ہمارا ملک خطرے مےں اور ہمےں خبر بھی نہےں
چھبیس نومبر2008کو ممبئی کے راستے ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے تناظر میں گزشتہ ایک برس کے درمیان ہم نے اتنا کچھ لکھا اور شائع کیا ہے کہ اگر اس سب کو یکجاکر کے شائع کردیا جائے تو کئی کتابیں منظرعام پر آسکتی ہےں، مگر گزشتہ تین ہفتوں سے جب ہم نے نئے سرے سے اس پر ریسرچ کرنا شروع کیا تو کچھ چونکانے والے نتیجے سامنے آئے۔ بیشک اس کی شروعات ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی گرفتاری سے ہی ہوئی، مگر جب اس کی سرگرمیاں اور ہند-پاک میں اس کے دوروں کی تفصیل جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ بات اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے، جتنا کہ ہم سمجھ رہے ہیں۔ ابھی تک ہم ہندوستان میں ہونے والے ہر بم دھماکے کو مذہبی منافرت سے جوڑ کردیکھتے رہے، کبھی ہندومسلمانوں پر اور کبھی مسلمان ہندوو ¿ں پر شک کرتے رہے۔ دونوں کی درمیان نفرت کی کھائی بڑھتی چلی گئی اور ہمارے ذہنوں میں یہی ایک بات پیوست ہوگئی کہ کہیں نہ کہیں ہندوستان میں ان تمام دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے و ہی فرقہ وارانہ ذہنیت کام کررہی ہے، جس کو تقسیم وطن کے فوراً بعد پورے ملک میں دیکھا گیا تھا یا پھر جس فرقہ وارانہ نفرت نے بابری مسجد کی شہادت اور گجرات جیسے فسادات دیکھنے کو مجبور کےا، مگر سچائی اس کے برعکس نظرآتی ہے۔اگر کچھ وقت کے لےے ہم سب ہندوستانی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب یکسوئی کے ساتھ صرف اور صرف اپنے ملک ہندوستان سے محبت کے جذبہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان تمام حادثات اور ان کی بنیادی وجوہات پر نظرڈالیں گے تو سچائی آئینہ کی طرح صاف نظر آنے لگے گی۔اور ہمیں یہ احساس ہونے لگے گاکہ کہیں یہ ہمیں پھر سے غلام بنانے کی سازش تو نہیں ہے۔ دہشت گردی کا بہانہ لے کر افغانستان اور عراق کو تباہ کردیا گیا۔ وہاں آج کٹھ پتلی سرکاریںہےں، حالانکہ عراق کی تباہی کے بعد خود امریکہ نے تسلیم کیا کہ وہاں تباہ کن اسلحہ نہیں تھا۔ ہم سے غلطی ہوئی، مگر کیا اس سے مارے جانے والے بے گناہوں کی زندگی واپس آسکتی ہے۔
ہم اپنے ملک کے تحفظ کے سلسلہ میں کوئی کوتاہی نہیں برت سکتے، لہٰذا ہمیں سوچنا ہوگا ہر اس پہلو پر، جو ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لےے خطرناک ہوسکتا ہے۔ آئےے اب میں بات شروع کرتا ہوں اسی الزام سے، جو اکثر و بیشتر ہر بم دھماکہ کے بعد سننے کو ملتا چلا آرہا ہے۔ گزشتہ 18برس میں ہونے والے تمام بم دھماکوں اور فرقہ وارانہ فسادات کے پیچھے جو وجہ بتائی جاتی رہی ہے، وہ ہے بابری مسجد کی شہادت کا ردعمل، گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا بدلہ ڈنمارک کے اخبار "Jyllands-Posten" میں شائع رسول اکرم محمدﷺ کے کارٹون کی اشاعت کے بعد پھیلی نفرت کو لے کر کوئی فساد نہیں ہوا اور ہوتا بھی کیوں؟ نہ یہ کارٹونسٹ یہاں کا ہے اور نہ کوئی اس کی آواز میں آواز ملانے والا، تاہم اب نظر ڈالتے ہیں کہ ان تینوں حادثات کے بعد ہمارے ملک کی صورتحال کیا رہی، کب کب کتنے بم دھماکے ہوئے؟ کتنی ہلاکتیں ہوئیں؟
بابری مسجد شہید ہوئی 6دسمبر1992کو اورامریکہ کی ریاست نیویارک کے شہر ’مین ہٹن‘ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا 11ستمبر2001 کو۔ ہم دو بڑے حادثات کو سامنے رکھ کر ان کے درمیان ہونے والے تشدد اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ 6دسمبر1992سے11دسمبر2001کے درمیان یعنی تقریباً 9برس میں ہندوستان کے اندر پانچ بڑے حادثات ہوئے۔ پہلا 12مارچ1993کو ممبئی میں ہوئے سیریل بم دھماکے، جس میں 257افراد ہلاک ہوئے اور713زخمی۔ اس کے بعد30دسمبر1996 کو ’برہمپتر میل‘ میں دھماکہ،33افراد ہلاک۔ 14فروری1998کو کوئمبٹور میں دھماکہ، جس میں 46لوگوں کی جان گئی۔ 13مارچ2001کو دہلی میں پارلیمنٹ پر حملہ، جس میں14لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ یکم اکتوبر2001جموںوکشمیر اسمبلی پر حملہ، جس میں 38افراد کی جان گئی۔یعنی 9برسوں میں پانچ بڑے حادثے ہوئے، جن میں سے کم ازکم کشمیر حادثے کو بابری مسجد کی شہادت کے ردعمل سے نہیں جوڑا جاسکتا، اس لےے کہ کشمیر تو اس سے کافی پہلے سے ہی اپنی آگ میں جل رہا ہے۔
6دسمبر1992(بابری مسجد کی شہادت) کے بعد جو اس دور کا سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ کہا جاسکتا ہے، وہ ہے امریکہ کا 9/11، جس کا ذکر ہم درج بالاسطروں میں کرچکے ہیں اور بدقسمتی سے اس کے 6مہینے کے اندر ہی ہندوستان کو زبردست فرقہ وارانہ فساد سے گزرنا پڑا، جسے آزاد ہندوستان کی پیشانی پر کلنک سے تعبیر کیا گیا، وہ تھا فروری 2002میں گجرات کا فساد۔ آئےے اب نظر ڈالتے ہیں، امریکہ کے 9/11اور ہندوستان کے گجرات فساد کے بعد اور ڈنمارک کے اخبار میں شائع کارٹون سے پہلے کل کتنے بم دھماکے ہوئے اور کتنے لوگوں کی جان گئی۔ ہم نے اس میں گجرات فساد کی ہلاکتوں کے اعدادوشمار کو شامل نہیں کیا ہے،
کیوں کہ ہم دیگر بم دھماکوں پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ 2002میں 13مئی کو جونپور اترپردیش میں ٹرین بم دھماکہ ہوا، جس میں 12افراد ہلاک ہوئے اور80زخمی۔ اس کے بعد6دسمبر2002کو ممبئی کے بس دھماکہ میں 2لوگ مارے گئے۔2002میں ہی24ستمبر کو اکشردھام مندر پر حملہ ہوا، جس میں 31لوگوں کی جان گئی۔ اس کے بعد 2بڑے حادثات 2003میں ہوئے۔ 13مارچ2003کو ممبئی کی ٹرینوں میں بم دھماکے، جن میں 11لوگوں کی جان گئی اور 25اگست2003کو ممبئی میں کاربم دھماکے، جن میں 52لوگ مارے گئے۔ 2004میں کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا، جبکہ 2005میں پھر ایک خوفناک دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ 29اکتوبر2005کو نئی دہلی کے سروجنی نگر میں، جن میں60لوگ مارے گئے، یعنی 6دسمبر1992کے بعد سے 11ستمبر2001کے درمیان کل پانچ بڑے حادثات ہوئے، جن میں388لوگوں کی جان گئی بشمول ممبئی بم دھماکوں کے۔ اس کے بعد11ستمبر2001سے مارچ2006کے درمیان 9بڑے حادثات ہوئے، جن میں146لوگوں کی جان گئی۔
آئےے اب ذکر کرتے ہیں ہم اس کے بعد کے حالات کا، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کا ردعمل کتنا شدید تھا۔ گجرات فسادات کے ردعمل کی شکل میں کتنے فسادات کو جوڑا جاسکتا ہے اور اس کے بعد 30دسمبر2005سے 26نومبر2008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ تک کل کتنے بم دھماکے ہوئے اور کتنے لوگوں کی جان گئی۔ کیوں کہ تمام اعدادوشمار اس مضمون کے ساتھ شامل اشاعت کےے جارہے ہیں، لہٰذا اس تحریر میں انتہائی مختصراً ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جہاں6دسمبر1992 اور11ستمبر2001کے درمیان پانچ بڑے حادثات میں 388لوگوں کی جان گئی۔ وہیں 11ستمبر 2001 اور مارچ2006کے درمیان تقریباً پانچ برسوں میں 9حادثات اور 146ہلاکتیں، لیکن مارچ2006سے 26نومبر2008کے درمیان 19بڑے حادثات اور857لوگوں کی ہلاکتیں، یعنی14برس کے لمبے عرصہ میں، جس درمیان بابری مسجد بھی شہید ہوئی اور گجرات فساد بھی ہوا، پھر بھی 14 حادثات اور534ہلاکتیں، جبکہ اپریل2006سے 26نومبر2008کے درمیان، تقریباً ڈھائی برس میں21بڑے حادثات اور857ہلاکتیں، جبکہ اس درمیان نہ تو کوئی بابری مسجد جیسا تنازع ہوا اور نہ ہی گجرات جیسا کوئی فساد۔ ہاں، مگر ایک خاص بات ہوئی، جس کی طرف تمام ہندوستان بشمول اپنی سرکار اور حزب اختلاف سب کی توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اس درمیان ہوئی ہندوستان میں 9بار ڈیوڈکولمین ہیڈلی کی آمد، جو ہمارے لےے بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فساد سے بھی کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ لہٰذا اب ہم تفصیل بیان کرنے جارہے ہیں، ان حادثات کی جو ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی پہلی بار ہندوستان آمد کے بعد سے 26/11تک کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ہیڈلی کا پہلا دورہ ہند اس کے نئے پاسپورٹ اور نئے نام کے ساتھ جون2006میں ہوا اور 11جولائی2006کو ممبئی کی لائف لائن تصور کی جانے والی لوکل ٹرین میں زبردست بم دھماکے ہوئے، جن میں 180 لوگوں کی جان گئی اور700سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ ان بم دھماکوں کے بعد حسب معمول مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ بہرحال اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، اس لےے کہ یہ تو ہر بم دھماکہ کے بعد ایک معمول کی بات بن گئی ہے۔ میں ذکر کررہا تھا ہندوستان میں ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی آمد کے سلسلہ اور ہندوستان میں ہونے والے بم دھماکوںکی تاریخوں کے رشتوں کا۔ جون2006کے بعد ہیڈلی دوسری بار پھر ستمبر2006میں ہندوستان آیا۔ شب برا ¿ت کے موقع پر عین نماز جمعہ کے دوران مہاراشٹر کے صنعتی شہر مالیگاو ¿ں میں خوفناک بم دھماکے ہوئے، جن میں37لوگوں کی جانیں گئیں، کیوں کہ بم دھماکہ نماز کے دوران اور مسجد میں ہوا تھا، لہٰذا مرنے والے سبھی مسلمان تھے۔ قبل اس کے کہ میں اس کے بعد کے واقعات پر روشنی ڈالوں، میں اپنے قارئین کے گوش گزار کردینا چاہتا ہوں کہ جس وقت 11جولائی2006کو ممبئی کی لوکل ٹرین میں بم دھماکے ہوئے۔ یہ شام کا وقت تھا اور میں نوئیڈا کے اپنے دفتر میں معمول کے کاموں میں مصروف تھا۔ ٹیلی ویژن چینل پر جیسے ہی میں نے یہ خبر دیکھی، چند منٹ بعد ہی میں ممبئی کے لےے روانہ ہوگیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرا ہوائی جہاز کا ٹکٹ میرے دفتر سے روانہ ہونے کے بعد بک کیا گیا تھا، اس لےے کہ میں یہی کہہ کر دفتر سے اٹھا تھا کہ جس کسی بھی ائیرلائنس میں ٹکٹ مل سکے، اس کا پی این آر نمبر میرے موبائل فون پر ایس ایم ایس کردیا جائے، میں ٹکٹ ائیرپورٹ پر لے لوں گا۔ یہی ہوا اور میں اسی رات ممبئی شہر میں تھا۔ اگلی صبح دن نکلنے کے بعد جب میں اپنی ٹیم کے ساتھ ریلوے ٹریک پر ہلاک ہونے والے مسافروں کے جسم کے ٹکڑے دیکھ رہا تھا اور وہاں موجود ان کے متعلقین کی چیخیں سن رہا تھا تو مجھے یہ احساس بھی نہیں رہا کہ جس ٹریک پر میں کھڑا ہوں، اسی پر ایک تیزرفتار ٹرین آرہی ہے۔ اگر میرے معاون نے مجھے کھینچ نہ لیا ہوتا تو شاید آج میں یہ مضمون قلمبند نہ کرپاتا۔ اس کے بعد میں نے اسپتالوں میں جاکر ان لاشوں اور زخمیوں کودیکھا۔ میں وہ منظرکیسے بھول سکتا ہوں، جہاں ہلاک اور زخمی ہونے والے مسلمانوں کے خاندان والے اس قدر گھبرائے ہوئے تھے کہ اپنے بیمار کی ٹھیک سے تیمارداری بھی نہیں کرپارہے تھے۔ وجہ ان بم دھماکوں کا شک سیدھا مسلمانوں پر تھا۔ اس دوران آگ میں گھی کا کام کیا بال ٹھاکرے کے اخبار ”دوپہر کا سامنا“ نے۔ جس میں خصوصی ایڈیٹوریل میں لکھا گیا ”میئے کرگئے کھیل“۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ میں تمام واقعات کی تفصیل میں نہیں جاﺅں گا، کیوں کہ مجھے ہندوستان میں ہیڈلی کی آمد اور انہیں تاریخوں کے آس پاس ہونے والے بم دھماکوں کی وجہ تلاش کرنی ہے، اس لےے مالیگاو ¿ں پہنچنے کے بعد میں نے مسجد، عیدگاہ اور قبرستان جاکر جو خوفناک مناظر دیکھے، ان کی تفصیل اس وقت درج نہیں کرپاو ¿ں گا۔ میں پھر واپس لوٹتا ہوں اسی سلسلہ کی طرف، جہاں میں ہیڈلی کی آمد اور بم دھماکوں کا ذکر کررہا تھا۔ ممبئی اور مالیگاو ¿ں کے بم دھماکوں کے بعد تیسرا خوفناک واقعہ تھا’سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ‘، جو 18فروری2007کو ہوا۔ پھر آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ فروری2007میں بھی ہیڈلی ہندوستان آیا تھا۔ 11اکتوبر2007کو رمضان کا مہینہ، روزہ افطار کا وقت اور درگاہ خواجہ معین الدین چشتیؒ میں دھماکہ۔ ہلاکتیں کم، مگر دنیا جانتی ہے کہ اس درگاہ کی اہمیت کیا ہے۔ اب اسے آپ اتفاق کہےں گے یا کسی سازش کا حصہ کہ اکتوبر میں درگاہ میں بم دھماکہ اور ستمبر میں ہیڈلی کی ہندوستان آمد۔ یہ فہرست طویل ہے، اس کا حوالہ میں پہلے بھی دے چکا ہوں کہ جب جب ہیڈلی ہندوستان آیا، اس کے بعد ہمارے ملک میں کہیں نہ کہیں بم دھماکے ہوئے۔ اب ہیڈلی کو جس سازش کے تحت گرفتار کیا گیا، بقول ایف بی آئی کہ ہیڈلی ڈنمارک کے کارٹونسٹ کو مارنے کا منصوبہ بنارہا تھا۔ یہ واقعہ (کارٹون کی اشاعت) بھی 30دسمبر2005کا ہے۔ اس واقعہ کے بعد ہندوستان میں غم و غصہ کی لہر تو پائی گئی، مگر کوئی ایسا حادثہ جو اس کو بنیاد بناکر عمل میں آیا ہو، نہیں سننے کو ملا۔ اگر پولس ریکارڈ میں ہے تو بتایا جائے۔ شاید کوئی نہیں۔ اور پھر ایف بی آئی یا امریکی حکومت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ اگر اسے اس کارٹونسٹ کو ہلاک کرنا تھا تو اس کے لےے اسے اتنی بار ہندوستان آنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیوں نیا نام، نئی ولدیت، نیا پاسپورٹ اور ایک سزایافتہ مجرم کو اس جعل سازی میں انتظامیہ کی مدد؟ کیا وہ کارٹونسٹ ہندوستان میں رہتا تھا؟ ظاہر ہے ہندوستان کی آمد سے اس کارٹونسٹ کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، یہ صرف ایک بہانہ ہے تاکہ ایف بی آئی ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو ہندوستان کے ہاتھ نہ لگنے دے، تاکہ 26نومبر2008کو ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا راز فاش نہ ہوسکے، اگر یہ شک صحیح ہے تو وہ ایسا کیوں چاہتی ہے؟ یہاں ایک بات اور گوش گزار کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ اس کارٹونسٹ سے بھی زیادہ ہتک آمیز گستاخی کی تھی ’سٹینک ورسسز‘ لکھنے والے سلمان رشدی نے اور یہ کتاب ستمبر1998میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے لکھے جانے کے بعد کچھ ملکوں نے اس پر پابندی عائد کی۔ 14فروری1989کو ریڈیو تہران پر ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ خمینیؒ نے قتل کا فتویٰ جاری کیا اور اسی کے پیش نظر 7مارچ1989کو ایران اور برطانیہ کے سفارتی تعلقات ختم ہوگئے، جوکہ 24ستمبر1998میں محمد خاتمی کی قیادت تک جاری رہے۔ محمد خاتمی نے پھر سے اس تعلق کو بحال کیا۔ کیا اس بیچ کوئی ایسا واقعہ عمل میں آیا؟ کیا ڈیوڈہیڈلی کی طرح اتنے بڑے کسی دہشت گرد گروپ لشکرطیبہ یا القاعدہ کے کسی رکن نے سلمان رشدی کی خبر لینے کی کوشش کی، جبکہ رشدی کسی بند کمرے میں نہیں رہ رہا تھا۔ عوامی جلسوں میں شرکت کرتا تھا۔ 16جون2007کو لٹریری خدمات کے لےے برطانیہ نے اسے ”نائٹ ہڈ“ کے خطاب سے نوازا، جبکہ برطانیہ سے سفارتی رشتے تک ٹوٹ چکے تھے۔ اس درمیان رشدی دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر کرتا رہا۔ ’مڈنائٹ چلڈرن‘ کے عنوان سے بننے والی فلم کے دوران رشدی کی ممبئی آمد بھی ہوئی، اطلاعات کے مطابق جہاں اس کی ملاقات امیتابھ بچن، عرفان خان، شبانہ اعظمی اور جاوید اختر سے بھی ہوئی۔ حتیٰ کہ آج جبکہ میں یہ مضمون قلمبند کررہا ہوں، تک بھی ایک انگریزی روزنامہ میں اس کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک سلمان رشدی جتنا بڑا مجرم ہے، اتنا بڑا مجرم تو کبھی بھی ڈنمارک کے اس کارٹونسٹ کو مانا ہی نہیں گیا۔ تو اس کے سوا اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو نہ صرف26/11 میں اس کے دہشت گردانہ عمل کا بھیدکھل جانے، بلکہ گرفت میں آنے کے بعد دیگر بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا راز فاش نہ ہونے دینے کی نیت سے اسے امریکہ میں گرفتار کیا گیا۔
کیا ہمارے لےے یہ حیران کن نہیں ہونا چاہےے کہ ایف بی آئی کو ہندوستان آکر ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے دہشت گرد اجمل عامرقصاب سے پوچھ گچھکی اجازت دی جاسکتی ہے، بدھوارا پیٹھ پر دہشت گردوں کو دیکھنے والی عینی شاہد انیتااُدیا کو خفیہ طریقہ سے امریکہ لے جاکر پوچھ گچھ کی اجازت ہوسکتی ہے، یہودی ربّی جو نریمن ہاو ¿س میں رہتا تھا، اس کی خادمہ کو پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر اسرائیل لے جایا جاسکتا ہے، جو کہ ہندوستان پر ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کی چشم دیدگواہ تھی، مگر ڈیوڈکولمین ہیڈلی کو ہندوستان لاکر پوچھ گچھ کرنے کی بات تو دور ہماری خفیہ ایجنسی امریکہ جاکر بھی خالی ہاتھ واپس لوٹ آتی ہے، انہیں پوچھ گچھ کی اجازت نہیں ملتی۔ کیا یہ شواہد کم ہیں، امریکہ کی نیت پر شک کرنے کے لےے۔ کیا ہماری خفیہ ایجنسیوں اور حکومت ہند کو اس سمت میں غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ایران کے ذریعہ برطانیہ سے سفارتی تعلقات توڑے جانے کی مثال صرف اس لےے پیش کی، تاکہ واضح کرسکیں کہ اگر کوئی ملک کسی مجرم کو پناہ دیتا ہے تو متاثرہ ملک کو اپنا ردّعمل ظاہر کرنے کا حق تو ہوتا ہی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ امریکہ سے سفارتی تعلقات ختم کرلےے جائیں، مگر اتنا بھی نہ ہو کہ ان تمام باتوں کے سامنے آنے کے بعد بھی کوئی بازپرس نہ ہو۔
اب رہا سوال اس بات کا کہ امریکہ کا ہندوستان میں ہونے والے بم دھماکوں سے کیا رشتہ ہوسکتا ہے؟ اگر ڈیوڈکولمین ہیڈلی کا ان دھماکوں سے رشتہ ثابت ہوبھی جاتا ہے تو بھی ہم کسی ملک کو موردالزام کیسے ٹھہراسکتے ہیں۔ تو مجھے معاف فرمائیں، میں پاکستان کی حمایت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، مگر اتنا تو ہمیں سوچنا ہی ہوگا کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی جتنا پاکستانی شہری ہے، اس سے زیادہ وہ امریکی شہری ہے۔ اگر اس کی پاکستانی شہریت پاکستان کو نشانہ بنانے کے لےے کافی ہے تو اس کی امریکی شہریت امریکہ کو نشانہ بنانے کے لےے کافی کیوں نہیں؟ جہاں تک امریکہ اور بم دھماکوں کے رشتوں کا تعلق ہے تو ہم آئندہ قسطوں میں یہ واضح کردیںگے کہ کس طرح عراق میں فوجیں برقرار رکھنے کے لےے امریکہ نے بم دھماکوں کا سہارا لیا۔ ہم نے پہلے بھی اور آج بھی پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں اور ہلاکتوں کی فہرست جاری کی ہے۔ اتنا اقرار تو ایف بی آئی نے بھی کیا کہ جتنی بار ہیڈلی ہندوستان آیا، اتنی بار وہ پاکستان بھی گیا۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان میں ہیڈلی کے دوروں سے پہلے کتنے بم دھماکے ہوئے اور اس کے دوروں کے بعد کتنے؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہندوستان اور پاکستان میں یہ دہشت گردی اور یہ بم دھماکے 9/11سے پہلے کتنے ہوئے اور بعد میں کتنے؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ 9/11کی بنیادی وجہ کیا تھی؟ اس کے پیچھے کس کی سازش کارفرما تھی اور اس دہشت گردانہ حملہ کے بعد کن کن ممالک کو تباہ وبرباد کیا گیا اور ایک آخری سوال ان سے، جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ان دہشت گردانہ حملوں کو جوڑنے کے عادی ہوچکے ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ6دسمبر کا ردّعمل ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ گجرات کا بدلا ہے تو پوچھئے اپنے آپ سے پاکستان میں کون سا 6دسمبر یا گجرات ہوا ہے؟ کیا وہاں ہندواور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات اسی طرح ہوتے رہے ہیں، جس طرح ہندوستان میں؟ وہاں تو مرنے والا بھی مسلمان ہے اور مارنے والا بھی مسلمان، بم دھماکے مسجدوں کے اندر نماز کے دوران.... یہ کون سی اسلامی دہشت گردی ہے، جو مسجدوں میں نمازیوں کو ہلاک کرنے کی ترغیب دیتی ہے؟ اس پر غور کرنا ہوگا۔
ہمیں ابھی اس مضمون کو اور جاری رکھنا تھا، مگر جگہ کم ہے، اس لےے ہم پاکستان میں بم دھماکوں اور ہیڈلی کے سفر کی تفصیل پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں، جسے ہم نے اسی مضمون کے ساتھ شامل اشاعت کیا ہے اور یہ بھی کہ اس درمیان کتنے سفارتکاروں اور امریکی خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والوں کا ہندوستان دورہ عمل میں آیا ہے۔ وہ کب کب، کن کن تاریخوں میں آئے، یہ سب آئندہ کی قسطوں میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ ہمیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہم آج کا یہ مضمون اپنے ہندی قارئین کی خدمت میں اسی طرح پیش نہ کرسکے، جس طرح یہ کیا جاتا رہا ہے، مگر وہ سب اسے ہماری ویب سائٹ اور ہمارے بلاگ پر ضرور دیکھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ باتیں بھی، جنہیں یہاں لکھنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔
4 comments:
जनाब आपका लेख ''हमारा मुल्क खतरे में है और हमें खबर भी नहीं'' www.blogvani.com पर देख कर आया, लेख तो हमेशा की तरह लाजवाब है, पर वहाँ वेब पर हैडिंग और पोस्ट अपस में मिल गये हैं, शायद इनके पास उर्दू जानकार नहीं है,यह लोग इसे दूसरी भारतीय भाषाओं के लिये भी कर रहे हैं, आप सक्षम हैं उर्दू के लिए आप मदद कर दें, तो इस भारतीय भाषा का सम्मान बना रहे
mazmoon umdah aur bar vaqt he is ko mzeed vusat dene ki zaroorat he
Post a Comment