تمغے نہیں! پاور چاہےے تو پاور دو
عزیز برنی
ملائم سنگھ جی آج آپ دوراہے پر ہیں، آپ کے قدموں تلے سے آپ کی سیاسی زمین کھسکتی جارہی ہے۔ اب اس کی وجہ آپ کے دوست و سپہ سالار ٹھاکر امرسنگھ ہیں یا آپ کے بھائی پروفیسر رام گوپال یادو، یہ فیصلہ تو ہوتا رہے گا، اس کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس سے آج ہونے والے نقصان کی بھرپائی تو ہو نہیں سکتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے بھی اس سمت میں سوچنا شروع کردیا ہے کہ اگر امرسنگھ سے ناطہ ٹوٹتا ہے تو اپنی سیاسی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لےے کیا طریقہ عمل میں لانا چاہےے اور اس کے لےے جو سب سے آزمودہ نسخہ آپ کے پاس ہے، آپ نے اسی کو عملی جامہ پہنانا شروع بھی کردیا ہے۔ جب آپ نے پارٹی بنائی، تب بھی یادوﺅں سے زیادہ مسلمان آپ کا مضبوط ووٹ بینک تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے چودھری دیوی لال نے آپ کو صدام حسین کا لقب دیا تھا تو بابری مسجد کے تحفظ کے بعد آپ مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن گئے تھے اور6دسمبر1992کے بعد تو مسلمانوں نے آپ کو ’مولانا ملائم سنگھ‘ کہنا شروع کردیا تھا۔ یہ آپ کی سیاست کا وہ دور تھا، جب پورا ملک آپ کو سیکولرزم کے علمبردار کی شکل میں دیکھتا تھا۔ سوال صرف اتنا سا نہیں ہے کہ آپ اپنی اس خوبی یا طاقت کی بنا پر پہلے اترپردیش کے وزیراعلیٰ اور بعد میں مرکزی حکومت میں وزیردفاع بنے، بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ سیکولرزم کی سیاست کرنے والوں کے لےے ایک سرٹیفکیٹ بن گئے تھے، یعنی آپ جس خیمہ میں ہوجاتے تھے، اسے سیکولر مان لیا جاتا تھا۔کس کی حمایت نے بخشا آپ کو یہ اعجاز؟ مسلمانوں ہی نے نہ.... اور یہی آپ کی جمع پونجی تھی، سیاسی شناخت تھی۔ آپ جیسے سلجھے ہوئے سیاستداں سے بہتر یہ کون جان سکتا ہے کہ یہ ملک فرقہ وارانہ قدروں پر زیادہ دیر تک گامزن نہیں رہ سکتا۔ کچھ وقت کے لےے کامیابی پالینا ایک بات ہے اور مستقل طور پر کامیاب بنے رہنا دوسری بات۔ بھارتیہ جنتا پارٹی آج جس سیاسی سوچ کے ساتھ موجود ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ جن سنگھ کی شکل میں وہ روزاوّل سے ہی ہندوستان کی سیاست میں تھی، مگر اسے خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ آج بھی جب ہم ہندوستان کے سیاسی منظرنامہ پر نظرڈالتے ہیں تو یہ بات آئینہ کی طرح صاف ہوجاتی ہے کہ 1952کے پہلے پارلیمانی انتخاب سے لے کر 1977تک متواتر کانگریس برسراقتدار رہی۔ 1977میں ایمرجنسی کا نفاذ اور جبراً نسبندی کا فیصلہ کےے جانے کے بعد ایک زبردست احتجاج مسلمانوں کی طرف سے سامنے آیا اور یہ احتجاج ملک گیر سطح پر تھا، جس کا خمیازہ کانگریس پارٹی کے ساتھ ساتھ خود اپنی شکست کی شکل میں آنجہانی اندراجی کو بھی بھگتنا پڑا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ برسہابرس سے برسراقتدار آنے کا خواب دیکھنے والوں کی حسرت پوری ہوئی۔ تاریخ شاہد ہے، اگر آج بھی کانگریس کی اس شکست کی وجوہات تلاش کی جائیں تو اس وقت اس سے مسلمانوں کی ناراضگی صاف نظر آئے گی۔ اس کے بعد جب تک مسلمانوں کا ساتھ دیگر جماعتوں کے پاس رہا، کانگریس کی مدد سے ہی سہی انہیں اقتدار میں آنے کا موقع ملتا رہا۔ کانگریس بھی جب واپس لوٹی تو مسلمانوں کی ناراضگی قدرے کم ہوچکی تھی اور کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کو نزدیک لانے کی مہم کچھ اسی طرح چھیڑدی گئی تھی، جس طرح کی شروعات آج ایک بار پھر آپ نے کی ہے۔ یاد کریں وہ دور جب بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک بار پھر مسلمان کانگریس سے ناراض ہوئے تو وہ اقتدار سے باہر ہوگئی۔ مسلمانوں کے رُخ بدلنے کا نتیجہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ 2004کے انتخابات میں مسلمانوں کی ناراضگی کم ہوئی، کانگریس کو جوڑتوڑ کے سہارے ہی سہی واپسی کا موقع ملا۔ 2009کے انتخابات میں بہت حد تک مسلمانوں نے کانگریس کو اپنا لیا اور وہ پہلے سے بہتر حالت میں برسراقتدار آنے میں کامیاب ہوگئی۔ آج بھی واضح اکثریت تو نہیں ہے، مگر وہ اپنے حلیفوں کی بیساکھیوں پر اس طرح بھی نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات تک کا فاصلہ طے کرنا غیرممکن ہوجائے۔ اگر اس عبارت میں سچائی ہے تو پھر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان کا مسلمان خودبرسراقتدار آنے کی پوزیشن میں بیشک نہیں ہے، مگر وہ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کی حیثیت میں ضرور ہے۔ اگر آپ اس تجزیہ پر غور کریں گے تو بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مسلمانوں کا اعتماد کھوکر آپ نے کتنی بڑی سیاسی غلطی کی ہے۔ آج آپ کو اس بات کا احساس ہے اور آپ واپس پرانے دوستوں کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آپ کی اس پیشکش کو قبول کرلیا جائے، لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اب آپ سے دل کا رشتہ نہیں دماغ کا رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔ بابری مسجد کو شہادت سے بچانے کا قرض ادا کیا جاچکا ہے اور آپ نے خود اپنے عمل سے اس قرض کو وصول کرنے کے بعد ایک نیا سلسلہ شروع کرکے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ہاں اب میرا ذہن تبدیل ہوچکا ہے۔ میں آپ کے بھروسے نہیں چل رہا ہوں، مجھے نئے ساتھی مل رہے ہیں۔ آپ بھلے ہی ان سے نفرت کرتے ہوں، مگر میں نے تمام نفرتوں کو بھلاکر ان سے دوستی کا ہاتھ ملا لیاہے۔
اب اس دور کی شروعات ایک نئی شروعات ہے۔ اگر پچھلی تمام باتوں کو درگزر کرنا سبھی کو مناسب نظر آتا ہو، حالانکہ یہ بہت معمولی بات نہیں ہے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ جب دل کو ذرا سی چوٹ پہنچتی ہے تو برسوں کا یارانہ ٹوٹ جاتا ہے، جو ہر وقت ہم پیالہ وہم نوالہ رہتے ہوں، ان سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مجھے تازہ صورت حال کو دیکھ کر اور اس کا تجزیہ کرکے یہ کہنا پڑا کہ اب آپ کے ساتھ دل کے نہیں دماغ کے رشتے کے بارے میں غور کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر آپ کچھ مسلم چہروں کو سامنے رکھ کر تمام مسلم قوم کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں تو زمانہ گزرچکا ہے۔ مسلم چہرے تو آج کی سیاست میں ہرسیاسی پارٹی کے پاس ہیں۔ اگر سیاسی رشتہ قائم کرنا ہے مسلمانوں سے تو شاید اب یہ "Give and take"کی پالیسی پر ہی ممکن ہوپائے گا، یعنی آپ انہیں ان کی حمایت کے عوض کیا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پارٹی میں کچھ عہدے؟ برسراقتدار آنے کی صورت میں کچھ وزارتیں؟نہیں، یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ تو سب پارٹیاں کرتی ہیں۔ وہ بھی جنہیں مسلمان نہ کچھ دیتے ہیں، نہ اپناتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں یہ تو بھارتیہ جنتا پارٹی بھی کرتی رہی ہے۔وہ سب سے کم عمرمسلمان کو کابینہ وزیر کا درجہ دے کر ایک تاریخ رقم کرچکی ہے اور ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی ہوتے ہوئے بھی پارٹی کے تمام سینئر لیڈران کی موجودگی میں ایک کم عمر مقابلتاً کم تجربہ رکھنے والے مسلمان کو اپنا قومی نائب صدر اور ترجمان منتخب کرلیتی ہے، لہٰذا اب آپ کو کچھ اس سے ہٹ کر سوچنا ہوگا۔ آپ کا مسلمانوں کو متوجہ کرنے کا ایجنڈہ اگر سامنے آئے اور اس میں یہ بھی شامل ہوکہ آپ انہیں ان کے واجب حقوق دلانے کے لےے کیا کریں گے؟ اور یہ ایجنڈہ انتخابات کے دوران چھاپے گئے انتخابی منشور کی طرح نہ ہو کہ چند دن کی تشہیر کے لےے ہر ووٹر تک پہنچانے کی جدوجہد اور الیکشن کے بعد وہ کس کباڑی کی دکان پر کس بھاﺅ بک رہا ہے، اس کی بھی فکر نہیں۔ لہٰذا اب اس سے بھی کام نہیں چلنے والا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات کیا، کانگریس نے استحصال کیا، باقی کس نے کیادیا وغیرہ وغیرہ، نہیں۔ دوسروں کی خامیوں کی بنیاد پر نہیں، اپنی خوبیوں کی بنیاد پر بات کی جائے۔ کس نے کیا دیا؟ بات اس پر نہیں، آپ کیا دیں گے؟ بات اس پر کی جائے۔
ہاں، مسلمان اپنی ایک سیاسی پارٹی بناکر شاید کوئی دیرپا کامیابی حاصل نہ کرسکےں، مگر ملک میں انہیں اپنے لےے ایسی پارٹی یا پارٹیوں کا انتخاب تو کرنا ہی ہوگا، جو انہیں ملک کی قومی دھارا میں لاسکیں۔ ان کے مسائل کے حل کے لےے سنجیدہ ہوں، سوال چاہے آبادی کے تناسب سے نمائندگی کا ہو، سرکاری ملازمتوں کا، ان کے کاروباری تحفظ اور فروغ کایا پھر انہیں انصاف دلانے کا۔ جو اسے ہر قدم پر اس کے واجب حقوق دلانے کا صرف وعدہ ہی نہ کرے، بلکہ لائحہ عمل بھی سامنے رکھے،اس کی بات پر غورکیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر یہ پیش کش کسی ایسی سیاسی پارٹی کی طرف سے آئے، جس کا وجود ہی اس کے دم پر ہو، جو اپنی سیاسی منزلیں اسی کی مدد سے طے کرے تو وہ ان کی پہلی پسند بن سکتی ہے، مگر ایسی صورت میں اس پارٹی کو ایسے ہی اختیارات اس طبقہ کو دینے ہوں گے، جیسا کہ ان کاحق بنتا ہے اور آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹھاکرامرسنگھ نے آپ کی مدد کی اور اپنا حق کس طرح حاصل کیا۔ آپ کے اس دیرینہ رشتے کا سچ یہی تھا نہ کہ پارٹی آپ کی، صدر آپ، مگر اختیارات امرسنگھ کے پاس۔ قومی ترجمان سے لے کر پارٹی کا جنرل سکریٹری بننا ہی نہیں، بلکہ اور کس کس کو پارٹی کا جنرل سکریٹری بنانا ہے، کسے جنرل سکریٹری کے عہدے سے ہٹانا ہے، کسے پارٹی میں رکھنا ہے، کسے پارٹی سے نکالنا ہے، کسے ٹکٹ دینا ہے، کس کا ٹکٹ کاٹنا ہے، کس پارٹی کے ساتھ الحاق کرنا ہے، کس کے ساتھ نہیں کرنا ہے، جتنے کھلے دل سے یہ فیصلے لینے کا حق آپ نے انہیں دیا، کیا اب آپ ایسا ہی ذہن رکھتے ہیں کہ یہ حق ان کو دے سکیں گے، جو اس سیاسی جماعت کو ایک نئی زندگی دے سکتے ہیں؟ اور اگر آپ کے ذہن میں صرف اتنا ہے کہ کسی نئے پرانے چہرے کو مسلم چہرہ بناکر سامنے رکھیں گے، اسے پارٹی کا ترجمان بنادیں گے، اترپردیش اسمبلی میں پارٹی کا لیڈر بنادیں گے، جنرل سکریٹری کا عہدہ دے دیں گے تو پھر یہ تو وہ حیثیتیں ہیں، جو ایک جھٹکے میں کبھی بھی ختم کردی جاتی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا، آپ کے ایک پرانے ساتھی کے پاس یہ تمام تمغے تھے، مگر کیا اتنی حیثیت بھی تھی کہ کسی ایک سیٹ پر ٹکٹ دینے کا فیصلہ لے سکیں؟ کسی جاتے ہوئے کو پارٹی میں بنائے رکھ سکیں یا کسی آتے ہوئے کو پارٹی میں آنے سے روک سکیں؟ اگر نہیں تو پھر ایسے تمغوں سے کیا حاصل؟ اگر کچھ ہوگا بھی تو محض انفرادی حیثیت میں۔ اس کا قد کچھ نمایاں ضرور نظر آنے لگے گا، مگر پستی میں ڈوبی قوم کا قد اوپر نہیں اٹھ سکے گا۔ سوال اب ایک دوچار کی حیثیت بنانے کا نہیں، ایک پوری قوم کی حیثیت بنانے کا ہے۔ آخر دوچار افراد ان کے خاندانوں، یاردوستوں سے تھوڑے ہی کسی پارٹی کی حیثیت بنتی ہے، حیثیت تو پوری قوم ہی بناتی ہے، لہٰذا فائدہ بھی اسی کو حاصل ہونا چاہےے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو سب کو حق ہے، اپنے اپنے بارے میں سوچنے اور فیصلہ لینے کا، جسے جہاں جانا ہے جائے، جسے جس کو بلانا ہے بلائے۔ قوم کا فیصلہ تو اسی کے حق میں ہونا چاہےے، جو قوم کے حق میں فیصلہ لے سکے۔
No comments:
Post a Comment