زیر نظر تقریر ہمارے ملک کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد 11دسمبر 2008کو لوک سبھا میں بحث کے دوران کی،جسے آج ہم نے لفظ بہ لفظ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔
ہم اپنے وزیر اعظم سے دوہرے معیار کی امید نہیں کر تے۔اس تقریر میں ہمارے وزیر اعظم نے جو کچھ بھی کہا ہے، ہم اس سے لفظ بہ لفظ متفق ہیں، مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردانہ عمل کے لئے جو نئے چہرے سامنے آئے ہیں،تازہ انکشافا ت کے بعد منصوبہ بندی کے لئے جس زمین کا استعمال کیا گیا ہے،کیا ہمارے وزیر اعظم اس کے لئے بھی یہی تاثرات رکھتے ہیں؟ اگر ہاں ،تو گفتگو اور عمل میں وہ بات نظر کیوں نہیں آتی، جو اب تک نظر آتی رہی ہے اور اگر نہیں تو کیوں؟
جیسا کہ ہم نے اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کیا ہے،آج6/11 ہمارے لئے ایک ریسرچ کا موضوع ہے،اس لئے کہ ہم اپنے ملک کو شدید خطرے میں محسوس کر رہے ہیں اور یہ خطرہ کچھ اس طرح نظر آرہا ہے گویا ہمارے ملک کو پھر سے غلام بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔لہٰذا ہمیں اس ضمن میں بہت کچھ لکھنا ہے، مگر صرف لفظوں کے سہارے نہیں ،تاریخی حقائق اور ایسے دستاویز سامنے رکھ کر اپنی بات کہنی ہے کہ سب کچھ آئینے کی طرح صاف ہو جائے اور جو کچھ بھی ہم محسوس کر رہے ہیں،اس کا اندازہ ہماری قوم اور ہمارے ملک کے نگہبانوں کو ہوسکے اور ہم بروقت ملک دشمن طاقتوں کے خلاف ایک معقول لائحہ عمل تیار کر سکیں۔ میری جانب سے آج بس یہی چند جملے۔ملاحظہ فرمائیں وزیر اعظم ہند کی ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد کی گئی یہ تاریخی تقریر۔کچھ جملے میں نے دانستہ طور پر انڈر لائن کئے ہیں۔اس لئے کہ انھیں آپ بار بار پڑھیں اور اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں، اس لئے کہ آگے جب ہم اس موضوع پر لکھنا شروع کریں گے تو بہت کچھ ان جملوں کی روشنی میں بھی ہوگا۔
’’میں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس حقیقت کے تئیں انتہائی چوکنا ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں اور ان سنگین معاملوں میں کئی شہریوں کی جانیں گئی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے نظام اور عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے میں عوام سے اس بات کے لئے معذرت خواہ ہوں کہ ان سنگین وارداتوں کو نہیں روکا جاسکا۔
جہاں تک ممبئی کا سوال ہے، یہ انتہائی منظم اور سفاکانہ حملہ تھا، جس کا مقصد وسیع پیمانے پر دہشت پیدا کرنا اور ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچانا تھا۔ اس حملے کے پیچھے جو طاقتیں کام کررہی تھیں، ان کا ارادہ ہماری سیکولر سیاست کو غیر مستحکم کرنا، فرقہ وارانہ پھوٹ ڈالنا اور ہمارے ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا تھا۔
ہم میں سے ہر ایک نے اس خوفناک واقعہ کی مذمت کی ہے اور غمزدہ کنبوں کے تئیں گہری تعزیت اور زخمیوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل سیکورٹی گارڈ اور نیوی کمانڈو جیسے خصوصی دستوں سمیت پولس اور سیکورٹی فورسز کی بہادری اور حب الوطنی کے تئیں ہم سربسجودہیں۔ میں اس واقعہ میں متعدد غیر ملکی شہریوں کے مارے جانے پر بھی انتہائی دکھ کا اظہار کرتا ہوں۔ میں نے ذاتی طور پر بات چیت کرکے اور تحریری پیغام بھیج کر ان ممالک کے لیڈروں سے معافی مانگی ہے، جن کے شہریوں کی اس حملے میں جانیں گئیں۔
ہم چاہے جو بھی کہیں اور کچھ بھی کرلیں، لیکن جو جانیں گئی ہیں ان کی تلافی نہیں کی جاسکتی، لیکن یہ طے کرنا انتہائی اہم ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کی قربانی کی یاد بھی بھلائی نہیں جانی چاہئے۔ پارلیمنٹ کو پھر اس عزم کا اظہار کرنا ہوگا کہ ہمارا ملک دہشت گردی کو شکست دینے اور اس کی جڑوں اور شاخوں کو ختم کرنے کے تعلق سے پابند عہد ہے۔ ہمیں دہشت گردی کی تباہ کاری سے پوری طاقت کے ساتھ لڑنا ہوگا اور ہم لڑیں گے۔ اس کام کے لئے ضروری سبھی وسائل اور تدابیر کو کام میں لایا جائے گا۔
ہماری فوری ترجیح یہ ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں تحفظ کا احساس بحال کیا جائے۔ ہم ایسی صورت حال نہیں برداشت کرسکتے جس میں دہشت گردوں یا دیگر انتہا پسند طاقتوں سے ہمارے شہریوں کی سلامتی کو نقصان پہنچے۔
میرا ماننا ہے کہ ہمیں تین سطح پر کام کرنا ہوگا۔ پہلا یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے مراکز، جو پاکستان میں قائم ہیں، کے ساتھ مؤثر طریقے سے اور پُرزور انداز میں نمٹنے میں اندرونی برادری کو شامل کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے ڈھانچے کو مستقل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ ایسا کرنا خود پاکستان کے لوگوں کی خوشحالی سمیت پوری عالمی برادری کی بھلائی کے لئے نہایت ضروری ہے۔
ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے میں متعدد سربراہان مملکت اور سربرہان حکومت نے مجھ سے بات چیت کی ہے۔ ان سبھی نے تحمل سے کام لینے پر ہندوستان کی ستائش کی ہے۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ ان حملوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ ہندوستان محض یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کی سیاسی خواہش ایک ٹھوس اور مستقل کارروائی کی شکل میں سامنے بھی آنی چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری متحد ہوکر دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرے۔ ملک کی پالیسی کے وسیلہ کے طور پر دہشت گردی کے استعمال کی اجازت اب کسی کو نہیں دی جائے گی۔ دہشت گردوں کو اچھے یا برے کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ بے قصور لوگوں کے قتل کو کسی بھی زاویے سے مناسب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
ہمیں نہ صرف ممبئی حملوں کے لئے ذمہ دارافراد کو عدالت کے سامنے لانا ہے بلکہ اس بات کے پختہ انتظامات کرنے ہیں کہ دہشت گردی کے ایسے واقعات پھر کبھی نہ ہوں۔
مجھے خوشی ہے کہ اقوام متحدہ نے آج لشکر طیبہ کی معاون تنظیم جماعۃ الدعوہ کودہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے اور اس کے سربراہ حافظ محمد سعید سمیت 4افراد کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس طرح کی بامقصد کارروائی عالمی برادری کی جانب سے مسلسل کی جانی چاہئے، تاکہ دہشت گردی کا پورا ڈھانچہ تباہ کیا جاسکے۔
دوسرے، ہمیں پاکستان کی حکومت کے سامنے یہ معاملہ پوری شدت سے اٹھانا ہوگا کہ وہ اس طرح کے حملے کے لئے اپنی سرزمین کا استعمال نہ ہونے دے اور ایسی سفاکانہ کارروائی کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے۔ عالمی برادری کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان ایسے جرائم کو انجام دینے والوں کے خلاف جو کارروائی کرے وہ مؤثر ہو اور تسلسل برقرار رہے۔
ہم نے ابھی تک انتہائی ضبط سے کام لیا ہے، لیکن مہذب طور طریقے کے تئیں ہماری ثابت قدمی کو کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ دہشت گردی پھیلانے والا، اس کا منصوبہ بنانے والا اور اس کی حمایت کرنے والا خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر، مذہب یا ملک کا ہو، اسے لوگوں کے خلاف بزدلانہ اور وحشیانہ کارروائی کی سزا ضرور ملنی چاہئے۔ پاکستان کے ذریعہ اٹھائے گئے مبینہ اقدام کی جانکاری ہمیں ملی ہے، لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ا بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور کارروائیوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔
تیسرے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ایک ملک کے طور پر ہم مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ان دوطریقوں پر منحصر نہیں رہ سکتے۔ممبئی کے واقعہ نے اس طرح کے حملوں سے نمٹنے کی ہماری تیاری کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔ ملک کے اتحاد اور سالمیت کے تئیں اس طرح کے لاثانی خطروں اور چیلنجوں کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنے کو تیار کرنا ہوگا۔
وزیر داخلہ نے متعدد تدابیر کا خاکہ پہلے ہی پیش کردیا ہے، جو ہم کرنے جارہے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹیو اصلاحات کمیشن کی رپورٹ میں دہشت گردی کے مسئلے پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور کمیشن نے جس طرح کی کارروائی کرنے کا مشورہ دیا ہے، اس پر حکومت سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔
ملک کے ساحلی علاقوں کی سیکورٹی کے لئے سخت تدابیر کی ضرورت پہلے سے اجاگر کی گئی تھی، لیکن اس سلسلے میں حقیقی رفتار کافی سست رہی ہے۔ ہم سمندر سے پیدا ہونے والے ہنگامی خطروں سے نمٹنے کے لئے سمندری سیکورٹی کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ ساحلی سیکورٹی کا کام فی الوقت کئی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے، اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پوری ساحلی لائن کی سیکورٹی کا واحد ذمہ کوسٹ گارڈکو سونپا جائے گا۔ اس کام کے لئے ہندوستانی نیوی کوسٹ گارڈ کو ضروری بیک اپ تعاون فراہم کرائے گی۔ یہ فیصلہ فوری اثر سے نافذ ہوگا۔ تمام اہم بندرگاہوں کے لئے خصوصی سیکورٹی اور دفاعی انتظام کئے جارہے ہیں۔ ساحلی علاقوں میں واقع حساس مقامات کے لئے بھی اسی طرح کے سیکورٹی انتظامات کرنے ہوں گے۔
روایتی اور غیر روایتی خطروں کے پیش نظر ملک کی فضائی حدود کی سیکورٹی کی تدابیر کو پختہ کیا جارہا ہے۔ ایئر فورس اور شہری ہوابازی کے افسروں کی جانب سے مشترکہ طور پر طیاروں کی آمدورفت پر حقیقی نگرانی شروع کی گئی ہے۔ ملک کی فضائی حدود میں دھوکے باز/نامعلوم طیاروں کی روک تھام کے لئے فضائی سیکورٹی تدابیر کی گئی ہیں۔
ممبئی کے حملے نے اس بات کی ضرورت اجاگر کی ہے کہ ایسی وارداتوں کے لئے جوابی کارروائی زیادہ تیزی سے کی جانی چاہئے۔ ہم نے جامع بحران مینجمنٹ کے لئے ایک مشینری قائم کرنے کے لئے ایک خاکہ تیار کیا ۔ یہ فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا ہے کہ نیشنل سیکورٹی گارڈکا ڈی سینٹرلائزیشن کیا جائے گا اور انہیں تمام بڑے میٹروپولٹین علاقوں میں رکھا جائے گا، اسی کے ساتھ ایسے انتظامات ضرور ہونے چاہئیں کہ سریع الحرکت یونٹیں فی الفور دیگر مقامات پر پہنچ سکیں۔نیشنل سیکورٹی گارڈ کی تعداد بڑھائے جانے اور نئی یونٹوں کو ٹرینڈ کئے جانے تک فوج، ایئر فورس اور نیوی نیز دیگر سول ایجنسیوں کے پاس دستیاب خصوصی فورسز کا استعمال کیا جائے گا۔ ہر ریاست کے ذریعے کمانڈو یونٹیں قائم کی جائیں گی۔
ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے قانونی ڈھانچہ مضبوط کرنے کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا ہے۔ اس کے لئے ایک قومی جانچ ایجنسی بھی تشکیل کی جائے گی۔ وزیر داخلہ کے ذریعہ کئے گئے اعلان کے مطابق اس سے متعلق بل جلد ازجلد ایوان میں پیش کیا جائے گا۔
جیسا کہ اشارہ دیا گیا ہے کہ مستقبل میں دہشت گردانہ حملوں کے منصوبے کا پہلے سے پتہ لگانے کے لئے خفیہ نظام کو زیادہ مضبوط کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ کی سطح پر روزانہ میٹنگیں لی جارہی ہیں۔ خفیہ بیورو کا ملٹی ایجنسی سینٹرخصوصی طور پر دہشت گردانہ حملوں سے متعلق معلومات جمع کرنے، ملان کرنے اور پہنچانے کا کام کرے گی۔ مختلف خفیہ ایجنسیوں کے بیچ اتحاد اور روابط میں سدھار کیا جارہا ہے۔ ریاستوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ضلع سطح پر خفیہ اطلاعات مؤثر ڈھنگ سے جمع کریں تاکہ زیادہ سرگرم خفیہ نظام قائم کیا جاسکے۔
مختصر مدت اور طویل مدت کی متعدد تدابیر تو ہمیں کرنی ہی ہوگی، اس کے ساتھ ہی اس بات پر عام اتفاق رائے ہوا ہے کہ سیکورٹی نظام کو طویل مدت کے لئے مستحکم تبھی بنایا جاسکتا ہے جب پولس اداروں کو، خاص طور پر مقامی سطح پر پولس کو مضبوط بنایا جائے۔ہم پولس کی جدید کاری کے تئیں پابند عہد ہیں اور اس کام کو متعینہ مدت کے اندر پورا کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور وسائل کی کمی اس میں آڑے نہیں آئے گی۔ ہمیں اپنی سیکورٹی فورسز کے لئے ایسے جدید اور جدید ترین آلات ضرور فراہم کرانے ہوں گے جو روز افزوں نئے نئے دہشت گردانہ جرائم سے نمٹنے کے لئے ضروری ہےں۔ سیکورٹی فورسز کا اخلاقی حوصلہ انتہائی اہم ہے، اس میں کوئی بھی کمی ہوگی تو اسے دور کیا جائے گا۔ آج کے دور میں سیکورٹی اور ڈیولپمنٹ کے دوہرے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک کو ایک جدید اور اہل پولس فورس کی ضرورت ہے۔
ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں نے فرقہ وارانہ نفاق کا بیج بونے اور ہمارے سیاسی اور سماجی تانے بانے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم ہر چیلنج کے بعد مضبوط ہوکر ابھرے ہیں اور ایسا ہی پھر کریں گے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ ممبئی حملوں کے پیچھے جو ناپاک ارادے تھے وہ ناکام ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ فرقہ وارانہ منافرت اور من مٹائو کے خلاف متحد ہوکر کام کریں۔ اگر ہمارے درمیان آپسی نفاق ہوگا تو ہم دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نہ تو لڑپائیں گے نہ ہی جیت پائیں گے۔
مختصراًمیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بحران کی اس گھڑی میں ملک کو اپنا لوہا منوانا ہے۔ ہمیں صبر اور ضبط سے کام لینا ہوگا۔ دہشت گردی کے ذریعہ پیش کےے گئے اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں ایک ملک اور ایک قوم کی شکل میں مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا۔ ہم اپنے دشمنوں کو صحیح جواب دیں گے۔ عملی جمہوریت اور کثیر طبقاتی سماج کا ہندوستان کا فلسفہ دائو پر لگا ہوا ہے۔ یہ وقت ہے قومی ایکتا کا مظاہرہ کرنے کا اور میں اس میں آپ سے تعاون کی اپیل کرتا ہوں۔ صداقت اور مذہبی وابستگی ہمارے حق میں ہے اور ہم مل کر سامنا کریں گے۔‘
ہم اپنے وزیر اعظم سے دوہرے معیار کی امید نہیں کر تے۔اس تقریر میں ہمارے وزیر اعظم نے جو کچھ بھی کہا ہے، ہم اس سے لفظ بہ لفظ متفق ہیں، مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردانہ عمل کے لئے جو نئے چہرے سامنے آئے ہیں،تازہ انکشافا ت کے بعد منصوبہ بندی کے لئے جس زمین کا استعمال کیا گیا ہے،کیا ہمارے وزیر اعظم اس کے لئے بھی یہی تاثرات رکھتے ہیں؟ اگر ہاں ،تو گفتگو اور عمل میں وہ بات نظر کیوں نہیں آتی، جو اب تک نظر آتی رہی ہے اور اگر نہیں تو کیوں؟
جیسا کہ ہم نے اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کیا ہے،آج6/11 ہمارے لئے ایک ریسرچ کا موضوع ہے،اس لئے کہ ہم اپنے ملک کو شدید خطرے میں محسوس کر رہے ہیں اور یہ خطرہ کچھ اس طرح نظر آرہا ہے گویا ہمارے ملک کو پھر سے غلام بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔لہٰذا ہمیں اس ضمن میں بہت کچھ لکھنا ہے، مگر صرف لفظوں کے سہارے نہیں ،تاریخی حقائق اور ایسے دستاویز سامنے رکھ کر اپنی بات کہنی ہے کہ سب کچھ آئینے کی طرح صاف ہو جائے اور جو کچھ بھی ہم محسوس کر رہے ہیں،اس کا اندازہ ہماری قوم اور ہمارے ملک کے نگہبانوں کو ہوسکے اور ہم بروقت ملک دشمن طاقتوں کے خلاف ایک معقول لائحہ عمل تیار کر سکیں۔ میری جانب سے آج بس یہی چند جملے۔ملاحظہ فرمائیں وزیر اعظم ہند کی ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد کی گئی یہ تاریخی تقریر۔کچھ جملے میں نے دانستہ طور پر انڈر لائن کئے ہیں۔اس لئے کہ انھیں آپ بار بار پڑھیں اور اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں، اس لئے کہ آگے جب ہم اس موضوع پر لکھنا شروع کریں گے تو بہت کچھ ان جملوں کی روشنی میں بھی ہوگا۔
’’میں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس حقیقت کے تئیں انتہائی چوکنا ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں اور ان سنگین معاملوں میں کئی شہریوں کی جانیں گئی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے نظام اور عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے میں عوام سے اس بات کے لئے معذرت خواہ ہوں کہ ان سنگین وارداتوں کو نہیں روکا جاسکا۔
جہاں تک ممبئی کا سوال ہے، یہ انتہائی منظم اور سفاکانہ حملہ تھا، جس کا مقصد وسیع پیمانے پر دہشت پیدا کرنا اور ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچانا تھا۔ اس حملے کے پیچھے جو طاقتیں کام کررہی تھیں، ان کا ارادہ ہماری سیکولر سیاست کو غیر مستحکم کرنا، فرقہ وارانہ پھوٹ ڈالنا اور ہمارے ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا تھا۔
ہم میں سے ہر ایک نے اس خوفناک واقعہ کی مذمت کی ہے اور غمزدہ کنبوں کے تئیں گہری تعزیت اور زخمیوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل سیکورٹی گارڈ اور نیوی کمانڈو جیسے خصوصی دستوں سمیت پولس اور سیکورٹی فورسز کی بہادری اور حب الوطنی کے تئیں ہم سربسجودہیں۔ میں اس واقعہ میں متعدد غیر ملکی شہریوں کے مارے جانے پر بھی انتہائی دکھ کا اظہار کرتا ہوں۔ میں نے ذاتی طور پر بات چیت کرکے اور تحریری پیغام بھیج کر ان ممالک کے لیڈروں سے معافی مانگی ہے، جن کے شہریوں کی اس حملے میں جانیں گئیں۔
ہم چاہے جو بھی کہیں اور کچھ بھی کرلیں، لیکن جو جانیں گئی ہیں ان کی تلافی نہیں کی جاسکتی، لیکن یہ طے کرنا انتہائی اہم ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کی قربانی کی یاد بھی بھلائی نہیں جانی چاہئے۔ پارلیمنٹ کو پھر اس عزم کا اظہار کرنا ہوگا کہ ہمارا ملک دہشت گردی کو شکست دینے اور اس کی جڑوں اور شاخوں کو ختم کرنے کے تعلق سے پابند عہد ہے۔ ہمیں دہشت گردی کی تباہ کاری سے پوری طاقت کے ساتھ لڑنا ہوگا اور ہم لڑیں گے۔ اس کام کے لئے ضروری سبھی وسائل اور تدابیر کو کام میں لایا جائے گا۔
ہماری فوری ترجیح یہ ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں تحفظ کا احساس بحال کیا جائے۔ ہم ایسی صورت حال نہیں برداشت کرسکتے جس میں دہشت گردوں یا دیگر انتہا پسند طاقتوں سے ہمارے شہریوں کی سلامتی کو نقصان پہنچے۔
میرا ماننا ہے کہ ہمیں تین سطح پر کام کرنا ہوگا۔ پہلا یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے مراکز، جو پاکستان میں قائم ہیں، کے ساتھ مؤثر طریقے سے اور پُرزور انداز میں نمٹنے میں اندرونی برادری کو شامل کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے ڈھانچے کو مستقل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ ایسا کرنا خود پاکستان کے لوگوں کی خوشحالی سمیت پوری عالمی برادری کی بھلائی کے لئے نہایت ضروری ہے۔
ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے میں متعدد سربراہان مملکت اور سربرہان حکومت نے مجھ سے بات چیت کی ہے۔ ان سبھی نے تحمل سے کام لینے پر ہندوستان کی ستائش کی ہے۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ ان حملوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ ہندوستان محض یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کی سیاسی خواہش ایک ٹھوس اور مستقل کارروائی کی شکل میں سامنے بھی آنی چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری متحد ہوکر دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرے۔ ملک کی پالیسی کے وسیلہ کے طور پر دہشت گردی کے استعمال کی اجازت اب کسی کو نہیں دی جائے گی۔ دہشت گردوں کو اچھے یا برے کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ بے قصور لوگوں کے قتل کو کسی بھی زاویے سے مناسب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
ہمیں نہ صرف ممبئی حملوں کے لئے ذمہ دارافراد کو عدالت کے سامنے لانا ہے بلکہ اس بات کے پختہ انتظامات کرنے ہیں کہ دہشت گردی کے ایسے واقعات پھر کبھی نہ ہوں۔
مجھے خوشی ہے کہ اقوام متحدہ نے آج لشکر طیبہ کی معاون تنظیم جماعۃ الدعوہ کودہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے اور اس کے سربراہ حافظ محمد سعید سمیت 4افراد کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس طرح کی بامقصد کارروائی عالمی برادری کی جانب سے مسلسل کی جانی چاہئے، تاکہ دہشت گردی کا پورا ڈھانچہ تباہ کیا جاسکے۔
دوسرے، ہمیں پاکستان کی حکومت کے سامنے یہ معاملہ پوری شدت سے اٹھانا ہوگا کہ وہ اس طرح کے حملے کے لئے اپنی سرزمین کا استعمال نہ ہونے دے اور ایسی سفاکانہ کارروائی کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے۔ عالمی برادری کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان ایسے جرائم کو انجام دینے والوں کے خلاف جو کارروائی کرے وہ مؤثر ہو اور تسلسل برقرار رہے۔
ہم نے ابھی تک انتہائی ضبط سے کام لیا ہے، لیکن مہذب طور طریقے کے تئیں ہماری ثابت قدمی کو کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ دہشت گردی پھیلانے والا، اس کا منصوبہ بنانے والا اور اس کی حمایت کرنے والا خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر، مذہب یا ملک کا ہو، اسے لوگوں کے خلاف بزدلانہ اور وحشیانہ کارروائی کی سزا ضرور ملنی چاہئے۔ پاکستان کے ذریعہ اٹھائے گئے مبینہ اقدام کی جانکاری ہمیں ملی ہے، لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ا بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور کارروائیوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔
تیسرے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ایک ملک کے طور پر ہم مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ان دوطریقوں پر منحصر نہیں رہ سکتے۔ممبئی کے واقعہ نے اس طرح کے حملوں سے نمٹنے کی ہماری تیاری کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔ ملک کے اتحاد اور سالمیت کے تئیں اس طرح کے لاثانی خطروں اور چیلنجوں کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنے کو تیار کرنا ہوگا۔
وزیر داخلہ نے متعدد تدابیر کا خاکہ پہلے ہی پیش کردیا ہے، جو ہم کرنے جارہے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹیو اصلاحات کمیشن کی رپورٹ میں دہشت گردی کے مسئلے پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور کمیشن نے جس طرح کی کارروائی کرنے کا مشورہ دیا ہے، اس پر حکومت سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔
ملک کے ساحلی علاقوں کی سیکورٹی کے لئے سخت تدابیر کی ضرورت پہلے سے اجاگر کی گئی تھی، لیکن اس سلسلے میں حقیقی رفتار کافی سست رہی ہے۔ ہم سمندر سے پیدا ہونے والے ہنگامی خطروں سے نمٹنے کے لئے سمندری سیکورٹی کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ ساحلی سیکورٹی کا کام فی الوقت کئی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے، اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پوری ساحلی لائن کی سیکورٹی کا واحد ذمہ کوسٹ گارڈکو سونپا جائے گا۔ اس کام کے لئے ہندوستانی نیوی کوسٹ گارڈ کو ضروری بیک اپ تعاون فراہم کرائے گی۔ یہ فیصلہ فوری اثر سے نافذ ہوگا۔ تمام اہم بندرگاہوں کے لئے خصوصی سیکورٹی اور دفاعی انتظام کئے جارہے ہیں۔ ساحلی علاقوں میں واقع حساس مقامات کے لئے بھی اسی طرح کے سیکورٹی انتظامات کرنے ہوں گے۔
روایتی اور غیر روایتی خطروں کے پیش نظر ملک کی فضائی حدود کی سیکورٹی کی تدابیر کو پختہ کیا جارہا ہے۔ ایئر فورس اور شہری ہوابازی کے افسروں کی جانب سے مشترکہ طور پر طیاروں کی آمدورفت پر حقیقی نگرانی شروع کی گئی ہے۔ ملک کی فضائی حدود میں دھوکے باز/نامعلوم طیاروں کی روک تھام کے لئے فضائی سیکورٹی تدابیر کی گئی ہیں۔
ممبئی کے حملے نے اس بات کی ضرورت اجاگر کی ہے کہ ایسی وارداتوں کے لئے جوابی کارروائی زیادہ تیزی سے کی جانی چاہئے۔ ہم نے جامع بحران مینجمنٹ کے لئے ایک مشینری قائم کرنے کے لئے ایک خاکہ تیار کیا ۔ یہ فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا ہے کہ نیشنل سیکورٹی گارڈکا ڈی سینٹرلائزیشن کیا جائے گا اور انہیں تمام بڑے میٹروپولٹین علاقوں میں رکھا جائے گا، اسی کے ساتھ ایسے انتظامات ضرور ہونے چاہئیں کہ سریع الحرکت یونٹیں فی الفور دیگر مقامات پر پہنچ سکیں۔نیشنل سیکورٹی گارڈ کی تعداد بڑھائے جانے اور نئی یونٹوں کو ٹرینڈ کئے جانے تک فوج، ایئر فورس اور نیوی نیز دیگر سول ایجنسیوں کے پاس دستیاب خصوصی فورسز کا استعمال کیا جائے گا۔ ہر ریاست کے ذریعے کمانڈو یونٹیں قائم کی جائیں گی۔
ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے قانونی ڈھانچہ مضبوط کرنے کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا ہے۔ اس کے لئے ایک قومی جانچ ایجنسی بھی تشکیل کی جائے گی۔ وزیر داخلہ کے ذریعہ کئے گئے اعلان کے مطابق اس سے متعلق بل جلد ازجلد ایوان میں پیش کیا جائے گا۔
جیسا کہ اشارہ دیا گیا ہے کہ مستقبل میں دہشت گردانہ حملوں کے منصوبے کا پہلے سے پتہ لگانے کے لئے خفیہ نظام کو زیادہ مضبوط کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ کی سطح پر روزانہ میٹنگیں لی جارہی ہیں۔ خفیہ بیورو کا ملٹی ایجنسی سینٹرخصوصی طور پر دہشت گردانہ حملوں سے متعلق معلومات جمع کرنے، ملان کرنے اور پہنچانے کا کام کرے گی۔ مختلف خفیہ ایجنسیوں کے بیچ اتحاد اور روابط میں سدھار کیا جارہا ہے۔ ریاستوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ضلع سطح پر خفیہ اطلاعات مؤثر ڈھنگ سے جمع کریں تاکہ زیادہ سرگرم خفیہ نظام قائم کیا جاسکے۔
مختصر مدت اور طویل مدت کی متعدد تدابیر تو ہمیں کرنی ہی ہوگی، اس کے ساتھ ہی اس بات پر عام اتفاق رائے ہوا ہے کہ سیکورٹی نظام کو طویل مدت کے لئے مستحکم تبھی بنایا جاسکتا ہے جب پولس اداروں کو، خاص طور پر مقامی سطح پر پولس کو مضبوط بنایا جائے۔ہم پولس کی جدید کاری کے تئیں پابند عہد ہیں اور اس کام کو متعینہ مدت کے اندر پورا کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور وسائل کی کمی اس میں آڑے نہیں آئے گی۔ ہمیں اپنی سیکورٹی فورسز کے لئے ایسے جدید اور جدید ترین آلات ضرور فراہم کرانے ہوں گے جو روز افزوں نئے نئے دہشت گردانہ جرائم سے نمٹنے کے لئے ضروری ہےں۔ سیکورٹی فورسز کا اخلاقی حوصلہ انتہائی اہم ہے، اس میں کوئی بھی کمی ہوگی تو اسے دور کیا جائے گا۔ آج کے دور میں سیکورٹی اور ڈیولپمنٹ کے دوہرے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک کو ایک جدید اور اہل پولس فورس کی ضرورت ہے۔
ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں نے فرقہ وارانہ نفاق کا بیج بونے اور ہمارے سیاسی اور سماجی تانے بانے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم ہر چیلنج کے بعد مضبوط ہوکر ابھرے ہیں اور ایسا ہی پھر کریں گے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ ممبئی حملوں کے پیچھے جو ناپاک ارادے تھے وہ ناکام ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ فرقہ وارانہ منافرت اور من مٹائو کے خلاف متحد ہوکر کام کریں۔ اگر ہمارے درمیان آپسی نفاق ہوگا تو ہم دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نہ تو لڑپائیں گے نہ ہی جیت پائیں گے۔
مختصراًمیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بحران کی اس گھڑی میں ملک کو اپنا لوہا منوانا ہے۔ ہمیں صبر اور ضبط سے کام لینا ہوگا۔ دہشت گردی کے ذریعہ پیش کےے گئے اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں ایک ملک اور ایک قوم کی شکل میں مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا۔ ہم اپنے دشمنوں کو صحیح جواب دیں گے۔ عملی جمہوریت اور کثیر طبقاتی سماج کا ہندوستان کا فلسفہ دائو پر لگا ہوا ہے۔ یہ وقت ہے قومی ایکتا کا مظاہرہ کرنے کا اور میں اس میں آپ سے تعاون کی اپیل کرتا ہوں۔ صداقت اور مذہبی وابستگی ہمارے حق میں ہے اور ہم مل کر سامنا کریں گے۔‘
No comments:
Post a Comment