Friday, November 12, 2010

کچھ اور واقعات جن کی فائلیں اگر کھلیں تو....

عزیز برنی

سنگھ پریوار برہم ہے کہ اجمیر بم دھماکوں کی تفتیش میں اندریش اور سنگھ پریوار کا نام کیوں آرہا ہے۔ اسے ’ہندوورودھی راجنیتی‘ قرار دے کر مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ لکھنؤ میں ’’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘‘ کے موہن بھاگوت نے کھلے طور پر اندریش کی حمایت میں محاذ چھیڑ دیا ہے۔ لال کرشن اڈوانی اسے سی بی آئی کا غلط استعمال قرار دے رہے ہیں۔ ہمیں اس سمت میں ابھی کچھ بھی نہیں کہنا ہے، مگر بس اتنا یاد دلانا چاہیں گے کہ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نے اپنے طلبا کے لئے وکیل مہیا کرانے کی بات کہی تھی تو یہ خیمہ چراغ پا تھا، کیونکہ تفتیش کا سلسلہ جاری ہے اور ہم اس موضوع پر متواتر لکھ رہے ہیں، لہٰذا اس مضمون کے تسلسل کی آئندہ قسطوں میں مزید لکھا جائے گا۔ فی الوقت ہم کچھ ایسے ہی واقعات کے حوالے سامنے رکھ رہے ہیں، وہ اس لئے کہ دیر سویر تفتیشی ایجنسیوں کو یہ فائلیں بھی دوبارہ کھولنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ ہماری ریسرچ ٹیم بھی پوری مستعدی کے ساتھ ایسے تمام واقعات کو یکجا کرنے اور زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سے حق و انصاف کی جدوجہد کو تقویت ملے گی اور یہی درخواست ہم نے اپنے قارئین سے کی تھی کہ اس جدوجہد میں وہ بھی شامل ہوں، تاکہ مظلومین کو انصاف ملے۔ اگر ان کی جانکاری میں کچھ ایسے واقعات ہیں، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ کچھ بے گناہ پولیس کی گرفت میں ہیں یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان کے معاملہ میں نظرثانی کی ضرورت ہے تو ایسے واقعات کی تفصیل ہمیں ارسال فرمائیں، تاکہ حکومت اور انتظامیہ کو متوجہ کیا جاسکے۔ اب پیش خدمت ہیں، ایسے چند واقعات جن کا حوالہ ہم نے مذکورہ سطروں میں دیا تھا۔ ہوسکتا ہے ان میں کچھ واقعی مجرم ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے علاوہ پس پردہ کچھ اور لوگ بھی ہوں، جن کے نام اور چہرے ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔
چارمینار پولس ڈویژن کے اے سی پی بی ریڈانہ (B.Reddanna) نے 9نومبر کی پریس کانفرنس میں بتایا کہ انہوں نے مکہ مسجد دھماکوں میں ایک مرد اور ایک عورت کو پکڑا ہے ،عورت کا نام رضیہ سلطانہ (جس کو انہوں نے Wazia Sultanaبتایا ہے)۔اس نے ایک بنگلہ دیشی شخص معراج الرحمن (جس کو انہوں نے Merzaur Rehmanبتایا ہے)کو پناہ دی تھی۔ معراج الرحمن کو حرکت الجہاد اسلامی کارکن بتایا گیا ۔رضیہ سلطانہ نے ایک بنگلہ دیشی صدیق الرحمن سے شادی کرلی تھی ،جو غیر قانونی طریقہ سے 1992سے ہندوستان میں رہ رہا تھا۔
(پی ٹی آئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضیہ سلطانہ کے اقبال جرم پر آندھرا پردیش پولس ممبئی گئی ،جہاں رضیہ سلطانہ نے دو مشتبہ افراد کے نام بتائے تھے ،جو ممبئی بھاگ گئے تھے۔اسی دوران پولس کو ایک مشتبہ شخص ملا جبکہ دوسرا وہاں سے بھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ۔پولس نے ان دونوں کا نام نہیں بتایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماسٹر مائنڈ
25؍اگست2007کو سینٹرل سیکورٹی دستوں کے حوالہ سے یہ خبر آئی کہ اس رو ز ہونے والے 2 دھماکوں میں بنگلہ دیش کی ممبئی تنظیم حرکت الجہاد ملوث ہے ۔ذرائع کا کہنا تھا کہ25؍اگست کے ان دونوں دھماکوں اور مکہّ مسجد دھماکوں میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں ماسٹر مائنڈ کے طور پر شاہد اور بلال کا نام لیا گیا، جو کہ مکہّ مسجد دھماکوں میں بھی ملوثّ قرار دئے گئے تھے ۔
(حوالہ پی ٹی آئی ،ریڈف میل ڈاٹ کام )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27؍اگست 2007
سمجھوتہ ایکسپریس میں گرفتار شیخ نعیم عرف الیاس جس کو حیدرآباد کی مکہّ مسجد دھماکہ اور جعلی پاسپورٹ کیس کے تحت حیدرآباد لایا گیا۔25اگست کے دھماکوں کے سلسلہ میں اس سے پوچھ گچھ کی گئی ۔شیخ نعیم الیاس جالنہ (مہاراشٹر)کا رہنے والاہے ۔پولس نے اس روز بتایا کہ وہ آئی ایس آئی کے مبینہ ایجنٹ عبدالستار عرف انو عرف انور سے بھی پوچھ گچھ کررہی تھی، اسے سکندرآباد ریلوے اسٹیشن سے جون میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولس نے ممنوع قرار دی گئی تنظیم سیمی کے 7نوجوانوں سے بھی پوچھ گچھ کی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
23؍ستمبر 2007
25اگست کے حیدرآبادبم دھماکوں کے ایک مشتبہ شخص رفیق کا نارکوٹیسٹ کیا گیا ۔فورنسک سائنس لیباریٹری کے ڈائرکٹر بی اے موہن کے حوالے سے بتایا گیا کہ رفیق کا تین ،چار گھنٹہ تک نارکوٹیسٹ کیاگیا۔ عمران خان جو کہ مکہّ مسجد دھماکوں میں مطلوب تھا ،اس کا بھی نار کو ٹیسٹ کیا گیا،جس نے اہم اطلاعات فراہم کرائیں۔بعدمیں ان اطلاعات کو حیدرآباد ایس آئی ٹی کو سونپ دیا گیا ۔ایس آئی ٹی کی درخواست پر عمران کا ایک اور نارکوٹیسٹ کرایا گیا، جس میں اس نے 25اگست کے دوہرے حیدرآباد بم دھماکوں اور مکہّ مسجد دھماکوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10؍ستمبر2007
پولس نے 25اگست کے حیدرآبادبم دھماکوں میں ایک بنگلہ دیشی کالج اسٹوڈنٹ ،شاہی رفسنجانی کو گرفتار کیا۔ وہ کٹ پڈ ی (Katpadi)ضلع میں Auxillory Collegeکی طالبہ تھی ،اس کے گھر کی تلاشی لی گئی۔ ایس آئی ٹی نے اس کو سفر کے پورے کاغذات نہ ہونے کے الزام میں پکڑا تھا، بعدکی تفتیش میں اس کے کاغذات پو رے پائے گئے ۔پولس نے ایک اور شخص عبدالمالک سے بھی پوچھ گچھ کی۔مبارک نے اس کو داخلہ دلانے میں مدد کی تھی، اس کا ویلور (Vellor)میں ایک گیسٹ ہاؤس ہے ۔اسی کے گیسٹ ہاؤس میں 2004میں رفسنجانی نے اپنے والد اور 2 دیگر افراد کے ساتھ قیام کیا تھا۔
(بحوالہ:Redif News)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4؍ستمبر 2007
حیدرآباد کے جوائنٹ کمشنر آف پولس گوپال ہوزر (Gopal Hosur) نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ حرکت الجہاد اسلامی کاکمانڈر محمد شاہد بلال جو حیدرآباد کے 25؍اگست2007دو بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ہے ،بنگلور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے بم دھماکوں میں شامل ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس اندیشہ کو قطعی طور پر خارج ازامکان نہیں قرار دے سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے تفتیش کررہے ہیں ۔یہ دھماکہ 2005میں کرناٹک کی راجدھانی بنگلور کے قریب ہوا تھا۔بنگلور پولس نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ آندھرا پولس کے ساتھ وہ رابطہ میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3؍ستمبر 2007
بنگلہ دیش پولیس نے ، 25اگست کے مکہّ مسجد بم دھماکوں میں مطلوب کلیدی مشتبہ شخص محمد شرف الدین کو گرفتار کیا ہے ۔ وہ بنگلہ دیش کی ہوجی کے لئے کا م کرتا تھا ۔اس سے حیدرآبا کے مختلف دھماکوں کے سلسلہ میں پوچھ تاچھ کی جارہی ہے ۔پولس کا کہنا ہے کہ شرف الدین ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے 25اگست کو دو مقامات پر بم رکھے تھے۔
یکم ستمبر 2007
آندھرا پردیش پولس شروع سے ہی مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ محمد شاہد ،عرف بلال جو کہ 25اگست کے دھماکوں کا اصل مجرم ہے اور ماسٹر مائنڈ ہے۔ و ہ 18مئی 2007کے مکہّ مسجد بم دھماکوں کا بھی کلیدی مجرم ہے۔ یہ دہشت گرد پاکستان اور بنگلہ دیش سے اپنے کام انجام دیتا ہے اور 10 کلو آر ڈی ایکس جو بم دھماکوں کے لیے لایا گیا تھا اور فروری 2007 میں بنگلہ دیش سے ہی منتقل ہوا تھا۔ وہ چھ سال قبل سائی بابا ٹیمپل، دل سکھ نگر، حیدرآباد میں دھماکہ کے بعد یہاں سے فرار ہوگیا۔ (پی ٹی آئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھنؤ،21؍اکتوبر
اترپردیش کی دہشت گردی مخالف ٹیم The Anti Terrorist Squadنے یہاں ایک مشتبہ دہشت گرد اظہار خان کو لکھنؤسے گرفتار کیا، جس نے مبینہ طور پر مکہ مسجد اور مالیگاؤں بم دھماکوں میں اسلحہ اور آتش گیر مادہ فراہم کیا تھا۔ گرفتار ہونے والے شخص کا نام اظہارخان بتایا گیا۔ اس نے مبینہ طور پر وقاراحمد اور امجدعلی کو اسلحہ اور آتش گیر مادّہ فراہم کیا تھا۔ یہ دونوں مکہ مسجد اور مالیگاؤں دھماکوں میں کلیدی ملزم ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اے ٹی ایس برج لال کے مطابق گرفتار شخص نے دہشت گردوں کو وارداتیں انجام دینے کے لیے اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا تھا۔ اے ٹی ایس نے یہ کارروائی حیدرآباد اوراحمدآباد پولیس کی کارروائی کے بعد کی ہے۔ اظہار امین آباد لکھنؤ کا رہنے والاتھا۔برج لال کاکہنا ہے کہ وہ کلیدی مجرموں کاساتھی ہے، اس کے ذریعہ دوروزقبل، لکھنؤ کے چوک اسٹیڈیم سے طاقتور آتش گیرمادّہ برآمد ہواتھا۔(یوایس آئی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27؍دسمبر2007
پولس نے بتایا کہ انڈین مجاہدین جس نے اتر پردیش کی ذمہ داری لی ہے اس کا وجود ہی نہیں ہے۔ تفتیش کرنے والوں نے بتایا کہ 25؍اگست کے حیدر آباد دھماکوں اور اتر پردیش کے دھماکوں کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ حیدر آباد پولس نے تصدیق کی کہ اجمیر دھماکے اور حیدر آباد دھماکے (25؍اگست 2007) کے پیچھے، ہوجی کے کمانڈر شاہد بلال کا ہاتھ تھا۔ یوپی پولس کہہ رہی ہے کہ یوپی دھماکوں میں استعمال ہونے والا Timer Deviceایک جیسا ہے۔ یہ ایک ہی کمپنی Princeنے بنایا تھا۔ 12واٹ کی بیٹریاں جن کو Triggerکے طور پر استعمال کیا گیا تھا، وہ بھی ایک جیسی ہیں۔ پولس یہ پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہے کہ یہ Devices کہاں سے خریدے گئے تھے تو اس سے حیدر آباد پولس کو بھی مدد ملے گی۔
کشمیر سے 21دسمبر2007کو ہوجی کے مبینہ دہشت گرد طارق محمد اور خالد محمد پکڑے گئے تھے، ان کی گرفتاری سے اتر پردیش پولس نے مدد ملنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ ان دھماکوں کے بعد پولس کو ایک میل انڈین مجاہدین کی طرف سے آیا تھا جس میں اس نے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پولس کا کہنا ہے کہ یہ میل ہوجی کے شاہد بلال کے چھوٹے بھائی ماجد نے کیا تھا، پھر اس کا نارکو ٹیسٹ کرایا تھا، جس میں مبینہ طور پر بتایا گیا تھا کہ داؤد ابراہیم نے اجمیر ، حیدر آباد اور اتر پردیش کے بم دھماکوں کو انجام دینے کے لیے جعلی کرنسی جھونک دی ہے ، اس نے ٹیسٹ میں یہ بھی بتایا کہ ، شاہد بلال اب تک زندہ ہے اور اتر پردیش میں سرگرم ہے۔ اس بات سے پولس اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ یہ تینوں دھماکے اس نے کئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر آباد کے25؍اگست2007کے دھماکے
حیدر آباد کے دو دھماکوں میں 42لوگ مارے گئے تھے۔ ایک دھماکہ لمبنی پارک، دوسرا دھماکہ گوکل چاٹ بھنڈارمیں ہوا تھا۔ ان دھماکوں میں 54افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔اس کے ایک دن بعد مختلف مقامات ، بس اڈوں، سنیما گھروں، چوراہوں اور پیدل چلنے والے پلوں پر بم ملے۔اس وقت حیدر آباد کے کمشنر بلوندر سنگھ تھے اور وزیر اعلیٰ کانگریس کے وائی ایس راج شیکھر ریڈی تھے۔وزیر داخلہ شیوراج پاٹل تھے۔ داخلہ سیکریٹری مدھوکر گپتا نے لشکر طیبہ ، جیش محمدپر ان دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔26اگست کو بنگلہ دیش کے امور خارجہ کے مشیر افتخار احمد چودھری نے ان دھماکوں میں بنگلہ دیش کے ملوث ہونے کے امکان کو خارج کر دیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان تسلیم اسلم نے دھماکوں کی مذمت کی اور کسی بھی طرح اپنے ملک کے ملوث ہونے سے انکار کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)

No comments: