شری شیش نرائن سنگھ جی بنیادی طور پر تاریخ کے طالب علم ہیں۔ شروع میں تاریخ کے استاد رہے، بعد میں صحافت کی دنیا میں آئے، پرنٹ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کام کیا۔ انہوں نے 1920سے 1947تک کی مہاتما گاندھی کی زندگی کے اس پہلو پر کام کیا ہے جس میں وہ ایک عظیم رابطہ کار کے طور پر نظر آتے ہیں۔ 1992سے اب تک تیزی سے بدل رہے سیاسی اطوار پر مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف میڈیا اداروں میں ملازمت کی۔ اب بنیادی طور پر لکھنے پڑھنے کے کام میں مصروف ہیں۔ ان کا یہ مضمون ’’ہماری آزادی کی وراثت کا مرکز ہے دیوبند‘‘ مجھے اتنا اچھا لگا کہ لکھتے لکھتے میرا قلم رک گیا اور دل چاہا کہ مجھے اس موضوع پر لکھنا تو ضرور ہے، لیکن آج تو اسی مضمون کو اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جانا چاہےے، کیوں کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں تقریباً وہی مجھ سے بہتر انداز میں شری شیش نارائن جی نے لکھا ہے۔ اب رہا سوال میرے لکھنے کا تو وہ آج کے بعد سہی، لہٰذا پیش خدمت ہے مولانا نورالہدیٰ صاحب کی گرفتاری پر لکھا گیا ان کا یہ تاریخی مضمون:
دارالعلوم دیوبند کو دشمن کی طرح پیش کرنے والے فرقہ پرست ہندوئوں کو یہ بتادینے کی ضرورت ہے کہ جب بھی انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوئی دیوبند کے طلبا اور اساتذہ ہمیشہ سب سے آگے تھے۔ ان لوگوں کو یہ بھی بتادینے کی ضرورت ہے کہ دیوبند کے مدرسے کا قیام بھی ان لوگوں نے کیا تھا جو 1857کی پہلی جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔
حال ہی میں دیوبند کے مولانا نورالہدیٰ کو دہلی کے ہوائی اڈے پر گرفتار کرلیا گیا ان کے خلاف دفعہ 341کے تحت چارج شیٹ داخل کی گئی اور انہیں دہلی کی ایک عدالت سے ضمانت لینی پڑی۔ وہ جیل سے تو باہر آگئے ہیں لیکن ابھی مقدمہ ختم نہیں ہوا ہے۔ ان پر ابھی مقدمہ چلے گااور عدالت نے انہیں بے قصور پایا تو ان کو بری کردیا جائے گا، ورنہ ان کو جیل کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے بھائی کا الزام ہے کہ یہ سب داڑھی ، کرتا اور پائجامہ کی وجہ سے ہوا ہے، یعنی مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں پریشان کیا جارہا ہے۔
Nہوا یہ کہ مولانا نورالہدیٰ دہلی سے لندن جارہے تھے، جب وہ جہاز میں بیٹھ گئے تو کسی رشتہ دار کا فون آیا تو انہوں نے اپنی خیریت بتائی اور کہا کہ جہاز اڑنے والا ہے اور ہم بھی اڑنے والے ہیں۔ کسی خاتون مسافر نے شور وغل مچایا اور کہا کہ یہ مولانا جہاز کو اڑا دینے کی بات کررہے ہیں۔ جہاز روکا گیا اور مولانا نورالہدیٰ کو گرفتار کرلیا گیا، پوچھ گچھ ہوئی اور پولس نے تسلیم کیا کہ بات سمجھنے میں خاتون مسافر نے غلطی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولس یہ پتہ لگالیا تھا کہ خاتون کی بے وقوفی کی وجہ سے مولانا نورالہدیٰ کو حراست میں لیا گیا تھا تو مقدمہ ختم کیوں نہیں کردیا گیا ۔ ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کرکے پولس نے ان کے شہری حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کے جمہوری حقوق کی بے حرمتی کی ہے۔ اس کے لئے پولس کو معافی مانگنی چاہئے، اگر معافی نہ مانگے تو مہذب معاشرے کو چاہئے کہ وہ پولس پر مقدمہ دائر کرے اور اسے عدالت کے ذریعہ سزا دلوائے۔پولس کو جب معلوم ہوگیا تھا کہ خاتون کا الزام غلط ہے تو مولانا کے خلاف دفعہ 341کے تحت مقدمہ چلانے کی کارروائی کیوں شروع کی؟ اس دفعہ میں اگر الزام ثابت ہوجائے تو تین سال کی قید با مشقت کا ضابطہ ہے۔ اتنی سخت سزا کی سفارش کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت انتظامی اور قانونی کارروائی کی جانی چاہئے۔ معاملہ مزید سنگین ہوجاتا ہے کیونکہ جانچ کے دوران ہی پولس کو معلوم ہوگیا تھا کہ الزام عائد کرنے والی خاتون جھوٹ بول رہی تھی۔ اس معاملے میں مولانا نورالہدیٰ، ان کے اہل خاندان اور دوستوں کو جو ذہنی اذیت جھیلنی پڑی ہے، حکومت کو چاہئے کہ اس کے لئے متعلقہ ایئر لائن، جھوٹ بولنے والی خاتون، دہلی پولس اور تفتیش کرنے والے افسران کے خلاف مقدمہ چلائے اور مولانا کو معاوضہ د لوائے۔ اس معاملے میں مولانا نورالہدیٰ کو ذہنی تکلیف پہنچاکر تمام متعلقہ فریقین نے ان کی توہین کی ہے۔
دراصل دیوبند کا دارالعلوم عالمی شہرت یافتہ مذہبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری آزادی کی لڑائی کی سب سے اہم وراثت بھی ہے۔ہندو مسلم اتحاد کا جو پیغام مہاتما گاندھی نے دیا تھا، دارالعلوم سے اس کی حمایت میں سب سے زور دار آواز اٹھی تھی۔ 1930میں جب الہ آباد میں ہوئی مسلم لیگ کی کانفرنس میں ڈاکٹر محمد اقبال نے علیحدہ مسلم اسٹیٹ کی بات کی تو دارالعلوم کے معروف قانون داں مولانا حسین احمد مدنی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان کی ترغیب سے ہی بڑی تعداد میں مسلمانوں نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں نمک ستیہ گرہ میں حصہ لیا تھا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 12ہزار مسلمانوں نے نمک ستیہ گرہ کے دوران گرفتاری دی تھی۔ دارالعلوم کے دانشوروں کی قیادت میں چلنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند آزادی کی لڑائی کے سب سے اگلے دستے کی قیادت کررہی تھی۔ آج کل لفظ دیوبند کا ذکر آتے ہی کچھ بیوقوف ترقی پسند لوگ اوٹ پٹانگ بیان دینے لگتے ہیں اور ایسا ماحول تیار کرتے ہیں گویا دیوبند سے متعلق ہر شخص انتہائی خطرناک ہوتا ہے اور بات بات پر بم چلادیتا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے وہاں کے فتوئوں پر بھی میڈیا کی ٹیڑھی نگاہیں ہیں۔ دیوبند کے دارالعلوم کے روزمرہ کے امور کو نیم خواندہ صحافی، فرقہ وارانہ چشمہ سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ 1857میں آزادی کی لڑائی میں قوم حاجی امداد اللہ کی قیادت میں متحد ہوئی تھی۔ وہ 1857میں مکہ چلے گئے تھے، ان کے دو اہم شاگردوں مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے دیوبند میں دارالعلوم قائم کرنے والوں کی رہنمائی کی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب یوروپی سامراجیت اپنی جڑیں مستحکم کررہی تھیں۔ افغانستان میں یوپی سامراجیت کی مخالفت سیدجلال الدین کررہے تھے،جب ہندوستان آئے تو دیوبند کے مدرسہ میں ان کا زبردست خیر مقدم ہوا اور انگریزوں کے اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کو مزید تقویت ملی۔ جب 1885میں کانگریس کی تشکیل ہوئی تو دارالعلوم کے سربراہ مولانا رشید احمد گنگوہی تھے۔ آپ نے فتویٰ دیا کہ شاہ عبدالعزیز کا فتویٰ ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے، اس لئے مسلمانوں کا فرض ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کریں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ہندوئوں کو ساتھ لے کر جدوجہد کرنا شرعی لحاظ سے بھی بالکل درست ہے۔ وہ ہندوستان کی مکمل آزادی کے حامی تھے۔ اس لئے انہوں نے کانگریس میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا، کیونکہ کانگریس 1885میں مکمل آزادی کی بات نہیں کررہی تھی، لیکن ان کی تحریک سے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے کانگریس کی رکنیت اختیار کی اور آزادی کی لڑائی میں شامل ہوگئے۔
3 تاریخ گواہ ہے کہ دیوبند کے علما فسادات کے دوران بھی ہندوستان کی آزادی اور قومی اتحاد کے سب سے بڑے حامی کے طور پر کھڑے رہتے تھے۔ دیوبند کے بڑے حامیوں میں مولانا شبلی نعمانی کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ ان کے کچھ اختلافات بھی تھے، لیکن آزادی کی لڑائی کے مسئلہ پر انہوں نے دیوبند کی پوری طرح سے تائید کی۔ سرسید احمد کی وفات تک وہ علی گڑھ میں استاد رہے لیکن انگریزی حکومت کے معاملے میں وہ سرسید سے مختلف رائے رکھتے تھے۔پروفیسر تارا چند نے اپنی کتاب ’ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی تاریخ‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دیوبند کے دارالعلوم نے ہر اس تحریک کی حمایت کی جو ہندوستان سے انگریزوں کو بھگانے کے لئے چلائی گئی تھی۔ 1857کے جن باغیوں نے دیوبند میں مذہبی مدرسہ قائم کیاان کے بنیادی مقاصد میں ہندوستان کی سرزمین سے محبت بھی تھی۔ کلام پاک اور حدیث کی تعلیم تو مدرسے کا بنیادی کام تھا لیکن انکے بنیادی اصولوں میں یہ بھی تھا کہ غیر ملکی اقتدار ختم کرنے کے لئے جہاد کے جذبہ کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔ آج کل لفظ جہاد کے بھی عجیب وغریب معنی بتائے جارہے ہیں۔ یہاں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوگا کہ 1857میں جن باغی فوجیوں نے انگریزوں کے خلاف سب کچھ دائو پر لگادیا تھا وہ سارے اپنے آپ کو جہادی ہی کہتے تھے۔یہ جہادی ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی اور سب کا مقصد ایک ہی تھا، غیر ملکی حکمرانوں کو شکست دینا۔
kمولانا رشید احمد گنگوہی کے بعد مولانا محمود الحسن دارالعلوم کے سربراہ بنے۔ ان کی زندگی کا مقصد ہی ہندوستان کی آزادی تھا۔ یہاں تک کہ کانگریس نے بعد میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں مکمل آزادی کا نعرہ دیا۔ لیکن مولانا محمود الحسن نے 1905میں ہی مکمل آزادی کے اپنے منصوبے پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان سے انگریزوں کو بھگانے کے لئے ایک مشن قائم کیا جس کا ہیڈکواٹر دیوبند میں بنایا گیا۔مشن کی شاخیں دہلی، دانا پور، امروٹ، کرنجی کھیڑہ وغیرہ میں بنائی گئیں۔اس میں بڑی تعداد میں مسلمان شامل ہوئے لیکن یہ سبھی مذاہب کے لئے کھلی تھیں۔ پنجاب کے سکھ اور بنگال کی انقلابی پارٹی کے اراکین بھی اس میں شامل ہوئے۔ مولانا محمود الحسن کے بعد دیوبند کی قیادت مولانا حسین احمد مدنی کے گاندھوں پر پڑی۔ انہوں نے بھی کانگریس، مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ مل کر ملک کے لئے جدوجہد کی۔ انہوں نے 1920میں کانگریس کی تحریک عدم تعاون کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی آخر تک حمایت کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی اختلافات کے باوجود تمام ہندوستانیوں کو ایک قوم کی شکل میں متحد رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا قیام جغرافیائی طریقہ سے کیا جانا چاہئے۔ مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ اپنی اس فکر کی وجہ سے ان کے بہت سے لوگوں خاص طور پر پاکستان کے حامیوں کی مخالفت جھیلنی پڑی لیکن مولانا صاحب اپنے فیصلہ پر قائم رہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے ان کے خلاف انتہائی زہریلی مہم شروع کی تو مولانا حسین احمد مدنی نے فارسی میں ایک شعر لکھ کر ان کو جواب دیا کہ عرب کے ریگستانوں میں گھومنے والے انسان جس راستہ پر آپ چل پڑے ہیں وہ آپ کو کعبہ شریف تو نہیں لے جائے گا، البتہ آپ انگلستان پہنچ جائیں گے۔ مولانا حسین احمد مدنی 1957تک رہے اور ہندوستان کے آئین میں بھی وسیع پیمانے پر ان کے مشوروں کو شامل کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے گزشتہ 150برسوںکی ہندوستان کی تاریخ میں دیوبند کا ایک اہم مقام ہے۔ ہندوستان کی شان کے لئے یہاں کے اساتذہ اور طلبا نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج لفظ دیوبند آتے ہی فرقہ پرستوں کے نمائندے اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی امور میں دنیا بھر معروف دیوبند کو ہندوستان کی آزادی میں ان کے سب سے اہم کردار کے لئے بھی یاد کیاجائے اور ان کے روزمرہ کے کاموں کو فرقہ واریت کے چشمہ سے نہ دیکھا جائے
دارالعلوم دیوبند کو دشمن کی طرح پیش کرنے والے فرقہ پرست ہندوئوں کو یہ بتادینے کی ضرورت ہے کہ جب بھی انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوئی دیوبند کے طلبا اور اساتذہ ہمیشہ سب سے آگے تھے۔ ان لوگوں کو یہ بھی بتادینے کی ضرورت ہے کہ دیوبند کے مدرسے کا قیام بھی ان لوگوں نے کیا تھا جو 1857کی پہلی جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔
حال ہی میں دیوبند کے مولانا نورالہدیٰ کو دہلی کے ہوائی اڈے پر گرفتار کرلیا گیا ان کے خلاف دفعہ 341کے تحت چارج شیٹ داخل کی گئی اور انہیں دہلی کی ایک عدالت سے ضمانت لینی پڑی۔ وہ جیل سے تو باہر آگئے ہیں لیکن ابھی مقدمہ ختم نہیں ہوا ہے۔ ان پر ابھی مقدمہ چلے گااور عدالت نے انہیں بے قصور پایا تو ان کو بری کردیا جائے گا، ورنہ ان کو جیل کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے بھائی کا الزام ہے کہ یہ سب داڑھی ، کرتا اور پائجامہ کی وجہ سے ہوا ہے، یعنی مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں پریشان کیا جارہا ہے۔
Nہوا یہ کہ مولانا نورالہدیٰ دہلی سے لندن جارہے تھے، جب وہ جہاز میں بیٹھ گئے تو کسی رشتہ دار کا فون آیا تو انہوں نے اپنی خیریت بتائی اور کہا کہ جہاز اڑنے والا ہے اور ہم بھی اڑنے والے ہیں۔ کسی خاتون مسافر نے شور وغل مچایا اور کہا کہ یہ مولانا جہاز کو اڑا دینے کی بات کررہے ہیں۔ جہاز روکا گیا اور مولانا نورالہدیٰ کو گرفتار کرلیا گیا، پوچھ گچھ ہوئی اور پولس نے تسلیم کیا کہ بات سمجھنے میں خاتون مسافر نے غلطی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولس یہ پتہ لگالیا تھا کہ خاتون کی بے وقوفی کی وجہ سے مولانا نورالہدیٰ کو حراست میں لیا گیا تھا تو مقدمہ ختم کیوں نہیں کردیا گیا ۔ ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کرکے پولس نے ان کے شہری حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کے جمہوری حقوق کی بے حرمتی کی ہے۔ اس کے لئے پولس کو معافی مانگنی چاہئے، اگر معافی نہ مانگے تو مہذب معاشرے کو چاہئے کہ وہ پولس پر مقدمہ دائر کرے اور اسے عدالت کے ذریعہ سزا دلوائے۔پولس کو جب معلوم ہوگیا تھا کہ خاتون کا الزام غلط ہے تو مولانا کے خلاف دفعہ 341کے تحت مقدمہ چلانے کی کارروائی کیوں شروع کی؟ اس دفعہ میں اگر الزام ثابت ہوجائے تو تین سال کی قید با مشقت کا ضابطہ ہے۔ اتنی سخت سزا کی سفارش کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت انتظامی اور قانونی کارروائی کی جانی چاہئے۔ معاملہ مزید سنگین ہوجاتا ہے کیونکہ جانچ کے دوران ہی پولس کو معلوم ہوگیا تھا کہ الزام عائد کرنے والی خاتون جھوٹ بول رہی تھی۔ اس معاملے میں مولانا نورالہدیٰ، ان کے اہل خاندان اور دوستوں کو جو ذہنی اذیت جھیلنی پڑی ہے، حکومت کو چاہئے کہ اس کے لئے متعلقہ ایئر لائن، جھوٹ بولنے والی خاتون، دہلی پولس اور تفتیش کرنے والے افسران کے خلاف مقدمہ چلائے اور مولانا کو معاوضہ د لوائے۔ اس معاملے میں مولانا نورالہدیٰ کو ذہنی تکلیف پہنچاکر تمام متعلقہ فریقین نے ان کی توہین کی ہے۔
دراصل دیوبند کا دارالعلوم عالمی شہرت یافتہ مذہبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری آزادی کی لڑائی کی سب سے اہم وراثت بھی ہے۔ہندو مسلم اتحاد کا جو پیغام مہاتما گاندھی نے دیا تھا، دارالعلوم سے اس کی حمایت میں سب سے زور دار آواز اٹھی تھی۔ 1930میں جب الہ آباد میں ہوئی مسلم لیگ کی کانفرنس میں ڈاکٹر محمد اقبال نے علیحدہ مسلم اسٹیٹ کی بات کی تو دارالعلوم کے معروف قانون داں مولانا حسین احمد مدنی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان کی ترغیب سے ہی بڑی تعداد میں مسلمانوں نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں نمک ستیہ گرہ میں حصہ لیا تھا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 12ہزار مسلمانوں نے نمک ستیہ گرہ کے دوران گرفتاری دی تھی۔ دارالعلوم کے دانشوروں کی قیادت میں چلنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند آزادی کی لڑائی کے سب سے اگلے دستے کی قیادت کررہی تھی۔ آج کل لفظ دیوبند کا ذکر آتے ہی کچھ بیوقوف ترقی پسند لوگ اوٹ پٹانگ بیان دینے لگتے ہیں اور ایسا ماحول تیار کرتے ہیں گویا دیوبند سے متعلق ہر شخص انتہائی خطرناک ہوتا ہے اور بات بات پر بم چلادیتا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے وہاں کے فتوئوں پر بھی میڈیا کی ٹیڑھی نگاہیں ہیں۔ دیوبند کے دارالعلوم کے روزمرہ کے امور کو نیم خواندہ صحافی، فرقہ وارانہ چشمہ سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ 1857میں آزادی کی لڑائی میں قوم حاجی امداد اللہ کی قیادت میں متحد ہوئی تھی۔ وہ 1857میں مکہ چلے گئے تھے، ان کے دو اہم شاگردوں مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے دیوبند میں دارالعلوم قائم کرنے والوں کی رہنمائی کی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب یوروپی سامراجیت اپنی جڑیں مستحکم کررہی تھیں۔ افغانستان میں یوپی سامراجیت کی مخالفت سیدجلال الدین کررہے تھے،جب ہندوستان آئے تو دیوبند کے مدرسہ میں ان کا زبردست خیر مقدم ہوا اور انگریزوں کے اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کو مزید تقویت ملی۔ جب 1885میں کانگریس کی تشکیل ہوئی تو دارالعلوم کے سربراہ مولانا رشید احمد گنگوہی تھے۔ آپ نے فتویٰ دیا کہ شاہ عبدالعزیز کا فتویٰ ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے، اس لئے مسلمانوں کا فرض ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کریں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ہندوئوں کو ساتھ لے کر جدوجہد کرنا شرعی لحاظ سے بھی بالکل درست ہے۔ وہ ہندوستان کی مکمل آزادی کے حامی تھے۔ اس لئے انہوں نے کانگریس میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا، کیونکہ کانگریس 1885میں مکمل آزادی کی بات نہیں کررہی تھی، لیکن ان کی تحریک سے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے کانگریس کی رکنیت اختیار کی اور آزادی کی لڑائی میں شامل ہوگئے۔
3 تاریخ گواہ ہے کہ دیوبند کے علما فسادات کے دوران بھی ہندوستان کی آزادی اور قومی اتحاد کے سب سے بڑے حامی کے طور پر کھڑے رہتے تھے۔ دیوبند کے بڑے حامیوں میں مولانا شبلی نعمانی کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ ان کے کچھ اختلافات بھی تھے، لیکن آزادی کی لڑائی کے مسئلہ پر انہوں نے دیوبند کی پوری طرح سے تائید کی۔ سرسید احمد کی وفات تک وہ علی گڑھ میں استاد رہے لیکن انگریزی حکومت کے معاملے میں وہ سرسید سے مختلف رائے رکھتے تھے۔پروفیسر تارا چند نے اپنی کتاب ’ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی تاریخ‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دیوبند کے دارالعلوم نے ہر اس تحریک کی حمایت کی جو ہندوستان سے انگریزوں کو بھگانے کے لئے چلائی گئی تھی۔ 1857کے جن باغیوں نے دیوبند میں مذہبی مدرسہ قائم کیاان کے بنیادی مقاصد میں ہندوستان کی سرزمین سے محبت بھی تھی۔ کلام پاک اور حدیث کی تعلیم تو مدرسے کا بنیادی کام تھا لیکن انکے بنیادی اصولوں میں یہ بھی تھا کہ غیر ملکی اقتدار ختم کرنے کے لئے جہاد کے جذبہ کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔ آج کل لفظ جہاد کے بھی عجیب وغریب معنی بتائے جارہے ہیں۔ یہاں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوگا کہ 1857میں جن باغی فوجیوں نے انگریزوں کے خلاف سب کچھ دائو پر لگادیا تھا وہ سارے اپنے آپ کو جہادی ہی کہتے تھے۔یہ جہادی ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی اور سب کا مقصد ایک ہی تھا، غیر ملکی حکمرانوں کو شکست دینا۔
kمولانا رشید احمد گنگوہی کے بعد مولانا محمود الحسن دارالعلوم کے سربراہ بنے۔ ان کی زندگی کا مقصد ہی ہندوستان کی آزادی تھا۔ یہاں تک کہ کانگریس نے بعد میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں مکمل آزادی کا نعرہ دیا۔ لیکن مولانا محمود الحسن نے 1905میں ہی مکمل آزادی کے اپنے منصوبے پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان سے انگریزوں کو بھگانے کے لئے ایک مشن قائم کیا جس کا ہیڈکواٹر دیوبند میں بنایا گیا۔مشن کی شاخیں دہلی، دانا پور، امروٹ، کرنجی کھیڑہ وغیرہ میں بنائی گئیں۔اس میں بڑی تعداد میں مسلمان شامل ہوئے لیکن یہ سبھی مذاہب کے لئے کھلی تھیں۔ پنجاب کے سکھ اور بنگال کی انقلابی پارٹی کے اراکین بھی اس میں شامل ہوئے۔ مولانا محمود الحسن کے بعد دیوبند کی قیادت مولانا حسین احمد مدنی کے گاندھوں پر پڑی۔ انہوں نے بھی کانگریس، مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ مل کر ملک کے لئے جدوجہد کی۔ انہوں نے 1920میں کانگریس کی تحریک عدم تعاون کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی آخر تک حمایت کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی اختلافات کے باوجود تمام ہندوستانیوں کو ایک قوم کی شکل میں متحد رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا قیام جغرافیائی طریقہ سے کیا جانا چاہئے۔ مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ اپنی اس فکر کی وجہ سے ان کے بہت سے لوگوں خاص طور پر پاکستان کے حامیوں کی مخالفت جھیلنی پڑی لیکن مولانا صاحب اپنے فیصلہ پر قائم رہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے ان کے خلاف انتہائی زہریلی مہم شروع کی تو مولانا حسین احمد مدنی نے فارسی میں ایک شعر لکھ کر ان کو جواب دیا کہ عرب کے ریگستانوں میں گھومنے والے انسان جس راستہ پر آپ چل پڑے ہیں وہ آپ کو کعبہ شریف تو نہیں لے جائے گا، البتہ آپ انگلستان پہنچ جائیں گے۔ مولانا حسین احمد مدنی 1957تک رہے اور ہندوستان کے آئین میں بھی وسیع پیمانے پر ان کے مشوروں کو شامل کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے گزشتہ 150برسوںکی ہندوستان کی تاریخ میں دیوبند کا ایک اہم مقام ہے۔ ہندوستان کی شان کے لئے یہاں کے اساتذہ اور طلبا نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج لفظ دیوبند آتے ہی فرقہ پرستوں کے نمائندے اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی امور میں دنیا بھر معروف دیوبند کو ہندوستان کی آزادی میں ان کے سب سے اہم کردار کے لئے بھی یاد کیاجائے اور ان کے روزمرہ کے کاموں کو فرقہ واریت کے چشمہ سے نہ دیکھا جائے
No comments:
Post a Comment