Friday, May 7, 2010

ہم ٹوٹ گئے اس لےے کہ خوداعتمادی ٹوٹ گئی

عزیز برنی

بٹلہ ہاؤس پر لکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن جیسا کہ میں نے اپنی کل کی تحریر میں عرض کیا تھا کہ آج کا مضمون ہلدھرمئو، گونڈا میں منعقد کانفرنس پر مبنی ہوگا، لہٰذا پیش خدمت ہے ضلع گونڈا میں 2مئی کو ’’مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب اور ان کا حل‘‘ موضوع پر پیش میرے خیالاتـ کچھ حد تک ان کا تعلق بھی اسی موضوع سے ہے۔
آج جس غوروفکر کے لےے ہم یہاں یکجا ہوئے ہیں، وہ انتہائی اہم موضوع ہے، لیکن میرے پاس وقت کم ہے اس لےے تفصیلی گفتگو نہیں کرسکتا، تاہم مختصر الفاظ میں زیادہ سے زیادہ سنجیدہ باتیں کم سے کم وقت میں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ ہماری پسماندگی کی وجہ کیا ہے اور ہم اس پسماندگی سے کیسے اوپر اٹھ سکتے ہیں۔ اس پر کہا تو بہت کچھ جاسکتا ہے، لیکن میرے نزدیک صرف اور صرف ایک وجہ ہے ہماری پسماندگی کی، ہمارا اعتماد توڑ دیا گیا۔ ہم پسماندہ ہوگئے۔ جب ہمارا اعتماد بحال ہوجائے گا، ہم پسماندگی کے دائرے سے اوپر اٹھ جائیں گے۔ وہ قوم جس نے اس ملک پر حکومت کی، وہ قوم جس نے اس ملک میں 1857سے لے کر947تک 90سال مسلسل آزادی کی جنگ لڑکر آزادی دلائی، لیکن آزادی کے بعد اس قوم کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا۔ میں تقسیم وطن کا نام نہیں لے رہا ہوں، اس لےے کہ یہ ایک سیاسی سازش تھی مسلمانوں کا اعتماد توڑنے کے لےے، انہیں تقسیم کردینے کے لےے۔ ہمارا ایک بازو کاٹ دینے کے لےے۔ ہمیں کمزور بنانے کے لےے۔ ہماری پسماندگی کی پہلی وجہ یہی ہے۔ دوسری وجہ جو آزادی کے فوراً بعد طے کردی گئی تھی۔ وہ ہماری پسماندگی کی دوسری اہم وجہ ہے، یعنی ہم سے ہماری زبان چھین لی گئی۔ ہندوستانی عوام کی زبان تھی اردو۔ حکمراں طبقہ کی زبان تھی اردو۔ عدالت کی زبان تھی اردو۔ انصاف کی زبان تھی اردو۔ عام ہندوستانی سے لے کر خاص تک سب کی زبان تھی اردو، لیکن947میں جب قومی زبان کا فیصلہ ہورہا تھا تو اس زبان کی دعویداری کے باوجود اسے اس کے حق سے محروم کردیا گیا اور پھر بدقسمتی سے ہماری جس ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا، وہ اپنے ہی ملک میں 61برس بعد بھی ایمانداری کے ساتھ کہیں تو قومی زبان نہیں بن سکی۔ ہم نے انہیں فرنگیوں کی زبان کو اپنی زبان بنالیا۔ غور کرکے دیکھئے، جس قوم سے اس کی زبان چھین لی جائے، جس قوم سے اس کی تعلیم کا ذریعہ چھین لیا جائے، جس قوم سے اس کے تعلیم کے مراکز چھین لےے جائیں، جس کا اعتماد توڑ دیا جائے، جسے بار بارموردالزام ٹھہرایا جائے، جسے بار بار ملک کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا جائے، وہ کس قدر شرمندہ اور احساس جرم کا شکار رہی ہوگی۔ وہ کس طرح گھٹنوں کے بل چل کر آج اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ہمت کرپائی ہوگی۔ اس کے باوجود اگر ہم ملک کا سب سے قابل شخص صدرجمہوریہ اے پی جے عبدالکلام دینے میں کامیاب رہے تو کہنا ہوگا کہ ہم تعلیم کے میدان میں پچھڑے نہیں ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہم پر یہ ستم ظریفیاں کی جاتی رہی ہیں، صرف اس لےے کہ ہمیں مساوی حقوق نہ ملیں۔ ہم اس ملک کے وفادار ہیں۔ ہم نے یہ ثابت کیا 1857کی جنگ میں بھی اور ثابت کیا 1947کی جنگ آزادی میں بھی۔ یہ ثابت کیا ہم نے پاکستان کے خلاف جنگ میں بھی اور کارگل کی جنگ میں بھی۔ جب ہماری قوم سے پیدا ویرعبدالحمید پاکستانی ٹینکوں کو توڑتا ہے تو یقینا سارا ہندوستان اسے وفادار قرار دیتا ہے، مگر اس کے باوجود بار بار اس قوم کو وفاداری کا ثبوت دینے کے لےے کہا جاتا ہے، جبکہ پروہت اور اپادھیائے سے کوئی نہیں پوچھتاکہ تمہیں تو فوج میں ملک سے وفاداری کے لےے بھرتی کیا گیا تھا۔ تم غدار کیوں ہوگئے؟ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو گھروں کے اندر رکھتے ہیں، انہیں پڑھنے کا موقع نہیں دیتے، اس کے باوجود تنگ دستی کی شکار ہوکرآج تھوڑی بہت تعلیم حاصل کرکے، وہ اپنا گھر چلانا چاہتی ہے تو ’عشرت جہاں‘ کے نام پر اسے انکاؤنٹر کا شکار بنادیا جاتا ہے۔ اسے دہشت گرد بتا دیا جاتا ہے اور جو جانچ میں ثابت دہشت گرد ہے، جسے پرگیہ سنگھ کے نام سے سارا ہندوستان جانتا ہے، اس کی حمایت میں ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے لال کرشن اڈوانی وزیراعظم سے مل کر کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی سختی نہ برتی جائے، اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ وہ یہ فریاد لے کر منموہن سنگھ کے پاس پہنچتے ہیں۔ ہمیں ان تمام باتوں کو سوچنا ہوگا۔ مجھ سے پہلے کے مقررین نے جتنی وجوہات بتائیں، میں ان سب سے اتفاق کرتا ہوں، مگر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آنکھ بند کرکے اگر صرف یہی کہتے رہیں گے کہ ہاں سارے الزام ہم اپنے سر لینے کے لےے رضامند ہیں تو شاید ہم اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے کئی دشواریاں چھوڑ جائیں گے۔ اس لےے میرا مقصد، میری زندگی کا نصب العین یہ ہے کہ میری قوم کا جو اعتماد توڑ دیا گیا تھا، اس اعتماد کو بحال کرنا ہے، جس دن اس قوم کا اعتماد بحال ہوجائے گا، تعلیم بھی ہمارے پاس ہوگی۔ ملازمتوں کی کمی بھی ہمارے لےے نہیں ہوگی۔ ہم ملازمتوں کے لےے پریشان نہیں ہوں گے۔ ہم حکمرانی کے لےے دوسروں کے محتاج نہیں ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ حوصلہ تو ہو کہ ہم کسی وجہ سے بھی شرمندہ نہیں ہیں۔ نہ تو ملک کی تقسیم کے ذمہ دار ہم ہیں، نہ تو ہم فرقہ پرست ہیں، نہ ہم دہشت گرد ہیں اور نہ ہم جاہل ہی ہیں۔ ہم تنگ بستیوں میں رہتے ہیں۔ ہمارے دروازوں پر ٹاٹ کے پردے ہیں، کیوں۔ انصاف کا تقاضا ہے ذرا دامن میں جھانک کر دیکھیں۔ یہ لال قلعہ کیا ہے؟ یہ تاج محل کیا ہے؟ یہ گھر ہیں ہمارے۔ ہم ان گھروں کے رہنے والے تھے۔ یہ قطب مینار ہماری عظمت کی نشانی ہے۔ آج تم ہمیں ہماری وہ املاک جسے وقف املاک کہا جاتا ہے لوٹا دو، پھر دیکھو ہمارے گھروں کی شان کیا ہے۔ ہمارے گھروں پر ٹاٹ کے نہیں مخمل کے پردے ہوں گے۔ یہ وہ ناانصافیاں ہیں، جو ہمارے ساتھ کی گئیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں ہمارے نوجوان اپنے گھروں سے اپنی ماؤں کی آغوش سے بچھڑ کر جاتے ہیں۔ کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، کبھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔وہ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔ انجینئر بننا چاہتے ہیں۔ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، مگر دہشت گرد بتاکر ان کا قتل کردیا جاتا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ آتی ہے، لیکن اس کے باوجود انصاف نہیں ملتا۔ حقوق انسانی کمیشن بھی یہی کہتا ہے کہ پولس نے جو کہا وہی سچ ہے۔ ہماری حکومت اگر یہ سوچتی ہے کہ اگر انصاف کیا جائے گا، اگر جانچ کی جائے گی تو سچ سامنے آجائے گا تو وہ پولس والے سرنگوں ہوں گے، وہ موردالزام ٹھہرائے جائیں گے، وہ Demoraliseہوجائیں گے، وہ احساس کمتری کا شکار ہوجائیں گے۔میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تمہیں چند پولس والوںکے گناہ سامنے آجانے سے ان کے احساس کمتری کا شکار ہوجانا منظور نہیں ہے تو مجھے میری قوم کا احساس کمتری کا شکار ہوجانا منظور نہیں ہے۔ میرا قلم چلتا رہے گا، میری زبان سے یہی نکلتا رہے گا جب تک انصاف نہیں ملے گا، ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جو کچھ سچ ہے وہ سب سامنے لایاجائے۔ وقت ہوتا تو میں بیشمار ایسے واقعات سامنے رکھتا کہ دہلی کے ہوٹل میں برطانوی آکر ٹھہریں، وہ ہندوستان کے خلاف جاسوسی کرنے کے تمام آلات ساتھ میں رکھیں، وہ کھڑکیوں سے ہمارے جہازوں پر نظر رکھیں،چرخی دادری کا واقعہ ہم بھولے نہیں ہیں، ایک بار پھر اسی طرح کی سسٹم میں خرابی سامنے آتی، آسمان سے طیاروں کو ٹکرانے کے حالات پیدا ہوسکتے تھے، مگر ہم انہیں معصوم قرار دے دیتے ہیں۔ چڑیوں کو دیکھنے والا کہہ کر واپس برٹش جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ اگر ان کے نام اسٹیفن نہیں ہوتے، ان کے نام اسٹیو نہیں ہوتے، ان کا نام ذکاء اللہ ہوتا، محب اللہ ہوتا، اگر وہ برٹشر نہ ہوتے، اگر وہ پاکستان سے آئے ہوتے، اگر وہ افغانستان سے آئے ہوتے، اگر وہ بنگلہ دیش سے آئے ہوتے تو کیا انہیں یہاں سے اسی طرح باعزت جانے کا موقع فراہم کردیا جاتا۔
پورا ہندوستان 26/11کے بعد سے یہی کہہ رہا ہے۔ حزب اختلاف بھی اور برسراقتدار پارٹی بھی یہی کہتی رہی کہ حملہ آور صرف0تھے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی گیارہواں نہیں تھا؟ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں یہاں کے کسی شخص کی مدد حاصل نہیں تھی؟ آج یہ سچ سامنے آگیا، مگر ڈیوڈ ہیڈلی کے جرم کو ہم اس طرح سے نہیں دیکھتے ہیں، جس طرح سے ہم دوسرے لوگوں کے جرم کو دیکھتے ہیں۔ وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، وہ ایف بی آئی کا ایجنٹ تھا، اسے سی آئی اے نے خفیہ طریقہ سے لشکرطیبہ میں داخل کرایا تھا، اس کو ہندوستان میں 26/11رچنے کو بھیجا گیا تھا۔ وہ جتنی بار ہندوستان آیا، بم دھماکے ہوئے، وہ جتنی بار پاکستان گیا بم دھماکے ہوئے،جس ایک شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا/11کے لےے، وہ اسامہ بن لادن تھا، چھپا تھا افغانستان کی تورا بورا پہاڑیوں میں۔ یہ شک تھا جارج واکر بش کو، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان کو تباہ کردیا گیا۔ ہمیں تو یہ یقین ہے کہ 26/11کا ملزم ایف بی آئی کا ایجنٹ تھا۔ ہمیں تو یقین ہے کہ ہیڈلی سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ تمہاری عدالت بھی یہی تسلیم کرتی ہے، وہ تمہارے دامن میں چھپا بیٹھا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو سلوک تم نے افغانستان کے ساتھ کیا، وہی سلوک ہمیں تمہارے ساتھ کرنا چاہےے تھا، مگر ہم مجبور ہیں، ہم شرمندہ ہیں، ہمارے ملک کے حکمراں تمہارے پاس جاتے ہیں، رحم کی بھیک مانگتے ہیں کہ ڈیوڈ ہیڈلی کو ہمیں دے دو، ہم اس پر مقدمہ چلانا چاہتے ہیں۔ تم ہمارے ملک کی عینی شاہد کو تو بناویزا، پاسپورٹ کے اٹھا کر لے جاتے ہو اور پھر پوچھ گچھ کرنے کے بعد لاکر چھوڑ جاتے ہو، ہم کچھ نہیں کہتے، لیکن ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے بارے میں یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟ مگر ہمارے یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہم ایک ڈیموکریٹک ملک میں رہتے ہیں۔ ہم نے پنڈت نہرو کو محمد علی جناح پر فوقیت اسی لےے دی تھی کہ ہمیں بھروسہ تھا ہندوستان پر، ہمیں بھروسہ تھا پنڈت جواہر لعل نہرو پر، مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ انصاف کے دو پیمانے ہیں، عمل کے دو ردعمل ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں بم دھماکے ہوتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں اور یہی چاہتے بھی ہیں کہ ان بم دھماکوں کے اصل ملزم کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔
T
27فروری 2002کو سابرمتی ایکسپریس حادثے کے بعد تین ہزار مسلمانوں کو قتل کردیا جاتا ہے تو نریندر مودی کا بیان ہوتا ہے کہ یہ عمل کا فطری ردعمل تھا تو اسے قابل معافی قرار کیوں دیا جاتا ہے؟ آج ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انصاف کے دو پیمانے کیوں ہیں؟ اب خاموش رہنے کا وقت نہیں ہے۔ اب اپنے حق کے لےے لڑائی لڑنے کا وقت آگیا ہے۔ ہم نے دیکھ لیا پچھلے پارلیمانی الیکشن میں، کیسے ہم نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس کو اقتدار سے باہر کیا اور واپس اقتدار تک پہنچایا۔کیسے ملائم سنگھ کو حکومت کا موقع دیا، لیکن پھر ہم نے اسمبلی الیکشن میں ملائم سنگھ کو بتادیا کہ تم نے بابری مسجد کے قاتل کا ہاتھ تھام لیا ہے، اس لےے ہم تمہیں اب دوبارہ اس مقام پر پہنچنے نہیں دیں گے۔ ہم نے نتیش کمار سے بھی یہی کہا ہے کہ اگر تم ہمارے ووٹ سے نمبر ایک بنتے ہو تو کم ازکم نمبرـکا مقام تو اس قوم کو دو۔ میں سیاست میں نہیں ہوں، میں سیاست سے براہ راست نہیں جڑا ہوں، مگر میں سیاست پر ریسرچ کررہا ہوں۔ میرا ہر پل سیاست کو سمجھنے میں ہی گزرتا ہے۔ میں آپ سے یہ دعویٰ کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ جب تک اقتدار میں حصہ نہیں ملے گا، ہماری قوم کی حالت یوں ہی رہے گی۔ جب تک ہمیں حق اور انصاف نہیں ملے گا اور ہمارا اعتماد بحال نہیں ہوگا، ہم اسی طرح لاچار اور بے بس رہیں گے اور جب ہمارا اعتماد بحال ہوجائے گا تو کوئی بھی ہمیں برابری کے حق سے روک نہیں سکتا۔ اگر میرے پاس وقت کی کمی نہیں ہوتی تو میں اپنی گفتگو کا سلسلہ مزید آگے بڑھاتا، مگر اب اجازت چاہوں گا۔ خداحافظ، جے ہند

No comments: