امرناتھ یاتراعقیدت مندوں کے لئے عبادت کا مرکز یہ حقیقت اپنی جگہ ،لیکن اس کے پیچھے چھپی جس سیاست کی طرف میں نے اپنے کل کے مضمون میں اشارہ کیا تھا،وہ پہلو بھی نظر انداز کئے جانے کے لائق نہیں ہے۔اس ضمن میں کہنے کے لئے ابھی بہت کچھ باقی ہے مگر آج جس اہم موضوع سے میں اپنی گفتگو کی شروعات کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں وہ بھی کم قابل غور نہیںہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج کی گفتگو میں آپ کو تقسیم وطن کی حقیقت بھی نظر آنے لگے گی اور ہمارا ملک جن فرقہ وارانہ فسادات کا شکار رہا ہے یا آج ہم جس دہشت گردی کے دور سے گزر رہے ہیں،اس سب کے پس منظر میں بھی آپ کو وہ گندی سیاست نظر آنے لگے گی جس کی زد میں آزادی کے بعد سے کشمیرہی نہیںبلکہ پورا ہندوستان رہا ہے۔
آیئے! پھر ذکر کرتے ہیں کشمیر کا ، لیکن آج صرف موجودہ حالات کے لئے نہیں بلکہ تقسیم وطن کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کے لئے ،دو قومی نظریہ کے فلسفہ کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لئے …مسلمانوں کی اکثریت اپنے لئے ایک الگ ملک چاہتی تھی، اس الزام کا سچ سامنے رکھنے کے لئے، آج میں کشمیر کو ایک نظیر کے طور پر سامنے رکھ کر بات کررہا ہوں۔ کشمیری عوام ہندوستان کے ساتھ مجبوری میں ہے یا اپنی خواہش کے مطابق یہ جاننے کے لئے ہمیں دو باتوں میں سے کسی ایک کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔
نمبر 1- :کشمیری اپنی پسند سے اپنی خواہش کے مطابق ہندوستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگر سچ یہ ہے تو ! گزشتہ 61برسوں میں بالخصوص 1989کے بعد جو کشمیر سنگینوں کے سائے میں رہنے کو مجبور ہے وہ کیوں…؟ اگر اپنی مرضی سے ہندوستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا تو آج پھر زور زبردستی کی وجہ کیا ہے…؟ کشمیر میں فوج کی ضرورت کیا ہے…؟ یہ علیحدگی پسندگی کا سوال کیوں ہے…؟ کشمیر میں دہشت گردی کیوں ہے…؟ وہاں آئے دن معصوم بچوں سے لے کر بزرگ ، مردو خواتین تک پولس کی گولی اور زیادتیوں کے شکار کیوں ہیں…؟ ہمیں ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
نمبر :2- اگر کشمیریوں کا فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق ہندوستان کے ساتھ الحاق نہیں تھا۔ بلکہ ہم چاہتے تھے کہ کشمیر ہمارے ملک کا حصہ بنارہے، اس لئے ہم نے نہیں چاہا کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ شمولیت اختیار کرے یا اپنے الگ وجود کی بات کرے۔
اگر سچ یہ ہے تو ہمیں پھر کچھ سوالوں کا جواب دینا ہوگا، لیکن کچھ بھی لکھنے سے قبل ایک ہندوستانی کی حیثیت سے اپنی سرکاروں کو کم از کم اس بات کے لئے مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اگر یہ چاہا کہ کشمیر ہندوستان کے ساتھ رہے اور آج 63برسوں کی جدوجہد کے بعد بھی کشمیر ہندوستان کے ساتھ ہے تو یہ ان کی کامیابی ہے۔ یہ ہماری سرکاروں کی حکمت عملی کی کامیابی ہے۔لہٰذا پھر جو بھی کچھ کشمیر میںہورہا ہے اس کے بارے میں یہی تصور کیا جائے گا کہ یہ جنگ کے حالات ہیںاور محبت و جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔
لیکن اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرہم بزور طاقت 80فیصد مسلمانوں کی اکثریت والی ریاست کشمیر کو اگر اپنے ساتھ بنائے رکھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو پھر پاکستان کا وجود عمل میں ہی کیوں آیا۔ ہم باقی مسلم اکثریتی علاقوں کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے؟اگر ہندوستان کا 80فیصد مسلمان یا ہندوستان کے بیشتر مسلم اکثریت والے علاقوں سے علیحدگی پسندی کی آواز اٹھ بھی رہی تھی تو ہم نے انہیں اسی طرح کیوں نہیں دبا دیا، جس طرح کہ ہم نے کشمیریوں کی علیحدگی پسندی کی آواز کو دبانے میں کامیابی حاصل کی۔ یعنی اگر ہم مضبوط قوت ارادی کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیتے کہ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم نہ ہو تویہ ممکن تھا ،ہم ایسا کرسکتے تھے۔ کشمیر کی مثال آج ہمارے سامنے ہے۔ یعنی ہماری طاقت اتنی تھی کہ ہمارے سیاست دانوںکی مضبوط قوت ارادی، مذہب کے نام پر بٹوارے کی مانگ کو رد کرسکتی تھی،لیکن ایسا نہیںہوا۔ ہماری جو فرقہ پرست سوچ جس نے پہلے ہندو مہاسبھا اور بعد میں سنگھ پریوار کو جنم دیا تقسیم وطن سے آج تک کشمیر کے حوالے سے نظر آئی اور آزادی کے وقت میںبھی ملک کی تقسیم کے لئے ذمہ دار تھی اور پاکستان کے وجود میں آنے کے لئے بھی۔
اب انتہائی سنجیدہ اور اہم سوال: توکیا مان لیا جائے کہ دونوں ہی باتیں ہمارے سیاست دانوں کی مرضی کے مطابق تھیں اورہیں۔یعنی ہماری سیاست چاہتی تھی کہ پاکستان وجود میں آئے، اس لئے ملک تقسیم ہوا اور پاکستان بنا۔ ہمارے سیاسی قائد نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو یا وہ اپنی ایک الگ انفرادی حیثیت کے ساتھ آزاد ریاست کی شکل میں جانا جائے لہٰذا ایسا ہی ہوا یعنی ہم نے جب جب جو جو چاہا ویسا ہی ہوا۔
اب ہمارے ذہین سیاست داں ایک سوال ہم سے کرسکتے ہیں کہ آخر میںکہناکیاچاہتا ہوں۔ کیا میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ پاکستان کا وجود میں آنا صرف محمد علی جناح کی یا مسلمانوں کی خواہش نہیں تھی بلکہ اس وقت ہندوستان کے تقریباً تمام یابااثر فیصلہ لینے کی حیثیت رکھنے والے سیاست داں چاہتے تھے کہ ملک کا بٹوارہ ہو۔ جی ہاں! ٹھیک سمجھا آپ نے۔یہی کہنا اور ثابت کرنا چاہتاہوں میں۔ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 80فیصد مسلم اکثریت والی یہ ریاست پاکستان کے ساتھ شامل نہ ہو یا اپنا الگ وجود قائم نہ کرسکے ہم نے یہ چاہا اور ہم ایسا کر گزرے۔ میں پھر کہوں گا کہ اگر آپ یہ کہیں گے یہ فیصلہ کشمیریوں کا اپنا فیصلہ تھا تو پھر آپ کو اس سوال کاجواب دینا ہوگا کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی کی آوازیںکیوں اور انہیں دبانے کے لئے طاقت کااستعمال کیوں؟ میں واپس اپنی بات کی طرف آتا ہوں۔ دراصل اس وقت کے سیاست داں کم از کم فرقہ پرست سیاست داںجو سیکولر کانگریس میںرہتے ہوئے بھی اس قدر طاقتور تھے کہ ان کے فیصلے کو رد کرنے کی حیثیت میں ہمارے ملک کے دیگر سیکولر قرار دیے جانے والے سیاست داں نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کا بٹوارہ ہو ، مسلم اکثریت والے سرحدی علاقے ہندوستان سے الگ ہوجائیں۔ اس لئے کہ ملک کو چلنا تھاجمہوری قدروں پر۔ جہاں یہ فیصلہ ووٹ کے ذریعہ ہونا تھا کہ ملک پر حکومت کون کرے گا۔لہٰذا ! اگر ملک نہ تقسیم ہوتا ، تمام مسلمان ہندوستان میں رہتے۔ان کی اکثریت والے انتخابی حلقوں سے ان کے لئے اپنے امیدوار الیکشن لڑسکتے اور جیت سکتے تو ان کی اپنی ایک سیاسی طاقت ہوتی پھر اپنے مسائل کا رونا رونے کی بات تو دور، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ انہیں بھی اقتدار میں آنے کاموقع ملتا یا سرکارمیں برابر کی حصہ داری ملتی۔
1901میں ہندومہاسبھا کو وجود میں لانے والی ذہنیت جو ملک کی آزادی کا وقت آتے آتے خاصی بااثر ہوگئی تھی اور کانگریس پارٹی میںان کے نمائندے اس حیثیت میں آگئے تھے کہ ان کے فیصلے پنڈت جواہر لعل نہرو بھی ماننے کو مجبور ہوں، آزادی کے مسیحاموہن داس کرم چند گاندھی بھی ان کے سامنے بے بس نظر آئیں اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے و احد رہنما مولانا ابوالکلام آزاد چاہ کر بھی کچھ نہ کرپائیں۔ یہاں اپنی بات کی وضاحت کے لئے میں ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیف ’انڈیاونس فریڈم‘ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں، جس میں تقسیم وطن کے حالات بھی درج ہیں اور ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے کارنامے بھی،ان کا انداز فکر بھی اور ان کی حکمت عملی بھی۔ہوسکتا ہے آئندہ اپنے اس مضمون کی آنے والی قسطوں میں اس کتاب کے تراشے لفظ بہ لفظ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کروں، لیکن آج تو بس اتنا لکھ دینا ضروری لگتا ہے کہ مولانا آزاد نے اپنی اس تاریخی کتاب میں واضح الفاظ میں درج کیا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ملک کے حالات یہ تھے کہ پاکستان کے پنجاب کی طرف سے آنے والی ریل گاڑیوں میں ہندوئوں کی لاشیں ہوتی تھیں اور دہلی کی گلیوں میں مسلمانوں کو کتے اور بلیوں کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ جب مولانا ابوالکلام آزاد نے اس صورت حال کی شکایت وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے کی تو وہ اس قدر بے بس نظر آئے کہ سردار پٹیل کو نہ تو ان کے عہدے سے برطرف کرسکتے تھے اور نہ انہیں حالات پر قابو پانے کے لئے مجبور کرسکتے تھے۔اس لئے کہ سردار پٹیل طاقتور تھے اور ان کاماننا تھا کہ سب کچھ معمول پر ہے، کہیں بھی کچھ ایسا نہیںہورہا ہے جس کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے اور جہاں تک کچھ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کا سوال ہے تو وہ ملک دشمن ہیں، جنگ پر آمادہ ہیں۔ ان کے گھروں سے خطرناک ہتھیار برآمد ہورہے ہیں اور اپنے اس دعوے کے ثبوت میں سردار پٹیل نے جن خطرناک ہتھیاروں کو سامنے رکھا،ان میں کچن میں کام آنے والے چاقو ، چھری وغیرہ تھے، جنہیں دیکھ کر طنزیہ انداز میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا تھا کہ’ اگر یہی خطرناک ہتھیار ہیں تو کیوںنہ انہیں فوج کو دے دیا جائے۔‘ مہاتماگاندھی کے سامنے جب تمام صورت حال رکھی گئی اور انہوں نے سردار پٹیل سے جواب طلب کیا تومہاتما گاندھی کی باتوں کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے سردار پٹیل ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔
جیسا کہ میںنے عرض کیا تھا اس وقت تقسیم وطن کی تفصیل پیش کرنا ممکن نہیںہے۔اُس وقت کے حالات کی ایک جھلک اس لئے پیش کی گئی تاکہ فرقہ پرست، تنگ نظر سوچ کی نمائندگی کرنے والے ایک شخص کی کارکردگی سامنے رکھی جاسکے۔یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اُس وقت کی کابینہ میںسردار پٹیل کو تنہا سنگھ پریوار کا نمائندہ سمجھنا بھاری بھول ہوگی۔ ہاں اس چہرے کو سب سے واضح چہرہ ضرور قرار دیا جاسکتا ہے، ورنہ 30جنوری 1948کو مہاتماگاندھی کی جان لینے والی یہ فرقہ پرست طاقت اس وقت بھی کس قدر منظم اور مضبوط تھی اُس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ ناتھو رام گوڈسے مہاتما گاندھی کی جان لینے میں کامیاب ہوا۔پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم رہتے ہوئے بھی مہاتما گاندھی کا تحفظ نہ کرسکے، جب کہ اس سے پہلے بھی ان پر کئی بار جان لیوا حملے ہوچکے تھے۔
میں نے کل کانگریس کی جس کیفیت کا ذکر کیاتھا اس کی لاچاری اور مجبوری کو سمجھنے کے لئے اس مثال کو پھر ذہن نشیں رکھناہوگا تاکہ آپ کشمیر کے موجودہ حالات ، فوجی تعیناتی اور امرناتھ یاترا کے دوران اس کے عمل کی بے بسی یا کمزور قوت ارادی کو سمجھ سکیں۔دراصل ہمارے ملک میں اِن فرقہ پرست طاقتوں کی جڑیں اس قدر مضبوط اور گہری ہیں کہ جب تک اِن کو پوری طرح سمجھا نہ گیاہندوستانی عوام کو ان سے روشناس نہ کرایا گیا ، اِن کے خطرناک نتائج کو سامنے نہیں رکھاگیا تو اِن پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔
مجھے اندازہ ہے کہ آج کے اس مختصر مضمون میں اور کتنی سطریںلکھنے کی گنجائش ہے ،اس لئے اِس موضوع پر گفتگو کومختصر کرتے ہوئے چند جملوں میں تقسیم وطن اور کشمیر کے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تھی اسے ختم کرنا چاہوں گا۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی عرض کیا تھا کہ ملک کو چلنا تھا جمہوری قدروں پر جہاں یہ فیصلہ ووٹ کے ذریعہ کیا جانا تھاکہ ملک پر حکومت کون کرے گالہذا فرقہ پرست ، تنگ نظر سوچ رکھنے والے سیاست دانوں نے اپنے مفادات کے پیش نظر دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی وقت یہ طے کرلیا تھاکہ کم سے کم ووٹ کے لحاظ سے تو مسلمانوںکو پوری طرح بے حیثیت بناہی دینا ہے۔ نتیجتاً ملک کی تقسیم عمل میں آئی، وہ سرحدی صوبے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کی شکل لے سکتے تھے ، جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، الگ کردےے گئے۔ مہرے کی شکل میں ملا انہیں ایک ایسا شخص جس کے دل میں حکمرانی کی خواہش شدت کے ساتھ موجود تھی۔لہٰذا اسے قائد اعظم کے تمغہ کے ساتھ پاکستان کا بانی قرار دے دیا گیا اوروہ کون کون تھے جوملک کی تقسیم کے لئے ذہن سازی کرتے رہے یہ بات پوری طرح سامنے آہی نہیں سکی۔بہرحال مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان سے الگ ہوگئے۔ ہندوستان میں رہنے والا مسلمان ووٹ کی حیثیت سے کمزور ہوگیااور تقسیم وطن کے الزام کی وجہ سے شرمندہ بھی۔اس کے بعد باقی بچے بکھرے ہوئے مسلم علاقوں کو ریزرو کانسی ٹیونسی کی شکل دے کر دلتوں کے لئے مخصوص کردیا گیا۔ یہ دوسرا حربہ تھا مسلمانوںکے ووٹ کو بے حیثیت بنانے کا، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر تفصیل کے ساتھ گفتگو پھر کبھی۔ آج تو کشمیر کی مثال اس لئے سامنے رکھی گئی تاکہ سمجھا جاسکے کہ وہاں کے حالات آخر بدلتے کیوں نہیں…؟چاہتا کون ہے کہ حالات بدلیں۔ یہ تو فرقہ پرست طاقتوں کی حکمت عملی ہے اور آج کی سرکار بھی اسی طرح مجبور ہے جس طرح سردارپٹیل کے سامنے پنڈت نہرو مجبور تھے۔ اس حکمت عملی پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے امرناتھ یاترا کی سیاسی چال کو سامنے رکھنے کے لئے فوج کی تعیناتی کی وجہ سامنے رکھنے کے لئے کل پھر اسی موضوع پر گفتگو جاری رہے گی
آیئے! پھر ذکر کرتے ہیں کشمیر کا ، لیکن آج صرف موجودہ حالات کے لئے نہیں بلکہ تقسیم وطن کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کے لئے ،دو قومی نظریہ کے فلسفہ کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لئے …مسلمانوں کی اکثریت اپنے لئے ایک الگ ملک چاہتی تھی، اس الزام کا سچ سامنے رکھنے کے لئے، آج میں کشمیر کو ایک نظیر کے طور پر سامنے رکھ کر بات کررہا ہوں۔ کشمیری عوام ہندوستان کے ساتھ مجبوری میں ہے یا اپنی خواہش کے مطابق یہ جاننے کے لئے ہمیں دو باتوں میں سے کسی ایک کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔
نمبر 1- :کشمیری اپنی پسند سے اپنی خواہش کے مطابق ہندوستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگر سچ یہ ہے تو ! گزشتہ 61برسوں میں بالخصوص 1989کے بعد جو کشمیر سنگینوں کے سائے میں رہنے کو مجبور ہے وہ کیوں…؟ اگر اپنی مرضی سے ہندوستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا تو آج پھر زور زبردستی کی وجہ کیا ہے…؟ کشمیر میں فوج کی ضرورت کیا ہے…؟ یہ علیحدگی پسندگی کا سوال کیوں ہے…؟ کشمیر میں دہشت گردی کیوں ہے…؟ وہاں آئے دن معصوم بچوں سے لے کر بزرگ ، مردو خواتین تک پولس کی گولی اور زیادتیوں کے شکار کیوں ہیں…؟ ہمیں ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
نمبر :2- اگر کشمیریوں کا فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق ہندوستان کے ساتھ الحاق نہیں تھا۔ بلکہ ہم چاہتے تھے کہ کشمیر ہمارے ملک کا حصہ بنارہے، اس لئے ہم نے نہیں چاہا کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ شمولیت اختیار کرے یا اپنے الگ وجود کی بات کرے۔
اگر سچ یہ ہے تو ہمیں پھر کچھ سوالوں کا جواب دینا ہوگا، لیکن کچھ بھی لکھنے سے قبل ایک ہندوستانی کی حیثیت سے اپنی سرکاروں کو کم از کم اس بات کے لئے مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اگر یہ چاہا کہ کشمیر ہندوستان کے ساتھ رہے اور آج 63برسوں کی جدوجہد کے بعد بھی کشمیر ہندوستان کے ساتھ ہے تو یہ ان کی کامیابی ہے۔ یہ ہماری سرکاروں کی حکمت عملی کی کامیابی ہے۔لہٰذا پھر جو بھی کچھ کشمیر میںہورہا ہے اس کے بارے میں یہی تصور کیا جائے گا کہ یہ جنگ کے حالات ہیںاور محبت و جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔
لیکن اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرہم بزور طاقت 80فیصد مسلمانوں کی اکثریت والی ریاست کشمیر کو اگر اپنے ساتھ بنائے رکھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو پھر پاکستان کا وجود عمل میں ہی کیوں آیا۔ ہم باقی مسلم اکثریتی علاقوں کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے؟اگر ہندوستان کا 80فیصد مسلمان یا ہندوستان کے بیشتر مسلم اکثریت والے علاقوں سے علیحدگی پسندی کی آواز اٹھ بھی رہی تھی تو ہم نے انہیں اسی طرح کیوں نہیں دبا دیا، جس طرح کہ ہم نے کشمیریوں کی علیحدگی پسندی کی آواز کو دبانے میں کامیابی حاصل کی۔ یعنی اگر ہم مضبوط قوت ارادی کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیتے کہ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم نہ ہو تویہ ممکن تھا ،ہم ایسا کرسکتے تھے۔ کشمیر کی مثال آج ہمارے سامنے ہے۔ یعنی ہماری طاقت اتنی تھی کہ ہمارے سیاست دانوںکی مضبوط قوت ارادی، مذہب کے نام پر بٹوارے کی مانگ کو رد کرسکتی تھی،لیکن ایسا نہیںہوا۔ ہماری جو فرقہ پرست سوچ جس نے پہلے ہندو مہاسبھا اور بعد میں سنگھ پریوار کو جنم دیا تقسیم وطن سے آج تک کشمیر کے حوالے سے نظر آئی اور آزادی کے وقت میںبھی ملک کی تقسیم کے لئے ذمہ دار تھی اور پاکستان کے وجود میں آنے کے لئے بھی۔
اب انتہائی سنجیدہ اور اہم سوال: توکیا مان لیا جائے کہ دونوں ہی باتیں ہمارے سیاست دانوں کی مرضی کے مطابق تھیں اورہیں۔یعنی ہماری سیاست چاہتی تھی کہ پاکستان وجود میں آئے، اس لئے ملک تقسیم ہوا اور پاکستان بنا۔ ہمارے سیاسی قائد نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو یا وہ اپنی ایک الگ انفرادی حیثیت کے ساتھ آزاد ریاست کی شکل میں جانا جائے لہٰذا ایسا ہی ہوا یعنی ہم نے جب جب جو جو چاہا ویسا ہی ہوا۔
اب ہمارے ذہین سیاست داں ایک سوال ہم سے کرسکتے ہیں کہ آخر میںکہناکیاچاہتا ہوں۔ کیا میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ پاکستان کا وجود میں آنا صرف محمد علی جناح کی یا مسلمانوں کی خواہش نہیں تھی بلکہ اس وقت ہندوستان کے تقریباً تمام یابااثر فیصلہ لینے کی حیثیت رکھنے والے سیاست داں چاہتے تھے کہ ملک کا بٹوارہ ہو۔ جی ہاں! ٹھیک سمجھا آپ نے۔یہی کہنا اور ثابت کرنا چاہتاہوں میں۔ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 80فیصد مسلم اکثریت والی یہ ریاست پاکستان کے ساتھ شامل نہ ہو یا اپنا الگ وجود قائم نہ کرسکے ہم نے یہ چاہا اور ہم ایسا کر گزرے۔ میں پھر کہوں گا کہ اگر آپ یہ کہیں گے یہ فیصلہ کشمیریوں کا اپنا فیصلہ تھا تو پھر آپ کو اس سوال کاجواب دینا ہوگا کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی کی آوازیںکیوں اور انہیں دبانے کے لئے طاقت کااستعمال کیوں؟ میں واپس اپنی بات کی طرف آتا ہوں۔ دراصل اس وقت کے سیاست داں کم از کم فرقہ پرست سیاست داںجو سیکولر کانگریس میںرہتے ہوئے بھی اس قدر طاقتور تھے کہ ان کے فیصلے کو رد کرنے کی حیثیت میں ہمارے ملک کے دیگر سیکولر قرار دیے جانے والے سیاست داں نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کا بٹوارہ ہو ، مسلم اکثریت والے سرحدی علاقے ہندوستان سے الگ ہوجائیں۔ اس لئے کہ ملک کو چلنا تھاجمہوری قدروں پر۔ جہاں یہ فیصلہ ووٹ کے ذریعہ ہونا تھا کہ ملک پر حکومت کون کرے گا۔لہٰذا ! اگر ملک نہ تقسیم ہوتا ، تمام مسلمان ہندوستان میں رہتے۔ان کی اکثریت والے انتخابی حلقوں سے ان کے لئے اپنے امیدوار الیکشن لڑسکتے اور جیت سکتے تو ان کی اپنی ایک سیاسی طاقت ہوتی پھر اپنے مسائل کا رونا رونے کی بات تو دور، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ انہیں بھی اقتدار میں آنے کاموقع ملتا یا سرکارمیں برابر کی حصہ داری ملتی۔
1901میں ہندومہاسبھا کو وجود میں لانے والی ذہنیت جو ملک کی آزادی کا وقت آتے آتے خاصی بااثر ہوگئی تھی اور کانگریس پارٹی میںان کے نمائندے اس حیثیت میں آگئے تھے کہ ان کے فیصلے پنڈت جواہر لعل نہرو بھی ماننے کو مجبور ہوں، آزادی کے مسیحاموہن داس کرم چند گاندھی بھی ان کے سامنے بے بس نظر آئیں اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے و احد رہنما مولانا ابوالکلام آزاد چاہ کر بھی کچھ نہ کرپائیں۔ یہاں اپنی بات کی وضاحت کے لئے میں ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیف ’انڈیاونس فریڈم‘ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں، جس میں تقسیم وطن کے حالات بھی درج ہیں اور ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے کارنامے بھی،ان کا انداز فکر بھی اور ان کی حکمت عملی بھی۔ہوسکتا ہے آئندہ اپنے اس مضمون کی آنے والی قسطوں میں اس کتاب کے تراشے لفظ بہ لفظ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کروں، لیکن آج تو بس اتنا لکھ دینا ضروری لگتا ہے کہ مولانا آزاد نے اپنی اس تاریخی کتاب میں واضح الفاظ میں درج کیا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ملک کے حالات یہ تھے کہ پاکستان کے پنجاب کی طرف سے آنے والی ریل گاڑیوں میں ہندوئوں کی لاشیں ہوتی تھیں اور دہلی کی گلیوں میں مسلمانوں کو کتے اور بلیوں کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ جب مولانا ابوالکلام آزاد نے اس صورت حال کی شکایت وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے کی تو وہ اس قدر بے بس نظر آئے کہ سردار پٹیل کو نہ تو ان کے عہدے سے برطرف کرسکتے تھے اور نہ انہیں حالات پر قابو پانے کے لئے مجبور کرسکتے تھے۔اس لئے کہ سردار پٹیل طاقتور تھے اور ان کاماننا تھا کہ سب کچھ معمول پر ہے، کہیں بھی کچھ ایسا نہیںہورہا ہے جس کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے اور جہاں تک کچھ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کا سوال ہے تو وہ ملک دشمن ہیں، جنگ پر آمادہ ہیں۔ ان کے گھروں سے خطرناک ہتھیار برآمد ہورہے ہیں اور اپنے اس دعوے کے ثبوت میں سردار پٹیل نے جن خطرناک ہتھیاروں کو سامنے رکھا،ان میں کچن میں کام آنے والے چاقو ، چھری وغیرہ تھے، جنہیں دیکھ کر طنزیہ انداز میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا تھا کہ’ اگر یہی خطرناک ہتھیار ہیں تو کیوںنہ انہیں فوج کو دے دیا جائے۔‘ مہاتماگاندھی کے سامنے جب تمام صورت حال رکھی گئی اور انہوں نے سردار پٹیل سے جواب طلب کیا تومہاتما گاندھی کی باتوں کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے سردار پٹیل ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔
جیسا کہ میںنے عرض کیا تھا اس وقت تقسیم وطن کی تفصیل پیش کرنا ممکن نہیںہے۔اُس وقت کے حالات کی ایک جھلک اس لئے پیش کی گئی تاکہ فرقہ پرست، تنگ نظر سوچ کی نمائندگی کرنے والے ایک شخص کی کارکردگی سامنے رکھی جاسکے۔یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اُس وقت کی کابینہ میںسردار پٹیل کو تنہا سنگھ پریوار کا نمائندہ سمجھنا بھاری بھول ہوگی۔ ہاں اس چہرے کو سب سے واضح چہرہ ضرور قرار دیا جاسکتا ہے، ورنہ 30جنوری 1948کو مہاتماگاندھی کی جان لینے والی یہ فرقہ پرست طاقت اس وقت بھی کس قدر منظم اور مضبوط تھی اُس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ ناتھو رام گوڈسے مہاتما گاندھی کی جان لینے میں کامیاب ہوا۔پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم رہتے ہوئے بھی مہاتما گاندھی کا تحفظ نہ کرسکے، جب کہ اس سے پہلے بھی ان پر کئی بار جان لیوا حملے ہوچکے تھے۔
میں نے کل کانگریس کی جس کیفیت کا ذکر کیاتھا اس کی لاچاری اور مجبوری کو سمجھنے کے لئے اس مثال کو پھر ذہن نشیں رکھناہوگا تاکہ آپ کشمیر کے موجودہ حالات ، فوجی تعیناتی اور امرناتھ یاترا کے دوران اس کے عمل کی بے بسی یا کمزور قوت ارادی کو سمجھ سکیں۔دراصل ہمارے ملک میں اِن فرقہ پرست طاقتوں کی جڑیں اس قدر مضبوط اور گہری ہیں کہ جب تک اِن کو پوری طرح سمجھا نہ گیاہندوستانی عوام کو ان سے روشناس نہ کرایا گیا ، اِن کے خطرناک نتائج کو سامنے نہیں رکھاگیا تو اِن پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔
مجھے اندازہ ہے کہ آج کے اس مختصر مضمون میں اور کتنی سطریںلکھنے کی گنجائش ہے ،اس لئے اِس موضوع پر گفتگو کومختصر کرتے ہوئے چند جملوں میں تقسیم وطن اور کشمیر کے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تھی اسے ختم کرنا چاہوں گا۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی عرض کیا تھا کہ ملک کو چلنا تھا جمہوری قدروں پر جہاں یہ فیصلہ ووٹ کے ذریعہ کیا جانا تھاکہ ملک پر حکومت کون کرے گالہذا فرقہ پرست ، تنگ نظر سوچ رکھنے والے سیاست دانوں نے اپنے مفادات کے پیش نظر دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی وقت یہ طے کرلیا تھاکہ کم سے کم ووٹ کے لحاظ سے تو مسلمانوںکو پوری طرح بے حیثیت بناہی دینا ہے۔ نتیجتاً ملک کی تقسیم عمل میں آئی، وہ سرحدی صوبے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کی شکل لے سکتے تھے ، جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، الگ کردےے گئے۔ مہرے کی شکل میں ملا انہیں ایک ایسا شخص جس کے دل میں حکمرانی کی خواہش شدت کے ساتھ موجود تھی۔لہٰذا اسے قائد اعظم کے تمغہ کے ساتھ پاکستان کا بانی قرار دے دیا گیا اوروہ کون کون تھے جوملک کی تقسیم کے لئے ذہن سازی کرتے رہے یہ بات پوری طرح سامنے آہی نہیں سکی۔بہرحال مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان سے الگ ہوگئے۔ ہندوستان میں رہنے والا مسلمان ووٹ کی حیثیت سے کمزور ہوگیااور تقسیم وطن کے الزام کی وجہ سے شرمندہ بھی۔اس کے بعد باقی بچے بکھرے ہوئے مسلم علاقوں کو ریزرو کانسی ٹیونسی کی شکل دے کر دلتوں کے لئے مخصوص کردیا گیا۔ یہ دوسرا حربہ تھا مسلمانوںکے ووٹ کو بے حیثیت بنانے کا، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر تفصیل کے ساتھ گفتگو پھر کبھی۔ آج تو کشمیر کی مثال اس لئے سامنے رکھی گئی تاکہ سمجھا جاسکے کہ وہاں کے حالات آخر بدلتے کیوں نہیں…؟چاہتا کون ہے کہ حالات بدلیں۔ یہ تو فرقہ پرست طاقتوں کی حکمت عملی ہے اور آج کی سرکار بھی اسی طرح مجبور ہے جس طرح سردارپٹیل کے سامنے پنڈت نہرو مجبور تھے۔ اس حکمت عملی پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے امرناتھ یاترا کی سیاسی چال کو سامنے رکھنے کے لئے فوج کی تعیناتی کی وجہ سامنے رکھنے کے لئے کل پھر اسی موضوع پر گفتگو جاری رہے گی
1 comment:
muslims are growing in blog-world
Post a Comment