یہ کیا ہوگیا ہے ہمیں؟
کیوں اس قدر بے حس ہوگئے ہیں ہم؟
کیا اخلاقیات اور قانون کے دائرے میں رہ کر بھی ہم حق اور انصاف کے لےے آواز بلند نہیں کرسکتے؟
کیوں ہمیں یہ انتظار رہتا ہے کہ جب تک یہ آگ ہماری دہلیز تک نہیں پہنچے گی، تب تک ہم خاموش ہی رہیں گے؟
کیا ہماری خاموشی ہمارا جرم نہیں ہے؟ کیا ہم اپنے اس عمل سے ظلم اور ناانصافی کی حمایت نہیں کررہے ہیں؟ دی گئیں، 4سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کے لےے مجبور کردیا گیا۔ پھر عدالت نے ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ مل پانے کی صورت میں انہیں باعزت بری کردیا۔ کیا عزت بازار میں ملنے والی کوئی شئے ہے کہ ہم نے جب چاہا چھین لی اور جب چاہا لوٹا دی؟ کیا یہ ایک جملہ کہ ’فلاں شخص کو عدالت نے باعزت بری کردیاہے‘ اس کے تمام زخموں پر مرہم لگادیتا ہے… وہ بھول جاتا ہے حراست کے دوران پولس مظالم کو… قید کے دوران جیل میں دی گئی اذیتوں کو… الزامات کے دوران معاشرے کی نفرت اور ذلت کو… برسوں لگتے ہیں معاشرے میں عزت کا مقام حاصل کرنے میں۔ پل بھر میں ذلت کا طوق گلے میں ڈال دینے والے کیا یہ نہیں جانتے؟ وہ سب جانتے ہیں۔ دراصل ذلت کی زندگی جینے کی عادت ڈال لینے کے لےے مجبور کردینے کی چال ہے یہ، ایک گہری سازش ہے، ایک مخصوص قوم کا حوصلہ توڑدینے کے لےے،جس طرح ملک کو آزادی سے ہمکنار کرنے والی قوم کے دامن پر تقسیم وطن کا داغ لگاکر اسے احساس جرم کے ساتھ جینے کو مجبور کردیا گیا تھا، پھر اس کے بعد فرقہ پرستی کا الزام لگاکر انہیں کی نظروں سے گرا دیا جو آزادی میں قدم قدم پر ساتھ تھے۔ نفرت کی دیواریں کھڑی کردیں، ان کے دلوں میں جو اس سرزمین امن کو محبت کا گلشن بنانے چلے تھے، نفرت کے شعلوں کے حوالے کردیا ان کے ارمانوں کو۔یہ بھی ایک سازش تھی، تاکہ یہ قوم سیاسی طاقت نہ بن سکے، وہ فرقہ پرستی کے الزام سے ڈرے رہیں اور ووٹ ڈالنے کے وقت جوش و خروش کے ساتھ گھروں سے نہ نکلیں، کسی کی کھل کر حمایت کرنے سے گریز کریں، ایسا چاہنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے مسلمانوں کی سیاسی دلچسپیاں کم ہوتی گئیں، نتیجہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کم ہوتی گئی۔ آسان نہیں ہے اس سیاست کے معمے کو سمجھنا۔ہماری کوشش ہے انہیں گتھیوں کو سلجھانے کی اور ان پیچیدگیوں کو آپ تک پہنچانے کی۔ آئےے! اب ذرا محترم مولانا نورالہدیٰ صاحب کے ساتھ ہوئے ظلم اور زیادتی پر بات کریں۔ کیا آپ کو لگتا ہے
ممبئی حج ہاؤس کے امام محترم جناب محمد یحییٰ صاحب کو دہشت گرد بتاکر اٹھا لیا گیا، تمام طرح کی اذیتیںجہازوں میں سفر کرنے والے ہندوستانی مسافروں کی زبان سے یہ جملہ پہلے کبھی نہیں نکلا ہوگا کہ اب جہاز اڑنے والا ہے… اتنی دیر میں جہاز اڑجائے گا… بس اب جہاز کے اڑنے کا انتظار ہے… اب دیکھو یہ جہاز کتنی دیر میں اڑتا ہے… کیا عام بول چال میں مسافر جہاز کی پرواز کے وقت اپنے عزیزواقارب سے گفتگو کرتے وقت اس طرح کے جملے استعمال نہیں کرتے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں ’وایویان وایومنڈل میں پرویش کرنے والا ہے‘، نہیں کبھی نہیں۔ مہینے میں 15دن جہاز میں سفر کرنے کا موقع رہتا ہے۔ میں نے کبھی نہیں سنا، ہاں انگریزی لفظ ’ٹیک آف‘ کا استعمال تو ہوتا ہے، مگر ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ایک ہندوستانی عام بول چال کی ہندی زبان میں بولے تو اسے دہشت گرد سمجھ لیا جائے۔ Nچلو ہوگئی غلطی، لفظ کو اس کے صحیح معنی میں نہ سمجھ پانے کی اور آپ نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے متعلقہ مسافر کے ہینڈبیگ کی تلاشی لے لی، موبائل فون ضبط کرلیا، مسافر کی ہر طرح سے جانچ پرکھ کرلی، لگیج اتروا کر چیک کرلیا، پاسپورٹ کی جانچ کرلی، کال ریسیو کرنے والے کو بلاکر تصدیق کرلی، مسافر کا بیک گرائونڈ جان لیا، اب سفر پر جانے کی اجازت کیوں نہیں؟ اب پولس کے حوالے کرنے کی وجہ؟ اب حراست میں رکھنے، ذلیل کرنے، ذہنی اذیت پہنچانے کی وجہ؟ اب دفعہـ41 کے تحت جیل بھیج دینے کی وجہ اور رہائی بھی ضمانت کی بنیاد پر، یعنی سر پر مقدمے کی ننگی تلوار ابھی بھی، ایسا کیوں؟
ذہنی وجسمانی (8گھنٹے کی قید) اذیت کا… کسے احساس ہے کہ یہ جرم نظرانداز کیا جاسکنے والا جرم نہیں ہے، بلکہ ہم سب کو ضرورت ہے حق اور انصاف کے لےے جدوجہد کرنے کی۔ اگر آپ کو یہ جانکاری نہیں ہے تو آئےے اب میں ذرا آپ سے ان مولانا کا تعارف کرادوں، ہوسکتا ہے کچھ لوگوں نے سمجھ لیا ہو کہ بس داڑھی ٹوپی اور کرتے کی وجہ سے لفظ مولانا کا استعمال کرلیا گیا ہے۔ تو جان لیجئے کہ مولانا نورالہدیٰ صاحب عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ تفسیر و حدیث مولانا عبدالرحیم بستوی کے فرزند ہیں، جن کا شمار برصغیر ہندوپاک کے بڑے علما میں ہوتا ہے۔ دنیاکے بیشتر ممالک میں ان کے متعدد تلامذہ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ ایک علمی خانوادہ کے سرپرست ہیں۔محترم مولانا نورالہدیٰ قاسمی صاحب (50)بھی تبلیغی اور اصلاحی مشن سے وابستہ ہیں اور وہ خود بھی فاضل دارالعلوم دیوبند نیز قاسمی نسبت کے حامل ہیں۔ 1980سے 1985تک مولانا نورالہدیٰ صاحب نے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی اور فراغت کے بعد خود کو درس وتدریس کے لئے وقف کردیا، اسی اثنا میں انہوں نے تین مدارس اسلامیہ قائم کئے۔ مولانا نے001میں مقام املہا ضلع بستی میں ’جامعہ رحیمیہ‘ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس میں حفظ قرآن کا معقول نظم ہے، ا
اگر شک کی وجہ معقول تھی تو مکمل تصدیق ہونے تک جہاز کو پرواز کی اجازت کیوں دی گئی؟ اگر محترم مولانا نورالہدیٰ صاحب کے اس جملہ کا مطلب یہی تھا کہ جہاز حادثہ کا شکار ہونے والا ہے تو کیا تمام مسافروں کو اتار کر جہاز کی تلاشی لی گئی۔ کیا ضروری ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد ایسا کرنے کا ارادہ رکھے تو وہ خطرناک اسلحہ یا ایسی ڈیوائسDevice) اپنے پاس ہی رکھے، جس کے ذریعہ وہ اپنے خطرناک منصوبے کو عمل میں لاسکتا ہو۔ اسے جہاز کے کسی بھی حصہ میں چھپا بھی تو سکتا ہے۔ شک مضبوط تھا تو جہاز کی مکمل تلاشی اور تکنیکی جانچ کیوں نہیں کی گئی؟ اگر یہ کہا کہ جہاز5منٹ میں اڑجائے گا اور اس کا یہ مطلب نکالا گیا کہ کسی دہشت گرد نے جہاز کو (بم سے یا تکنیکی خرابی پیدا کرکے) اڑانے کی تیاری کی ہے تو جہاز میں اس کے کسی اور ساتھی کی تلاش کیوں نہیں کی گئی؟ فون پر یہ تو نہیں کہا گیا تھا کہ میں 15منٹ میں جہاز کو اڑادوںگا۔ یہ جملہ خود جرم کرنے کی طرف اشارہ نہیں کرتا، اگر ہم اسے جرم کے معنوں میں ہی دیکھیں تو یہ کسی جرم کی جانکاری ہونے یا فراہم کرنے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوچا جانا بھی فطری تھا کہ دہشت گرد کا کوئی ساتھی ہے، جس نے ایسا کچھ کیا ہے، کیا ساتھی کی تلاش کی گئی؟ کیا ایسے تمام سوالوں کا جواب متعلقہ افسران سے طلب نہیں کرنا چاہےے؟ ضرور کرنا چاہےے، مگر کسے فکر ہے جناب! ایک مدرسے کے مولانا کی عزت آبرو اورس کے بعد 2009میں مولانا نے محلہ خانقاہ دیوبند میں دارالعلوم فاروقیہ قائم کیا، اس میں عربی دوم تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تیسرا مدرسہ انہوں نے ضلع سنت کبیر نگر کے شہر دریاباد میں جامعہ عربیہ عمر فاروق کے نام پر قائم کیا۔ ان مدارس کی کفالت چندہ پر منحصر ہے۔ حکومت سے یہ مدارس کوئی مدد قبول نہیں کرتے۔ مولانا نورالہدیٰ قاسمی صاحب کم وبیش 9-10بار برطانیہ وغیرہ کا سفر کرچکے ہیں۔ وہاں مولانا اصلاح وتبلیغ کے مشن پر جاتے ہیں اور برطانیہ کے مسلمانوں میں بڑے مشہور ہیں۔ اس وقت بھی مولانا نورالہدیٰ قاسمی صاحب دبئی ہوتے ہوئے برطانیہ کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ مورخہ 12-05-10کو امارات کی فلائٹ سے روانگی کے وقت دہلی اندراگاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر جہاز میں سوار ہونے کے بعد ان کے ساتھ یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، جس کی تفصیل ہم اپنی گزشتہ اشاعتوں میں پیش کرچکے ہیں، لہٰذا اس افسوسناک واقعہ کو پھر سے دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قبل اس کے کہ میں آج کا مضمون ختم کروں، ضروری لگتا ہے کہ اب ایک سوال ہم سب اپنے آپ سے بھی کریں کہ وہ شخص جو معاشرے کو بہتر تعلیم سے آراستہ کررہا ہے، وہ شخص جو ہماری آنے والی نسلوں کو علم دین سے فیضیاب کررہا ہے، وہ شخص جو ہماری آخرت سنوارنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، اگر ہمیں اس کی عزت اور احترام کی پروا نہیں ہے، اگر ہمیں ایک بے گناہ سے گنہگاروں جیسا سلوک کےے جانے کی پروا نہیں ہے تو پھر مجھے معاف فرمائیں کہ میں لال کرشن اڈوانی کی مثال سامنے رکھوں، جو شہید ہیمنت کرکرے کی تفتیش میں سامنے آجانے پر بھی سادھوی پرگیہ سنگھ کی حمایت میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک پہنچے۔ کیا ہم اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اسی لےے بھیجتے ہیں کہ وہ اس درجہ بے حسی اختیار کرلیں کہ صاف ظلم اور ناانصافی ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں اور چپ رہیں۔ شاید اب وقت آگیا ہے، ان سب سے جواب طلب کرنے کا، ورنہ یہ بے حسی جو آج ہمیں بے ضمیر بنارہی ہے، کل ہم سے ہماری شناخت بھی چھین لے گی۔ ……………
2 comments:
Hon'ble Sir,
Assalam Va Alaikum
Aapke Sawalat Bilkul Sahih Hain. Sirf Baal Thakceray Hi Nahin, In Ki Jamaat Ke Kai Saare Afraad Ki Giraftari Na To Kabhi Hui Hai Aur Na Hone Ki Koi Umeed Hai. Giraftari Talti Rehti Hai, Ya Phir Un Logon Ke Ghar Par Giraftari Va Rihaai Ka Naatak Khela Jata Hai. David Headly Aur Ken Heywood Jaise Shaatir Mujrim Saaf Taur Se Bach Nikalte Hain Aur Masoomon Ki Pakad Badi Aasani Se Ho Jaati Hai. Isiliye Hindustan Ki Jailen Hamare Kai Masoom Bhaiyon Se Bhari Padi Hain. Jab Aalami Shohrat Yaafta Maulana Noorul Huda Sahab Ki Giraftari Aur Un Par Aayad Ki Gayi Dafa Par Zimmedaran Khamosh Hain To Kisi Aam “Noorul Bashar” Ki Giraftari Aur Qaid Par Yeh Log Bhala Kya Jaagenge???
hello... hapi blogging... have a nice day! just visiting here....
Post a Comment