اپنے گزشتہ مضمون میں جس کا عنوان تھا ’’اب سب ایک رائے ہوں، سپریم کورٹ، سمجھوتہ یااس فیصلہ پر عمل!‘‘ جو کہ 11اکتوبر010 کو شائع کیا گیا تھا، کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے تعلق سے کچھ دن تک مزید کچھ بھی لکھنے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن اس موضوع پر مطالعہ کا سلسلہ جاری تھا، جاری ہے اور شاید دیر تک جاری رہے گا۔ قانون سے واقفیت نہیں ہی، مگر بابری مسجد مقدمے سے تعلق رکھنے والے اہم دستاویز متواتر زیر مطالعہ ہیں۔ ’’سنی وقف بورڈ‘‘ کی جانب سے پیروکار جناب ظفریاب جیلانی کی رپورٹ بھی اور ان کے ذریعہ عدالت میں کی گئی بحث کے اہم نکات بھی، جو سیکڑوں صفحات پر مشتمل ہیں، اس وقت میرے سامنے ہیں اورملک کے دیگر ماہرقانون بھی رابطے میں ہیں۔ سبھی بہت سنجیدگی سے فکرمند ہیں اور کوشاں ہیں کہ سپریم کورٹ جانے کی صورت میں کس طرح کی تیاری ہو کہ کامیابی کو یقینی بنایا جاسکی۔ متعدد اہم مضامین جو مختلف اخبارات میں شائع ہوئی، وہ بھی نظر سے گزری، لیکن میری درخواست پر جناب پرشانت بھوشن نے اپنا جو مضمون مجھے میرے ایـمیل پر بھیجا، شاید اب تک کا سب سے اہم مضمون ہی، جس میں قانون کی روشنی میں کم سے کم لفظوں میں بہت دور تک اثر کرنے والی باتیں لکھی گئی ہیں۔ میں اپنی آج کی اس مختصر تحریر کے ساتھ پرشانت بھوشن صاحب کا یہ مضمون بھی شامل اشاعت کرنے جارہا ہوں، مگر پہلے چند جملے اس وقت تک کی صورت حال پر۔ یہ تو 30ستمبر010کو ہی صاف نظر آنے لگا تھا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سب کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا اور سپریم کورٹ جائے گا ہی۔ تاہم اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت میں نے اپنے پہلے مضمون میں ہی یہ لکھ دیا تھا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بابری مسجد کی ازسرنو تعمیر بھی ممکن ہے اور رام مندر بھی، لہٰذا اس فیصلہ کو قبول کرنے پر غور کیا جائی۔ اندازہ اس وقت بھی یہی تھا کہ اس وقت مصلحتاً خوشی اور مسرت کا اظہار کرنے والے بہت جلد اپنے حقیقی رنگ میں نظر آئیں گے اور مسلمانوں کی چند روز کی خاموشی یا اس فیصلہ کو قبول کرنے کا ارادہ ان کے منصوبوں کو ناکام بنادے گا، انہیں مسلمانوں پر یہ الزام عائد کرنے کا موقع نہیں ملے گا کہ وہ اس مسئلہ کا حل نہیں چاہتی۔ مسلمانوں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو نامنظور کرکے مزید برسہابرس کے لئے اس تنازع کو زندہ رکھنے اور ماحول کو کشیدہ بنائے رکھنے کے لئے مجبور کردیا، لیکن اب جبکہ باقاعدہ تمام اخبارات میں یہ خبر آچکی ہے کہ ہندومہاسبھا نے اجودھیا مسئلہ پر کیویٹ داخل کردی ہی، یعنی ان کی طرف سے آگے کی کارروائی کی ایک سنجیدہ پہل کی جاچکی ہی، جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ اس فیصلہ کو نامنظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں، لہٰذا اب سپریم کورٹ جانے کے لئے مسلمانوں کی کوئی بھی تیاری ان کی جانب سے پہل قرار نہیں دی جاسکتی۔ اکھل بھارتیہ ہندومہاسبھا کے ذریعہ داخل کئے گئے کیویٹ کی مکمل خبر اس وقت میرے سامنے ہی، جس میں کہا گیا ہے کہ اجودھیا مسئلہ پر کسی بھی فریق کی درخواست پر فیصلہ کرنے سے قبل عدالت کو ہندومہاسبھا کے موقف کو سننا ہوگا۔ ہندومہاسبھا کے صدر سوامی چکرپانی نے کہا ہے کہ مہاسبھا سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرنے کی تیاری کررہی ہے اور اس سلسلہ میں قانونی غوروفکر جاری ہی۔ ہندو مہاسبھا کے ریاستی صدر کملیش تیواری نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک تہائی زمین سنی وقف بورڈ کو دئے جانے کی ہندومہاسبھا مخالفت کرتی ہے اور وہ اجودھیا آندولن کے لئے نئی شروعات کریں گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ متنازع مکمل زمین پر رام للّا کا حق ہی۔ ہندومہاسبھا کی جانب سے عوامی سطح پر ’جن آندولن‘ چلانے کے لئے تمام اضلاع کا دورہ کرکے ضلع اکائیوں کو احکامات جاری کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالت کے باہر وہ کسی بھی سمجھوتہ کے خلاف ہیں اور اس کا قانونی حق ہی چاہتے ہیں۔ مزید ہندومہاسبھا کی جنرل سکریٹری اندراتیواری نے واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ ہم کسی بھی قیمت پر متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیر چاہتے ہیں۔
یہ تمام بیانات، ارادی، تیاریاں اور ان کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ پوری طرح صاف کردیتا ہے کہ ہندومہاسبھا کے ارادے کیا ہیں۔ اب کم ازکم تمام امن پسند شہریوں اور سرکارکو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کون ہیں، جو امن و اتحاد کی خاطر الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر بھی غور کررہے تھی، جسے صاف لفظوں میں تمام قانون دانوں نے قانون کے خلاف دیا گیا فیصلہ قرار دیا تھا اور جس میں مسلمانوں کو انصاف نہ ملنے کی بات بڑے ہی مؤثر انداز میں کہی گئی تھی۔ ہندوستان کی جمہوریت، قانون کی بالادستی جیسے سوالات صرف مسلمانوں نے ہی نہیں، بلکہ ملک کے انصاف پسند غیرمسلموں نے بہت مؤثر انداز میں اٹھائے تھی، باوجود اس سب کے تعریف کرنا ہوگی بابری مسجد ملکیت معاملہ میں مسلمانوں کی جانب سے پٹیشنر سینٹرل سنی وقف بورڈ کی کہ اس نے فیصلہ حق میں نہ آنے کی صورت میں بھی صبروضبط سے کام لیا اور فوری طور پر سپریم کورٹ جانے کی بات نہیں کہی، بلکہ بورڈ کے چیئرمین ظفراحمدفاروقی نے اپنے وکیل ظفریاب جیلانی کے سپریم کورٹ جانے کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا، جب انہوں نے فیصلہ آنے کے فوراً بعد سپریم کورٹ جانے کی بات کہی۔ ارادوں کے اس فرق کو یہاں اس لئے درج کیا گیا، تاکہ یہ حقیقت تاریخ کے اوراق میں درج رہی۔
اب جیسا کہ اندازہ ہے کہ سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کے چلے جانے کے بعد تمام سنوائی نئے سرے سے ہوگی، لہٰذا جتنا وقت ہائی کورٹ میں اس مقدمہ میں لگا، تقریباً اتنا ہی وقت یا اس سے زیادہ ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں لگ سکتا ہی۔ وہ فیصلہ کیا ہوگا، کس حد تک قانون کی روشنی میں ہوگا اور کیا اسے عملی جامہ پہنایا جاسکے گا، یہ سب بہت بعد کی باتیں ہیں، لیکن آج کے حالات سے اور ہندومہاسبھا کی اس پیش رفت سے یہ اندازہ تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ جو فیصلہ ان کے حق میں ہی، اگر وہ اس سے بھی مطمئن نہیں ہیں، ’جن آندولن‘ چلانے کی تیاری کررہے ہیں۔ ضلع سطح پر اس کی شروعات کی جاچکی ہے اور وہ آندولن کیا اور کیسا ہوگا، اس تیاری کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں، حکومت ہند اچھی طرح سمجھ سکتی ہی، لہٰذا اس کو اس جانب خصوصی توجہ دینی ہوگی، اس لئے کہ پچھلے تمام تلخ تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ہی کہا کہ ہم قانون کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں بھی قانون کا احترام کیا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ فیصلہ قانون کے جانکاروں کی رائے میں قانون کے مطابق نہیں تھا، مسلمانوں نے کسی شدید ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اگر فیصلوں کو لے کر متضاد آرا بھی سامنے آئیں تو عدالت کے احترام کے ساتھ اپنی بات کو اس طرح کہنے کی کوشش کی گئی کہ ہر حالت میں ملک کا امن واتحاد قائم رہی۔ حالانکہ عدالت کے اس فیصلہ کو قبول کرنے کی رائے دینے والوں کو کچھ حلقوں میں تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا، لیکن ملک کی سلامتی کے پیش نظر یہ سب بھی نظرانداز کیا گیا تو اب چونکہ دوسرے فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ جانے کے ارادے صاف ظاہر ہوچکے ہیں تو سنی سینٹرل وقف بورڈ، مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء ہند و دیگر تنظیمیں بھی سپریم کورٹ جانے کی کارروائی پر غور کریں کیونکہ اب یہ قطعاً غیرمناسب نہیں ہوگا، اس لئے کہ پہل دوسری جانب سے کی جارہی ہی۔ بہرحال اب اس ضمن میں مزید کچھ بھی لکھنے کی بجائے میں چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کی خدمت میں محترم پرشانت بھوشن کا وہ مضمون پیش کروں، جس کا ذکر میں نے آج کی اس تحریر کے آغاز میں ہی کیا تھا۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ ہمیں کیوں سپریم کورٹ جانا چاہئے اور وہ کیا وجوہات ہیں، جن کی بنا پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں پہلی نظر میں ہی اپنی اہمیت کھوسکتا ہی، قابل رد سمجھا جاسکتا ہی، صاف لفظوں پرمحترم پرشانت بھوشن کے ذریعہ ان نکات پر روشنی ڈالی گئی ہی:
’’اجودھیا فیصلہ پر پرشانت بھوشن‘‘
بابری مسجد رام جنم بھومی کے معاملہ میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف قانونی اعتبار سے ادھورا اور غیر متوازن ہے بلکہ قوم کے سیکولر تانے بانے کو بھی منتشر کرنے والا ہی۔ فیصلہ میں قانونی خامیاں پوری طرح موجود ہیں۔ عدالت نے سنی وقف بورڈ کے ذریعہ دائر کردہ 1961کی عرضی کو حد بندی کی بنیاد پر خارج کردیا، لیکن ’بال بھگوان‘ (Minor deity)ورام للا، کے ذریعہ دائر کردہ 1989کی عرضی کو وقت پر برقرار رکھا۔ دو ججوں (اگروال اور شرما) کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بابری مسجد کب تعمیر ہوئی اور کس نے کرائی لیکن فوراً ہی وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بابری مسجد مندر منہدم کرکے بنائی گئی۔ جسٹس شرما نے یہ مانا کہ بابری مسجد کی جگہ بڑا مندر تھا اور یہی رام کے والد دشرتھ کا محل تھا۔ان کے لئے اے ایس آئی کی 1988کی رپورٹ بھی حیران کن نہیں ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہزاروں سال قبل اجودھیا میں انسانی ڈھانچوں کی یافت نہیں تھی اور رام کی پیدائش یہ بتاتی ہے کہ لاکھوں سال قبل انہوں نے اپنی جگہ بنائی۔ حتیٰ کہ قدیم مندر کی موجودگی اے ایس آئی کی 2003کی رپورٹ کی بنیاد پر مان لی گئی جس میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر منہدم کرکے کی گئی۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ مسجد کے نیچے ہندو مندر کے باقیات اور ملبہ ملا ہی۔ سروے رپورٹ میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے اور نہ ہی اس نے اس کو سچ تسلیم کیا ہے کہ مسجد کے زیر زمین ملنے والے ملبے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر منہدم کرکے کی گئی۔ مسجد کے نیچے ملبے میں جانوروںکی ہڈیاں بھی ملیںجس طرح گارا چونا وغیرہ ہندوئوں کے مندر کی نفی کرتا ہی، اسی طرح مسجد کی تعمیر کی تصدیق کرتا ہی۔
سب سے زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ فیصلہ نے بابری مسجد کے گنبد والی زمین پر رام للا کے حق ملکیت کو تسلیم کرلیا (جس کے معنی ہیں کہ وی ایچ پی گارجین ہیں) اس لئے کہ ججوں نے ہندوئوں کو یہ حق دے دیا کہ وہ گنبد کے نیچے رام کی جائے پیدائش پر مذہبی رسوم ادا کریں۔ ججوں نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کرلیا کہ گنبد کے نیچے رام کی جائے پیدائش ہی؟ کیا سروے رپورٹ ہندوئوں کے اس مفروضے کی تائید کرتی ہی؟ ہم یہ نہیں مان سکتے ہیںکہ ہندوئوںکی اکثریت اس کو تسلیم کرے گی۔ دراصل ہندو 1855سے مسجد کے احاطہ میں مذہبی رسوم ادا کرتے آئے ہیں۔
یہ تاریخ اس کے خلاف ہے کہ 1949میں مسجد کے گنبد کے نیچے رام للا پیدا ہوئی، اس کے باوجود دسمبر 1949میں گنبد کے نیچے شری رام کی مورتی رکھ دی گئی۔ پھر’’رام جنم بھومی آزادی تحریک‘‘ ہندوئوں سے تعاون کے لئے نمودار ہوئی، اس تحریک سے رام کے نام پر بیشتر وہ لوگ جڑے جن کے اندر انتہا پسندی اور مذہبی فسطائیت پائی جاتی تھی اور مسلم حکمراں کے تئیں انتقامی جذبہ کار فرما تھا، لیکن کیا رام کی اس جگہ پر پیدائش کے بارے میں ہندوئوں کا عقیدہ ہوجانا کافی ہی۔ اگر ایسا ہو بھی جائے تو قانونی بنیاد پر ’’رام للا اور اس کے گارجین وی ایچ پی کو متنازع اراضی نہیں دی جاسکتی ہی۔کسی کے عقیدہ کی بنیاد پر متنازع جائیداد کی تقسیم کی جاسکتی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت ہی خطرناک ہی۔ خاص طور سے ہمارے ملک کے اندر جہاںمختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔اگر ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی اسی طرح جگہ پاتی رہی تو اکثریتی طبقہ اور زور آور لوگ کمزوروں کی املاک وجائیداد پر عقیدہ کو بنیاد بناکر قبضہ کرتے رہیں گی۔ کیا یہ فیصلہ ایسا نہیںہے جس میں اکثریتی طبقہ کا خیال کرتے ہوئے اور اقلیتی طبقہ کو دلت اور قبائلی مانتے ہوئے کیا گیا۔ جیسا کہ برہمن وادیوں کے وقت میں ہوا کرتا تھا۔
فیصلہ کا ایک جز کیا مصالحت کی بنیاد بن سکتا ہی۔ فیصلہ کے اس پارٹ میں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہندوـمسلم دونوں 1855سے ہی متنازع مقام پر مذہبی رسوم ادا کرتے آئے ہیں کیا ایک احاطہ میں مشترکہ طور پر دونوں فرقہ کے لوگ عبادت کرسکتے ہیں؟ تو دونوں فرقہ کے لوگوں کو مشترکہ طور پر اراضی تقسیم کردی جائی، لیکن رام للا کی جائے پیدائش کو رام جنم بھومی آزادی تحریک کے پیش نظر رام للا کو دے دی جائی، اس طرح کا فیصلہ قانون اور اخلاقیات کی نظر میں تشویشناک ہی، جس سے مذہبی فسطائیت کو سرابھارنے کا موقع ملے گا اور وہ مسلم مخالف جذبات کے تحت ان کی دیگر عبادت گاہوں پر بھی قبضہ کی کوشش کریں گے اور پھر معاملہ عدالت جائے گا اور فیصلہ عقیدہ کی بنیاد پر ان کے حق میں دے دیا جائے گا۔
3بعض سمجھدار لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو اس فیصلہ کو قبول کرلینا چاہئی، شاید انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ ایک چاپلوسی ہے اور ا سے مذہبی فسطائیت اور فرقہ واریت پسند افراد ایک ’فتح‘ کے طور پر لیں گے اور آئندہ بھی دیگر عبادت گاہوں پر قبضہ کے لئے راستہ ہموار کرلیں گی۔ امن کو ناانصافی کی قیمت پر نہیں لیا جاسکتا۔ فسطائیوں کی قوت پر بھی نہیں، چونکہ وہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا ہی۔ ہمیں یہ سبق یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ کا سبق مثال بن جاتا ہی۔ بعض مغربی ممالک کی کوششیں ہٹلر کی راہ میں ناکام ہوئیں، یہ معاملہ بھی اسی کے مشابہ ہی۔
اس لئے ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہئی۔ سپریم کورٹ کاحتمی فیصلہ تمام فرقہ کے لوگوں کے لئے قابل قبول ہوگا۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ فیصلہ میں ترمیم کرکے سنی وقف بورڈ کو ان کی اراضی حوالہ کرے گا تو یہ اخوت وبھائی چارہ کا اشارہ ہوگا جس میں زمین مسجد کی ہوگی اور کنارہ میں مندر ہوگا۔ یہاں زمین کی اہمیت نہیں ہی، بلکہ بنیاد کی اہمیت ہی۔ کیا ہمارا ملک سیکولر قانون کے تحت چلایا جائے گا یا عقیدہ اور انارکی کے ذریعہ۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں سب پریشان ہیں۔
یہ تمام بیانات، ارادی، تیاریاں اور ان کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ پوری طرح صاف کردیتا ہے کہ ہندومہاسبھا کے ارادے کیا ہیں۔ اب کم ازکم تمام امن پسند شہریوں اور سرکارکو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کون ہیں، جو امن و اتحاد کی خاطر الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر بھی غور کررہے تھی، جسے صاف لفظوں میں تمام قانون دانوں نے قانون کے خلاف دیا گیا فیصلہ قرار دیا تھا اور جس میں مسلمانوں کو انصاف نہ ملنے کی بات بڑے ہی مؤثر انداز میں کہی گئی تھی۔ ہندوستان کی جمہوریت، قانون کی بالادستی جیسے سوالات صرف مسلمانوں نے ہی نہیں، بلکہ ملک کے انصاف پسند غیرمسلموں نے بہت مؤثر انداز میں اٹھائے تھی، باوجود اس سب کے تعریف کرنا ہوگی بابری مسجد ملکیت معاملہ میں مسلمانوں کی جانب سے پٹیشنر سینٹرل سنی وقف بورڈ کی کہ اس نے فیصلہ حق میں نہ آنے کی صورت میں بھی صبروضبط سے کام لیا اور فوری طور پر سپریم کورٹ جانے کی بات نہیں کہی، بلکہ بورڈ کے چیئرمین ظفراحمدفاروقی نے اپنے وکیل ظفریاب جیلانی کے سپریم کورٹ جانے کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا، جب انہوں نے فیصلہ آنے کے فوراً بعد سپریم کورٹ جانے کی بات کہی۔ ارادوں کے اس فرق کو یہاں اس لئے درج کیا گیا، تاکہ یہ حقیقت تاریخ کے اوراق میں درج رہی۔
اب جیسا کہ اندازہ ہے کہ سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کے چلے جانے کے بعد تمام سنوائی نئے سرے سے ہوگی، لہٰذا جتنا وقت ہائی کورٹ میں اس مقدمہ میں لگا، تقریباً اتنا ہی وقت یا اس سے زیادہ ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں لگ سکتا ہی۔ وہ فیصلہ کیا ہوگا، کس حد تک قانون کی روشنی میں ہوگا اور کیا اسے عملی جامہ پہنایا جاسکے گا، یہ سب بہت بعد کی باتیں ہیں، لیکن آج کے حالات سے اور ہندومہاسبھا کی اس پیش رفت سے یہ اندازہ تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ جو فیصلہ ان کے حق میں ہی، اگر وہ اس سے بھی مطمئن نہیں ہیں، ’جن آندولن‘ چلانے کی تیاری کررہے ہیں۔ ضلع سطح پر اس کی شروعات کی جاچکی ہے اور وہ آندولن کیا اور کیسا ہوگا، اس تیاری کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں، حکومت ہند اچھی طرح سمجھ سکتی ہی، لہٰذا اس کو اس جانب خصوصی توجہ دینی ہوگی، اس لئے کہ پچھلے تمام تلخ تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ہی کہا کہ ہم قانون کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں بھی قانون کا احترام کیا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ فیصلہ قانون کے جانکاروں کی رائے میں قانون کے مطابق نہیں تھا، مسلمانوں نے کسی شدید ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اگر فیصلوں کو لے کر متضاد آرا بھی سامنے آئیں تو عدالت کے احترام کے ساتھ اپنی بات کو اس طرح کہنے کی کوشش کی گئی کہ ہر حالت میں ملک کا امن واتحاد قائم رہی۔ حالانکہ عدالت کے اس فیصلہ کو قبول کرنے کی رائے دینے والوں کو کچھ حلقوں میں تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا، لیکن ملک کی سلامتی کے پیش نظر یہ سب بھی نظرانداز کیا گیا تو اب چونکہ دوسرے فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ جانے کے ارادے صاف ظاہر ہوچکے ہیں تو سنی سینٹرل وقف بورڈ، مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء ہند و دیگر تنظیمیں بھی سپریم کورٹ جانے کی کارروائی پر غور کریں کیونکہ اب یہ قطعاً غیرمناسب نہیں ہوگا، اس لئے کہ پہل دوسری جانب سے کی جارہی ہی۔ بہرحال اب اس ضمن میں مزید کچھ بھی لکھنے کی بجائے میں چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کی خدمت میں محترم پرشانت بھوشن کا وہ مضمون پیش کروں، جس کا ذکر میں نے آج کی اس تحریر کے آغاز میں ہی کیا تھا۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ ہمیں کیوں سپریم کورٹ جانا چاہئے اور وہ کیا وجوہات ہیں، جن کی بنا پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں پہلی نظر میں ہی اپنی اہمیت کھوسکتا ہی، قابل رد سمجھا جاسکتا ہی، صاف لفظوں پرمحترم پرشانت بھوشن کے ذریعہ ان نکات پر روشنی ڈالی گئی ہی:
’’اجودھیا فیصلہ پر پرشانت بھوشن‘‘
بابری مسجد رام جنم بھومی کے معاملہ میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف قانونی اعتبار سے ادھورا اور غیر متوازن ہے بلکہ قوم کے سیکولر تانے بانے کو بھی منتشر کرنے والا ہی۔ فیصلہ میں قانونی خامیاں پوری طرح موجود ہیں۔ عدالت نے سنی وقف بورڈ کے ذریعہ دائر کردہ 1961کی عرضی کو حد بندی کی بنیاد پر خارج کردیا، لیکن ’بال بھگوان‘ (Minor deity)ورام للا، کے ذریعہ دائر کردہ 1989کی عرضی کو وقت پر برقرار رکھا۔ دو ججوں (اگروال اور شرما) کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بابری مسجد کب تعمیر ہوئی اور کس نے کرائی لیکن فوراً ہی وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بابری مسجد مندر منہدم کرکے بنائی گئی۔ جسٹس شرما نے یہ مانا کہ بابری مسجد کی جگہ بڑا مندر تھا اور یہی رام کے والد دشرتھ کا محل تھا۔ان کے لئے اے ایس آئی کی 1988کی رپورٹ بھی حیران کن نہیں ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہزاروں سال قبل اجودھیا میں انسانی ڈھانچوں کی یافت نہیں تھی اور رام کی پیدائش یہ بتاتی ہے کہ لاکھوں سال قبل انہوں نے اپنی جگہ بنائی۔ حتیٰ کہ قدیم مندر کی موجودگی اے ایس آئی کی 2003کی رپورٹ کی بنیاد پر مان لی گئی جس میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر منہدم کرکے کی گئی۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ مسجد کے نیچے ہندو مندر کے باقیات اور ملبہ ملا ہی۔ سروے رپورٹ میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے اور نہ ہی اس نے اس کو سچ تسلیم کیا ہے کہ مسجد کے زیر زمین ملنے والے ملبے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر منہدم کرکے کی گئی۔ مسجد کے نیچے ملبے میں جانوروںکی ہڈیاں بھی ملیںجس طرح گارا چونا وغیرہ ہندوئوں کے مندر کی نفی کرتا ہی، اسی طرح مسجد کی تعمیر کی تصدیق کرتا ہی۔
سب سے زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ فیصلہ نے بابری مسجد کے گنبد والی زمین پر رام للا کے حق ملکیت کو تسلیم کرلیا (جس کے معنی ہیں کہ وی ایچ پی گارجین ہیں) اس لئے کہ ججوں نے ہندوئوں کو یہ حق دے دیا کہ وہ گنبد کے نیچے رام کی جائے پیدائش پر مذہبی رسوم ادا کریں۔ ججوں نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کرلیا کہ گنبد کے نیچے رام کی جائے پیدائش ہی؟ کیا سروے رپورٹ ہندوئوں کے اس مفروضے کی تائید کرتی ہی؟ ہم یہ نہیں مان سکتے ہیںکہ ہندوئوںکی اکثریت اس کو تسلیم کرے گی۔ دراصل ہندو 1855سے مسجد کے احاطہ میں مذہبی رسوم ادا کرتے آئے ہیں۔
یہ تاریخ اس کے خلاف ہے کہ 1949میں مسجد کے گنبد کے نیچے رام للا پیدا ہوئی، اس کے باوجود دسمبر 1949میں گنبد کے نیچے شری رام کی مورتی رکھ دی گئی۔ پھر’’رام جنم بھومی آزادی تحریک‘‘ ہندوئوں سے تعاون کے لئے نمودار ہوئی، اس تحریک سے رام کے نام پر بیشتر وہ لوگ جڑے جن کے اندر انتہا پسندی اور مذہبی فسطائیت پائی جاتی تھی اور مسلم حکمراں کے تئیں انتقامی جذبہ کار فرما تھا، لیکن کیا رام کی اس جگہ پر پیدائش کے بارے میں ہندوئوں کا عقیدہ ہوجانا کافی ہی۔ اگر ایسا ہو بھی جائے تو قانونی بنیاد پر ’’رام للا اور اس کے گارجین وی ایچ پی کو متنازع اراضی نہیں دی جاسکتی ہی۔کسی کے عقیدہ کی بنیاد پر متنازع جائیداد کی تقسیم کی جاسکتی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت ہی خطرناک ہی۔ خاص طور سے ہمارے ملک کے اندر جہاںمختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔اگر ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی اسی طرح جگہ پاتی رہی تو اکثریتی طبقہ اور زور آور لوگ کمزوروں کی املاک وجائیداد پر عقیدہ کو بنیاد بناکر قبضہ کرتے رہیں گی۔ کیا یہ فیصلہ ایسا نہیںہے جس میں اکثریتی طبقہ کا خیال کرتے ہوئے اور اقلیتی طبقہ کو دلت اور قبائلی مانتے ہوئے کیا گیا۔ جیسا کہ برہمن وادیوں کے وقت میں ہوا کرتا تھا۔
فیصلہ کا ایک جز کیا مصالحت کی بنیاد بن سکتا ہی۔ فیصلہ کے اس پارٹ میں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہندوـمسلم دونوں 1855سے ہی متنازع مقام پر مذہبی رسوم ادا کرتے آئے ہیں کیا ایک احاطہ میں مشترکہ طور پر دونوں فرقہ کے لوگ عبادت کرسکتے ہیں؟ تو دونوں فرقہ کے لوگوں کو مشترکہ طور پر اراضی تقسیم کردی جائی، لیکن رام للا کی جائے پیدائش کو رام جنم بھومی آزادی تحریک کے پیش نظر رام للا کو دے دی جائی، اس طرح کا فیصلہ قانون اور اخلاقیات کی نظر میں تشویشناک ہی، جس سے مذہبی فسطائیت کو سرابھارنے کا موقع ملے گا اور وہ مسلم مخالف جذبات کے تحت ان کی دیگر عبادت گاہوں پر بھی قبضہ کی کوشش کریں گے اور پھر معاملہ عدالت جائے گا اور فیصلہ عقیدہ کی بنیاد پر ان کے حق میں دے دیا جائے گا۔
3بعض سمجھدار لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو اس فیصلہ کو قبول کرلینا چاہئی، شاید انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ ایک چاپلوسی ہے اور ا سے مذہبی فسطائیت اور فرقہ واریت پسند افراد ایک ’فتح‘ کے طور پر لیں گے اور آئندہ بھی دیگر عبادت گاہوں پر قبضہ کے لئے راستہ ہموار کرلیں گی۔ امن کو ناانصافی کی قیمت پر نہیں لیا جاسکتا۔ فسطائیوں کی قوت پر بھی نہیں، چونکہ وہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا ہی۔ ہمیں یہ سبق یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ کا سبق مثال بن جاتا ہی۔ بعض مغربی ممالک کی کوششیں ہٹلر کی راہ میں ناکام ہوئیں، یہ معاملہ بھی اسی کے مشابہ ہی۔
اس لئے ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہئی۔ سپریم کورٹ کاحتمی فیصلہ تمام فرقہ کے لوگوں کے لئے قابل قبول ہوگا۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ فیصلہ میں ترمیم کرکے سنی وقف بورڈ کو ان کی اراضی حوالہ کرے گا تو یہ اخوت وبھائی چارہ کا اشارہ ہوگا جس میں زمین مسجد کی ہوگی اور کنارہ میں مندر ہوگا۔ یہاں زمین کی اہمیت نہیں ہی، بلکہ بنیاد کی اہمیت ہی۔ کیا ہمارا ملک سیکولر قانون کے تحت چلایا جائے گا یا عقیدہ اور انارکی کے ذریعہ۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں سب پریشان ہیں۔
No comments:
Post a Comment