ریاست جموں و کشمیر کے چند انتہائی اہم دستاویزاس وقت میرے ہاتھوں میں ہیں، جن میں شامل ہے اس وقت ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ کا لارڈ مائونٹ بیٹن کو بحیثیت گورنر جنرل ہندوستان لکھا گیا وہ خط جس میں کشمیر کے ہنگامی حالات کا تذکرہ ہے۔ یہ خط 26اکتوبر947 کو لکھا گیا تھا، یعنی حصول آزادی کے دوماہ 12دن بعد۔ اب یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر مہاراجا ہری سنگھ کی پاکستان میں بات چیت محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خاں سے چل رہی تھی تو ہندوستان میں مہاتماگاندھی یا وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لعل نہرو سے کیوں نہیں۔ کیا آزادی کے بعد تقریباً ڈھائی مہینہ کا وقت گزر جانے پر بھی لارڈ مائونٹ بیٹن ہی اس قدر بااختیار تھے کہ ہندوستان سے مدد طلب کرنے کے لےے ایک ریاست کا مہاراجا نہ تو بابائے قوم آزادی کے مسیحا مہاتماگاندھی سے مدد طلب کرنے کو اتنی اہمیت دیتا ہے اور نہ پنڈت جواہر لعل نہرو سے، بہرحال ایسے تمام موضوعات پر گفتگو جاری رہے گی۔ اس کے علاوہ دیگر اہم دستاویز ہیں۔ شیخ محمد عبداللہ کے ذریعہ 5فروری948کو یونائٹیڈ نیشنس کی سکیوریٹی کونسل میٹنگ میں کی گئی تقریر کے اہم اقتباسات۔ ساتھ ہی یونائیٹڈنیشنس کمیشن برائے ہندوپاک کے ذریعہ 1948میں منظور قرارداد اور جموںوکشمیر کانسٹیٹیوٹ اسمبلی میں 5نومبر 1951 کو شیخ محمدعبداللہ کی ابتدائی تقریر کے اہم اقتباسات۔
9باری باری سے ہم ان تمام دستاویز اور ان سب کے علاوہ تاریخی اہمیت کی دیگر معلومات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے، تاکہ اس وقت کے حالات کو بخوبی سمجھا جاسکے اور آج جو صورتحال ہے اس کا جائزہ لیتے وقت یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تقسیم وطن کے فوراً بعد کے حالات کیا تھے، آج کی صورتحال کیا ہے اور اس کے لےے کون کتنا ذمہ دار ہے، لہٰذا اس کڑی میں پہلا اہم دستاویز جو ہم آج شامل اشاعت کرنے جارہے ہیں، وہ ہے مہاراجا ہری سنگھ کے ذریعہ لارڈ مائونٹ بیٹن کو لکھے گئے خط کا متن۔ ملاحظہ فرمائیں تاریخ کے اوراق میں درج یہ تحریر، پھر اس کے بعد ہماری تحریر۔
تاریخ:6اکتوبر 1947
میرے پیارے لارڈ مائونٹ بیٹن
مجھے عزت مآب کو یہ بتانا ہے کہ میری ریاست میں ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اورمیں آپ کی حکومت سے فوری مدد کی درخواست کرتا ہوں۔
جیسا کہ عزت مآب کو معلوم ہے کہ ریاست جموں وکشمیر ہندوستان یا پاکستان ڈومی نین (Dominion)میں شامل نہیں ہوا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے میری ریاست دونوں ڈومی نین سے منسلک ہے۔ دونوں کے ہی ساتھ اس کے اہم اقتصادی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ میری ریاست کی سرحد سوویت ریپبلک اور چین سے ملی ہوئی ہے۔ اپنے خارجی امور کے تعلقات میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ڈومی نین ان حقائق کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔
میں یہ طے کرنے کے لئے وقت چاہتا ہوں کہ مجھے کس ڈومی نین میں شامل ہونا چاہئے یا پھر کیا یہ دونوں ڈومی نین میری ریاست کے حق میں بہتر نہیں اور آزاد رہا جائے۔ یہ ضرور ہے کہ دونوں کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات بھی ہوں۔
اس سلسلے میں میں نے ہندوستان اور پاکستان ڈومی نین سے اپنی ریاست کے ساتھ توقف کے معاہدہ (Standstill agreement)کے لئے رابطہ کیا ہے۔ پاکستان حکومت نے اس معاہدہ کو قبول کرلیا ہے۔ ہندوستان ڈومی نین میری حکومت کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ اوپر ذکر کئے گئے حالات کے مد نظر میں بات چیت کے لئے نظم نہیں کرسکا ہوں۔ تاہم پاکستانی حکومت ریاست کے اندر پوسٹ اور ٹیلی گراف کے سسٹم کو چلا رہی ہے۔
حالانکہ ہم نے پاکستانی حکومت کے ساتھ توقف کا معاہدہ کیا ہے، حکومت نے میری ریاست کو کھانے کے سامان، نمک اور تیل کی سپلائی کو لگاتار کم کرنے کی بات کہی ہے۔
آفریدیوں، سادے لباس میں فوجی اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ لڑاکوں کو پہلے ریاست کے پنچھ میں دراندازی کی اجازت دی جاتی رہی پھر اس کے بعد سیالکوٹ اور آخر میں ہزاراضلع کے رام کوٹ سے منسلک علاقے میں۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ریاست کے بندوبست کے لئے محدود تعداد میں موجود فوج کو بکھیرنا پڑا ہے اور کئی مقامات پر ایک ساتھ دشمن سے سامنا کرنا پڑرہا ہے، ایسے میں ہلاکت اور لوٹ مار کو روک پانا مشکل ہورہا ہے۔ پورے سری نگر کو بجلی سپلائی کرنے والے ماہورا پاور ہائوس کو جلادیا گیاہے۔ اغوا اور زنا کی شکار خواتین کی تعداد سے میں بہت دلبراشتہ ہوں او ریہ طاقتیں میری ریاست کی موسم گرما کی راجدھانی سری نگر پر قبضہ کی نیت سے ریاست میں مارچ کررہی ہیں اور یہ پوری ریاست پر قبضہ کرنے کے لئے ابتدائی قدم کے طور پر ایسا کررہی ہیں۔
Wنارتھ ویسٹ فرنٹیر کے دور دراز علاقے سے بڑی تعداد میں قبائلی لوگوں کی ٹرکوں کے ذریعہ منشیرا مظفرآباد روڈ سے دراندازی ہورہی ہے اور جو جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ نارتھ ویسٹ فرنٹیر صوبہ کی عارضی حکومت اور پاکستانی حکومت کی جانکاری کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ میری حکومت کے ذریعہ کئی بار درخواست کئے جانے کے باوجود میری ریاست میں دراندازی روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان ریڈیو نے یہ خبر نشر کردی کہ کشمیر میں عارضی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ اس میں میری ریاست کے مسلمان یا غیر مسلمان دونوں نے کوئی بھی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
جس طرح کے حالات میری ریاست میں پیدا ہورہے ہیں اور جو ہنگامی صورت حال پہلے سے موجود ہے، ایسے میں ہندوستان ڈومی نین سے مدد مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ بغیر ہندوستان ڈومی نین میں میری ریاست کے شامل ہوئے ہمارے مطالبے پر وہ مدد روانہ نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لئے ہم نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، آپ کی حکومت کے ذریعہ قبول کرنے کے لئے الحاق کا فارمولہ (Instrument of Accession)منسلک کررہا ہوں۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ اپنی ریاست اور عوام کو آزاد فوجیوں کے حوالے چھوڑ دیا جائے۔ ان بنیادوں پر نہ کوئی حکومت موجود رہ سکتی ہے اور نہ ہی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ میں اس متبادل کو کسی بھی صورت میں ہونے نہیں دوں گا جب تک کہ میں ریاست کا حکمراں ہوں اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے میری زندگی ہے۔
میں عزت مآب کی حکومت کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ میری نیت ہے کہ فوراً ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لایاجائے اور میں شیخ عبداللہ کو کہوں کہ اس ہنگامی صورت میں وہ میرے وزیر اعظم کی ذمہ داری نبھائیں۔
اگر میری ریاست کو بچانا ہے تو سری نگر میں فوری مدد مہیا کرانا ضروری ہے۔ جناب مینن پورے حالات سے واقف ہیں، اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہوگی تو وہ ہم کریں گے۔
آپ کا خیر اندیشـہری سنگھ
بیحد ادب کے ساتھ
دی پیلیس، جموں
26اکتوبر947کو لکھے گئے اس خط سے صاف ظاہر ہے کہ 14اگست یا5اگست کو ریاست جموںوکشمیر کے عوام یا مہاراجا نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ انہیں پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے یا ہندوستان کے ساتھ۔ مہاراجا ہری سنگھ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی حتمی فیصلہ لینے کے لےے مزید وقت درکار ہے۔ وہ اس سلسلہ میں غوروفکر میں مصروف ہیں کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا جائے یا ہندوستان کے ساتھ یا پھر دونوں ہی ممالک سے بہتر رشتے بنائے رکھتے ہوئے ریاست جموںوکشمیر اپنے الگ آزادانہ وجود کے ساتھ رہے۔
بعد میں کس طرح تصویر بدلتی گئی، اس کا ذکر ہم آئندہ قسطوں میں کریں گے، لیکن جن ہنگامی حالات کا ذکر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو لکھے گئے اس خط میں مہاراجا ہری سنگھ نے کیا ہے، وہ ہنگامی حالات تھے کشمیر پر قبائلیوں کا حملہ، جس ایک واقعہ نے کشمیر کی صورتحال اور اندازفکر کو یکسر بدل ڈالا، وہ یہی قبائلیوں کا حملہ تھا۔ اس حملہ کی بنیاد کیا تھی، کس کی ایما پر، کن مقاصد کے پیش نظر یہ حملہ کیا گیا، یہ جاننے کے لےے ہمیں پھر 60-62برس پرانی تاریخ کے دامن میں جھانک کردیکھنا ہوگا، لیکن اتنا تو صاف ظاہر ہے کہ اس حملہ کے باوجود ریاست جموں وکشمیر کے مہاراجا ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت کا حتمی فیصلہ نہیں کرپائے تھے اور دونوں ممالک میں سےکسی سے بھی رشتوں میں اتنی کڑواہٹ نہیں تھی کہ گفت و شنید کا سلسلہ بند ہوگیا ہو۔ ریاست کے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش میں مہاراجا ہری سنگھ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ ہی رابطہ میں تھے اور یہ سلسلہ 26اکتوبر یعنی اس خط کے لکھے جانے کے بعد تک بھی جاری رہا۔ اپنی اس بات کی تصدیق کے لےے ہم مزید تاریخی دستاویز انشاء اللہ اپنی آئندہ قسطوں میں شامل اشاعت کریں گے۔
ہم کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے یا کسی نتیجہ کی طرف اشارہ کرنے سے قبل یہ فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ پہلے اس سلسلہ وار مضمون کی معرفت تمام تاریخی سچائیوں کا مطالعہ فرمائیں اور پھر نتیجہ اخذ کریں کہ آج کشمیر کی جو صورتحال ہے، جو خوف و دہشت کا عالم ہے، جو خون میں ڈوبی ہوئی جھیلیں ہیں، جو پہاڑوں سے اونچے انسانی لاشوں کے ڈھیر ہیں۔ جہاں اب فضائوں میں نغمے نہیں گونجتے، اب وہاں گولیوں اور بم دھماکوں کی آوازیں، انسانی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ آخر ان تباہ کن حالات کے لےے کون کتنا ذمہ دار ہے؟ یہ سارے کا سارا سچ آہستہ آہستہ ہر دن آپ کی نگاہوں کے سامنے آتا رہے گا، مگر ایک بات جو سبھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور جس پر بہت زیادہ بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کو دو قومی نظریہ کے تحت بتایا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ1برس سے اسی ایک بات کو تمام ذہنوں میں پیوست کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر عمل میں آئی۔ اگر یہی سچ تھا… اگر یہی سچ ہے… تو کشمیر کا سوال اور بھی پیچیدہ واہم ہوجاتا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں اس وقت بھی مسلمانوں کی اکثریت تھی اور آج بھی مسلمانوں کی اکثریت قائم ہے۔ 80فیصد مسلمانوں کی اکثریت والی ریاست نے بھی اگر مذہب کے نام پر بنے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا تو پھر یہ دعویٰ اپنے آپ میں کمزور ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کا بٹوارہ مذہبی بنیادوں پر ہوا تھا، اس لےے کہ ریاست جموںوکشمیر کی سرحدیں پاکستان سے ملتی تھیں، کوئی جغرافیائی دقت اس کے سامنے نہیں تھی اور اگر اس کی وجہ یہ مان لی جائے کہ بیشک اکثریت مسلمانوں کی تھی، مگر ریاست جموںوکشمیر کا نظام مہاراجا ہری سنگھ کے ماتحت تھا اور ان کی رائے پاکستان کے ساتھ شمولیت کے حق میں نہیں تھی، تب بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے، اس لےے کہ اگر بٹوارہ مذہبی بنیادوں پر تھا، ہندو، مسلم عوام کی خواہشات کے مطابق تھا تو راجاؤں، مہاراجاؤں یا نوابوںکا کوئی بھی فیصلہ حتمی فیصلہ نہیں ہوسکتا تھااور کیا ریاست کے مہاراجا کے اس فیصلہ کے خلاف ریاست کے عوام نے بغاوت کی، پاکستان کے ساتھ شامل ہونے پر زوردیا۔ ہم اس سلسلہ وار مضمون کی آئندہ قسطوں میں یہ بھی واضح کردیں گے کہ بالآخر یہ فیصلہ تو عوام کو ہی کرنا تھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور ان کی رائے کیا تھی……؟
9باری باری سے ہم ان تمام دستاویز اور ان سب کے علاوہ تاریخی اہمیت کی دیگر معلومات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے، تاکہ اس وقت کے حالات کو بخوبی سمجھا جاسکے اور آج جو صورتحال ہے اس کا جائزہ لیتے وقت یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تقسیم وطن کے فوراً بعد کے حالات کیا تھے، آج کی صورتحال کیا ہے اور اس کے لےے کون کتنا ذمہ دار ہے، لہٰذا اس کڑی میں پہلا اہم دستاویز جو ہم آج شامل اشاعت کرنے جارہے ہیں، وہ ہے مہاراجا ہری سنگھ کے ذریعہ لارڈ مائونٹ بیٹن کو لکھے گئے خط کا متن۔ ملاحظہ فرمائیں تاریخ کے اوراق میں درج یہ تحریر، پھر اس کے بعد ہماری تحریر۔
تاریخ:6اکتوبر 1947
میرے پیارے لارڈ مائونٹ بیٹن
مجھے عزت مآب کو یہ بتانا ہے کہ میری ریاست میں ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اورمیں آپ کی حکومت سے فوری مدد کی درخواست کرتا ہوں۔
جیسا کہ عزت مآب کو معلوم ہے کہ ریاست جموں وکشمیر ہندوستان یا پاکستان ڈومی نین (Dominion)میں شامل نہیں ہوا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے میری ریاست دونوں ڈومی نین سے منسلک ہے۔ دونوں کے ہی ساتھ اس کے اہم اقتصادی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ میری ریاست کی سرحد سوویت ریپبلک اور چین سے ملی ہوئی ہے۔ اپنے خارجی امور کے تعلقات میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ڈومی نین ان حقائق کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔
میں یہ طے کرنے کے لئے وقت چاہتا ہوں کہ مجھے کس ڈومی نین میں شامل ہونا چاہئے یا پھر کیا یہ دونوں ڈومی نین میری ریاست کے حق میں بہتر نہیں اور آزاد رہا جائے۔ یہ ضرور ہے کہ دونوں کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات بھی ہوں۔
اس سلسلے میں میں نے ہندوستان اور پاکستان ڈومی نین سے اپنی ریاست کے ساتھ توقف کے معاہدہ (Standstill agreement)کے لئے رابطہ کیا ہے۔ پاکستان حکومت نے اس معاہدہ کو قبول کرلیا ہے۔ ہندوستان ڈومی نین میری حکومت کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ اوپر ذکر کئے گئے حالات کے مد نظر میں بات چیت کے لئے نظم نہیں کرسکا ہوں۔ تاہم پاکستانی حکومت ریاست کے اندر پوسٹ اور ٹیلی گراف کے سسٹم کو چلا رہی ہے۔
حالانکہ ہم نے پاکستانی حکومت کے ساتھ توقف کا معاہدہ کیا ہے، حکومت نے میری ریاست کو کھانے کے سامان، نمک اور تیل کی سپلائی کو لگاتار کم کرنے کی بات کہی ہے۔
آفریدیوں، سادے لباس میں فوجی اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ لڑاکوں کو پہلے ریاست کے پنچھ میں دراندازی کی اجازت دی جاتی رہی پھر اس کے بعد سیالکوٹ اور آخر میں ہزاراضلع کے رام کوٹ سے منسلک علاقے میں۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ریاست کے بندوبست کے لئے محدود تعداد میں موجود فوج کو بکھیرنا پڑا ہے اور کئی مقامات پر ایک ساتھ دشمن سے سامنا کرنا پڑرہا ہے، ایسے میں ہلاکت اور لوٹ مار کو روک پانا مشکل ہورہا ہے۔ پورے سری نگر کو بجلی سپلائی کرنے والے ماہورا پاور ہائوس کو جلادیا گیاہے۔ اغوا اور زنا کی شکار خواتین کی تعداد سے میں بہت دلبراشتہ ہوں او ریہ طاقتیں میری ریاست کی موسم گرما کی راجدھانی سری نگر پر قبضہ کی نیت سے ریاست میں مارچ کررہی ہیں اور یہ پوری ریاست پر قبضہ کرنے کے لئے ابتدائی قدم کے طور پر ایسا کررہی ہیں۔
Wنارتھ ویسٹ فرنٹیر کے دور دراز علاقے سے بڑی تعداد میں قبائلی لوگوں کی ٹرکوں کے ذریعہ منشیرا مظفرآباد روڈ سے دراندازی ہورہی ہے اور جو جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ نارتھ ویسٹ فرنٹیر صوبہ کی عارضی حکومت اور پاکستانی حکومت کی جانکاری کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ میری حکومت کے ذریعہ کئی بار درخواست کئے جانے کے باوجود میری ریاست میں دراندازی روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان ریڈیو نے یہ خبر نشر کردی کہ کشمیر میں عارضی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ اس میں میری ریاست کے مسلمان یا غیر مسلمان دونوں نے کوئی بھی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
جس طرح کے حالات میری ریاست میں پیدا ہورہے ہیں اور جو ہنگامی صورت حال پہلے سے موجود ہے، ایسے میں ہندوستان ڈومی نین سے مدد مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ بغیر ہندوستان ڈومی نین میں میری ریاست کے شامل ہوئے ہمارے مطالبے پر وہ مدد روانہ نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لئے ہم نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، آپ کی حکومت کے ذریعہ قبول کرنے کے لئے الحاق کا فارمولہ (Instrument of Accession)منسلک کررہا ہوں۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ اپنی ریاست اور عوام کو آزاد فوجیوں کے حوالے چھوڑ دیا جائے۔ ان بنیادوں پر نہ کوئی حکومت موجود رہ سکتی ہے اور نہ ہی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ میں اس متبادل کو کسی بھی صورت میں ہونے نہیں دوں گا جب تک کہ میں ریاست کا حکمراں ہوں اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے میری زندگی ہے۔
میں عزت مآب کی حکومت کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ میری نیت ہے کہ فوراً ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لایاجائے اور میں شیخ عبداللہ کو کہوں کہ اس ہنگامی صورت میں وہ میرے وزیر اعظم کی ذمہ داری نبھائیں۔
اگر میری ریاست کو بچانا ہے تو سری نگر میں فوری مدد مہیا کرانا ضروری ہے۔ جناب مینن پورے حالات سے واقف ہیں، اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہوگی تو وہ ہم کریں گے۔
آپ کا خیر اندیشـہری سنگھ
بیحد ادب کے ساتھ
دی پیلیس، جموں
26اکتوبر947کو لکھے گئے اس خط سے صاف ظاہر ہے کہ 14اگست یا5اگست کو ریاست جموںوکشمیر کے عوام یا مہاراجا نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ انہیں پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے یا ہندوستان کے ساتھ۔ مہاراجا ہری سنگھ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی حتمی فیصلہ لینے کے لےے مزید وقت درکار ہے۔ وہ اس سلسلہ میں غوروفکر میں مصروف ہیں کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا جائے یا ہندوستان کے ساتھ یا پھر دونوں ہی ممالک سے بہتر رشتے بنائے رکھتے ہوئے ریاست جموںوکشمیر اپنے الگ آزادانہ وجود کے ساتھ رہے۔
بعد میں کس طرح تصویر بدلتی گئی، اس کا ذکر ہم آئندہ قسطوں میں کریں گے، لیکن جن ہنگامی حالات کا ذکر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو لکھے گئے اس خط میں مہاراجا ہری سنگھ نے کیا ہے، وہ ہنگامی حالات تھے کشمیر پر قبائلیوں کا حملہ، جس ایک واقعہ نے کشمیر کی صورتحال اور اندازفکر کو یکسر بدل ڈالا، وہ یہی قبائلیوں کا حملہ تھا۔ اس حملہ کی بنیاد کیا تھی، کس کی ایما پر، کن مقاصد کے پیش نظر یہ حملہ کیا گیا، یہ جاننے کے لےے ہمیں پھر 60-62برس پرانی تاریخ کے دامن میں جھانک کردیکھنا ہوگا، لیکن اتنا تو صاف ظاہر ہے کہ اس حملہ کے باوجود ریاست جموں وکشمیر کے مہاراجا ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت کا حتمی فیصلہ نہیں کرپائے تھے اور دونوں ممالک میں سےکسی سے بھی رشتوں میں اتنی کڑواہٹ نہیں تھی کہ گفت و شنید کا سلسلہ بند ہوگیا ہو۔ ریاست کے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش میں مہاراجا ہری سنگھ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ ہی رابطہ میں تھے اور یہ سلسلہ 26اکتوبر یعنی اس خط کے لکھے جانے کے بعد تک بھی جاری رہا۔ اپنی اس بات کی تصدیق کے لےے ہم مزید تاریخی دستاویز انشاء اللہ اپنی آئندہ قسطوں میں شامل اشاعت کریں گے۔
ہم کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے یا کسی نتیجہ کی طرف اشارہ کرنے سے قبل یہ فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ پہلے اس سلسلہ وار مضمون کی معرفت تمام تاریخی سچائیوں کا مطالعہ فرمائیں اور پھر نتیجہ اخذ کریں کہ آج کشمیر کی جو صورتحال ہے، جو خوف و دہشت کا عالم ہے، جو خون میں ڈوبی ہوئی جھیلیں ہیں، جو پہاڑوں سے اونچے انسانی لاشوں کے ڈھیر ہیں۔ جہاں اب فضائوں میں نغمے نہیں گونجتے، اب وہاں گولیوں اور بم دھماکوں کی آوازیں، انسانی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ آخر ان تباہ کن حالات کے لےے کون کتنا ذمہ دار ہے؟ یہ سارے کا سارا سچ آہستہ آہستہ ہر دن آپ کی نگاہوں کے سامنے آتا رہے گا، مگر ایک بات جو سبھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور جس پر بہت زیادہ بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کو دو قومی نظریہ کے تحت بتایا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ1برس سے اسی ایک بات کو تمام ذہنوں میں پیوست کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر عمل میں آئی۔ اگر یہی سچ تھا… اگر یہی سچ ہے… تو کشمیر کا سوال اور بھی پیچیدہ واہم ہوجاتا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں اس وقت بھی مسلمانوں کی اکثریت تھی اور آج بھی مسلمانوں کی اکثریت قائم ہے۔ 80فیصد مسلمانوں کی اکثریت والی ریاست نے بھی اگر مذہب کے نام پر بنے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا تو پھر یہ دعویٰ اپنے آپ میں کمزور ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کا بٹوارہ مذہبی بنیادوں پر ہوا تھا، اس لےے کہ ریاست جموںوکشمیر کی سرحدیں پاکستان سے ملتی تھیں، کوئی جغرافیائی دقت اس کے سامنے نہیں تھی اور اگر اس کی وجہ یہ مان لی جائے کہ بیشک اکثریت مسلمانوں کی تھی، مگر ریاست جموںوکشمیر کا نظام مہاراجا ہری سنگھ کے ماتحت تھا اور ان کی رائے پاکستان کے ساتھ شمولیت کے حق میں نہیں تھی، تب بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے، اس لےے کہ اگر بٹوارہ مذہبی بنیادوں پر تھا، ہندو، مسلم عوام کی خواہشات کے مطابق تھا تو راجاؤں، مہاراجاؤں یا نوابوںکا کوئی بھی فیصلہ حتمی فیصلہ نہیں ہوسکتا تھااور کیا ریاست کے مہاراجا کے اس فیصلہ کے خلاف ریاست کے عوام نے بغاوت کی، پاکستان کے ساتھ شامل ہونے پر زوردیا۔ ہم اس سلسلہ وار مضمون کی آئندہ قسطوں میں یہ بھی واضح کردیں گے کہ بالآخر یہ فیصلہ تو عوام کو ہی کرنا تھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور ان کی رائے کیا تھی……؟
No comments:
Post a Comment