Sunday, November 21, 2010

’بدعنوانی‘ رکے پر ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ نہ رکی!

عزیز برنی



q’دہشت گردی ‘اور ’بدعنوانی‘ ہمارا ملک ان دونوں ہی بیماریوں کا شکار ہی۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ’بدعنوانی‘ ہمارے ملک میں شوگرکی بیماری (ڈائبٹیز) کی طرح پھیل گئی ہی۔ ہر چوتھا پانچواں شخص اس کا شکار نظر آتا ہی۔ علاج ہی، مگر کوئی بھی علاج مکمل طور پر اس بیماری سے نجات نہیں دلا پارہا ہی، لہٰذا اپنے لائف اسٹائل یعنی زندگی جینے کے طریقے میں بدلاؤ اور کھانے پینے کی احتیاط کے ذریعہ ہی اس پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہی۔ بس اسی طرح بدعنوانی کے معاملہ میں بھی ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ملوث نظر آتا ہی۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ بدعنوانی بھی ڈائبٹیز کی طرح سسٹم کا ایک حصہ بن گئی ہی، جس سے پوری طرح نجات پانا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہی۔ ہاں مگر احتیاط برتنے سے اس پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہی، لیکن جہاں تک تعلق ’دہشت گردی‘ کا ہے تو اسے میں ’ہارٹ اٹیک‘ سے تعبیر کرنا چاہوں گا۔ اگر ایک دو جھٹکے برداشت کربھی لئے جائیں تو بھی یہ بیماری اس قدر مہلک ہے کہ جان کا بچنا مشکل ہی۔ اگر بیک وقت کوئی شخص ان دونوں بیماریوں کا شکار ہو، یعنی اسے ڈائبٹیز بھی ہے اور کسی بھی وقت دل کا دورہ بھی پڑسکتا ہے تودل کا علاج فوری طور پر کرانا ضروری ہی، ورنہ کسی بھی وقت ہارٹ اٹیک سے موت واقع ہوسکتی ہی۔ ایسی صورت میں وہ ڈائبٹیز کو کنٹرول کرنے کی کوشش ضرور کرے گا، وہ بھی اس لئے کہ اسے فوری طور پر اینجوگرافی (دل کے آپریشن) سے گزرنا ہی، لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ دل کی بیماری کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف اور صرف ڈائبٹیز پر ہی توجہ دینا شروع کردی۔ ٹھیک اسی طرح ملک دہشت گردی اور بدعنوانی جیسی دو مہلک بیماریوں کا شکار ہی۔ گزشتہ دو برس سے یعنی شہیدہیمنت کرکرے کی تفتیش کے بعد سے ہم دہشت گردی کی بیماری سے نجات پانے کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ بہت حدتک اس میں کامیابی بھی ملی ہی۔ 26نومبر008کے بعددہشت گردانہ حملوں، یعنی بم دھماکوں سے ہمارا ملک پاک رہا ہی۔ اسی طرح ہمیں ایسے میں ڈائبٹیز کی طرح پھیل گئے بدعنوانی کے مرض سے بھی نجات پانا ہے اور کم و بیش یہ ہو بھی رہا ہی، کیونکہ جب مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ’آدرش سوسائٹی ‘کے گھوٹالہ میں ملوث نظر آتے ہیں تو انہیں ہٹادیا جاتا ہی۔ ٹیلی کام منسٹر اے راجا بدعنوانی کا شکار پائے جاتے ہیں تو ان سے بھی استعفیٰ لے لیا جاتا ہی۔ میرے خیال میں یہ کارگر کوشش ہی، جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گی، اس لئے کہ بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہی۔ عین ممکن ہی، اسی طرح اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ جن کی بدعنوانی کی طرف اشارہ کیا ہے یوگ گروسوامی رام دیو نے اور کرناٹک کے وزیراعلیٰ یدیورپا کو بھی دیرسویر زمین گھوٹالے میں اپنے عہدوں سے جانا ہی ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور کانگریس پارٹی کی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کب اس سلسلہ میں عملی قدم اٹھاتی ہی، لیکن جہاں تک سوال دہشت گردی کی بیماری سے نجات پانے کا ہے تو ہم اسے بدعنوانی سے بھی زیادہ خطرناک مانتے ہیں۔ شہید ہیمنت کرکرے کی تفتیش کے بعد سے جن ناموں اور جس تنظیم سے وابستگی کا علم سارے ملک کو ہوا ہی، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دہشت گردی صرف دہشت گردی نہیں، بلکہ ملک کے خلاف ایک گہری سازش ہے اور اسے نہ تو ہلکے طور پر لیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نظرانداز کیا جاسکتا ہی۔ چند باتیں مجھے بہت کھلے لفظوں میں کہنا پڑرہی ہیں۔ ہماری سیاست میں سودے بازیاں بہت ہوتی ہیں، کب کس معاملہ میں کون پھنس رہا ہے اور وہ کس طرح بچ سکتا ہی، اس کا سیاسی حل نکالنا ہماری سیاسی پارٹیاں بخوبی جانتی ہیں۔ ’’آدرش سوسائٹی گھوٹالہ‘‘ کتنا بڑا تھا، مجھے اس وقت اس سلسلہ میں کچھ بھی نہیں کہنا، مگر یہ ضرور کہنا ہے کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی مرکزی حکومت پر بدعنوانی کے الزامات لگاکر جو صحیح بھی ہوسکتے ہیں، بلکہ ہیں بھی،ملک کی توجہ دہشت گردی کے حوالہ سے ہورہے انکشافات سے ہٹانا چاہتی ہے یا مرکزی حکومت پر یہ دباؤ بنانا چاہتی ہے کہ وہ اس سمت میں کی جانے والی کارروائیوں کو روک لی، ورنہ بدعنوانی کے معاملات کو اس درجہ اجاگر کیا جائے گا کہ سرکار کا چلنا اور ٹکنا مشکل ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ میں ہرروز ہنگامہ ہوگا، کارروائی چلنے نہیں دی جائے گی تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ ضروری یہ ہے کہ دونوں ہی بیماریوں سے نجات پائی جائی۔ بدعنوانی کے معاملے جو سامنے آرہے ہیں، ان پر خاطرخواہ توجہ دی جائی، ان کے خلاف کارروائی کی آواز بلند کی جائے اور اگر ایسا ہورہا ہو تو پارلیمنٹ کی کارروائی بھی چلنے دی جائی۔ اس بارے میں زیادہ بہتر تو سرکار میں شامل لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ ہمارا یہ قیاس صحیح ہے یا غلط، مگر جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے سی بی آئی کے غلط استعمال کی بات کہی جارہی ہے اور جس طرح سنگھ پریوار دہشت گردی سے جڑے ناموں سے بوکھلایا ہوا ہے اور اب وہ اپنے بچائو میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار نظر آتا ہی۔ کے ایس سدرشن کے ذریعہ لگایا گیا الزام یہ پوری طرح واضح کردیتا ہے کہ انہوں نے اپنی زبان اور عمل کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی ہی، وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ہمیں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی لڑائی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہی، یہ دونوں ایک دوسرے کو جتنا بھی بے نقاب کریں، اچھا ہی۔ کم سے کم اس سے دونوں ہی پارٹیاں غلطیاں کرنے سے پہلے سوچنے کو مجبور توہوں گی، لیکن کوئی بھی سودے بازی اس طرح ہوتی ہے کہ اگر تم ہم پر کیچڑ اچھالوگے تو ہم تم پر کیچڑ اچھالیں گی، تمہارے ذریعہ کی جانے والی کارروائی اگر درست بھی ہوتو ہم اسے روکنے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں گی، تو یہ مناسب نہیں ہی۔
کل ہم نے اپنے اخبار کے پہلے صفحہ پر سوامی اسیمانند کی گرفتاری کی خبر کو پہلی سرخی کی شکل میں شائع کیا اور اس کے ساتھ ہی کانگریس کی صدر محترمہ سونیاگاندھی کی بدعنوانی کے لئے فکرمندی کی خبر کو بھی یکساں اہمیت دی۔ ہم اس وقت پھر دہشت گردی کے موضوع پر بات کرنا چاہیں گی۔ بدعنوانی کے خلاف کانگریس اور حزب اختلاف ہی نہیں، عوام بھی متحد ہوکر لڑیں اور اس سے ملک کو نجات دلانے کی سعی کریں، لیکن یہی نظریہ دہشت گردی کے معاملہ میں بھی اپنانا ہوگا۔ اگر کوئی سنگھ پریوار سے جڑے ناموں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے پر چراغ پا ہوتا ہے تو اس سے اس کی نیت کو سمجھا جاسکتا ہی، لیکن اب ایسے لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا کوئی بھی حربہ دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو بچانے کے لئے کارگر نہیں ہوسکتا۔ میں اس وقت 12نومبر010 کو ناگپور میں ہوئے ایک اہم اجلاس کا تذکرہ ضرور کرنا چاہوں گا۔ صحیح معنوں میں یہ جلسہ انتہائی اہمیت کا حامل ہی۔ ودربھ مسلم انٹلکچول فورم نے یہ جلسہ منعقد کیا، یعنی ودربھ کے پڑھے لکھے مسلمانوں کی تنظیم نے اس جلسہ کے انعقاد کی ذمہ داری قبول کی۔ دوسری اہم اور قابل ذکر بات یہ رہی کہ یہ جلسہ آر ایس ایس کے گڑھ ناگپور میں منعقد کیا گیا۔ تیسری بات میرے لحاظ سے زیادہ اہم تھی، جہاں تک منتظمین اور دیگر مقررین کا تعلق ہے تو وہ اپنی جگہ اہم اور قابل ذکر ہیں، لیکن میرے لئے ناگپور کی زمین پر بولنا اس لئے اہمیت کا حامل تھا کہ میں گزشتہ چند برسوں سے مسلمانوں کے سینے پر لگے جن زخموں کا ذکر کرتا چلا آرہا ہوں اور مرہم لگانے کی کوششوں میں مصروف ہوں، وہ زخم سب سے زیادہ اسی زمین پر سرگرم ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں کے ذریعہ لگائے گئی۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا ’’مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل‘‘۔ میری تقریر کا پہلا جملہ یہی تھا کہ جس زمین نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ مسائل دئے ہیں، آج کی یہ کانفرنس اسی زمین سے ان کے مسائل کے حل کے لئے بھی یاد کی جائے گی۔ میں نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو درپیش جن مسائل پر گفتگو کی، وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان کا ذکر پھر کبھی،کیونکہ ملک بھر میں گزشتہ کئی برسوں سے یہی کوشش کرتا چلا آرہا ہوں، لکھ کر بھی اور بول کر بھی۔ لیکن اس وقت میں اس کانفرنس کے حاصل ایک خاص جملہ کا ذکر کرنا چاہوں گا، وہ کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ کی زبان سے ناگپور کی اس کانفرنس میں ادا کیا گیا۔ اگر اس نوعیت کی باتیں آپ مجھ سے سنتے رہے ہیں یا میرا لکھا پڑھتے رہے ہیں تو یہ اتنی بڑی بات نہیں ہی، اس وقت توجہ دیجئے اس جملہ پر جو دگ وجے سنگھ جی نے کہا اور تقریباً 20سے زائد اخبارات نے ان کے اسی جملہ کو اپنی خبر کی سرخی بنایا، وہ تھا:
’’سارے ہندو دہشت گرد نہ سہی، مگر جتنے دہشت گرد پکڑے جارہے ہیں، وہ سب کے سب سنگھ پریوار کے ہی کیوں ہیں۔‘‘
اب اس جملہ کا جواب سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی کو دینا ہوگا۔ اس لئے کہ ہمارے کان پک گئے تھے ان کی زبانوں سے نکلنے والے اس جملہ کو سنتے سنتے کہ ’’تمام دہشت گرد مسلمان نہ سہی، مگر جتنے دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں، وہ سب کے سب مسلمان ہی کیوں ہوتے ہیں۔‘‘ دگ وجے سنگھ جی کی زبان سے ادا کیا گیا یہ جملہ ان کے ایسے تمام سوالوں کا نہ صرف ایک معقول جواب ہی، بلکہ ایک ایسا آئینہ ہی، جس میں آج وہ اپنی صورت دیکھنے کے لئے مجبور ہیں۔ سادھوی پرگیہ سنگھ، دیانندپانڈی، کرنل پروہت، کیپٹن اپادھیائے سے شروع ہوا یہ سلسلہ سنیل جوشی، اندریش کمار اور اسیمانند تک تو پہنچ گیا ہے اور اس کڑی میں ابھی آگے کتنے نام اور جڑنے ہیں، کہا نہیں جاسکتا۔ ظاہر ہے خاموشی سے ان ناموں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، لہٰذا وہ تمام حربے جو اس تفتیش کو روکنے کے لئی، متاثر کرنے کے لئی، دبائو بنانے کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں، کئے ہی جائیں گی۔ اس کو سیاسی جنگ بنانے کی بھرپور کوششیں بھی کی جائیں گی، مگر کچھ سوال تو اپنی جگہ کھڑے رہ جائیں گی۔ بدنام کانگریس نہیں ہورہی تھی، تمام بم دھماکوں کے بعد موردالزام مسلمانوں کو ٹھہرایا جارہا تھا اور کم سے کم کانگریس مسلمانوں کی ترجمان پارٹی تو کبھی نہیں رہی، ہاں ان کے ووٹوں کی خواہش مند ضرور رہی، مگر اس معاملہ میں بھی وہ تنہا نہیں ہی۔ چند فرقہ پرست پارٹیوں کو چھوڑ کر سیکولرزم کے نام پر سیاست کرنے والی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں مسلم ووٹوں کی خواہشمند رہتی ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ مسلمان ہمارے ملک میں ایک ایسا سیاسی محور بن گئے ہیں کہ کچھ سیاستداں تو ان سے محبت کا اظہار کرکے ووٹ چاہتے ہیں اور کچھ ان سے نفرت کا اظہار کرکے دوسروں کا ووٹ چاہتے ہیں، لہٰذا یہ سوچ لینا کہ کانگریس مسلمانوں کو الزام سے بچانے کے لئے ان کی سیاسی لڑائی لڑرہی ہی، غلط ہوگا۔ شہید ہیمنت کرکرے کی تفتیش مسلمانوں کی ہمدردی یا انہیں الزام سے بچانے کے لئے نہیں، بلکہ حقیقت کو منظرعام پر لانے کے لئے تھی اور ان کے دکھائے راستہ پر چلنے والی تمام خفیہ ایجنسیاں جو آج اس کام کو آگے بڑھا رہی ہیں، وہ بھی انصاف کے تقاضے کے پیش نظر ملک اور قوم کے حق میں سچائیوں کو اجاگر کررہی ہی، اس لئے کہ دہشت گردی بدعنوانی ہی نہیں، بلکہ ہمارے ملک کے سامنے دیگر تمام مسائل سے بھی بڑا مسئلہ ہی، جو نہ صرف اتحاد و اخوت کے لئے خطرہ بن گیا ہی، دلوں میں نفرت کی دیواریں کھڑی کررہا ہی، بلکہ ملک کی سالمیت کو بھی درپیش سب سے بڑا خطرہ یہی ہی، لہٰذا ہم سب کو متحد ہوکر یہ سوچے بغیر کہ دہشت گردی میں شامل لوگوں کے نام کیا ہیں، ان کا مذہب کیا ہی، ان کی وابستگی کس تنظیم سے ہی، ان کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر اس معاملہ میں ہم نے ذرا بھی لاپروائی برتی تو ہم ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جلنے سے نہیں بچا پائیں گے اور اس کا انجام تو ہم نے ملک کی آزادی کے فوراً بعد ہی دیکھ لیا تھا۔ آج اگر ہم کچھ ہندو تنظیموں کے نام سامنے آرہے ہیں، سنگھ پریوار کا نام جو تفتیش کے دوران سامنے آیا، اس کا تذکرہ کررہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم ایک مخصوص مذہب سے جوڑ کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہم پہلے چاہتے تھے اور نہ آج چاہتے ہیں، بلکہ ہم نے بارہا یہ کہا ہے اور لکھا ہے کہ ہندو مذہب اور اس کے ماننے والے انتہائی نرم دل اور انصاف پسند قوم ہیں۔ اس کی جھلک شری رام جی کے کردار میں بھی ملتی ہے اور مہاتماگاندھی جی کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بھی۔ آج بھی اگر ملک کے وزیراعظم ایک سکھ، یوپی اے کی صدر سونیا گاندھی ایک عیسائی، ملک کے نائب صدرجمہوریہ ایک مسلمان ہیں اور یہ سب کے سب ملک کی اکثریت یعنی ہندو آبادی کی پسند کے مطابق ہیں تو پھر کیسے اس قوم کو موردالزام ٹھہرایا جاسکتا ہی؟ مگر کچھ لوگ ایسے ہیں تو ان کے ناموں اور کارناموں کو سامنے رکھ کر انہیں ان کے کیفرکردار تک پہنچانا اس لئے ضروری ہے کہ ہم ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ ہمیں ’ہارٹ اٹیک‘ کا سامنا نہ کرنا پڑی، ہم اس کے لئے زیادہ فکرمند ہیں، رہا سوال ڈائبٹیز سے نجات پانے کا تو اس پر تو ہم دیر سویر اپنے لائف اسٹائل میں تبدیلی لاکر بھی قابو پاہی لیں گی۔

No comments: