تیس ستمبر010 ایک انتہائی مشکل دن تھا، ہندوستان کے عوام کے لئے اور سرکاروں کے لئے بھی بشمول مرکزی و ریاستی سرکاروں کے، جنہوں نے 6دسمبر992دیکھا ہے، وہ اچھی طرح اس بات کا اندازہ کرسکتے تھے کہ اس دن، یعنی0ستمبر010کو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ جس طرح کی تیاریوں کی باتیں فضاؤں میں گردش کرتی رہی تھیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا، ہم نے اپنے اسی کالم میں0ستمبر010کو بعنوان ’’دسمبر نہ بنے4ستمبریہ خیال رہے…!‘‘کے تحت لکھے گئے مضمون کے ذریعہ مدھیہ پردیش میں0ہزارہندو یودھا کی بھرتی کے معاملہ کو سامنے رکھا تھا اور بابری مسجد کے تعلق سے ہائی کورٹ میں چل رہے مقدمے کے فیصلہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ہماری تحریر کے منظرعام پر آنے کے فوراً بعد ریاستی حکومت نے کارروائی کی اور بھرتی کرنے والوں دامودر سنگھ اور راجیش جی بھڑکرکو قومی سلامتی قانون (NSA)کے تحت گرفتار کرلیا۔ ایسے معاملے اور بھی ہوسکتے تھے، جو ہمارے سامنے نہیں آئے، لہٰذا یہ صورت حال فکرمندی کا احساس کراتی تھی۔ اجودھیا تنازع کو لے کر ہی گجرات میں ہوئے فساد کو ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کس طرح سابرمتی ایکسپریس میں سوار کچھ لوگوں کی نعرے بازی نے پوری ریاست کو فرقہ وارانہ فساد کی زد میں لادیا۔ شاید ہندوستان کی تاریخ بھی اسے کبھی فراموش نہیں کرپائے۔
6دسمبر992کے بعد ملک کو کن کن حالات سے گزرنا پڑا، مہاراشٹر میں کس طرح ایک مخصوص قوم کی نسل کشی کی گئی، جسٹس سری کرشن کمیشن کی رپورٹ میں آج بھی وہ تمام حقائق واضح الفاظ میں درج ہےں، گزشتہ کچھ ہفتوں سے ہر شخص خوفزدہ تھا کہ بابری مسجد ملکیت کے تنازع کو لے کر 24ستمبرکو جو فیصلہ آنا ہے، اس کے بعد پورے ملک کے حالات کیا ہوں گے۔ بیرون ملک بسے یا روزگار کی تلاش میں گئے ہندوستانیوں نے بارہا فون پر اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے رابطہ قائم کیا، پھر یہ تاریخ تبدیل ہوئی اور0ستمبر کا دن طے کیا گیا۔ سرکاری سطح پر جس طرح کی تیاریاں تھیں،اترپردیش کی وزیراعلیٰ مایاوتی نے جس طرح بار بار فکرمندی کا احساس جتایا، محترمہ سونیا گاندھی، ملک کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور وزیرداخلہ پی چدمبرم نے، جس طرح امن و اتحاد قائم رکھنے کی بار بار جو اپیلیں کیں، اس سے واضح ہوتا تھا کہ عام ہندوستانی ہی نہیں حکومت ہند بھی فکرمند ہے کہ فیصلہ کے بعد ملک کن حالات سے گزر سکتا ہے۔ آج اس وقت جب میں مضمون قلمبند کررہا ہوں، فیصلے کو منظرعام پر آئے 24گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ اللہ کا کرم ہے، کہیں سے کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ہے۔ یہ اس فیصلہ کی سب سے بڑی خوبی اور کامیابی ہے یقینا۔ ہمارے قارئین کو یاد ہوگا، میں نے اپنے پچھلے مضمون میں لکھا تھا کہ ’فیصلہ تو آئے پر فاصلہ نہ بڑھنے پائے‘21-09-2010)، اس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی لگاتار لکھنے کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ دراصل اس درمیان دہلی میں امن و اتحاد قائم رکھنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام دینے کے لئے ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس میں راقم الحروف نے اظہارخیال کرتے ہوئے کچھ مخصوص شخصیتوں کا نام لے کر یہ کہا کہ اگر اس وقت یہ اور ان جیسے لوگ خاموش رہیں تو بہتر ہوگا۔ اس کی وجہ ماضی کے تلخ تجربات تھے۔ حالانکہ اس مرتبہ سبھی نے بڑی احتیاط سے کام لیا، پھر مجھے لگا کہ اگر اپنے اس جملہ کے بعد خود میں اس موضوع پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھتا ہوں تو اخلاقی اعتبار سے یہ درست نہیں ہوگا کہ میں دیگر افراد سے تو یہ درخواست کروں کہ قانون کو اپنی راہ چلنے دیں، اس موضوع پر اپنے تاثرات کا زیادہ اظہار نہ کریں اور خود ہر روز لکھتا رہوں۔ بہرحال آج میں پروردگارعالم کے بعد ہندوستانی قوم اور حکومت ہند کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جج صاحبان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایک ایسا تاریخ ساز فیصلہ، جو قانون سے زیادہ اعتقاد اور جذبات کو سامنے رکھ کر دیا گیا فیصلہ ہے۔ پھر بھی اس کی پسند ناپسند سے بالاتر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ملک کا امن و اتحاد قائم رہا، جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔
قانونی نقطۂ نظر سے ابھی اس فیصلہ پر گفتگو کرنے کی بہت گنجائش ہے۔ عدالتی چارہ جوئی کا راستہ بھی کھلا ہے۔ تین مہینے کے اندر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ تقریباًہزار صفحات پر مشتمل اس فیصلہ کا ابھی تک ہمارے یا ہماری ٹیم کے ذریعہ مطالعہ نہیں کیا جاسکا ہے اور چند روز میں یہ ممکن بھی نہیں ہے، جو کچھ جتنا بھی میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ سامنے لایا گیا ہے، وہ بھی گفتگو کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ کم نہیں ہے۔ ہمارے مذہبی اور قومی رہنمائوں کے جو تاثرات سامنے آئے ہیں، ان کی روشنی میں بھی ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جاسکتا ہے، مگر میں اپنی اس تحریر کی معرفت اپنے قارئین کی خدمت میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ بھی میرے لئے اتنا ہی مشکل فیصلہ ہے، جتنا کہ اس تاریخ ساز فیصلہ کو انجام دینے والے جسٹس ایس یو خان، جسٹس دھرم ویر شرما اور جسٹس سدھیر اگروال کے لئے مشکل رہا ہوگا۔
’’بابری مسجدـرام جنم بھومی ملکیت‘‘مقدمہ کے وکیل محترم ظفریاب جیلانی سمیت دیگر تمام مسلم قائدین اور علمائے اکرام کا شکریہ ادا کیا جانا چاہئے کہ آج جو بھی فیصلہ ہمارے سامنے ہے، یہ ان کی حکمت عملی، جدوجہد اور دعائوں کا نتیجہ ہے۔ ظفریاب جیلانی صاحب کا اس فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ جانے کا بیان مقدمہ سے وابستہ ایک وکیل کا فطری بیان ہے۔ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ جانے کی گنجائش تقریباً تمام مقدموں میں باقی رہتی ہے، لیکن کیا اس معاملہ میں ایسا کیا جائے؟ ہمارے متعدد مذہبی رہنمائوں نے بھی سپریم کورٹ جانے کی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مسلمانوں کی سیاست کرنے والے کچھ سیاسی رہنمائوں نے بھی اس فیصلہ سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ حقائق پر نہیں، اعتقاد کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ میں بیحد ادب اور احترام کے ساتھ یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا اب اس موضوع پر سیاست بند کردیں اور ہم جو سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ایک بار پھر اس ارادے پر نظرثانی کریں اپنے اس فیصلہ پر اور غور کرکے دیکھیں اور فیصلہ جو 30ستمبر کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے ذریعہ سنایا گیا۔ اس پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ یہ بھی غور کریں کہ اگر یہ فیصلہ نہیں ہوتا اور وہ ہوتا جو ہم چاہتے تھے، بلکہ صاف لفظوں میں اگر کہیں کہ اس مخصوص مقام جسے آستھا کی بنیاد پر رام جنم بھومی کہا جاتا ہے اور عدالت نے بھی اسی کو بنیاد مانتے ہوئے فیصلہ دیا ہے، جبکہ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے، جس جگہ پر مسجد واقع تھی اور یہ جگہ مسلمانوں کو ہی ملنی چاہئے تھی، بھلے ہی وہ کل اراضی کا ایک تہائی حصہ ہی کیوں نہ ہوتی تو اس فیصلہ کے بعد ملک کی صورتحال کیا ہوسکتی تھی، عوام کی اکثریت کا ردعمل کیا ہوسکتا تھا، اگر ہم اسے بھی حکومت کی ذمہ داری مان لیں کہ فیصلہ کا نفاذ کرانا اور امن قائم رکھنا تو حکومتوں کا کام ہے تو بھی کیا یہ ممکن تھا کہ وہاں ازسرنو اسی مقام پر بابری مسجد کی تعمیر کی جاسکتی؟ ہاں، یہ ہوسکتا تھا کہ پھر ایک نئے تنازع کے ساتھ یہ معاملہ ایک لمبے عرصہ کے لئے تنازع کا باعث بنا رہتااور ہر دن نفرتوں میں اضافہ کرتا رہتا اور پھربرسہابرس گزرجانے کے بعد بھی جب یہ فیصلہ آتا تو ہماری آنے والی نسلوں کے لئے خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیتا۔ اب اگرہم سپریم کورٹ میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو کس فیصلہ کی امید میں، کس فیصلہ کی چاہت میں، وہی نہ جس کا تذکرہ میں نے اپنی بالائی چند سطروں میں کیاہے۔ اس کے برعکس اگر ہم یہ طے کرتے ہیں کہ عدالت نے جو بھی فیصلہ دیا ہے، ہم اسے بخوشی تسلیم کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ جانے کا ارادہ بھی ترک کردیتے ہیں۔ ہندو بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ایک شاندار رام مندر کی تعمیر کریں، اس زمین پر جو عدالت کے ذریعہ انہیں دی گئی ہے، ہم ان کے معاون ثابت ہوں گے اور ہم مسجد تعمیر کرتے ہیں، اس جگہ پر جو عدالت نے مسجد کے لئے طے کی ہے۔ ایک ہی جگہ کھڑی یہ دو عبادت گاہیں مندراور مسجد کی شکل میں آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیں گی کہ یہ ہمارے ملک کی اس گنگا جمنی تہذیب کی نشانیاں ہیں ، جن کے لئے ہمارا ملک پوری دنیا میں منفرد شناخت رکھتا ہے اور یہی وہ جذبہ ہے، جس نے حضرت امام حسین کو کربلا کے میدان سے ہندوستان کی طرف چلے آنے کی خواہش کا اظہار کرایا تھا اور بصورت دیگر اگر ہم یہ فیصلہ کرتے ہےں کہ نہیں، ہمیں تو سپریم کورٹ جانا ہی ہے، نتیجہ کچھ بھی ہو تو اس کا مطلب ہم موجودہ فیصلہ کو نامنظورکرتے ہیں۔ ہمیں عدالت کے ذریعہ مختص کی گئی اراضی پر مسجداورمندر کی تعمیر منظور نہیں ہے۔ کیا اس کا مثبت پیغام جائے گا؟ کیا پھر سے ایک نئے تنازع کی شروعات نہیں ہوگی؟ ہم پھر سے اسی خوف و دہشت کے عالم میں نہیں پہنچ جائیں گے، جس میں0ستمبرسے پہلے تھے۔ پھر یہ تین مہینہ کی مدت تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لئے ہے۔ سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ سنانے کے لئے کتنی مدت درکار ہوگی، ہمیں اس کا اندازہ کرلینا چاہئے۔ یہ فیصلہ 60سال کی جدوجہد اورہزاروں بے گناہو ںکی جانیں چلے جانے کے بعد آیا ہے۔ اربوں روپئے کی جائیداد برباد ہونے، کروڑوں ہندوستانیوں کو خون کے آنسو رلانے کے بعد آیا ہے، پھر اگر ایسی ہی نفرت کا ماحول پیدا ہو اور 15-20برس تک مقدمہ چلتا رہے، یعنی بابری مسجد کی شہادت 6دسمبر992کے 18سال بعد عدالت اس نتیجہ پر پہنچی، جو آج ہمارے سامنے ہے۔ اب 8ہزار صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے زیرمطالعہ رہے، جس کے لئے اسے برسوں کی مدت درکار ہوگی۔ پھر نئے سرے سے ثبوتوں اور شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوگا، یعنی پھر5-20برس یہ تنازع زندہ رہے گا(یہ مدت کم یا اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے) پھر ایک نئی پیڑھی ان حالات کا سامنا کرنے کے لئے مجبور ہوگی، جو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد پیدا ہوسکتے ہیں۔ پھر اگر عدالت (سپریم کورٹ) نے یہی فیصلہ درست قرار دیا یا اس جیسا ہی کوئی فیصلہ سامنے رکھا تو اس صورت میں ہم کیا کریں گے۔ اس ساری جدوجہد کے دوران ہندو بھائیوں تک تو یہ پیغام چلا ہی جائے گا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعدبھی ہم ایک طویل مدت تک یعنی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کی مدت تک رام مندر کی تعمیر میں رکاوٹ بنے رہے۔ ہمیں ان کے جذبات اور احساسات سے کچھ بھی لینادینا نہیں ہے اور اب جو بھی کچھ ہمارے حق میں ہوا ہے، وہ عدالت(سپریم کورٹ) کا فیصلہ ہے، جس میں مسلمانوں کا جذبۂ خیرسگالی شامل نہیں ہے۔ بصورت دیگر فیصلہ اگر واضح طور پر مسلمانوں کے حق میں آجاتا ہے تو پھر وہی مسئلہ جس سے آنے والی نسلوں کو کن حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ کیا ہمارے لئے یہ دانشمندی بھرا فیصلہ ہوگا کہ ہم آج کے اس مسئلہ کو اپنی آنے والی نسلوں پر منتقل کرجائیں اور پھر ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم صرف اور صرف اس سے بہتر فیصلہ کی توقع ہی کیوں کریں۔ اگر فیصلہ اس سے بدتر ہوا تو…… ابھی اس فیصلہ میں مسلمانوں کے لئے جو گنجائش رکھی گئی ہے، وہ بھی نہ رہی تو…… جو سامنے ہے، وہ بھی گیا اور تلخی الگ سے۔
لہٰذا کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ عوامی سطح پر بالخصوص مسلمانوں کے اندر اس بات پر غور وفکر کا سلسلہ شروع ہو کہ ہم اس جگہ جو عدالت کے ذریعہ مسجد کے لئے مختص کی گئی ہے، ایک شاندار مسجد، (جس میں ہر روز نماز بھی ادا کی جاتی رہے۔) تعمیر کریں اور مندر کو دی جانے والی جگہ پر بخوشی رام مندر کی تعمیر میں پہل کرنے کے جذبہ کااظہار کریں۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شری رام جنم بھومی ایک ہی ہوسکتی ہے، ہم دیگر مساجد کے لئے اس معاملہ کو ایک نظیر کیوں سمجھیں، پھر بھی اگر خدشہ ہو تو اس سمت میں مناسب پیش رفت کریں۔ ان خدشات کو دور کیا جائے۔ آج پیدا ہوئے بہتر ماحول میں یہ ممکن ہے۔ جس طرح وہ مسلمان بھائیوں سے اپیل کررہے ہیں، اسی طرح اپنے خدشات کو سامنے رکھ کر مسلمان ہندوبھائیوں سے اپیل کریں اور ایسے تنازعات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیں، جو کل پھر ہمارے دلوں میں نفرت کی دیواریں کھڑی کرسکتے ہیں۔
6دسمبر992کے بعد ملک کو کن کن حالات سے گزرنا پڑا، مہاراشٹر میں کس طرح ایک مخصوص قوم کی نسل کشی کی گئی، جسٹس سری کرشن کمیشن کی رپورٹ میں آج بھی وہ تمام حقائق واضح الفاظ میں درج ہےں، گزشتہ کچھ ہفتوں سے ہر شخص خوفزدہ تھا کہ بابری مسجد ملکیت کے تنازع کو لے کر 24ستمبرکو جو فیصلہ آنا ہے، اس کے بعد پورے ملک کے حالات کیا ہوں گے۔ بیرون ملک بسے یا روزگار کی تلاش میں گئے ہندوستانیوں نے بارہا فون پر اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے رابطہ قائم کیا، پھر یہ تاریخ تبدیل ہوئی اور0ستمبر کا دن طے کیا گیا۔ سرکاری سطح پر جس طرح کی تیاریاں تھیں،اترپردیش کی وزیراعلیٰ مایاوتی نے جس طرح بار بار فکرمندی کا احساس جتایا، محترمہ سونیا گاندھی، ملک کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور وزیرداخلہ پی چدمبرم نے، جس طرح امن و اتحاد قائم رکھنے کی بار بار جو اپیلیں کیں، اس سے واضح ہوتا تھا کہ عام ہندوستانی ہی نہیں حکومت ہند بھی فکرمند ہے کہ فیصلہ کے بعد ملک کن حالات سے گزر سکتا ہے۔ آج اس وقت جب میں مضمون قلمبند کررہا ہوں، فیصلے کو منظرعام پر آئے 24گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ اللہ کا کرم ہے، کہیں سے کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ہے۔ یہ اس فیصلہ کی سب سے بڑی خوبی اور کامیابی ہے یقینا۔ ہمارے قارئین کو یاد ہوگا، میں نے اپنے پچھلے مضمون میں لکھا تھا کہ ’فیصلہ تو آئے پر فاصلہ نہ بڑھنے پائے‘21-09-2010)، اس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی لگاتار لکھنے کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ دراصل اس درمیان دہلی میں امن و اتحاد قائم رکھنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام دینے کے لئے ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس میں راقم الحروف نے اظہارخیال کرتے ہوئے کچھ مخصوص شخصیتوں کا نام لے کر یہ کہا کہ اگر اس وقت یہ اور ان جیسے لوگ خاموش رہیں تو بہتر ہوگا۔ اس کی وجہ ماضی کے تلخ تجربات تھے۔ حالانکہ اس مرتبہ سبھی نے بڑی احتیاط سے کام لیا، پھر مجھے لگا کہ اگر اپنے اس جملہ کے بعد خود میں اس موضوع پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھتا ہوں تو اخلاقی اعتبار سے یہ درست نہیں ہوگا کہ میں دیگر افراد سے تو یہ درخواست کروں کہ قانون کو اپنی راہ چلنے دیں، اس موضوع پر اپنے تاثرات کا زیادہ اظہار نہ کریں اور خود ہر روز لکھتا رہوں۔ بہرحال آج میں پروردگارعالم کے بعد ہندوستانی قوم اور حکومت ہند کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جج صاحبان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایک ایسا تاریخ ساز فیصلہ، جو قانون سے زیادہ اعتقاد اور جذبات کو سامنے رکھ کر دیا گیا فیصلہ ہے۔ پھر بھی اس کی پسند ناپسند سے بالاتر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ملک کا امن و اتحاد قائم رہا، جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔
قانونی نقطۂ نظر سے ابھی اس فیصلہ پر گفتگو کرنے کی بہت گنجائش ہے۔ عدالتی چارہ جوئی کا راستہ بھی کھلا ہے۔ تین مہینے کے اندر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ تقریباًہزار صفحات پر مشتمل اس فیصلہ کا ابھی تک ہمارے یا ہماری ٹیم کے ذریعہ مطالعہ نہیں کیا جاسکا ہے اور چند روز میں یہ ممکن بھی نہیں ہے، جو کچھ جتنا بھی میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ سامنے لایا گیا ہے، وہ بھی گفتگو کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ کم نہیں ہے۔ ہمارے مذہبی اور قومی رہنمائوں کے جو تاثرات سامنے آئے ہیں، ان کی روشنی میں بھی ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جاسکتا ہے، مگر میں اپنی اس تحریر کی معرفت اپنے قارئین کی خدمت میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ بھی میرے لئے اتنا ہی مشکل فیصلہ ہے، جتنا کہ اس تاریخ ساز فیصلہ کو انجام دینے والے جسٹس ایس یو خان، جسٹس دھرم ویر شرما اور جسٹس سدھیر اگروال کے لئے مشکل رہا ہوگا۔
’’بابری مسجدـرام جنم بھومی ملکیت‘‘مقدمہ کے وکیل محترم ظفریاب جیلانی سمیت دیگر تمام مسلم قائدین اور علمائے اکرام کا شکریہ ادا کیا جانا چاہئے کہ آج جو بھی فیصلہ ہمارے سامنے ہے، یہ ان کی حکمت عملی، جدوجہد اور دعائوں کا نتیجہ ہے۔ ظفریاب جیلانی صاحب کا اس فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ جانے کا بیان مقدمہ سے وابستہ ایک وکیل کا فطری بیان ہے۔ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ جانے کی گنجائش تقریباً تمام مقدموں میں باقی رہتی ہے، لیکن کیا اس معاملہ میں ایسا کیا جائے؟ ہمارے متعدد مذہبی رہنمائوں نے بھی سپریم کورٹ جانے کی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مسلمانوں کی سیاست کرنے والے کچھ سیاسی رہنمائوں نے بھی اس فیصلہ سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ حقائق پر نہیں، اعتقاد کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ میں بیحد ادب اور احترام کے ساتھ یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا اب اس موضوع پر سیاست بند کردیں اور ہم جو سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ایک بار پھر اس ارادے پر نظرثانی کریں اپنے اس فیصلہ پر اور غور کرکے دیکھیں اور فیصلہ جو 30ستمبر کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے ذریعہ سنایا گیا۔ اس پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ یہ بھی غور کریں کہ اگر یہ فیصلہ نہیں ہوتا اور وہ ہوتا جو ہم چاہتے تھے، بلکہ صاف لفظوں میں اگر کہیں کہ اس مخصوص مقام جسے آستھا کی بنیاد پر رام جنم بھومی کہا جاتا ہے اور عدالت نے بھی اسی کو بنیاد مانتے ہوئے فیصلہ دیا ہے، جبکہ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے، جس جگہ پر مسجد واقع تھی اور یہ جگہ مسلمانوں کو ہی ملنی چاہئے تھی، بھلے ہی وہ کل اراضی کا ایک تہائی حصہ ہی کیوں نہ ہوتی تو اس فیصلہ کے بعد ملک کی صورتحال کیا ہوسکتی تھی، عوام کی اکثریت کا ردعمل کیا ہوسکتا تھا، اگر ہم اسے بھی حکومت کی ذمہ داری مان لیں کہ فیصلہ کا نفاذ کرانا اور امن قائم رکھنا تو حکومتوں کا کام ہے تو بھی کیا یہ ممکن تھا کہ وہاں ازسرنو اسی مقام پر بابری مسجد کی تعمیر کی جاسکتی؟ ہاں، یہ ہوسکتا تھا کہ پھر ایک نئے تنازع کے ساتھ یہ معاملہ ایک لمبے عرصہ کے لئے تنازع کا باعث بنا رہتااور ہر دن نفرتوں میں اضافہ کرتا رہتا اور پھربرسہابرس گزرجانے کے بعد بھی جب یہ فیصلہ آتا تو ہماری آنے والی نسلوں کے لئے خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیتا۔ اب اگرہم سپریم کورٹ میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو کس فیصلہ کی امید میں، کس فیصلہ کی چاہت میں، وہی نہ جس کا تذکرہ میں نے اپنی بالائی چند سطروں میں کیاہے۔ اس کے برعکس اگر ہم یہ طے کرتے ہیں کہ عدالت نے جو بھی فیصلہ دیا ہے، ہم اسے بخوشی تسلیم کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ جانے کا ارادہ بھی ترک کردیتے ہیں۔ ہندو بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ایک شاندار رام مندر کی تعمیر کریں، اس زمین پر جو عدالت کے ذریعہ انہیں دی گئی ہے، ہم ان کے معاون ثابت ہوں گے اور ہم مسجد تعمیر کرتے ہیں، اس جگہ پر جو عدالت نے مسجد کے لئے طے کی ہے۔ ایک ہی جگہ کھڑی یہ دو عبادت گاہیں مندراور مسجد کی شکل میں آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیں گی کہ یہ ہمارے ملک کی اس گنگا جمنی تہذیب کی نشانیاں ہیں ، جن کے لئے ہمارا ملک پوری دنیا میں منفرد شناخت رکھتا ہے اور یہی وہ جذبہ ہے، جس نے حضرت امام حسین کو کربلا کے میدان سے ہندوستان کی طرف چلے آنے کی خواہش کا اظہار کرایا تھا اور بصورت دیگر اگر ہم یہ فیصلہ کرتے ہےں کہ نہیں، ہمیں تو سپریم کورٹ جانا ہی ہے، نتیجہ کچھ بھی ہو تو اس کا مطلب ہم موجودہ فیصلہ کو نامنظورکرتے ہیں۔ ہمیں عدالت کے ذریعہ مختص کی گئی اراضی پر مسجداورمندر کی تعمیر منظور نہیں ہے۔ کیا اس کا مثبت پیغام جائے گا؟ کیا پھر سے ایک نئے تنازع کی شروعات نہیں ہوگی؟ ہم پھر سے اسی خوف و دہشت کے عالم میں نہیں پہنچ جائیں گے، جس میں0ستمبرسے پہلے تھے۔ پھر یہ تین مہینہ کی مدت تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لئے ہے۔ سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ سنانے کے لئے کتنی مدت درکار ہوگی، ہمیں اس کا اندازہ کرلینا چاہئے۔ یہ فیصلہ 60سال کی جدوجہد اورہزاروں بے گناہو ںکی جانیں چلے جانے کے بعد آیا ہے۔ اربوں روپئے کی جائیداد برباد ہونے، کروڑوں ہندوستانیوں کو خون کے آنسو رلانے کے بعد آیا ہے، پھر اگر ایسی ہی نفرت کا ماحول پیدا ہو اور 15-20برس تک مقدمہ چلتا رہے، یعنی بابری مسجد کی شہادت 6دسمبر992کے 18سال بعد عدالت اس نتیجہ پر پہنچی، جو آج ہمارے سامنے ہے۔ اب 8ہزار صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے زیرمطالعہ رہے، جس کے لئے اسے برسوں کی مدت درکار ہوگی۔ پھر نئے سرے سے ثبوتوں اور شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوگا، یعنی پھر5-20برس یہ تنازع زندہ رہے گا(یہ مدت کم یا اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے) پھر ایک نئی پیڑھی ان حالات کا سامنا کرنے کے لئے مجبور ہوگی، جو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد پیدا ہوسکتے ہیں۔ پھر اگر عدالت (سپریم کورٹ) نے یہی فیصلہ درست قرار دیا یا اس جیسا ہی کوئی فیصلہ سامنے رکھا تو اس صورت میں ہم کیا کریں گے۔ اس ساری جدوجہد کے دوران ہندو بھائیوں تک تو یہ پیغام چلا ہی جائے گا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعدبھی ہم ایک طویل مدت تک یعنی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کی مدت تک رام مندر کی تعمیر میں رکاوٹ بنے رہے۔ ہمیں ان کے جذبات اور احساسات سے کچھ بھی لینادینا نہیں ہے اور اب جو بھی کچھ ہمارے حق میں ہوا ہے، وہ عدالت(سپریم کورٹ) کا فیصلہ ہے، جس میں مسلمانوں کا جذبۂ خیرسگالی شامل نہیں ہے۔ بصورت دیگر فیصلہ اگر واضح طور پر مسلمانوں کے حق میں آجاتا ہے تو پھر وہی مسئلہ جس سے آنے والی نسلوں کو کن حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ کیا ہمارے لئے یہ دانشمندی بھرا فیصلہ ہوگا کہ ہم آج کے اس مسئلہ کو اپنی آنے والی نسلوں پر منتقل کرجائیں اور پھر ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم صرف اور صرف اس سے بہتر فیصلہ کی توقع ہی کیوں کریں۔ اگر فیصلہ اس سے بدتر ہوا تو…… ابھی اس فیصلہ میں مسلمانوں کے لئے جو گنجائش رکھی گئی ہے، وہ بھی نہ رہی تو…… جو سامنے ہے، وہ بھی گیا اور تلخی الگ سے۔
لہٰذا کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ عوامی سطح پر بالخصوص مسلمانوں کے اندر اس بات پر غور وفکر کا سلسلہ شروع ہو کہ ہم اس جگہ جو عدالت کے ذریعہ مسجد کے لئے مختص کی گئی ہے، ایک شاندار مسجد، (جس میں ہر روز نماز بھی ادا کی جاتی رہے۔) تعمیر کریں اور مندر کو دی جانے والی جگہ پر بخوشی رام مندر کی تعمیر میں پہل کرنے کے جذبہ کااظہار کریں۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شری رام جنم بھومی ایک ہی ہوسکتی ہے، ہم دیگر مساجد کے لئے اس معاملہ کو ایک نظیر کیوں سمجھیں، پھر بھی اگر خدشہ ہو تو اس سمت میں مناسب پیش رفت کریں۔ ان خدشات کو دور کیا جائے۔ آج پیدا ہوئے بہتر ماحول میں یہ ممکن ہے۔ جس طرح وہ مسلمان بھائیوں سے اپیل کررہے ہیں، اسی طرح اپنے خدشات کو سامنے رکھ کر مسلمان ہندوبھائیوں سے اپیل کریں اور ایسے تنازعات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیں، جو کل پھر ہمارے دلوں میں نفرت کی دیواریں کھڑی کرسکتے ہیں۔
4 comments:
Mohtram Barni sahib....sab se pehle to itne khubsurat aur farakhdilana threer ke liye aap ko mubarakbad...aap ne apne article me jin khadshat ka izhar farmaya hai woh bilkul sahi hai faisla agar puri tarha kisi ek ke haq me aata to ek bar phir sara Hindustan nafrat ki aag me jhulas raha hota...yaqeenan yeh amr hum sab ke liye baais-e-khushi hona chahiye ke judge sahiban ne intehai balance aur aur mudabbirana faisla sunaya hai jiske liye unka shukrguzar hona chahiye...Barni bhai ab iss faisle ke mutabiq na kisi ki haar hui hai aur na koi jeeta hai,na kisi ki naak neechi hui hai aur na kisi ki naak unchi hui hai to kyun na iss sunheri mauqe ka fayda utha kar iss rog ko hamesha hamesha ke liye khatm kar den jiss se hamari aane wali naslen to aman-o-sukun ki fiza me sans le saken...main aap ki bat se puri tarha ittefaq rakhta hun ke ab supream court me jane ki koi zarurat nahi ab hamen aage badh kar apni ek tihaee zamen ko bhi mandir banane ke liye hindustani musalmano ki taraf se offer kar dena chahiye aur mandir banane liye apni taraf se har mumkin madad ka yaqeen dilana chahiye jiss se ab tak paida hone wali kadwahat aur duriyon ko mita kar ek nai tareekh likhne ki shuruaat karna chahiye...!
WOH TO BACH JAYEN GHUTAN SE KAL BASENGE JO YAHAN / APNE GHAR KI KYUN NA HUM DEEWAR KHUD HI TOD JAYEN....Akhtar Rizvi
IBADAT KE LIYE HUMKO
IMARAT KI ZARURAT KYA,
HAMARE DIL ME MANDIR HAI
HAMARE DIL ME MASJID HAI...!
=Akhtar Rizvi
عزیز برنی صاحب میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں
janab salam,
main aap ki raye se bilkul muttafiq hun aap ne sahih kaha, hume iss chod kar apne ane vale mustaqbil ke bare me sochna chahiye.......
meri zindagi ka maqsad tere deen ki sarfarazi'
main is liye musalmaa main issi liye namazi.
mohd.shahzad abbasi
Post a Comment