Sunday, November 21, 2010

جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی(جے پی سی)قائم کرنے میں جھجھک کیوں

عزیز برنی

,10نومبر کو پمپری چنچوڑ(مہاراشٹر) کے پاسبان اردو ایوارڈ فنکشن میں شرکت اور اس کے اگلے روز اعظم کیمپس پونہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر ’’2ویں عالمی اردو کانفرنس‘‘ میں کلیدی خطبہ کے بعد ناگپور ودربھ مسلم انٹلکچول فورم کے ذریعہ آر ایس ایس کے گڑھ میں مسلم مسائل اور ان کے حل پر تاریخی کانفرنس میں خطاب اور پھر 14نومبر010 کو اترپردیش کے تاریخی شہر بنارس سے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کی اشاعت کے سلسلہ پر منعقد رسم اجرا کا اجلاس ، اس کے بعد الٰہ آباد میں شہیدوطن مولانا لیاقت علیؒ کی یاد میں ’’شام لیاقت‘‘ کے عنوان سے عظیم الشان کل ہند مشاعرے میں شرکت اور پھر عیدقرباں، یعنی گزشتہ ایک ہفتہ سفر کی نذر رہا اور کچھ عیدالاضحی کی مصروفیت، لہٰذا لکھنے کا سلسلہ متاثر ہوا۔ آجروز بعد جب قلم اٹھایا تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آج کے مضمون کی شروعات اسی موضوع سے ہوتی، جس پر لکھنے کا سلسلہ جاری تھا، یعنی اجمیر بم دھماکوں کی تفتیش میں سنگھ پریوار کے جن کارکنان کے نام سامنے آئے ہیں، ان سے ہندوستان میں دہشت گردی کے ایک طویل سلسلے کی حقیقت منظرعام پر آرہی تھی۔ مالیگاؤں کے بعد اجمیر اور اب حیدرآباد بم دھماکوں کے رازافشا ہونے کو تھی۔ ملک اور قوم کے حق میں بھی یہی ہے کہ نہ تو تفتیش کا یہ سلسلہ رکنا چاہئے اور نہ کسی بھی وجہ سے متاثر ہونا چاہئی، لہٰذا یہ جدوجہد ابھی جاری رہنا چاہئی،اس ضمن میں اگر ہم یہ کہیں کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا نے اس موضوع پر اس قدر کام کیا ہے کہ یہ اپنے آپ میں اس کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے اور اگر آج ہم یہ بھی کہیں کہ شاید یہ روزنامہ راشٹریہ سہارا کی جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ دہشت گردی کی حقیقت منظرعام پر آسکی، ورنہ تو ہمیشہ کی طرح طے شدہ ذہنیت کے ساتھ کچھ مخصوص ناموں کو سامنے رکھ کر ہی بات شروع ہوتی اور ختم بھی ہوجاتی۔
آج کے مضمون کے بعد انشاء اللہ کچھ نئے انکشافات اور کچھ پرانے واقعات کی روشنی میں ملک کی سالمیت، امن و اتحاد کے لئے خطرہ بنے اس افسوسناک پہلو پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن آج کا موضوع بدعنوانی اور مرکزی حکومت کے کردار پر۔
امریکی صدر اوباما کے دورئہ ہند سے قبل ممبئی کے سب سے مہنگے علاقہ کولابہ میں ’’آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی ‘‘گھوٹالے کا معاملہ سامنے آیا، جس میں مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ اشوک چوان کی شمولیت بھی نظر آئی۔ نتیجتاً اوباما کی واپسی کے فوراً بعد اشوک چوان کو اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ کانگریس نے بلاتاخیر مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اشوک چوان کو ہٹانے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی،اس لئے کہ وہ عوام کے سامنے اپنی امیج ایک ایماندار پارٹی اور سرکار کی رکھنا چاہتی تھی۔ وزیراعلیٰ اگر کانگریس کی بجائے این سی پی کا ہوتا تو شاید یہ اتنا آسان نہیں ہوتا، بہرحال اس کے بعد مرکزی حکومت میں شامل ڈی ایم کے کے اے راجا کو بدعنوانی کے الزام کے تحت ہٹنا پڑا۔ اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے میں مرکزی حکومت کو کافی دقت پیش آئی، اس لئے کہ راجا کانگریس پارٹی کے رکن نہیں تھی۔ بہرحال سرکار کی امیج کو بچائے رکھنے کے لئے یہ فیصلہ لینا بھی ضروری تھا۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی، راجا کی بدعنوانی کے الزام صرف ان تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ الزام وزارت عظمی تک پہنچ گیا۔ اب سوال وزیراعظم کی امیج کا ہی۔ اسے کانگریس پارٹی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے حق میں سب سے بڑی بات قرار دیا جاسکتا ہے کہ الزام لگانے والوں نے انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے وزیراعظم کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معاملہ ختم کیسے ہو، کیونکہ لگاتار پارلیمنٹ کی کارروائی ہنگامے کی نذر ہورہی ہی۔ حزب اختلاف کا دباؤ ہے کہ جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی قائم کی جائی، جو حقائق کا پتا لگاکر سامنے رکھی۔ اس میں کیا حرج ہی؟ کانگریس کو یہ پیشکش بخوشی منظور کر لینی چاہئی، لیکن نہ جانے کیوں کانگریس اس سے گریز کررہی ہی؟ جبکہ اس معاملہ میں سرکار کے لئے عدالت کے ذریعہ کسی نتیجہ پر پہنچنے سے بہتر ہے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی قائم کردیا جانا۔ آخر وہ کون لوگ ہوں گی، جو جے پی سی کا حصہ بنیں گی۔ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو اس حمام میں سبھی برہنہ نظر آتے ہیں۔ ذیل میں ہم کچھ ایسے گھوٹالوں کا حوالہ پیش کرنے جارہے ہیں، جس میں الگ الگ وقت پر الگ الگ پارٹیوں کے بڑے لیڈر موردالزام ٹھہرائے گئے اور اگر چند جملے حال ہی کے انکشافات پر لکھے جائیں تو ہندوستان کے مشہور تاجر و صنعت کار رتن ٹاٹا کا یہ الزام کہ 10-15برس قبل جب وہ ائیرلائنس شروع کرنا چاہتے تھے تو متعلقہ محکمہ سے منظوری دینے کے لئے 15کروڑ روپے کی رشوت طلب کی گئی۔ ظاہر ہے اس وقت غلام نبی آزاد(کانگریس)، سی ایم ابراہیم(جے ڈی ایس) اور اننت کمار(بی جے پی) شہری ہوابازی کے وزیر تھی، لہٰذا یہ سارا معاملہ کسی بھی پارٹی کے لیڈر سے جڑا رہا نہیں ہوگا۔ ان کے علاوہ بابارام دیو نے اتراکھنڈ کے ایک وزیرپر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دھرم شالہ کے لئے زمین دینے کے لئے ان سے دو کروڑ روپے کی رشوت طلب کی گئی اور اس بات کی جانکاری ریاست اترانچل کے وزیراعلیٰ کو بھی تھی۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے اس رقم کو چندے کی شکل میں حاصل کئے جانے کی بات کو درست قرار دینے کی کوشش کی۔ اترانچل میں بھی کانگریس کی سرکار نہیں ہی۔ اسی طرح تازہ خبر یہ ہے کہ کرناٹک کے وزیراعلیٰ یدیورپا زمین گھوٹالہ میں پھنس رہے ہیں۔ کرناٹک سرکار کے وزیر ریڈی برادران کی حقیقت منظرعام پر آجائے تو شاید بدعنوانی کی تاریخ میں سب کو پیچھے چھوڑ دے اور پھر جس ٹیلی کام منسٹری میں ہوئے گھوٹالے کی جانچ کا معاملہ زیر بحث ہی، اس کی شروعات بھی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی اگر پرمود مہاجن کے دور سے شروع کرے تو ہوسکتا ہے کہ اے راجا کے دور میں ہوا بہت بڑا گھوٹالہ پرمود مہاجن کے دور میں ہوئے گھوٹالوں سے بہت چھوٹا ثابت ہو اور وہ لوگ جو پارلیمنٹ کو نہیں چلنے دے رہے ہیں، پرائم منسٹر آفس کو اس میں ملوث مان کر چل رہے ہیں، خودبخود اس آگ کو اپنے دامن تک پہنچتے دیکھ کر آوازیں اٹھانا بند کردیں۔
حالانکہ یہ ملک و قوم کے حق میں ہے کہ ہر بدعنوانی کے معاملہ پر انتہائی سنجیدگی سے غوروفکر کیا جائی۔ تمام واقعات کی تہہ تک پہنچا جائی، متعلقین کو معقول سزائیں بھی دی جائیں۔ مگر اس وقت ہم ایک بات اور بھی سوچ رہے ہیں کہ جب جب ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ اپنے بنے جال میں پھنسنے لگتے ہیں، ان کے چہرے بے نقاب ہونے لگتے ہیں تو کوئی حادثہ ایسا ہوتا ہے یا کوئی ایسی وجہ سامنے آتی ہے کہ اس طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور موضوع بحث کچھ نئی باتیں بن جاتی ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ محض اتفاق ہو کہ جس وقت شہیدہیمنت کرکرے مالیگاؤں بم بلاسٹ کی تحقیق کے ذریعہ ہر روز نئے نئے انکشافات کررہے تھی، ایسے ایسے لوگوں کے نام سامنے آرہے تھی، جن کے بارے میں سوچا ہی نہیں جاسکتا تھا اور ان کی کارکرگی کے جس منظم انداز کا کچا چٹھا بیان کررہے تھی، جس سے لگتا تھا کہ اب ملک دہشت گردی کے تمام واقعات کا سچ جان جائے گا، کیونکہ ان انکشافات میں اتنے بڑے بااثر اور ذمہ دار لوگ شامل نظر آرہے تھی، اتنا بڑا نیٹ ورک ان بم دھماکوں کے لئے استعمال ہورہا تھا۔ شاید سب کے نام اور کارنامے سامنے آجاتی۔ ان کے ناپاک عزائم کا پتہ لگ جاتا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ اب ہم ملک بھر میں پھیلی دہشت گردی کی بنیادی وجہ جان جائیں گی، جو لوگ ان بم دھماکوں کے پیچھے ہیں، ان کا سارا سچ سامنے آجائے گا، لیکن تبھی ممبئی میں ہوا ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ جس میں ہیمنت کرکرے کی بھی جان گئی اور ان انکشافات کا سلسلہ ٹوٹ گیا، پھر ایک لمبے عرصہ تک ہم بات کرتے رہی، 26/11پر، پاکستان کی اس میں شمولیت پر،لشکرطیبہ کے رول پر، اجمل عامرقصاب کے جرم پریا ڈیوڈکولمین ہیڈلی پر۔ اس درمیان مالیگاؤں بم بلاسٹ کی تحقیق متاثر ہوئی۔ ساتھ ہی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بڑی راحت ملی۔ اس کے چہرے سے گم ہوئی مسکراہٹ واپس لوٹ آئی اور بہت حد تک اس موضوع پر گفتگو بند ہوگئی۔ پھر اس کے تقریباً دو برس بعد اجمیر بم بلاسٹ کی تفتیش میں وہی چہرے سامنے نظر آنے لگی، جن کا انکشاف شہیدہیمنت کرکرے کررہے تھی۔ نام الگ ہوسکتے ہیں، مگر کام وہی تھا، خانوادہ وہی تھا، کام کرنے کا طریقہ وہی تھا۔ پھر پہلے کی طرح ہنگامہ آرائی کا دور شروع ہوا، پہلے سادھوی پرگیہ سنگھ کے نام پر سابق وزیرداخلہ لال کرشن اڈوانی برہم ہوئے تھے اور اس کے معاملہ کو لے کر وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ سے ملے تھی۔ اس بار اندریش کا نام آنے پر سنگھ پریوار نے ہنگامہ برپا کردیا۔ موہن بھاگوت سے لے کر سدرشن تک آگ بگولہ ہوگئی۔ سدرشن نے تو یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی پر اس طرح کے الزامات عائد کرنا شروع کر دئے کہ انہیں بڑے پیمانے پر ہر سمت سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہتا تو سنگھ پریوار اور اس کا سیاسی پلیٹ فارم بھارتیہ جنتا پارٹی ٹوٹ کر بکھر جاتا، لیکن بدعنوانی کے اس شور نے ملک کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی۔ سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو موقع ملا اپنے بچاؤ پر نئے سرے سے غوروفکر کرنے کا۔ قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ اس مخصوص جماعت کو پھر راحت ملی تو اسی شہر، یعنی ممبئی سی۔ آدرش گھوٹالے نے ان لوگوں کو زبان دی، جنہوں نے دہشت گردی کے انکشافات کے سبب ہونٹ سی لئے تھے اور منھ چھپائے گھوم رہے تھی، لیکن اے راجا کے معاملہ اور محکمہ وزارت عظمی تک بدعنوانی کے اس سلسلہ کے پہنچنے نے ہوا کا رُخ یکسر بدل دیا۔ پھر اجمیر، حیدرآباد جیسے بم دھماکوں پر ہونے والے انکشافات کا سلسلہ رُک گیا اور اپنے بچاؤ کا راستہ ڈھونڈنے والے حملہ آور کی شکل میں سامنے آنے لگی۔
کانگریس کو چاہئے کہ بے خوف جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی قائم کرے اور جس سمت میں جو کام ہورہا تھا، اسے جاری رکھی۔ ہمیں نہیں لگتا کہ جوائنٹ پارلیمنٹری میں شامل ہونے والے تمام لیڈران ایسا کچھ سامنے رکھنے میں کامیاب ہوں گی، جس سے وزیراعظم یا مرکزی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق ہوگا، اس لئے کہ کون نہیں جانتا کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی اور کتنی دور تک اس کا کچھ اشارہ ہم مندرجہ ذیل سطروں میں دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
تانسی(تمل ناڈو، اسمال انڈسٹریز کارپوریشن)زمین گھوٹالہ:جیہ پبلی کیشنز اور ساسی انٹرپرائزیز جس میں تمل ناڈو کی سابق وزیراعلیٰ جیہ للتا اور سسی کلا پارٹنر تھی، نے 1992میں تانسی فائونڈری لینڈ اور Enamelوائر یونٹ خریدی تھی۔ 15نومبر996کو ان کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی کہ اس زمین کی خرید سے اسٹیٹ ایکس چیکر کو تقریباً 2کروڑ7لاکھ کا نقصان ہوا تھا۔ جیہ للتا کے علاوہ 6لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا تھا۔
چارہ گھوٹالہ: چارہ گھوٹالہ996میں سامنے آیا۔ شروعات میں اس گھوٹالہ میں چھوٹے درجہ کے سرکاری افسران ملوث تھی، لیکن دھیرے دھیرے اس میں قدآور سیاسی لیڈران اور بزنس مین جڑ گئی۔ یہ گھوٹالہ تقریباً50کروڑ روپے کا تھا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ لالوپرساد یادو اس گھوٹالہ میں کلیدی ملزم تھی۔ اسی گھوٹالہ کو لے کر لالوپرساد پر اپنی ہی پارٹی جنتادل کے ممبران نے آواز بلند کی۔ ان سب کے سبب لالو پرساد یادو نے جنتا دل سے الگ ہوکر اپنی پارٹی راشٹریہ جنتا دل بنالی تھی۔
تاج کوریڈور گھوٹالہ:ـ سال002-03میں تاج محل کے آس پاس سیاحوں کو اچھی سہولتیں مہیا کرانے کے لئے ایک پروجیکٹ پاس کیا گیا تھا، جس کی تخمینہ لاگت 175کروڑ روپے تھی۔ پہلے کہا گیا تھا کہ وزارت ماحولیات نے اس پروجیکٹ کو اپنی منظوری دے دی ہی، لیکن بعد میں مرکزی این ڈی اے سرکار نے کہا کہ یہ پروجیکٹ وزارت ماحولیات کی منظوری کے بغیر ہی مایاوتی نے شروع کردیا تھا۔ اس پروجیکٹ میں ہوئے گھوٹالہ کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی گئی۔ سی بی آئی نے مایاوتی سے متعلق مختلف مقامات پر چھاپے مارے اور دعویٰ کیا کہ مایاوتی نے پہلے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی وزیراعلیٰ کی مدت کار میں صرف.1کروڑ روپے کمائے ہیں، لیکن ان کے ایک ہی بینک اکاؤنٹ میں.5کروڑ روپے جمع تھے اور ان کے نام پر اس وقت 15کروڑ سے زیادہ کی املاک تھی۔ اسی معاملہ میں ایک وقت میں ان کے خلاف گرفتاری وارنٹ بھی جاری کردیا گیا تھا، لیکن اس پر اسٹے لگ گیا۔
حوالہ گھوٹالہ:ـ اس گھوٹالہ کے تحت حوالہ دلالوں جین برادرس کے ذریعہ کچھ ہندوستانی سیاستدانوں کو رشوت دینے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ یہ 18 ملین یوایس ڈالر کا گھوٹالہ تھا۔ اس گھوٹالہ کے ملزمان میں لال کرشن اڈوانی بھی شامل تھی۔ وہ اس وقت حزب اختلاف کے لیڈر تھی۔ حالانکہ انہیں 1997میں پختہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بری کردیا گیا۔
غیرقانونی کانکنی:ـ جی کروناکرا ریڈی اور جی جناردن ریڈی، جو کرناٹک گورنمنٹ میں وزیر ہیں، ان کی کمپنی OBULAPURAMمائننگ کمپنی غیرقانونی کانکنی میں شامل ہی۔ اس کی رپورٹ لوک آیوکت جسٹس سنتوش ہیگڑے نے دی تھی، لیکن وہاں کے وزیراعلیٰ یدیورپا نے ریڈی برادران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، جس کے نتیجہ میں جسٹس سنتوش ہیگڑے نے اپنا استعفیٰ بھی دے دیا تھا، لیکن بعد میں بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی نے انہیں استعفیٰ نہ دینے کے لئے منایا۔
یدیورپا زمین گھوٹالہ:ـ کرناٹک کے وزیراعلیٰ بی ایس یدیورپا نے ایک کمپنی جس میں ان کا لڑکا بی وائی راگھویندرا پارٹنر ہی، کو0x80فٹ کا پلاٹ الاٹ کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی لڑکی اوما دیوی کو 2ایکڑ انڈسٹریل زمین BPOکمپنی کھولنے کے لئے دی تھی۔ اسی طرح ان کے دو رشتہ داروں کو زمینیں الاٹ کی گئی تھیں۔
معاملے اور بھی ہیں، لیکن آج کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے

No comments: