Monday, July 12, 2010

13

جولائی کشمیر کی تاریخ کا ایک یادگار دن

عزیز برنی

13
جولائی کا دن کشمیر کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن کو یوم شہادت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دن کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس آزادی کا مطلب وہ نہیں ہے، جو آج کی صورتحال میں نظر آتا ہے۔ یہ جدوجہد آزادی 1931میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے ظلم و زیادتی کے خلاف تھی۔ کشمیر کی تاریخ میں اسے جلیاںوالا باغ کی نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے، اس لےے کہ جب کشمیری مظاہرین عبدالقیوم کی رہائی کے لےے جیل کے دروازے کے سامنے مظاہرے کررہے تھے تو کشمیر کے گورنررائے زادہ چاندRay Zada Chand) نے اپنے پولس اہلکاروں کو مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا، جس کے نتیجہ میں 22مظاہرین شہید ہوئے، لہٰذا اسی کی مناسبت سے 13جولائی کو کشمیری عوام ’یوم شہادت‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
عبدالقیوم کا تعلق اترپردیش کے شہر رائے بریلی سے تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عبدالقیوم سری نگر کے ہی باشندے تھے اور کچھ کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق افغانستان سے تھا۔ لیکن اس وقت موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ عبدالقیوم کا تعلق افغانستان سے تھا، سری نگر سے یا رائے بریلی سے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ جس وقت کشمیری عوام مہاراجہ ہری سنگھ کی مسلم مخالف پالیسی سے عاجز آچکے تھے اور ان کی ڈوگرا حکومت کے خلاف آواز بلند کررہے تھے، تب اچانک ایک درازقد، گورے رنگ کا شخص جس کی آواز شیر کی دہاڑ جیسی تھی، مائک پر نمودار ہوا اور اس نے کشمیریوں کو ڈوگرا حکومت کی زیادتیوں سے نجات دلانے کے لےے پرزورتقریر کی۔ اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر آپ کے پاس ریاستی ظلم کا جواب دینے کے لےے ہتھیار نہیں ہیں تو ڈنڈوں اور پتھروں کا استعمال کرو۔ یہی وہ پہلا موقع تھا، جب اپنے دفاع میں ہتھیاربند فوج کے جواب میں کشمیری عوام نے اپنے ہتھیار کے طور پر ڈنڈوں اور پتھروں کے استعمال کی شروعات کی۔
13جولائی کا ضمناً ذکر مجھے آج کی تاریخ کی مناسبت سے کرنا پڑا اور اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ریاست میں فوجوں کو برقرار رکھنے یا ان کی واپسی کے لےے 13جولائی کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنے کے لےے کہا ہے۔ یعنی ریاست کے وزیراعلیٰ بھی محسوس کرتے ہیں کہ کشمیریوں کے لحاظ سے یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بہرحال میں اپنے مسلسل مضمون میں گزشتہ چند روز سے ذکر کررہا تھا امرناتھ یاترا اور اس کے پیچھے چھپی ممکنہ سیاست کا۔ ممکن ہے میری باتوں میں بعض افراد کو یکطرفہ سوچ نظر آتی ہو، لہٰذا آج میں اپنے مضمون میں پروفیسر رام پنیانی کی تحریر کے چند اہم تراشے شامل اشاعت کرنے جارہا ہوں۔ قبل اس کے کہ میں ان کے مضمون کا حوالہ پیش کروں، ضروری سمجھتا ہوں کہ چند جملوں میں محترم رام پنیانی کی شخصیت بھی قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائے۔
پروفیسر رام پنیانی ممبئی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بایومیڈیکل انجینئرنگ کے پروفیسر کے عہدے سے 6برس قبل رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لے کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لےے کام کررہے ہیں۔ گزشتہ تقریباً0برس سے حقوق انسانی کے لےے سرگرم ہیں۔ ہندوستان میں بنیادپرستی اور فاشزم کے خلاف مسلسل لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ متعدد سماجی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ 2002میں امریکہ کی مہاراشٹر فائونڈیشن سے سیاسی بیداری اور فرقہ پرستی کے خطرات سے واقف کرانے کے لےے ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ 2004میں ایسوسی ایشن آف کمیونل ہارمونی ان ایشیااور007میں صدرجمہوریہ کے ہاتھوں بھی نیشنل کمیونل ہارمونی ایوارڈ سے آپ کو نوازا گیا تھا۔ 2006میں اندراگاندھی نیشنل انٹی گیشن ایوارڈ سے بھی آپ کو سرفراز کیا گیا۔
آپ کے تعارف کی ایک ہلکی سی جھلک اس لےے کہ میرے اندازفکر پر تنقیدی ذہن رکھنے والے یہ سمجھ سکیں کہ سچائی کی آواز بلند کرنے میں ہمارے ہم وطن بھائی بھی پیچھے نہیں رہے ہیں اور ان کا قد نظرانداز کئے جانے کے لائق بھی نہیں ہے۔
اب امرناتھ یاترا کے حوالہ سے پروفیسر رام پنیانی کی خصوصی تحریر کے چند اہم تراشے۔
امرناتھ یاترا، کشمیر گھاٹی کی اہم مذہبی، ثقافتی، سیاحتی سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔ اس یاترا کی تمام تر ذمہ داریاں مقامی شہریوں کے ذریعہ نبھائی جاتی رہی ہیں، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ 2001میں شری امرناتھ شرائن بورڈ کے تشکیل دئے جانے سے پہلے تک تمام انتظامات انہیں کی معرفت انجام دئے جاتے رہے ہیں اور بخوبی کےے جاتے رہے ہیں، لیکن بورڈ کی تشکیل کے بعد تمام ذمہ داریاں شرائن بورڈ کے حوالہ کردی گئیں۔ بورڈ کے صدر، ریاست کے گورنر بنائے گئے اور ان کے پرنسپل سکریٹری انتظامی افسر یعنی سی ای اوCEO)۔
آہستہ آہستہ بورڈ اپنے دائرۂ اختیار کو وسیع کرتا گیا اور وہ کام بھی انجام دینے لگا جو اس کے اختیار میں نہیں تھے، کیوں کہ بورڈ کے صدر خود ریاست کے گورنر تھے، لہٰذا کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ بورڈ نے پہلگام گولف کورس پر بھی تعمیر کا کام کرڈالا۔ 2005میں قانون کے خلاف بورڈ نے یاتریوں کو جنگلات کی زمین کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اس میں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ بورڈکی اس غیرقانونی مانگ کو منظوری دینے والی جنگلات کی آفیسر بورڈ کے سی ای او کی اہلیہ تھیں۔ اس اجازت سے اس عمل کی شروعات ہوئی، جس کے تکلیف دہ نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ ریاستی حکومت نے شروع میں محکمہ جنگلات کے اس فیصلہ کو غلط ٹھہرایا، لیکن ہائی کورٹ نے سرکار کے فیصلہ پر روک لگادی۔ اس کے بعد ریاستی سرکار دباؤ میں آگئی اور اس نے مذکورہ زمین بورڈکی تحویل میں دے دی، جسے بعد میں رد کردیا گیا۔
یہ معلومات انتہائی اہم اور قابل غور ہےں کہ امرناتھ یاترا ہمارے مذہب کی دیگر مذہبی رسومات کی طرح بھارت کی ملی جلی تہذیب کی مظہر ہے۔ امرناتھ گپھا کی کھوج 1850میں ایک مسلم چرواہے جس کا نام ملک تھا، نے کی تھی اور اس کے بعد سے ہی امرناتھ یاترا کا سلسلہ شروع ہوا۔ ملک خاندان کے افراد 2001تک اس یاترا کے انتظامات سے وابستہ رہے۔ اس یاترا کا نظام شرائن بورڈ کے ہاتھوں میں آنے کے بعد بورڈ نے پوری یاترا اور اس کے انتظام کو بھگوا رنگ میں رنگنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی اس یاترا کی ملک بھر میں تشہیر کی جانے لگی، جس کے نتیجہ میں تیرتھ یاتریوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ جہاں989تک یاتریوں کی تعداد 12ہزار تک محدود رہی، وہیں 2007میں 4لاکھ سے زیادہ عقیدتمندوں نے یاترا میں حصہ لیا۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ جہاں پہلے یہ یاترا سال کے صرف دو ہفتوں میں مکمل کی جاتی تھی، اب اس کی معیاد کو بڑھا کر دس ہفتے کردیا گیا۔ اس سب کا ماحولیات پر منفی اثر واضح طور پر دکھائی دینے لگا۔ سیکڑوں ٹن انسانی فضلا اور پلاسٹک و پولیتھین کے کچرے نے نزدیک کی خوبصورت’ لنڈرندی‘ کو ایک گندے نالے میں تبدیل کردیا۔ کچھ برس قبل ہی ماحولیات کی اس گندگی کی وجہ سے شیولنگ پگھلنے لگا، نتیجتاً اس پر سوکھی برف ڈال کر اس کے وجود کا تحفظ کیا گیا، تاکہ تیرتھ یاتریوں کے درشن کے لےے اسے بچایا جاسکے۔ غور طلب یہ بھی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک طرف تو ماحولیات کے تحفظ کے نام پر تیرتھ یاتریوں کی تعداد کو محدود رکھنے کی مانگ کررہی ہے، یعنی ایک دن میں50یاتری، وہیں دوسری طرف اس یاترا کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہورہا ہے، جس سے علاقہ کے ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات سامنے آئیں گے۔ لیکن ان تمام مدعوں سے بے خبر امرناتھ شرائن بورڈ یاتریوں کی تعداد بڑھانے اور اپنے دائرۂ اختیار کو مزید وسیع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ گورنر کے بورڈ کا صدر ہونے کافائدہ اٹھاکر شرائن بورڈ نے پہلگام ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعہ کئے جانے والے کاموں کو بھی خود ہی انجام دینا شروع کردیا ہے۔
شرائن بورڈ کو زمین الاٹ کرنے کے سرکاری فیصلہ سے پہلے ہی تناؤ اور دہشت کے حالات پیدا ہوگئے تھے، جس سے وادی کے مسلمانوں میں خوف کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی۔ انہیں یہ ڈر ستانے لگا کہ اس زمین پر ہندوؤں کو بسا کر وادی میں مسلم اکثریت کا تناسب بدلنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ اس ڈر کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ چند برس قبل اس وقت کے اسرائیلی وزیرخارجہ شمعون پیرس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی کو کھلے طور پر ایسا کرنے کی صلاح دی تھی۔ واضح ہو کہ ان دنوں اڈوانی ملک کے وزیرداخلہ تھے۔
{یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ کشمیر جو ہندوستانی تہذیب و تمدن کا مرکز رہاہے، آج اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ کشمیریت میں ویدوں کی اہمیت، صوفی سنتوں کی تعلیمات اور گوتم بدھ کے عدم تشدد کے فلسفے کمزور نظر آنے لگے ہیں۔ کشمیر0برس پہلے ہندوستان میں شمولیت کے لےے رضامند ہوا تھا۔ ان 60برسوں میں الحاق کے مسودے کی تمام شرطوں کی خلاف ورزی ہوئی۔ ہر مسئلہ کا حل فوج کے ذریعہ ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کتنا افسوسناک ہے کہ فوج جس کا کام ہمیں باہری دشمنوں سے بچانا ہے، کشمیر میں حکومت ہند کے قوانین کو لاگو کرنے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ ہمیں اس سوال پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
ملک میں کبھی بھی، کسی بھی مذہبی مقام کو محکمہ جنگلات کی زمین نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی کہیں مندروں کے ٹرسٹوں یا درگاہوں کے انتظامی بورڈ کا راج مندر یا درگاہوں کی حدود کے باہر چلنے دیا گیا ہے۔ امرناتھ شرائن بورڈ تو مانو امرناتھ یاترا کے پورے راستہ کو اپنی جاگیر سمجھنے لگا۔
پروفیسر رام پنیانی کے اس اہم مضمون کی آخری دو سطریں انتہائی اہم ہیں ’کشمیریت اگر واپس آئے گی تو اپنے ساتھ امن، اتحاد، سماجی، اقتصادی ترقی بھی لائے گی، لہٰذا کشمیریت کو واپس لانے کے لےے جو بھی ضروری ہو، کیا جانا چاہےے۔‘
امرناتھ یاترا کے تعلق سے میں جس سیاست کا ذکر کررہا تھا، اسے بہت واضح انداز میں تاریخی حوالوں کے ساتھ محترم رام پنیانی نے پیش کیا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو برس تک جس یاترا کا نظام اس مسلم چرواہے کا خاندان دیکھتا رہا، جس نے کہ اس کی کھوج کی تھی، یہ اپنے آپ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور کشمیری مسلمانوں کی اتحاد و اخوت پر مبنی سوچ کو سامنے رکھتا ہے۔ دوسری خاص بات یہ کہ989تک جہاں امرناتھ یاتریوں کی تعداد صرف 12ہزار تک تھی، وہ اب 4لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یعنی39برس تک تیرتھ یاتریوں کی تعداد 12ہزار تک محدود رہی، لیکن گزشتہ 20برسوں میں 34گنا بڑھ کر 4لاکھ سے زیادہ ہوگئی اور اس کی معیاد جو دو ہفتوں تک محدود تھی، اسے بھی 5گنا بڑھا کر0ہفتے کردیا گیا۔ اسے محض عقیدت سمجھا جائے یا سیاسی حکمت عملی، چونکہ ایسی ہی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہم 6دسمبر992کو بابری مسجد کی شہادت کی شکل میں دیکھ چکے ہیں، لہٰذا ایسی کسی بھی سیاسی سوچ کے خطرناک نتائج کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
محترم رام پنیانی کے اس مضمون میں اسرائیلی وزیرداخلہ شمعون پیرس کے ذریعہ اس وقت ہندوستان کے وزیرداخلہ لال کرشن اڈوانی کو دی گئی صلاح بھی قابل غور ہے، جس پر مسلمانوں کا فکرمند ہونا لازمی تھا اور لازمی ہے۔

No comments: