Friday, July 2, 2010

شیخ عبداللہ نے کہا تھا ’کشمیر ہندوـمسلم اتحاد کا علمبردار ہے‘

عزیز برنی

شیخ عبداللّٰہ کی تقریر کا آخری حصہ
حقیقت پسند کے طورپر میں مطمئن ہوں کہ سب کچھ صاف صاف نہیں ہوتا ہے اور کسی بھی درپیش متبادل کے کئی حقائق ہمارے سامنے ہیں۔ میں سب سے پہلے ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کے فائدے اورنقصانات کے بارے میں بولوں گا ۔ حتمی تجزیہ میں، جیسا کہ میں سمجھ پایا ہوں دو ریاستوں کے درمیان تعلقات کی مضبوطی معیارات کے معاملے میں طبیعت کے ملنے پر ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے بارہا ریاست کے عوام کی آزادی کے کاز کی حمایت کی ہے۔ مہاراجا کی حکومت استبداد نمائندہ حکومت سے تبدیل ہوگئی۔ جمہوریت کی جانب سے کئی اقدام کیے گئے جس سے عوام کی زندگی میں خاطرخواہ بہتری آئی۔ ضروری سماجی ڈھانچہ از سر نو تعمیر ہوا اور سب سے اوپر ان کے جذبہ آزادی کو مضبوط کیا۔ اس لیے اگر ہم ہندوستان کے ساتھ الحاق کرتے ہیں تو جاگیرداری اور حکومت استبداد (Autocracy)کے واپس آنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے بھی آگے ہندوستانی حکومت نے گزشتہ 4برسوں میں ہماری داخلی خودمختاری میں دخل نہیں دیا اور اس تجربہ نے ایک جمہوری ملک ہونے کے ہمارے یقین کو تقویت دی ہے۔
کسی بھی ملک کا اصل کردار اس کے آئین سے ظاہرہوتاہے۔ ہندوستانی آئین نے ملک کے سامنے انصاف، آزادی اور بغیر امتیاز کے برابری کی بنیادوں پر سیکولرجمہوریت قائم کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ یہ جدید جمہوریت کی بنیاد ہے۔ اس کی دلیل ہونی چاہیے کہ کشمیر کے مسلمان ہندوستان میں محفوظ نہیں رہ سکتے کیوں کہ یہاں کی آبادی کی اکثریت ہندو ہے۔ مذہبی گروپوں کے درمیان کوئی بھی خلیج سامراجی حکومت کی دین ہے اور کوئی ماڈرن ملک مصنوعی خلیج کو فروغ نہیں دے سکتا، اگر اس کو ترقی اور خوشحالی حاصل کرنی ہے۔ ہندوستانی آئین نے واضح اور حتمی طورپر مذہبی ملک کے تصور سے انکار کیا ہے، جس نے Medievalism کو نکال باہر کیا ہے اور سبھی شہریوں کو ان کے مذہب، رنگ، نسل اور ذات کو بلالحاظ برابری کے درجہ کی گارنٹی دی ہے۔
ہم نے ’زمین کاشت کرنے کے لیے، قانون بنائے اور انہیں عملی طورپر کامیاب بنایا ہے۔ ہمارے کاشت کاروںکے لیے زمین اور اس سے وابستہ دوسرے ذرائع بہت بڑی رحمت ہیں، جن سے صدیوں سے زمیندار اور ان کے ساتھیوں نے غلاموں کی طرح کام لیا ہے۔ موجودہ حالات میں ہم زمین سے وابستہ اصلاحات کو نافذکرنے میں کامیاب رہے ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے زمینداروں سے بھرے پرے پاکستان میں، کئی جاگیر
ہماری ریاست کی قومی تحریک قدرتی طورپر سیکولر جمہوریت کے ان اصولوں کی جانب گامزن ہوتی ہے۔ یہاں کے عوام قطعی ایسے اصول کو قبول نہیں کرےںگے، جو ایک مذہب یا سماجی گروپ کے مفاد پر دوسرے کی ہمدردی کرے۔ سیاسی اصولوں میں یہ لگاؤ اور ساتھ ہی ماضی کے تعلقات اور آزادی کے راستے میں یکساں طورپر تکالیف برداشت کرنا اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت ان پر خاص غورکرنا چاہیے۔ ہم اس ریاست کے عوام کے اقتصادی مفاد کے لیے بھی فکر مند ہیں۔ جیساکہ میں نے پہلے آئین کے قیام کے وقت کہا کہ سیاسی معیار اکثر بے معنی ہیں ، اگر اقتصادی منصوبوں سے جڑے ہوئے نہ ہوں۔ ایک ریاست کے طورپر ہم صرف کاشت کاری اور تجارت کے لیے فکر مند ہیں۔ جیساکہ آپ سبھی جانتے ہیں اور جس کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے ک
ہداری مراعات کے ساتھ ہماری اقتصادی اصلاحات کو وہ برداشت کرپاتے۔ ہم نے یہ خبریں بھی سنی ہیں کہ زمین سے جڑی ہماری اصلاحات ہماری ریاست کے دشمن کے قبضے والے حصہ تک پہنچ گئی ہیں جو ایک حد تک اس کے فائدوں کو فضول سمجھتے ہیں۔ دوسرے مقام پر ہماری اقتصادی فلاح ہمارے آرٹ اور دستکاری میں ہے اور ان اشیا کا جن کے لیے ہم پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں روایتی بازار ہندوستان پر مرکوز ہے۔ ہماری تجارت کے بڑے فوائد، کچھ سال بے دخلی کے باوجود اس کوظاہرکرتے ہےں۔ انڈسٹریز بھی ہمارے لیے کافی اہم ہےں۔ ہم معدنیات اور انڈسٹری کے خام مال کے معاملے میںخود کفیل ہیں۔ ہمیں اپنے وسائل کی ترقی کے لیے مدد چاہیے۔ پاکستان کے مقابلے ہندوستان زیادہ بڑاصنعتی ملک ہے اور وہ ہم کو اوزار، تکنیکی سروس اور دوسری اشیا دے سکتا ہے۔ مارکیٹنگ میں بھی وہ ہماری مدد کرسکتا ہے۔ کئی اشیا جو عملی طورپر ہمارے لیے تیار کرنا مشکل ہوگاجیسے شکر، روٹی، کپڑا اور دوسری ضروری اشیا بڑی مقدار میں ہندوستان سے حاصل کی جاسکتی ہےں۔ ہمارے عوام کا معیار زندگی ضروری اشیا کی بہتر سپلائی پرمنحصر ہوگا۔ اب میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کے مبینہ نقصانات بیان کروں گا۔
پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور پہلو پر غور کرنا ہوگا۔ ہندوستان کے اندر کئی طاقتیں ایسی ہیں جو اس بات کی کوشش کررہی ہیں کہ اسے مذہبی ملک میں تبدیل کردیا جائے، ایسے میں مسلمانوں کے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے۔ یہ تب ممکن ہوگا جب ایک فرقہ پرست تنظیم کا حکومت میں مؤثر کردار ہو۔ کانگریس نے سبھی قوموں کے لوگوں کی برابری کے معیار کو مذہبی رواداری پر قائم کیا ہے۔ کشمیر کا ہندوستان سے لگاتار الحاق اس طاقت کو ناکام کرنے میں مدد کرے گا۔ میرے چار سال کے تجربے کے بعدیہ میرا فیصلہ ہے کہ ہندوستان یونین میں کشمیر کی موجودگی سے ہندوستان میں ہندو اور مسلمانوں کے آپسی رشتوں کے قیام میں اہم کردار ادا ہو گا۔ گاندھی جی غلط نہیں تھے جب اپنے آخری وقت سے پہلے انہوں نے یہ الفاظ ادا کیے جس کے معنی ہیں ’’میں نے اپنی آنکھوں کو پہاڑوں کی جانب اٹھادیا جہاں سے کبھی مجھے مدد آتی تھی۔‘‘ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ الحاق کے سوال پر ہمیں کھلے دماغ سے غور کرنا چاہیے اور پہلے سے قائم کسی رائے کو ہوشمندی کے ساتھ لئے جانے والے فیصلے کے راستے میں نہیں آنے دینا چاہیے۔ اب میں آپ سبھی کوپاکستان کے ساتھ الحاق کے متبادل پر غور کرنے کے
حالانکہ ہندوستان اور کشمیر کی سرحد ایک ہے۔ ہر موسم میں بذریعہ سڑک ہندوستان کے ساتھ رابطہ نہیں ہے جیسا کہ پاکستان کے ساتھ ہے۔ اس سے کاروبار اور تجارت پر برفیلی سردی کے موسم میں کچھ حد تک منفی اثر پڑے گا، لیکن ہم نے اس مسئلہ پر غور کیا ہے۔ جدید انجینئرنگ میں ترقی کے ساتھ اگر ریاست سبھی موسموں میں ہندوستان کے رابطے میں رہنا چاہے تو یہ ممکن بھی ہے اور قابل عمل بھی ۔ اسی لیے ریاست کی ندیوں کے راستے لکڑیوں کی ڈھلائی (لانے لے جانے) میں اگر ہم ہندوستان سے منھ موڑلیں تو یہ ممکن نہیں سوائے جموں کے جہاں چناب ندی لکڑی کے بڑے لٹھے میدانی علاقوں تک لے جاتی ہے۔ اس دلیل کے جواب میں ایسا کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق میں ہمارے جنگلی وسائل صنعتی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ خام لکڑی ہی نہیں تیار مال جو نہ صرف ہمارے بڑھئی اور مزدوروں کو روزگار دے گا بلکہ اسے ہندوستان میں برآمدات کے طورپر روانہ کیا جاسکتا ہے جہاں اس کے لیے بازار ہے۔ حقیقت میں ٹرکوں کے قافلے کے ذریعہ جانے والی لکڑیوں کے مقابلے ندیوں کے ذریعہ روانہ کرنے کا طریقہ قدیم ہے اور اس طرح بھیجنے میں تقریباً 20تا 30فیصد کا نقصان اٹھان
الئے مدعو کروں گا۔ s پاکستان کے بارے میں جو سب سے زیادہ مضبوط رائے دی جاسکتی ہے، وہ یہ کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے اور ہماری ریاست کی اکثریت بھی مسلمان ہے، اس لئے ہمیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہیے۔مسلم ملک ہونے کا یہ دعویٰ صرف ایک فریب ہے۔ یہ ایک پردہ ہے جو عام آدمی کو فریب دینے کے لئے ہے تا کہ وہ واضح طور پر یہ نہ دیکھ سکے کہ پاکستان ایک جاگیر دارانہ نظام والا ملک ہے، جہاں ایک گروپ ایسے طریق کارکو اقتدار میں بنے رہنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔اس کے علاوہ سوال یہ بھی ہے کہ مذہبی اپیل سے جذباتی اور غلط رخ پیدا ہو جاتا ہے۔ زندگی میں جذبات کی اپنی اہمیت ہے لیکن اکثریہ بے عقلی کے عمل کی جانب لے جاتی ہے۔کئی لوگوں کی دلیل ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے الحاق پر ہی ہمارا وجود منحصر ہے۔ حقائق نے اسے غلط ثابت کیاہے ۔صحیح فکر والے لوگ اس بات کو جان لیں گے کہ پاکستان اس برعظیم کے تمام مسلمانوں کے لئے منظم اتحاد(rganic unity) نہیں ہے ۔اس کے بر خلاف ہندوستانی مسلمانوں میں انتشار پیدا کیا، جن کے مفاد کے لئے اس کو قائم کرنے کا دعویٰ کیا گیاتھا۔ایک ہزار میل کی آپسی دوری پر دوپاکستان ہیں۔مغربی پاکستان جو ہماری ریاست کے ساتھ ساتھ ہے کی پوری آبادی حد سے حد 15ملین (ایک کروڑ0لاکھ)ہے۔ایک مسلمان دوسرے کے مقابلے اتنا ہی اچھا ہے تو کشمیری مسلمان اگر اس بات پر فکر مند ہیں تو انہیں ہندوستان میں رہ رہے 40ملین (کروڑ)مسلمانوں کو منتخب کرنا چاہیے۔ اسمسئلے پر جدید سیاسی نقطہ نظر سے غور کرنے پر بھی پایاگیا ہے کہ صرف مذہبی قربت ملکوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد نہیں ہوتی ہے اور نہ ہونی چاہیے۔ہم کسی عیسائی بلاک،بدھوں کے بلاک یا مسلمانوں کے بلاک کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ پائے جس کے بارے میں پاکستان میں آج کل کافی بات چیت ہورہی ہے۔آج کل اقتصادی مفادات اور سیاسی معیار(آئیڈیلس)زیادہ موثر طریقہ سے ملکوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
کسی بھی شخص کا اعتماد نہیں ہوگا جو اپنے لوگوں کو بنیادی حقوق کی گارنٹی دینے میں ناکام رہا ہے ۔شہریت کے لئے خود فیصلہ کرنے کے حق سے برابر انکار کیا جاتا رہا ہے اور سامراجی حکومت کے خلاف ان حقوق کے لئے جن لوگوں نے جدوجہد کی تھی، انہیں طاقت کے زور پر دبایا جارہا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے بادشاہ خان اوران کے کامریڈوں نے آزادی کے لئے اپنا سب کچھ ترک کردیا تھا، ساتھ ہی بلوچستان میں خان عبدالصمد اور دوسرے جنگجوؤں نے بھی ۔ریاست میں ہماری قومی تحریک اس تحریک کوچھوڑ نہیںسکتی ہے کس
ہمیں ایک اور پہلو پر غور کرلینا چاہیے ۔ریاست اسے زیادہ اہم considerationطے کرتی ہے تو ان ایک ملین(0لاکھ) غیر مسلم عوام کا مستقبل ہماری ریاست میں کیا ہوگا؟جیسے آج کل کے حالات ہیں،اس میں ان کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔کوئی ایسا حل جس کے نتیجے میں اس طرح کی بڑی آبادی کی بے دخلی یا مکمل منتقلی کسی بھی طرح سے منصفانہ اور جائز نہیں ہوگی اور یہ اس ہاؤس کی ذمہ داری ہے کہ الحاق کے سلسلہ میں جو فیصلہ لینا ہے وہ کسی بھی مذہبی گروپ کے مفاد کے خلاف نہ ہونے کو یقینی بنائے۔ اقتصادی فائدے کے سلسلے میں جیسا کہ میں نے پہلے پاکستان کے ساتھ سڑک اور ندیوں کے تعلق کے بارے میں ذکر کیا ہے ۔آخری تجزیہ میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے ہم صرف عوام کی نقل وحرکت کے سبب فکر مند نہیں ہیں، بلکہ سامان اور بازاروں کو آپس میں جوڑنے کے معاملے میں بھی فکر مند ہیں۔پاکستان میں ہماری تیار کی ہوئی اشیا کے بازار کی کمی ہے، اس ضمن میں خود صنعتی اعتبار سے پسماندہ رہتے ہوئے کیا وہ ہماری مدد کرسکتا ہے ۔ اس کے منفی پہلوؤں میں اس کی سیاست کا reactionaryکردار اور ملک کی پالیسی کو ہمیںذہن میں رکھنا چاہیے۔پاکستان میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت کے کئی subjectsآج بھی تبدیل نہیں ہوئے ہیں اور وہ آج بھی بے یارو مدد گار ان کے ماتحت ہیں اور بے لگام قوتیں ان کی مالک ہیں، جس طرح ہم بھی یہاں مسائل سے دوچار ہیں۔یہ ہماری آزادی کی آرزو کے پوری طرح خلاف جاتا ہے۔ پاکستان کی پالیسیوں کو ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے میں ایک اور بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ وہاں کوئی آئین نہیں ہے ۔آج یہ جہاں موجود ہے یہ ملک ایک منفرد پوزیشن (حالت) میں ہے جہاں کسی باہری پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کی حکمرانی ہے اور جو مستقبل کی شہریت اور سماجی رشتے کی صورت کے بارے میں کوئی بھی خیال واضح نہیں کرتاہے۔ یہ دلیل دینا درست ہوگا کہ پاکستان کے بارے میں آزاد پسندی اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے
ی بھی بڑے فائدے کے لئے ہمارے عوام اس کو چھوڑ نہیں سکتے ہےں۔ تیسرا متبادل جو ہمارے لئے کھلاہے، اس پر بھی ابھی مباحثہ ہونا ہے۔ہمیں خود کو مشرقی سوئٹزرلینڈ بنانے کے متبادل پر غور کرنا چاہیے۔ دونوں ریاستوں سے فاصلہ بھی دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی۔یہ ہمیں دلچسپ لگ سکتا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ موجودہ تعطل کو ختم کردے گا۔ ایک سیاحتی ملک ہونے کے ناطے اس کے ہمیں کچھ واضح فائدے ہوسکتے ہیں لیکن آزادی پر غور کرتے وقت ہمیں عملی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پہلا، یہ کہ ایک چھوٹے ملک کا اپنی خود مختاری اور آزادی کا تحفظ کرپانا آسان نہیں ہے کیوں کہ ضروری تعداد کی عدم دستیابی میں کئی ممالک کے ساتھ طویل اور مشکل بھری سرحد کی حفاظت مشکل ہوگی۔دوسرے،ہمیں اپنے تمام پڑوسی ممالک کی خیر سگالی حاصل ہونی چاہیے۔کیا ہم ان میں طاقتور ضمانت دینے والے پاسکیں گے جو ہمیشہ حملے سے آزادی کو یقینی بناسکیں؟ میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ 15اگست سے 22اکتوبر 1947تک ہماری ریاست آزاد رہی اور ہماری کمزوری کا نتیجہ تھا کہ پڑوسی نے حملہ کے ذریعہ استفادہ کیا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں ہم ایک بھی حملے کا شکار نہیں ہوںگے۔ اب میں نے تینوں متبادل کے فائدے اور نقصانات آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔ اسمبلی میں موجود باشعور اورقوم پرست لوگوں کےلئے ہمارے قومی مفاد میں ان بنیادوں پر موازنہ کرنا کوئی مشکل نہیں ہونا چاہےے تاکہ ملک کے مستقبل کی بہبودی کا اعلان کریں۔

No comments: