Monday, November 8, 2010

امریکی صدر براک حسین اوباما کا ’’مسلم ایجنڈا‘‘

عزیز برنی

براک حسین اوباما صدر امریکہ کے دورۂ ہند کو اگر میں ایک مخصوص زاویہ سے دیکھ رہا ہوں تو خدارا آپ اسے میری تنگ نظری نہ سمجھئے، بلکہ گزشتہ چند برسوں سے اپنے مذہب کے لئے مسلسل نشانہ بنائے جانے والی قوم کے لئے اوباما کے یہ جملے کچھ راحت بھرے تھے، وہ اس لئے کہ مذہب اسلام کے لئے اس ملک کے سربراہ کی زبان سے تعریفی کلمات ادا کئے گئے، جہاں سے9/11کے بعد سے لگاتار مذہب اسلام اور اس کے ماننے والوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا، لہٰذا اگر میں امریکی صدر کے دورہ کو مسلم تناظر میں دیکھ رہا ہوں تو اسے اس پہلو پر بھرپور روشنی ڈالنے کی ایک کوشش سمجھئے، جو شاید امریکی صدر کے دورۂ ہند کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تھا۔
ہوسکتا ہے صدر اوباما نے ممبئی کے سینٹ زیویرس کالج میں طلبااور طالبات سے گفتگو کے دوران سوال جواب کے سلسلہ میں محض اتفاق کے طور پر پوچھے گئے اس سوال کا جواب دیا ہو یا پھر طلبہ سے اس گفتگو کے دوران یہ سوال پہلے سے ہی ایجنڈے میں شامل رہا ہو۔ بہرحال جو بھی ہو اگر یہ سوال سینٹ زیویرس کالج کی طلبا نے محض اتفاق سے معلوم کیا، تب بھی اس کا جواب طے شدہ تھا، جس کا اقرار امریکی صدر نے جواب دیتے ہوئے کیا کہ ہاں مجھے توقع تھی کہ یہ سوال مجھ سے کیا جائے گا، یعنی وہ جواب کے لئے ذہنی طور پر پہلے سے تیار تھے اور ہندوستان کے لئے تو یہ سوال بالکل بھی نیا نہیں تھا، اکثروبیشتر یہ سوال اٹھتا رہتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار کیوں نہیں دیتا؟، لیکن اس سوال کا امریکی صدر کی زبان سے اس موقع پر دیا گیا جواب قطعاً غیرمتوقع تھا۔ وہ جواب کیا تھا، پہلے لفظ بہ لفظ وہ جملے، اس کے بعد اس جواب پر تبصرہ:
’’پاکستان ایک بڑا ملک ہے۔ وہ صرف امریکہ کے لئے نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لئے بہت معنی رکھتا ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ پاکستان میں کچھ شدت پسند لوگ ہیں، جنہوں نے ماحول کو خراب کررکھا ہے۔ پاکستانی حکومت کو بھی شدت پسندوں کے بارے میں معلوم ہے اور وہ بھی ان سے لڑرہی ہے۔
میں مانتا ہوں کہ امریکہ کو پاکستان سے تعلق بنائے رکھنا چاہئے۔ میں نے ہمیشہ ہی اپنی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو اہمیت دی ہے۔ ہم ایک مستحکم، پرسکون اور خوشحال پاکستان چاہتے ہیں۔ پاکستان میں غیر مستحکم حالات، شدت پسندی اور دہشت گردی دنیا کے لئے کینسر کے برابر ہیں۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ پاکستان نے اتنی ترقی نہیں کی جتنی کہ کرنی چاہئے تھی۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی میں اتنی کامیابی نہیں مل سکی ہے جتنی ہم چاہتے تھے۔ پاکستان کے مسائل کو سدھرنے میں وقت لگ رہا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کچھ جگہ حالات بہت مشکل ہیں۔ ہم پاکستان کے دوست ہیں اور اس کے ساتھ ایماندار رہنا چاہتے ہیں۔
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ ہی تعلقات بہت مشکل رہے ہیں اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔ دونوں ہی ممالک کے رشتے بہت مشکل رہے ہیں، دونوں ہی ممالک نے دہشت اور تشدد کا سامنا کیا ہے۔ آپ لوگوں کو عجیب لگ سکتا ہے، لیکن میں یقین کرتا ہوں کہ پاکستان کی ترقی سے سب سے زیادہ فرق ہندوستان کو پڑے گا۔ پاکستان کی ترقی سب سے زیادہ ہندوستان کے لئے ضروری ہے۔ اگر پاکستان غیرمستحکم رہتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہندوستان کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ ایشیا میں مستحکم حالات کے لئے پاکستان کا مستحکم ہونا بہت ضروری ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بات چیت شروع ہو اور جو بھی اختلافات ہیں ان کا خاتمہ ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہیں۔ امریکہ ہندوستان اور پاکستان پر سمجھوتہ کرنے کے لئے دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ ہندوستان اور پاکستان کو ہی یہ طے کرنا ہوگا اور سمجھوتہ کی شرائط طے کرنا امریکہ کا کام نہیں ہے۔‘‘
امریکی صدر اوباما ہندوستان کی زمین پر قدم رکھنے کے بعد پاکستان کی اس قدر تعریف کریں گے، اس کی دوستی کا دم بھریں گے، اس کی وکالت کریں گے، اس کے مضبوط اور خوشحال ہونے کی دعا کریں گے اور ہندوستان کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ ہندوستان کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ پاکستان خوشحال اور پرامن رہے۔ قیاس سے دور کی بات تھی، ایک مخصوص طبقہ اسے پسند نہیں کرے گا۔ ردعمل آنے لگا ہے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد اور بھی زیادہ یہ جواب موضوع بحث بنا رہے گا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران نے اوباما کے اس بیان پر ناپسندیدگی کااظہار کرہی دیا ہے، جہاں تک ہمارے وزیراعظم کا تعلق ہے تو انہوں نے واضح الفاظ میں امریکی صدر کی موجودگی میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان جب تک دہشت گردی پر قابو نہیں پائے گا، اس سے بات چیت نہیں کی جاسکتی، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان چاہ کر بھی دہشت گردی پر قابو پاسکتا ہے؟ کم ازکم فوری طور پر تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ ہمارا ملک پاکستان کی جانب سے آنے والے دہشت گردوں کا شکار ہے، یہ اپنی جگہ، مگر خود پاکستان جس درجہ دہشت گردی کا شکار ہے یہ بھی کسی سے چھپا نہیں ہے۔ ابھی دو روز قبل ہوئے بم دھماکے میں 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تو امریکی صدر اوباما کی آمد کے ٹھیک پہلے کا واقعہ ہے، اگر پاکستان اس دہشت گردانہ کارروائی کو روک سکتا تو شاید ضرور روک لیتا۔ یعنی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے اور اس پر قابو پانا اس کے لئے بھی آسان کام نہیں ہے۔ امریکی صدر اوباما پاکستان کو اس دہشت گردی سے نجات دلانے میں اور پاکستان کی دہشت گردی سے ہندوستان کو نجات دلانے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے یا کم ازکم ایماندارانہ کوشش کریں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہاں، مگر جو کچھ براک حسین اوباما نے کہا، اگر وہ واقعی ایسا ایمانداری کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے بہتر نتائج ضرور برآمد ہوسکتے ہیں۔ امریکی صدر اوباما کے دورۂ ہند پر ڈیویڈ کولمین ہیڈلی کا ذکر ان کی زبان پر کہیں بھی نہیں آیا۔ شاید انہوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی، حالانکہ انہوں نے صاف لفظوں میں یہ کہا کہ وہ 26؍نومبر2008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو نہیں بھول سکتے۔ تاج ہوٹل سے اٹھنے والی آگ کی لپٹیں آج بھی انہیں یاد ہیں اور ہوٹل تاج میں ٹھہرنے کا فیصلہ بھی اسی لئے تھا کہ وہ ایک پیغام دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے مہلوکین سے ہمدردی بھی جتائی، اظہار تعزیت بھی کیا۔ 9/11اور26/11کے دہشت گردوں کو سزا کی بات بھی کہی، مگر ڈیوڈ کولمین ہیڈلی جو اس دہشت گردانہ حملہ کا کلیدی ملزم نظر آتا ہے اور جس کا تعلق امریکہ سے بھی ہے اور پاکستان سے بھی، وہ امریکی شہری بھی ہے اور پاکستانی شہری بھی، وہ امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے لئے بھی کام کرتا رہا ہے اور پاکستان کی لشکرطیبہ کے لئے بھی اس کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ ہمارے خیال میں یہ سوال امریکی صدر کے سامنے آنا چاہئے تھا، اس لئے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کی بات کرتے نظر آرہے تھے۔ جہاں تک پاکستان کے تعلق سے کہے گئے اوباما کے جملوں اور ہمارے وزیراعظم کے ردعمل کا تعلق ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی پر قابو پانا دونوں ممالک یعنی ہندوستان اور پاکستان کی اوّلیت میں شامل ہونا چاہئے اور اگر اس کے لئے دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان بات چیت کا ہونا ضروری ہے تو یہ اس انتظار کے بغیر ہو کہ پاکستان پہلے دہشت گردی پر قابو پائے، کیونکہ اس انتظار میں بہت دیر ہو جائے گی، جو صورتحال آج ہے، اسے ذہن میں رکھتے ہوئے تو آئندہ چند برسوں میں بھی پاکستان دہشت گردی سے پاک ہوگا، یہ تصور سے دور کی بات ہے، یعنی اس صورت میں پاکستان کے ساتھ ہماری گفتگو کے امکان بھی اتنے ہی کم ہیں، جتنا وہاں دہشت گردی پر قابو پانا، لہٰذا ہماری اپنے وزیراعظم سے مؤدبانہ درخواست تو یہی ہوگی کہ اس فیصلہ پر نظرثانی کی جائے۔
امریکی صدر اوباما سے جب جہاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو اسلام کے بارے میں ان کی رائے اور ان کا جواب ایک مفکر جیسا تھا۔ ہم وہ جواب بھی ہوبہوقارئین کی نظر کررہے ہیں:
’’اسلام میں جہاد اور تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں خود مذہب اسلام کی بہت عزت کرتا ہوں۔ آج پورے عالم میں مختلف مذاہب، ذاتیں، نسلوں کے لوگ ایک ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اور دنیا کو ترقی پر لے جارہے ہیں، دنیا میں کوئی بھی مذہب تشدد برپا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
ہم نے آج کے مضمون کی شروعات امریکی صدر کے پورے نام یعنی ’براک حسین اوباما‘ سے ہی کی تھی۔ یہ مذکورہ بالا جواب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اپنے نام کا اثر اوباما کے مزاج، ان کی تعلیم و تربیت پرہے۔ اس کے علاوہ ان کے اس دورہ میں دیگر کئی باتیں اور ان کے عمل سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے رشتے ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کے بارے میں امریکہ کا نیا نظریہ سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے ہمایوں کا مقبرہ دیکھنا بھی ان کے پروگرام میں اس لئے شامل رہا ہو کہ وہ مقبرے میں اپنی موجودگی سے اسی طرح کا کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں، جس طرح تاج ہوٹل میں ٹھہر کر دہشت گردانہ ذہنیت کے لوگوں کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ایک قابل ذکر بات یہ بھی رہی کہ مقبرے پر گائڈ کی شکل میں ان کے ساتھ محکمہ آثار قدیمہ کے سپرٹینڈنٹ کے کے محمد تھے۔ القاعدہ پر ان کا موقف اپنی جگہ ہے اور وہ درست بھی ہے، اس لئے کہ دہشت گرد تنظیم کوئی بھی ہو، اس کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب سے ہو، اس پر لگام تو کسی ہی جانی چاہئے، اب وہ جس طرح بھی ممکن ہو۔
بہرحال آج میں نے اپنے مضمون کی شروعات میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں ایک مخصوص زوایہ کو ذہن میں رکھ کر گفتگو کررہا ہوں اور وہ ہے امریکی صدر کے دورہ ہند کے ایجنڈے میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے امریکی صدر کے ذریعہ اپنی جن آراء کا اظہار شامل تھا، وہ انہوں نے کیا، ساتھ ہی حکومت ہند کی جانب سے ان کی آمد کے موقع پر ان کی آمد سے لے کر رخصتی تک کے پروگرام میں مسلمانوں کو جو نمائندگی ملی، اسے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے مرکزی وزیر سلمان خورشید کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہو کہ وہ کمپنی افیئر منسٹر ہیں اور امریکی صدر براک حسین اوباما ایک بزنس ڈیلی گیشن کے ساتھ آرہے تھے، لہٰذا حکومت ہند کی جانب سے ان کا استقبال ایک ایسے مرکزی وزیر کے ذریعہ ہو، جس کا تعلق ایسے ہی کسی شعبہ سے ہو۔ بیشک مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اشوک چوان اپنی ریاست کے سربراہ ہونے کے ناطے ان کے خیرمقدم کے لئے وہاں موجود تھے، لیکن سلمان خورشید کمپنی افیئر منسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اقلیتی امور کے وزیر بھی ہیں، اس لئے اقلیتوں کے تعلق سے ان کی موجودگی اس معنی میں بھی اہم ثابت ہوسکتی تھی۔ ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس تاریخی خطاب کے موقع پر نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری کے خیرمقدمی کلمات اور ان کے ہمراہ وزیراعظم منموہن سنگھ کا تعلق بھی اقلیتی طبقہ سے ،یوپی اے گورنمنٹ کی چیئرپرسن محترمہ سونیاگاندھی، یعنی سبھی کا تعلق اقلیتی طبقہ سے، لوک سبھا کی اسپیکر میراکمار کا تعلق دلت طبقہ سے، اسے ہم اپنے ملک کی اکثریت کی فراخدلی بھی قرار دے سکتے ہیں اور ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرزم کا ضامن بھی۔
امریکی صدر کی آمد سے دوروز قبل جس وقت ہم نے محترم مولانا کلب جواد صاحب کے ذریعہ امریکی صدر اوباما کی آمد کے سلسلہ میں مظاہرے کی خبر پر اپناردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ مشورہ دیا تھا کہ ہماری جانب سے ایساکوئی قدم نہ اٹھایا جائے، جس کا منفی پیغام جائے اور مخالفین کو کوئی موقع ملے۔ یہی سب ہمارے ذہن میں تھا۔ ہم اس کے لئے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہماری درخواست کو قبول کیا اور آج جبکہ امریکی صدر اس کامیاب دورۂ کے بعد یہاں سے تشریف لے جاچکے ہیں، ہم اطمینان کی سانس لے سکتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، جس کے لئے ہمیں سوچنا پڑے۔ اور کل ملاکر یہ دورہ جہاں کاروباری لحاظ سے ہمارے ملک اور قوم کے لئے مثبت ثابت ہوسکتا ہے، وہیں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے بھی، دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر کا اسلام اور مسلمانوں کے تئیں یہ نظریہ عالمی سطح پر سوچ میں بدلاؤ کی وجہ بن سکتا ہے، کیونکہ جس زمین سے یہ داغ لگا، اگر اسی زمین کا سربراہ اسے چھڑانے کی کوشش کرے تو اس کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: