اتنا تو کرہی سکتے تھے کہ بروقت اس بیان کی کاپی خصوصی جج وائی ڈی شنڈے کے ہاتھوں تک پہنچا دیتی، جنہیں آج ان 9 ملزمین کی جیل سے نجات کے لئے انتہائی ضرورت تھی، جو انہی کی کوتاہی کی بناپر جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھی۔ وہ کیوں بضد تھے اس بات پر کہ سماعت کی تاریخ کو آگے بڑھا دیا جائی؟ جن افسروں کے سپرد یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اسیمانند کے اقبالیہ جرم کی کاپی عدالت تک پہنچائیں، وہ اس وقت تفتیش کے سلسلہ میں مالیگاؤں اور گجرات کے دورہ پر کیوں تھی۔ کیوں اس قدر بے حس ہوگئے ہیں ہم کہ ہمیں اتنا بھی احساس نہیں رہتا کہ ہماری معمولی سی چوک کسی کی زندگی کے لئے کس قدر تباہ کن اور اذیت ناک ثابت ہوتی ہی۔ کیا حکومت ہند غور کرے گی اپنے ان افسران کے اس عمل پر؟
کیا کافی ہوگی، مندرجہ بالا ملزمان کی عدالت سے رہائی، اب تو انہیں ملزم لکھنا بھی افسوسناک لگتا ہی، اس لئے کہ وہ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا پانے کے لئے مجبور کردئے گئے ہیں۔ کیا کوئی سزا نہیں ملے گی ان مجرموں کو، جنہوں نے انہیں مجرم ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا، اس کے پیچھے ان کی منشا کچھ اور تھی یا اپنے فرض سے کوتاہی، اس وقت اگر بحث اس نکتہ پر نہ بھی کی جائے تو بھی کیا وہ سزا کے مستحق نہیں ہیں۔ اپنی آج کی اس تحریر کے ساتھ میں اسیمانند کے اقبالیہ بیان سے وہ چند جملے اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں، جس کا تذکرہ میں نے اپنے پچھلے مضمون 10جنوری011کو ’’اسیمانند کی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی…‘‘میںکیا تھا، مگر اقبالیہ بیان کی تفصیل بیان نہیں کی تھی، ملاحظہ فرمائیں دہشت گردانہ حملوں کی تفتیش میں ٹرننگ پوائنٹTurning Point)ثابت ہونے والے اس طویل بیان سے چند جملی:
’’میں سنیل، بھرت بھائی اور پرگیہ سنگھ الگ سے ایک جگہ پر بیٹھی۔ باقی چار لوگ الگ سے بیٹھے تھی۔ ہم چاروں کے بیٹھک (میٹنگ) میں میں نے سوجھاؤ(مشورہ) دیا کہ مہاراشٹر کے مالیگاؤں میں 80%مسلم رہتے ہیں، اس لئے نزدیک سے ہی ہمارا کام شروع ہونا چاہئے اور پہلا بم وہیں رکھنا چاہئی۔ پھر میں نے کہا کہ سوتنترتا(آزادی) کے سمی(وقت) حیدرآباد کے نظام نے پاکستان کے ساتھ جانے کا نڑنی(فیصلہ) لیا تھا، اس لئے حیدرآبادکو بھی سبق سکھانا چاہئے ا ور حیدرآباد میں بھی بم رکھناچاہئی۔ پھر میں نے بتایا کہ اجمیر ایسی جگہ ہے کہ وہاں کی درگاہ میں ہندو بھی کافی سنکھیا(تعداد) میں جاتے ہیں۔ اس لئے اجمیر میں بھی ایک بم رکھنا چاہئی، جس سے ہندو ڈر جائیں گے اور وہاں نہیں جائیں گی۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی بم رکھنا چاہئی، کیونکہ وہاں پر جوان مسلم لڑکے ہوں گی۔ میرا سوجھاؤ(مشورہ) سب لوگوں نے مان لیا اور یہ طے ہوا کہ ان چاروں جگہ ہم بم بلاسٹ کریں گی۔ سنیل جوشی نے چاروں جگہوں کی ریکی کرنے کی ذمہ داری لی۔ سنیل جوشی نے بھی سوجھاؤ دیا کہ انڈیاـپاکستان کے بیچ میں چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں صرف پاکستانی ہی یاترا(سفر) کرتے ہیں، اس لئے سمجھوتہ ایکسپریس میں بھی بم بلاسٹ کرنا چاہئی۔ اس کی ذمہ داری سنیل جوشی نے سویم(خود) لی۔ سنیل جوشی نے بتایا کہ جھارکھنڈ سے ہمیں پستول اور سم کارڈ مل گئے ہیں۔ سنیل جوشی نے یہ بھی بتایا کہ یوگی آدتیہ ناتھ اور راجیشور سنگھ سے کوئی مدد نہیں لی۔ سنیل جوشی نے یہ بھی بتایا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں بم بلاسٹ سم کی مدد سے نہیں ہوسکتا، اس کے لئے کچھ کیمیکلز کی ضرورت پڑے گی، جو سندیپ ویوستھا(انتظام) کرے گا۔ سنیل جوشی نے بتایا کہ بم بلاسٹ کرنے کے لئے تین گروپ ہونے چاہئیں۔ ایک گروپ آرتھک (معاشی)مدد اور باقی ویوستھاکرے گا۔ ایک گروپ بم کے سامان کا سنگرہے کا کام کرے گا اور تیسرا گروپ بم رکھنے کا کام کرے گا۔ سنیل جوشی نے یہ بھی کہا کہ اگر تینوں گروپ آپس میں ایک دوسرے کو نہیں جانیں گے تو اچھا ہوگا۔ سنیل جوشی نے کہا کہ تینوں گروپ کے سنکلن کا کام وہ کرے گا۔ پھر ہماری میٹنگ ختم ہوگئی۔ ‘‘
w میں نے سوامی اسیمانند کے اس طویل اقبالیہ بیان کے صرف وہ جملے یہاں درج کئی، جن کی بنا پر حیدرآباد کا نوجوان کلیم خان رہا ہوا، جس کے حسن اختلاف نے اسیمانند کے ضمیر کو چھوڑ دیا اور اب یہ بیان دیگر متعدد بے گناہوں کی رہائی کا سبب بن سکتا ہی۔ میں نے اس وقت بھی اپنے مضمون میں ضمیر کی آواز کے سن لئے جانے پر زور دیا تھا اور میں آج پھر مخاطب ہوں انہیں لوگوں سے جن کے ضمیر کی آواز پر ٹکے ہیں بہت سے بے گناہوں کی قسمت کے فیصلی۔ اگر وہ سن لیں اپنے ضمیر کی آواز تو ہزاروں بے گناہ جیل کی سلاخوں سے باہر آسکتے ہیں۔ اگر وہ سن لیں اپنے ضمیر کی آواز تو اصل گناہگار جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاسکتے ہیں۔ اگر ہم سب سن لیں اپنے ضمیر کی آواز تو ملک کو دہشت گردی اور فرقہ پرستی دونوں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ اگر ہم انصاف کی جدوجہد میں ایڑیاں رگڑنے والے بے گناہوں کو صرف ان کے حال پر چھوڑ دینے کی غلطی نہ کریں، ہر اس شخص کو انصاف دلانے کی جدوجہد کو ہم اپنا فرض سمجھیں، اس کی کوششوں کا ہم خود ایک حصہ بن جائیں جو بے گناہ ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات سے ہو، اگر وہ بے گناہ ہیں تو ان کی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے معاشرہ کا ہر فرد اپنی بساط بھر کوشش کرے اور جو گناہگار ہیں، انہیں ان کے کیفرکردار تک پہنچانا بھی سب اپنا فرض سمجھیں تو شاید ہم ایک ایسے ہندوستان کا تصور کرسکتے ہیں، جس کا خواب مجاہدین آزادی نے دیکھا ہوگا۔
مالیگاؤں کے ملزمین کو انصاف کے لئے ابھی کچھ دن اور انتظار کرنا پڑے گا، مگر دہلی کی ایک عدالت نے ان ملزمین کو جیل کی سلاخوں سے باہر آنے کی اجازت دے دی، جو مالیگاؤں کے ملزمین کی طرح ہی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا پارہے تھی، آج کے اخبار کی یہ خبر بھی میری نگاہوں کے سامنے ہی، جسے میں لفظ بہ لفظ اپنے قارئین کے ساتھ ساتھ ان جج صاحبان کی خدمت میں پیش کردینا چاہتا ہوں، جن کے سامنے ہر روز اس طرح کے معاملات آتے ہیں۔
’’یہ دہشت گرد نہیں ہیں
دہلی پولس کے ذریعہ دہشت گرد بتائے گئے 7 افراد رہا، جانچ کے طریقے پر عدالت برہم
ملزمین کے خلاف نہ کوئی ٹھوس ثبوت ہے اور نہ ہی ان کا آئی ایس آئی سے کوئی تعلق
دہلی پولس کے ذریعہ دہشت گرد قرار دیے گئے 7لوگوں کو آج ایک عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلہ میں پولس کے تصادم کی کہانی بڑی ہوشیاری سے گھڑی گئی ہی۔ ایڈیشنل سیشن جج وریند ربھٹ نے ثاقب رحمن، بشیر احمد شاہ، نذیر احمد سیفی، حاجی غلام معین الدین ڈار، عبدالمجید بھٹ ، عبدالقیوم خان اور وریندر کمار سنگھ کو رہا کردیا۔ ان ساتوں کو دہلی پولس نے 2005میں ایک مبینہ فرضی تصادم کے بعد گرفتار کیا تھا۔ عدالت نے کہاکہ 1-2 جولائی 2005 کی وسط شب کو مبینہ طور پر ہوا انکائونٹر دراصل فرضی تصادم تھا جسے انتہائی ہوشیاری سے پیش کیا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے حال ہی میں کہا کہ انکائونٹر کی کہانی انتہائی ہوشیاری کے ساتھ دہلی پولس کے دھولا کنواں دفتر میں رچی گئی۔ یہ کہانی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ رویندر تیاگی نے اسسٹنٹ سب انسپکٹروں نراکر، چرن سنگھ اور مہندر سنگھ کے ساتھ مل کر تیار کی۔ فریق استغاثہ نے کہا تھاکہ ملزم ثاقب رحمان، نذیر احمد سیفی، غلام معین الدین ڈار اور بشیر احمد شاہ کو یکم جولائی 2005 کو گڑگائوں ـ دہلی قومی شاہراہ کے قریب فائرنگ کے بعد گرفتار کیا گیاتھا۔ دہلی پولس نے بتایاکہ یہ چاروں ملزمین کار میں تھے اور روکنے پر ان لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی۔ پولس ٹیم نے تعاقب کرکے ان لوگوں کو روکا۔
عدالت نے پولس کمشنر سے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے چاروں پولس افسروں کے خلاف مکمل طور پر جانچ کرنے اور 3 ماہ میں رپورٹ دینے کے لئے کہا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے دہلی پولس کی تفتیش کے طریقے پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ معاملہ میں فریق استغاثہ کوئی بھی ایسا ثبوت پیش نہیں کرپایا جس سے پتہ چلتا کہ ملزمین حقیقت میں دہشت گرد ہیں اور ان کا پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے تعلق ہی۔ دہلی پولس نے اس سلسلہ میں کوئی تفتیش نہیں کی۔ جج نے کہا کہ دہلی پولس ملزمین سے اور ان کے بتائے جانے کے بعد برآمد ہتھیاروں اور گولہ بارود و جعلی نوٹوں کے ذرائع کا بھی پتہ نہیں لگاپائی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ کچھ پولس اہلکاروں کی اس طرح کی کارروائی سے عام لوگوں کا پولس انتظامیہ پر سے اعتماد ختم ہوتا جارہا ہی۔ جج نے کہا کہ ان چاروں پولس افسروں نے پوری دہلی پولس فورس کیلئے شرمناک اور ہتک آمیز صورت حال پیدا کی ہی۔ ‘‘
ایڈیشنل سیشن جج ویریندر بھٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ دہلی پولیس نے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ انکاؤنٹر کی کہانی گھڑی اور انہیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا۔ بس میرا سوال اتنا ہے کہ کیا وہ پولیس والے اب سزا کے مستحق نہیں ہیں؟ کیا آج کی رہائی، یعنی ان بے گناہوں کے حق میں کیا جانے والا فیصلہ کیا مکمل انصاف ہی، جو یکم جولائی 2005کے بعد سے مسلسل جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھی، جنہوں نے اپنی زندگی کے ساڑھے پانچ برس جیل کی کال کوٹھری میں گزار دئی۔ کیا ہم ان کو ان کے بیتے ہوئے دن لوٹا سکیں گی۔ ان ساڑھے پانچ برسوں کی ذہنی، جسمانی اذیت کا کیا صلہ دیں گے ہم انہیں؟ اور صرف اتنا ہی نہیں یہ 7افراد جو مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی سزا پانے کے لئے مجبور کردئے گئے تھے اور صرف یہ لوگ ہی سزا نہیں پارہے تھی، ان کے اہل خانہ کو، ان سے وابستہ افراد کو کس قدر اذیت ناک لمحات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ انہیں معاشرہ میں کس حد تک ذلیل و خوار ہونا پڑا ہوگا۔ ان کی زندگی کس قدر دشوار بن گئی ہوگی۔ ہمیں اپنے معزز جج صاحبان سے انتہائی ادب واحترام کے ساتھ یہ درخواست بھی کرنی ہوگی کہ فیصلہ کرتے وقت اس پہلو کو بھی زیرغور رکھا جائی، تاکہ بے گناہوں کو مکمل انصاف مل سکے اور انصاف کی تاریخ میں ایک نئی نظیر لکھی جاسکی۔
……………
No comments:
Post a Comment