Sunday, October 3, 2010

آپ کی نظر !وہ فیصلہ اور یہ تحریرـتاکہ سند رہے!

عزیز برنی

مجھے معاف فرمائیں میرے برادران قوم، میں نے آپ کے حسین خوابوں کو چکناچور کردیا اور حقیقت کی سنگلاخ زمین سے دوبہ دو ہونے کے لئے مجبور کردیا، جس سے آپ نظریں چرانے لگے تھے۔ آپ کو ایسا لگنے لگا تھا کہ انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگا، جس کے بعد آپ شہید کی گئی بابری مسجد کی زمین کو واپس حاصل کرکے ایک شاندار مسجد کی تعمیر میں حائل تمام اڑچنوں کو پار کرتے ہوئے اجودھیا کی طرف قدم بڑھا چکے ہوں گے۔ نہ جانے کیوں آپ ماضی کے تلخ تجربات پر نظر ڈالنا ہی نہیں چاہتے اور ان کی روشنی میں اپنے مستقبل کا اندازہ کرنا ہی نہیں چاہتے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اب ہمیں خوبصورت خوابوں کے دائرے سے باہر نکل کر حقیقت پسندی کا رُخ اختیار کرلینا چاہئے۔ آپ کہتے رہئے کہ یہ ملک ہمارا ہے، ہم نے اسے انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا۔ 1857سے لے کر آزادی کی جنگ947تک۔ ہم ہی سب سے آگے رہے، انگریزوں سے لوہا لیا ٹیپوسلطان نے، قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں آخری مغل بہادرشاہ ظفر نے، انگریزوں کے ذریعہ ہزاروں کی تعداد میں سولی پر لٹکائے گئے ہمارے علمائے دین اور آزادی کی جنگ کے لئے چندہ دیا جمعیۃ علماء ہند نے۔
کون سنتا ہے آپ کی۔ کیا ملا آپ کو وہ مقام جو آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش رہنے پر آپ کو ملنا چاہئے تھا۔ میری نگاہوں کے سامنے ماضی کی یہ سبق آموز داستان ہے، اس لئے میں ہرپل مستقبل پر بھی نظر رکھتا ہوں۔ میں نے 30ستمبر کے فیصلہ کو انصاف کے پیمانے پر نہیں، ماضی کے تحربات کی روشنی میں دیکھا تھا، اسی لئے میں نے جو کچھ لکھا تھافیصلہ آنے کے فوراً بعد، یعنی 2اکتوبر010کوآج بھی اس پر قائم ہوں، مگر جو وضاحت آج کرنے جارہا ہوں، وہ ابھی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ کاش آپ نے اپنے اعتماد کو اسی طرح قائم رکھا ہوتا، کچھ وقت اور گزر جانے دیا ہوتا، ان چہروں کو اور بے نقاب ہوجانے دیا ہوتا، جو اب آہستہ آہستہ آپ کے سامنے آتے چلے جارہے ہیں، اگر میرے سامنے یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی تو جو کچھ میں ان ابتدائی جملوں کے بعد اس وقت لکھنے جارہا ہوں، وہ سب کچھ وقت بعد لکھنا چاہتا تھا۔ اب ہوگا یہ کہ آپ کے دل کو تو قرار آجائے گا، مگر وہ سب بہت محتاط ہوجائیں گے، انہیں نئے سرے سے اپنی حکمت عملی بنانے کا موقع مل جائے گا، جو مخالف ذہنیت رکھتے ہیں۔ بہرحال اب تمہید ختم، پیش خدمت ہے 30ستمبرکے فیصلہ پر میری تحریر کا تسلسل:
ہم جھوٹ کب اور کیوں بولتے ہیں؟ جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم سچ کا سامنا نہیں کرپائیں گے۔ سچ ہماری شرمندگی کی وجہ بن سکتا ہے۔ جھوٹ بول کر ہم جو پانا چاہتے ہیں، وہ پاسکتے ہیں، جبکہ سچ بول کر ہم وہ سب کھودیں گے،اس لئے ہم جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور یہی وہ امتحان کی گھڑی ہوتی ہے، جب ہمارے ضمیر کا پتا چلتا ہے۔ ہماری سچائی اور ایمانداری کی پرکھ ہوتی ہے۔
قانون اپنے ہاتھ میں ہم کب لیتے ہیں؟ جب قانون سے ہمارا بھروسہ اٹھ جائے۔ جب قانون کے راستہ پر چل کر انصاف پانے کی تمام امیدیں ختم ہوجائیں، جب ثبوت اور گواہ ہمارے حق میں نہ ہوں اور حالات ہمارا ساتھ نہ دیتے نظر آئیں، تب ہمارا قانون پر سے اعتماد ٹوٹ جاتا ہے، اعتبار ختم ہوجاتا ہے اور ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر کوئی بھی غلط فیصلہ کرڈالتے ہیں۔ ایسا جب عام آدمی کے ساتھ ہوتا ہے تو ہم اسے باغی کہتے ہیں، اب تک ہمارے ذہن میں قانون ہاتھ میں لینے والوں کی ایک ایسی ہی تصویر تھی، جو یا تو راستہ سے بھٹک گئے تھے یا انصاف پانے کی امید چھوڑ چکے تھے۔ آج ہمارے سامنے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ اگر قانون کے رکھوالے ہی قانون کے راستہ پر چل کر انصاف کرنے سے قاصر نظر آئیں اور قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ پھر میری بات کا مطلب کچھ اور مت نکالئے۔ میں جج صاحبان کو موردالزام نہیں ٹھہرا رہا ہوں، حالانکہ ان کا یہ فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہے، یہ تو وہ بھی جانتے ہیں، مگر میں اندازہ کرسکتا ہوں کہ کن حالات میں، کن وجوہات کی بناپر، کن خدشات کے پیش نظر انہیں قانون اپنے ہاتھ میں لے کر ایک ایسا فیصلہ سنانے کے لئے مجبور ہونا پڑا، جو قانون کے مطابق نہیں تھا۔
میں نے مبارکباد پیش کی جج صاحبان کو، ان کے اس فیصلہ پر صرف اس وجہ سے کہ 30ستمبر010کا وہ دن جو ہندوستان کی تاریخ میں ایک اور خوفناک، دل دہلا دینے والی یادیں چھوڑ سکتا تھا، ان کے اس فیصلہ سے قانون کا خون بھلے ہی دکھتا ہو، لیکن انسانیت کا خون ہونے سے انہوں نے بچالیا۔ اب اندازہ کریں، ہماری عدلیہ کے لئے کتنا مشکل مقدمہ ہے یہ، جس کیفیت سے گزرنا پڑا ہائی کورٹ کے جج صاحبان کو، کیا نہیں گزرنا پڑے گا سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو؟ ایسا یقین ہے آپ کو؟ ہاں، میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ فیصلہ قبول کرلیا جانا چاہئے، ’’ہندو بھائیوں سے درخواست کرتے ہوئے کہ وہ ایک شاندار رام مندر کی تعمیر کریں، اس زمین پر جو عدالت کے ذریعہ انہیں دی گئی ہے، ہم ان کے معاون ثابت ہوں گے اور ہم مسجد تعمیر کرتے ہیں، اس جگہ پر جو عدالت نے مسجد کے لئے طے کی ہے۔ ایک ہی جگہ کھڑی یہ دو عبادت گاہیں مندراور مسجد کی شکل میں آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیں گی کہ یہ ہمارے ملک کی اس گنگا جمنی تہذیب کی نشانیاں ہیں ، جن کے لئے ہمارا ملک پوری دنیا میں منفرد شناخت رکھتا ہے اور یہی وہ جذبہ ہے، جس نے حضرت امام حسین کو کربلا کے میدان سے ہندوستان کی طرف چلے آنے کی خواہش کا اظہار کرایا تھا‘‘۔
آج بھی اپنی بات پر قائم ہوں، کاش اس بات کو اسی وقت سمجھ لیا ہوتا اور لبیک کہہ دیا ہوتا، اس لئے کہ میں جانتا ہوں یہ فیصلہ آپ کی منظوری کے بعدبھی آپ کی خوشدلی سے قبولیت کے باوجود بھی قابل عمل نہیں ہوسکتا تھا۔ آپ میں سے اگر کوئی بھی سپریم کورٹ نہیں جاتا، تب بھی یہ معاملہ تو سپریم کورٹ پہنچنا ہی ہے اور سپریم کورٹ قانون کو درکنار کرکے عقیدے کے اعتبار پر کوئی فیصلہ کرے گی، اس کی امید نہیں کی جانی چاہئے، اس لئے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ تو سپریم کورٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر ہم ایسا سوچتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جذبات اور عقائد کی بنیاد پر آسکتا ہے تو پھر وہ ایک ایسی نظیر بن سکتی ہے، جس سے قانون کی بالادستی پر سوالیہ نشان لگ جائے۔ شاید یہ فیصلہ اس انداز میں یعنی عقائد کی بنیاد پر بہت سوچ سمجھ کر اس لئے دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں پہلی نظر میں ہی یہ فیصلہ بے معنی قرار دے دیا جائے اور پھر نئے سرے سے ’’بابری مسجدـرام جنم بھومی ملکیت‘‘پر ایک نئی بنچ کے ذریعہ غوروفکر ہو۔ ظاہر ہے اس کے لئے ایک طویل مدت درکار ہوگی، یعنی 60سال سے جو مسئلہ ایک ننگی تلوار کی شکل میں آپ کے سر پر لٹکتا رہا ہے، وہ پھر اسی انداز میں قائم رہے گا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ الزام آپ پر عائد ہو کہ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا، ورنہ فیصلہ تو آچکا تھا۔ آپ اس فیصلہ کو نامنظور کرنے والے اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے والے واحد پٹیشنرکے طور پر نہ جانے جائیں اور اس معاملے کو طول دینے کے لئے کوئی کبھی آپ کو موردالزام نہ ٹھہرا سکے۔ بہرحال اب تو یہ خبریں سامنے آچکی ہیں کہ نرموہی اکھاڑے نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’رام جنم بھومی ٹرسٹ‘ بھی ایسا ہی کرے گا، اس لئے کہ یہ فیصلہ ان کو بھی پچنے والا نہیں ہے۔ ایسی صورت میں تاریخ یہ نہیں کہے گی کہ آپ نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے ایثاروقربانی کا جذبہ پیش نہیں کیا۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان ہی نہیں، انصاف پسند غیرمسلم بھی اس فیصلہ کو انصاف پر مبنی تسلیم نہیں کرتے اور اس پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے صدر نتن گڈکری اور گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی جو اس فیصلہ پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں، اس کے عملی جامہ پہنائے جانے پر بھی رضامند ہوں گے۔ ایک تہائی اراضی پر ہی سہی مسجد کی تعمیر ہمیں منظور ہوگی، اگر ہاں تو آپ ابھی بھی لفظوں کی سیاست میں پھنسنے کی عادت سے باہر نہیں آسکے ہیں۔
آپ اگر یہ کہہ دیتے کہ ہمیں یہ فیصلہ ملک و قوم کی امن و سلامتی کے پیش نظر اپنے جذبات کی قربانی دے کر انصاف کا خون ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی منظور ہے، ہٹائےے تین مہینے کا اسٹے آرڈر بھی، بسم اللہ کیجئے، ہمیں جو جگہ مختص کی گئی ہے، ہم اس پر مسجد کی تعمیر کا کام شروع کرتے ہیں اور آپ رام مندر کی تعمیر کا آغاز کریں۔ چند منٹوں میں ہی سچائی سامنے آجاتی اور دس نئی اڑچنیں ڈال کر، بہانے بنا کر اس کو عملی جامہ پہنائے جانے سے روک دیا جاتا۔ آپ سرخرو ہوتے اور وہ سب اپنے بنے جال میں پھنس جاتے، جنہوں نے ایسے فیصلہ پر خوشی کا اظہار اس لئے کیا تھا کہ مسلمان اچھی طرح سمجھ لیں کہ خوش وہی ہوتا ہے، جو جیت جاتا ہے اور اگر وہ جیت گئے ہیں تو تمہاری ہار ہے۔ یہ جو بھی، جیسا بھی فیصلہ ہے، اس کی جتنی بھی خامیاں ہیں، سب اپنی جگہ ہیں، مگر تاریخ یہ بھی ثابت کردے گی کہ یہ فیصلہ بھی اس لئے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا، کیوں کہ اس میں مسجد کی تعمیر کی گنجائش باقی ہے اور ہمیں نہیں لگتا کہ فرقہ پرستوں کے دلوں میں اتنی گنجائش باقی ہے کہ وہ بآسانی ایسا ہونے دیں، حالانکہ ہم چاہیں گے کہ ہمارا یہ اندازہ غلط ثابت ہو۔
اور اب آخر میں ایک سوال آپ خود سے کرکے دیکھیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حقائق اور شواہد کی بنیاد پر آتا ہے اور یہ فیصلہ پوری طرح آپ کے حق میں ہوتا ہے تو کیا کہتا ہے آپ کا دل و دماغ، کیا اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ایسے کسی بھی فیصلہ کی اہمیت کیا جس کا نفاذ ممکن نہ ہو، جسے حقیقت کی شکل نہ دی جاسکتی ہو۔ میں نے کیوں اسے درست فیصلہ قرار دیا؟ میں کیوں ناامید ہوں اس سے بہتر فیصلہ کے لئے؟ میرے سامنے ہے 1931 کے فساد سے لے کر 2002کے گجرات فسادات تک کی ایک طویل فہرست۔ اگر931کے کانپور فساد کا ذکر نہ کریں اور946کے کلکتہ فساد کو بھی اس وقت موضوع بحث نہ بنائیں، کیوں کہ یہ حصول آزادی سے پہلے کے فسادات تھے تو بھی 1947میں تقسیم وطن کے فوراً بعد دہلی میں ہوا فرقہ وارانہ فساد، اسے بھی آپ گجرات کی طرح ایک مخصوص فرقہ کی نسل کشی مان سکتے ہیں۔ اس کے بعد967میں رانچی فساد۔ اس فساد کی بنیاد اردو دشمنی تھی۔ 22اگست سے6اگست967کے دوران ہوئے اس فساد میں کل84لوگ مارے گئے، جس میں64مسلمان تھے۔ 1979میں جمشیدپور میں فسادہوا۔ رام نومی کے جلوس کے دوران فساد برپا ہوا، اس کی وجہ دانستہ جلوس کا راستہ بدل کر اسے مسجد کے پاس مسلم اکثریتی علاقہ سے گزارا گیا۔ 1980کا مرادآباد فساد، ٹھیک عید کے دن، عید گاہ میں فائرنگ۔ 1987میں میرٹھ، ملیانہ، ہاشم پورہ فساد، 1992-1993، یعنی بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں ہوئے فسادات، جن میں سری کرشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ووٹر لسٹ کے سہارے چن چن کر ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا اور پھر002 میں ہوا گجرات فساد، جسے ہندوستان کی پیشانی پر بدنما داغ اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے بھی قرار دیا۔ ایسے ہزاروں معاملے ہیں میرے سامنے، سرکاریں بدلتی رہیں، سب کو موقع ملا، مگر ان میں سے کن کن معاملات میں کس کس عدالت سے انصاف مل چکا ہے یا ملنے کی امید ہے آپ کو؟ پھر کن کھوکھلی امیدوں پر آپ اس سے بہت بہتر فیصلہ کی توقع کرتے ہیں؟ کیوں آپ کو یہ نہیں لگتا کہ یہ فیصلہ آپ کے لئے ایک لٹمس ٹیسٹ بھی ہوسکتا ہے؟ آپ اس سمت میں کیوں نہیں سوچتے کہ یہ ایک تہائی زمین جس کو آپ کے سپرد مسجد کی تعمیر کے لئے کئے جانے کا فیصلہ سامنے آیا ہے، کل اس سے کہیں زیادہ بہتر فیصلہ آپ کے حق میں آئے گا اور وہ نافذ بھی کیا جائے گا۔ آخر وہ کون سے اسباب ہیں، جن کی بنیاد پر آپ کی امیدیں اس درجہ قائم ہیں کہ آپ اس سے بہتر اور مکمل انصاف کی امید کررہے ہیں۔

No comments: