ہم چاہیں تو رسی کو سانپ بناکر پیش کرسکتے ہیں اور یہ صلاحیت بھی ہمارے اندر ہے کہ ہم سانپ کو رسی ثابت کردیں، ہم اکثر ایسا ہی کرتے ہیں اور آگے بھی کرتے رہ سکتے ہیں،لیکن اس کا انجام کیا ہوگا، آج اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم رسی کو سانپ بناکر پیش کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے تو لوگ رسی سے ڈر کر اور خوف و دہشت کا شکار ہوکر خود کو اپنے گھروں میں قید کرلیں گے۔ ہر طرف دہشت کا عالم ہوگا، جبکہ رسی سے خطرہ کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔ رسی سے کسی کو نقصان نہیں پہنچ سکتا، لیکن دوسری طرف جب ہم سانپ کو رسی سمجھنے کی بھول کریں گے تو اپنے معصوم بچوں کو موت کے منھ میں دھکیل دیں گے۔ وہ کسی بھی طرح کے خطرہ سے بے پرواہ سڑکوں پر گھومتے نظر آئیں گے اور ہماری بستی میں سانپوں کا ڈیرا ہوگا۔ ہمارے معصوم بچے انہیں رسی سمجھتے رہیں گے اور یہ سانپ انہیں ڈستے رہیں گے۔
گزشتہ ایک لمبے عرصہ سے یہی ہورہا ہے۔ ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار ہے، عوام خوفزدہ ہیں، بے گناہ ہندوستانی شہری لقمہ اجل بن رہے ہیں اور ہم ہر حادثہ کی تصویر اپنے مزاج کے مطابق پیش کرتے رہے ہیں، یعنی وہی سانپ کو رسی اور رسی کو سانپ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش۔ گھروں میں بم بنانے کی فیکٹریاں چلائی جاتی ہیں اور ہم انہیں پٹاخوں کا ذخیرہ ثابت کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے حادثات کو اس طرح نظرانداز کردیتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اگر کبھی کہیں کوئی خبر آبھی گئی تو بس اس طرح کہ وہ سانپ نہیں تھا رسی تھی، ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 28؍اکتوبر2010 کو کانپور میں بم دھماکے ہوئے، جس میں 3مکان نیست و نابود ہوگئے، 4 لوگوں کی جانیں گئیں، متعدد زخمی ہوئے، خبر یہ سامنے آئی کہ غیرقانونی طور پر رکھے ہوئے یا بنائے جارہے پٹاخوں میں آگ لگ گئی۔ پھر چار دن بعد جس کے مکان میں یہ بم سازی کا کام انجام دیا جارہا تھا، یعنی وارڈبوائے راجیش پولیس کی گرفت میں آیا۔ معلوم ہوا کہ اس کے قبضہ سے 85زندہ بم برآمد ہوئے ہیں اور کچھ امونیم نائٹریٹ بھی۔ اندازہ ہے کہ دوچار دن اس واقعہ کا ذکر رہے گا، پھر نہ کوئی خبر چھپے گی اور نہ ہی تفتیش کا کوئی خاص نتیجہ سامنے آئے گا۔ جیسا کہ تقریباً دو برس قبل 24؍اگست2008 کو ہوئے بم دھماکہ میں بم بنانے کی کوشش میں ملوث 2 لوگ مارے گئے تھے۔ یہ دونوں ہی سنگھ پریوار سے وابستہ بتائے گئے تھے۔ دوچار دن یہ خبر تذکرہ میں رہی، اس کے بعد یہ منظرعام پر نہیں آیا کہ یہ لوگ بم کس کے لئے بناتے تھے، کس کے اشارے پر بناتے تھے، کہاں سپلائی کئے جاتے تھے۔ یا جیسا کہ مالیگاؤں بم بلاسٹ کے،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ، اجمیر بم دھماکہ، مکہ مسجد بم بلاسٹ جیسے بم دھماکوں کی تفتیش میں ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں کے نام سامنے آرہے ہیں، ان بم دھماکوں میں یا ایسے ہی دیگر بم دھماکوں میں کانپور اور ناندیڑ میں بم بنانے کی کوشش میں مارے گئے لوگوں کا تعلق بھی کسی بم دھماکے سے تھا، وہ کس کے لئے کام کررہے تھے، ان کے ذریعہ بنائے گئے بم کن کن بم دھماکوں میں استعمال ہوئے۔ وہاں سے جو نقشے اور دستاویز برآمد ہوئے، ان کے مطابق یہ بنائے جانے والے بم کہاں کہاں استعمال ہونے تھے، اب اگر ایک اجمیربلاسٹ کی موضوف بحث بنی سنیل جوشی کی ڈائری کے ہر صفحہ سے نئے نئے چہرے سامنے آرہے ہیں، نئے نئے راز افشا ہورہے ہیں تو کیا ان بم بنانے والوں کے یہاں سے بھی ایسی کوئی ڈائری ملی تھی۔ ایسا کوئی دستاویز سامنے آیا تھا، جس سے دیگر بم دھماکوں کے بارے میں کچھ حقائق کا پتہ چلتا۔ آج ان تمام باتوں پر نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ بم دھماکے کسی ایسے سیاسی ذہن کی سازش کا حصہ ہیں، جو اپنے مقصد کی حصولیابی کے لئے بے گناہ انسانوں کا خون بہارہے ہیں تو کیا ان کی اس حرکت کو ملک اور عوام کے مفاد میں سوچا جاسکتا ہے، کیا محض ایک مخصوص طبقہ کو بدنام کرنے، موردالزام ٹھہرانے، نفرت و حقارت کا مرکب بننے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئے جانے کی قیمت پر ہم بے گناہ انسانوں کا قتل و خون دیکھتے رہیں، اپنی آنکھوں سے ملک کو تباہ و برباد ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں اور یہ سوچ کر چپ رہیں گے کہ الزام تو فلاں مخصوص طبقہ پر جارہا ہے، جو کسی کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہے۔
نہیں، اتنے بے حس نہیں ہیں ہم۔ ہم ہندوستانیوں کے جذبات اور احساسات اس قدر مردہ نہیں ہوگئے ہیں کہ ہم محض کسی کی سیاسی حصولیابی کے پیش نظر بے گناہ انسانوں کا خون بہائے جاتے دیکھتے رہیں۔ ہم ہندوستانی تو وہ ہیں، جو شری رام کے آدرشوں کو مانتے ہیں۔ علامہ اقبال نے شری رام کو امام الہند کا لقب دیا۔ وہ شری رام جنہوں نے راج محل چھوڑ دیا اور بن باس اختیار کرلیا، محض اس لئے کہ ان کی سوتیلی ماں کی دل آزاری نہ ہو، ان کو آدرش ماننے والے بھلا کیسے کسی بے گناہ کی جان لینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ کانپور کا چار روز پہلے کا واقعہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ چند باتیں ہم اپنے ملک اور عوام کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ ایمانداری سے یہ سوچ کر دیکھیں کہ وارڈ بوائے جس کے گھر میں بم بنائے جارہے تھے، اس کا نام راجیش نہ ہو کر رشید ہوتا تو کیا اس واقعہ کی تفتیش اسی طرح آگے بڑھتی؟ کیا اس بم دھماکہ کو اسی انداز میں پیش کیا جاتا؟ کیا ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اپنی تین روزہ فراری کے دوران کیا واقعی وہ اپنے انہیں دوستوں کے پاس رہا، جن کے نام لے رہا ہے یا پھر اس درمیان وہ اپنے آقاؤں سے مل کر اپنے بچاؤ کا راستہ تلاش کرتا رہا؟ قانونی صلاح بھی حاصل کی اور جب راستہ نکل آیا اسے بچانے کا، بلکہ انتظام کرلیا گیا تو وہ منظرعام پر آگیا۔ کیا ہم نے اس درمیان اس کے فون کی کال ڈیٹیل حاصل کی، اس نے کس کس سے بات کی؟ ہوسکتا ہے یہ راجیش ایک اور سنیل جوشی کی شکل میں کام کررہا ہو۔
اور یہ بھی غور کرکے دیکھیں کہ اجمیر بم دھماکوں کی تفتیش میں سنگھ پریوار کے بڑے قد کے لیڈر اندریش کا جس طرح نام سامنے آیا ہے، اگر ان کی بجائے دوسرے طبقہ کے اتنے ہی بڑے لیڈر کا نام سامنے آتا تو کیا اسی طرح سے ہم اسے ہلکے طور پر لے پاتے؟ کیا پورا ملک اسے ایک نام اور اس کے حوالہ سے ایک پوری قوم کو موردالزام نہیں ٹھہرا رہا ہوتا۔ ہمارے کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس ایک شخص کی وجہ سے جس کا نام اجمیر بم دھماکوں کے سلسلہ میں سامنے آیا ہے، ایک پوری قوم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے، مگر ہم یہ درخواست تو کرہی سکتے ہیں کہ اگر جرم اور مجرموں کو سمجھنے کے ہم دو پیمانے رکھیں گے، انہیں دو الگ الگ نگاہوں سے دیکھیں گے تو اپنے ملک سے جرم کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ ہم نے صحافت کی معرفت دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا ایک مشن اسی لئے سمجھا کہ ہم محسوس کررہے تھے کہ جس طرح آزادی سے قبل آزادی کی جدوجہد کے لئے قلمی جہاد ضروری تھا، غلامی سے نجات پانے کے لئے ان کے خلاف جنگ لڑنا ضروری تھا، جنہوں نے ہمارے ملک کو غلام بنارکھا تھا، اسی طرح آج دہشت گردی کے خلاف لڑنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ آزادی سے قبل اردو صحافت نے ہی یہ کارنامہ انجام دیا تھا، آج پھر اردو صحافت کو اپنی اس ذمہ داری کا احساس ہے، اس لئے ہم نے دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانا اپنا فرض اوّلین سمجھا، لیکن ساتھ ہی ہمیں اطمینان اس بات کا بھی ہے کہ ابھی تک جو خبریں جو صرف اردو اخبارات کے صفحہ اوّل پر پہلی خبر کی شکل میں شائع ہوتی رہی تھیں، اب وہ ہمارے قومی میڈیا یعنی انگریزی کے بڑے اخبارات کے صفحہ اوّل پر پہلی خبر کی شکل میں شائع کی جانے لگی ہیں۔ ہم اسے اپنی کامیابی شمار کریں یا نہ کریں، مگر اتنا تو ہوا ہے کہ اب ہم سچ کو سچ کہنے کی جرأت کرنے لگے ہیں۔ رسی کو رسی اور سانپ کو سانپ کہنے کی ہمت ہم نے اپنے اندر پیدا کرلی ہے اور اسے ہم اپنے ملک اور قوم کے تئیں ایک خوش آئند پیغام سمجھتے ہیں۔ ہم نے اجمیر بم دھماکوں، مالیگاؤں اور مکہ مسجد بم بلاسٹ کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ کانپور کا حالیہ حادثہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کی کن لاپرواہیوں کا نتیجہ ہے اور اس کے کس قدر خوفناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اس ضمن میں بھی ہمارے لکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن ہم اپنے اس مضمون کے تسلسل میں ہندوستان ٹائمز میں شائع صفحہ اوّل کی اس خبر کو اس لئے جگہ دینا چاہتے ہیں، تاکہ حکومت ہند اور اپنے ملک کے عوام کو یہ احساس دلاسکیں کہ ہم نے جس موضوع کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اپنا قلم اٹھایا تھا، آج اس موضوع کی اہمیت کو دیگر ذمہ دار اداروں نے بھی سمجھ لیا ہے اور ہم سے بہتر اور پراثر انداز میں وہی بات کہنی شروع کردی ہے، لہٰذا ملاحظہ فرمائیں ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ (HINDUSTAN TIMES) مورخہ:01-11-2010کے پہلے صفحہ پر شائع پہلی خبر:
اجمیر ملزمین:5میں سے چار کا تعلق آرایس ایس سے
صرف اندریش کمار ہی نہیں،5میں سے 4ملزمین کاآرایس ایس سے تعلق
دھماکوں سے متعلق چارج شیٹ میں کہاگیا ہے کہ اس بھگوا دہشت گردی کی جڑیں کافی گہری ہیں
(ایچ ٹی نامہ نگار)
نئی دہلی:اکتوبر2007میں ہوئے بم دھماکوں میں ،جن میں 3افراد ہلاک ہوئے تھے ،تنہاسینئر لیڈر اندریش کمار کا ہی تعلق آرایس ایس سے نہیں ہے۔22اکتوبر کو راجستھان اے ٹی ایس کی جانب سے دائرکردہ چارج شیٹ میں دئے گئے 5ملزمین میں 4کا تعلق آرایس ایس سے ہے۔
اس سازش میں شامل چھٹے اہم ملزم کا نام چارج شیٹ میں اس لیے نہیں دیا گیاہے کیونکہ اس کی موت ہوچکی ہے، تاہم اس کا یعنی سنیل جوشی کا تعلق بھی آرایس ایس سے ہی تھا۔اس کے نام کو شامل توکیاگیاہے ،لیکن کمار کو ملزم نہیں بنایاگیاہے۔اس کے نام کا حوالہ محض اکتوبر2005کی اس میٹنگ کے سلسلے میں ہی دیاگیاہے جس میں ان دھماکوں سے متعلق حکمتِ عملی طے گئی تھی۔
اندریش کمار کے نام کے افشاں ہونے کے بعد آرایس ایس نے کافی شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور اس نے دعویٰ کیاہے کہ اے ٹی ایس کی تفتیشی کارروائی اب ایماندرانہ نہیں رہی ہے بلکہ صرف سیاسی انتقام کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔
لیکن چارج شیٹ کے مطابق جن پانچ افراد پر قتل اور سازش کے الزامات عائد کئے گئے ہیں ان میں سے4یعنی دیویندرگپتا، چندرشیکھر لاوے ،لوکیش شرما اور سندیپ ڈانگے کا تعلق آرایس ایس سے ہے۔ان میں سے پہلے تین افراد تواس وقت جیل میں ہیں جبکہ ڈانگے اور پانچواں شخص، رام جی کلسانگرا فی الحال فرار ہیں۔
چارج شیٹ کا کہناہے کہ جوشی، مہو، مدھیہ پردیش میں آرایس ایس کا ضلع پرچارک تھا۔گپتا نے اپنی ترقی اور 2003میں جام تارا جھارکھنڈمیں ضلع پرچارک کے طورپر اپنی منتقلی سے قبل ابتداء میں جوشی کے ماتحت ہی آر ایس ایس کے تحصیل پرچارک کے طورپر کام کیاتھا۔گپتا اجمیر کاہی رہنے والا ہے اور اس پر الزام ہے کہ اس نے درگاہ چشتیہ میں بم دھماکوں کیلئے ڈیٹوینٹرز اور موبائل کے سِم کارڈز مہیا کرائے تھے۔
چارج شیٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ لاوے، مدھیہ پردیش کے شاجہ پور ضلع میں آرایس ایس کا ضلع سمپرک پرمکھ اور آرایس ایس کا ورکر بھی تھا۔
ڈانگے، جوکہ انجینئرنگ گریجویٹ ہے اور جس نے بم تیارکیاتھا، شاجہ پور میں آرایس ایس کا ضلع پرچارک تھا۔ کلسانگرا ایک تربیت یافتہ الیکٹریشن ہے، جس نے ڈانگے کی مدد کی تھی اور وہ واحد ایسا ملزم ہے، جس کے آرایس ایس سے تعلق کا ابتک کوئی پتہ نہیں چل سکاہے۔
قابل ملامت شواہد:۔
اجمیر ملزمین:5میں سے چار کا تعلق آرایس ایس سے
صرف اندریش کمار ہی نہیں،5میں سے 4ملزمین کاآرایس ایس سے تعلق
دیویندر گپتا:۔
ضلع پرچارک جام تارا،جھارکھنڈ
چندرشیکھر لاوے:۔
ضلع سمپرک پرمکھ
شاجہ پور،ایم پی
لوکیش شرما:۔
آرایس ایس ورکر
vسندیپ ڈانگے بھی،جو مفرور ہے،مدھیہ پردیش میں شاجہ پور کا ضلع پرچارک
vایک اور سازشی ملزم سنیل جوشی ،موت ہوجانے کی وجہ سے جس کا نام شامل نہیں کیاگیا،ایم پی مہو کا ضلع پرچارک تھا۔
واقعاتی مماثلت:۔
چارج شیٹ میں مئی2007میں اجمیر اور حیدرآباد میں استعمال کئے جانے والے بموں کی مماثلت کا بھی ذکر کیاگیاہے دونوں ہی واقعات میں:
v ٹائمرکے طورپر ایک موبائل ہینڈسیٹ کا استعمال کیاگیا تھا۔
v دوبم رکھے گئے تھے، جن میں سے ایک توپھٹ گیا تھا جبکہ دوسرا جوں کی توں حالت میں ہی ملاتھا۔
v دونوں ہی پائیپوں کی لمبائی، جن میں یہ آتش گیر مادہ بھرا گیاتھا تقریباًبرابر ہی تھی۔
v اس آتش گیرمادے کی پیکنگ کے لئے ایک ہی قسم کے کاغذ کا استعمال کیاگیاتھا۔
v جس بکسے میں یہ آتش گیر مادہ رکھاگیاتھا اس کی شکل وسائز بھی ایک جیسے ہی تھے۔
v ان بکسوں کا قفل بندی نظام بھی تقریباً ایک جیسا ہی تھا۔
No comments:
Post a Comment