تمہیں اپنوں سے کب فرصت
نہ ہم اپنے غم سے خالی
چلو بس ہو چکا ملنا
نہ تم خالی نہ ہم خالی
بلاگ پر لکھنے کی شروعات آج میں ایک بہت بڑے جھوٹ سے کررہا ہوں، اس میں کچھ بھی سچ نہیں ہے، پھر بھی اگر یہ آپ کو سچ سا لگے تو یہ آپ کی پرابلم ہے، میری نہیں۔ لوگ ہزار جھوٹ بولتے ہیں، ایک جھوٹ بولنے کا موقع تو مجھے بھی ملنا چاہےے، لہٰذا میں اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک جھوٹ سے اپنی بات شروع کررہا ہوں۔ ہوا یہ کہ گزشتہ دو روز کے میرے بلاگ کا بڑا اچھا فیڈبیک رہا ہے۔ کافی لوگوں نے رسپانس دیا، مگر ایک خاص فون کال جس کا میں ذکر کرنے جارہاہوں، وہ ایک سینئر سیاستداں کی تھی، جنہوں نے میرے بلاگ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’برنی صاحب، آپ نے تو ذرا سی بات کاافسانہ بنادیا۔ امرسنگھ کے اپنی پارٹی کے عہدوں سے استعفیٰ کی خبر کیا آئی، آپ نے تو نیشنلسٹ کانگریس جوائن بھی کرادی۔ مرکزی حکومت میں ساجھیدار بھی قرار دے دیا۔ مہاراشٹر کی حکومت کو این سی پی کے راستے مٹھی میں بھی دے دیا۔ کیا آپ کو لگتا ہے، اس کے علاوہ اور کچھ بھی ممکن نہیں ہے؟ آپ نے خودہی لکھا ہے کہ راجیوگاندھی جی نے ’راشٹریہ ایکتا پریشد‘ کی میٹنگ میں ملائم سنگھ جی کی کھلے دل سے تعریف کی تھی۔ اب جوآپ نے نہیں لکھا، وہ سنئے۔ کیا کبھی کسی ذمہ دار کانگریسی سے آپ نے ملائم سنگھ کی برائی سنی ہے یا ملائم سنگھ یادو کی زبان سے کانگریسی قیادت کے لےے کوئی تلخ جملہ سنا ہے آپ نے؟ یقینا نہیں، مگر امرسنگھ کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ کیا اس بات سے انکار کرےں گے آپ کہ یوپی اے سرکار کو حمایت دینے کے باوجود اگر سماجوادی پارٹی سرکار میں شامل نہیں ہے تو اس کی ایک وجہ امرسنگھ کی کانگریس قیادت کے لےے تلخ بیانی بھی ہوسکتی ہے؟ اگر ملائم سنگھ اور امرسنگھ الگ ہوتے ہیں تو آپ کو یہ کیوں نہیں لگتا کہ ملائم سنگھ اور کانگریس زیادہ نزدیک آسکتے ہیں؟ شاید سماجوادی پارٹی سرکار میں بھی شامل ہوسکتی ہے۔‘میں نے ان کی باتوں کاجواب دینے کے لےے زبان کھولی ہی تھی کہ ذرا تیز آواز میں بولے ’میں آپ کا بلاگ پڑھ چکا ہوں برنی صاحب، لیکن میں بلاگ نہیں لکھتا، اس لےے مجھے اپنی بات کہنے کے لےے آپ کو فون کرنا پڑا، اب آپ کا جو جی چاہے لکھیں۔مجھے جو ٹھیک لگا، میں نے کہہ دیا۔‘ اس کے بعد فون کٹ گیا۔ اب آپ مجھ سے یہ مت پوچھئے گا کہ یہ نیتا کون تھے؟ نام کیا تھا؟ کس پارٹی کے تھے؟اسی لےے میں نے شروع میں ہی لکھ دیا تھاکہ آج کی بات میں ایک جھوٹ کے سہارے شروع کررہا ہوں، پھر بھی اگر یہ آپ کو سچ لگے تو یہ فیصلہ آپ کا۔ جو بھی ہو، مجھے لگا کہ ان کی بات میں دم ہے۔ بیشک امرسنگھ کے لےے نیشنلسٹ کانگریس کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ اسی طرح امرسنگھ کے جانے کے بعد ملائم سنگھ کے بھی کانگریس سے رشتے اور نزدیک ہوسکتے ہیں۔ راج ببر، بینی پرشاد ورما جیسے لوگ ملائم سنگھ کے پیروکار کی حیثیت سے اپنی پارٹی ہائی کمان کے سامنے یہ بات رکھ سکتے ہیں کہ کانگریس کی اصل ناراضگی تو بہت حد تک امرسنگھ سے تھی، ملائم سنگھ سے نہیں۔ سماجوادی پارٹی نے تو نیوکلیئر ڈیل کے موقع پر بھی سرکار کو گرنے سے بچایا تھا اور حالیہ انتخابات کے بعد بھی بلاشرط حمایت کا اعلان کردیا.... اوراگر آنے والے کل میں سرکار کو مضبوطی دینے کے لےے ملائم سنگھ سے رشتے اور بہتر کرلےے جائیںتو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ اگر کسی وقت کسی بھی طرف سے کوئی دقت پیش آئی تو ملائم سنگھ کا ساتھ نیوکلیئر ڈیل کے موقع کی طرح کام آئے گا۔ اس کے علاوہ آنے والے یوپی اسمبلی الیکشن میں بیشک کانگریس اکیلے الیکشن میں اترے، پھر بھی اگر واضح اکثریت کسی کو بھی نہ ملی تو یوپی میں کانگریس اور ایس پی کی ملی جلی سرکار بننے میں تو کوئی شک نہیں ہوگا۔ اسی طرح اسی سال کے آخر میں بہار الیکشن میں بھی لالو، پاسوان اور ملائم سے دوستانہ رشتے ایک سیکولر سرکار کے قیام کو یقینی بنادیں گے۔ یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ سرکار کس کی قیادت میں بنتی ہے۔میں نے جب اس سمت میں گہرائی سے سوچنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ ملائم سنگھ یادو کو امرسنگھ کے الگ ہونے کا نقصان تو عارضی ہوگا، مگر فائدہ دوررس بھی ہوسکتا ہے۔ ملائم سنگھ کا ساتھ چھوڑ کر آخر کتنے ایم ایل اے اور ایم پی جاسکتے ہیں؟ آدھے بھی نہیں۔ اس وقت تک جو خبریں آرہی ہیں، ان کے مطابق تو زیادہ سے زیادہ 6 ممبران پارلیمنٹ اور 25ممبران اسمبلی امرسنگھ کے ساتھ بتائے جاتے ہیں۔ یہ تعداد Anti Defection Lawکے مطابق انہیں ٹوٹ کر الگ پارٹی بنانے یا کسی پارٹی میں شامل ہونے کا موقع فراہم کہاں کرتی ہے، ایسی صورت میں ان کی ممبرشپ جاسکتی ہے۔ جہاں تک سنجے دت اور منوج تیواری کا تعلق ہے تو سنجے دت نے پارٹی کے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابھی چند مہینے پہلے ہی تو وہ پارٹی میں آئے تھے، فلم ابھینیتا(فلم اسٹار)ہیں کوئی زمینی نیتا نہیں۔کسی ایوان کے رکن بھی نہیں ہیں۔ یہی معاملہ منوج تیواری کا بھی ہے۔ امرسنگھ کا خود کا کہنا ہے کہ جیابچن ان کے فیصلہ سے ناراض ہیں، اگر وہ راضی ہوبھی جاتی ہیں تو بھی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اب ان کے دن ہی کتنے بچے ہیں؟ چند مہینے، لہٰذا وہ استعفیٰ دے ہی سکتی ہیں، اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑنے والا۔ جیاپردا کا معاملہ ضرور کچھ الگ ہے۔ وہ تو حال ہی میں منتخب ہوکر آئی ہیں۔ استعفیٰ دیتی ہیں تو سیٹ خالی ہوجائے گی، پھر سے الیکشن لڑنا ہوگا۔ امرسنگھ کی بدولت جیت تو وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی سکتی ہیں، ہاں مگر درپردہ بی جے پی کا سہارا لینا ہوگا۔ اب رہا باقی بچے ممبران کا سوال تو کھل کر توابھی کوئی سامنے آیا نہیں ہے، تاہم امرسنگھ کی سیاسی حیثیت کو اتنا کم کرکے بھی نہیں دیکھاجاسکتا۔ 6کی تعداد تو کم ہے، اس سے زیادہ بھی ان کے ساتھ ہوسکتے ہیں،مگر یہ تعداد قطعاًیا دوتہائی اکثریت تک نہیں جاسکتی کہ وہ یکمشت الگ ہوکر ایک الگ پارٹی بنالیں یا پھر کسی پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ ایسی صورت میں پارٹی چھوڑ کر جانے والے لوک سبھا کے ارکان کو استعفیٰ دے کر پھر سے الیکشن لڑنا ہوگا اور یہ سبھی ایسی ہمت کرلیں اور پھر سے جیت کر آجائیں، ایسا نہیں لگتا۔ راج ببر کو امرسنگھ کی طاقت نے ایک بار تو فتح پور سیکری میں ہرادیا، مگر 6مہینے بعد دوسرے فیروزآباد الیکشن میں نہیں ہرایا جاسکا۔اب یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ تو یادو پریوار کی سیٹ تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ یادو پریوار کی سیٹ تھی، مگر انا کا ٹکراﺅ تو امرسنگھ اور راج ببر کے بیچ تھا۔ کیا آپ کو فتح پور سیکری کا الیکشن یاد نہیں؟ اس بار الیکشن لڑانے والے کارکنان کے سامنے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی رہا ہوگاکہ ایک طرف بھائی راج ببر ہے، جس سے انہیں کوئی شکایت نہیں اور بہت حد تک ملائم سنگھ یادو کو بھی نہیں رہی اور دوسری طرف چھوٹی بھاوج ہے، اب دونوں میں سے کوئی بھی جیتے یہ پارٹی کارکنان کے لےے اس طرح انا کا سوال نہیں بن سکتا، جتنا امرسنگھ کے لےے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ استعفیٰ دینے والے ممبران امرسنگھ کی نزدیکی کے تعلق سے فائدہ میں تو رہ سکتے ہیں، مگر وہ پھر سے اپنی سیٹ بھی جیت لیں گے، یہ ضروری نہیں۔آئےے، اب ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اگر ملائم سنگھ اور امرسنگھ الگ ہوجاتے ہیں تو کسے کتنا فائدہ ہوگا اور کتنا نقصان۔ تو یقینا میرا اگلا جملہ پڑھ کر آپ چونک جائیں گے، وہ اس لےے کہ میرے حساب سے دونوں کو ہی بڑا فائدہ ہوگا۔ملائم سنگھ کو اب امرسنگھ کو ساتھ لے کر چلنے میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ لمبے عرصہ سے پارٹی کارکنان میں امرسنگھ کو لے کر چل رہی ناراضگی ایک دم سے تھم جائے گی اور ان پر یہ دباﺅ بھی بنے گا کہ چلو اب امرسنگھ کے بغیر پارٹی کو کھڑا کرکے دکھاو¿۔ اب نہ کلیان سنگھ ہے، جس سے مسلمانوں کو ناراضگی تھی اورنہ امرسنگھ ہیں، جن سے پارٹی کارکنان کو ناراضگی تھی، اب گاﺅں گاﺅں، گلی گلی جاکر پھر سے پارٹی کو مضبوط کرنے کی تحریک چلاو¿۔ ہوسکتا ہے کارکنان پر اس بات کا اثر ہو اور وہ ووٹرس کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ ابھی تو بڑا وقت ہے یوپی اسمبلی الیکشن میں، لہٰذا ملائم سنگھ جیسے زمینی نیتا کو پھر سے پارٹی کو کھڑا کرنے میں بہت دشواری نہیں ہونی چاہےے۔آئےے، اب بات کرتے ہیں امرسنگھ کی۔ امرسنگھ بھی قطعاً نقصان میں نہیں رہیں گے، صحیح معنوں میں انہیں بھی اب سماجوادی پارٹی کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ اترپردیش میں وہ اپنے دم پر دوسال بعد بھی سرکار بنانے میں کامیاب ہوسکے گی، اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ ملائم سنگھ نہ بی جے پی کے ساتھ جاسکتے ہیں اور نہ بی ایس پی کے۔ کانگریس کا رُخ کیا ہوگا، اس پر ابھی سوچنا بیکار ہے۔ مرکزی حکومت میں اگر کانگریس سماجوادی پارٹی کو حصہ داری دے سکتی تو اب تک یہ فیصلہ لے چکی ہوتی، لہٰذا اس بھروسے بھی خالی نہیں بیٹھا رہا جاسکتا کہ آج نہیں تو کل کانگریس سرکار میں شامل ہونے کی دعوت دے گی۔ نیشنلسٹ کانگریس میں شامل ہونے کے بعد امرسنگھ منسٹر بنیں نہ بنیں، رتبہ تو منسٹر والا ہوگا ہی۔ ان کے دوستوں کے کام بھی نہیں رکیں گے، اب وہ شردپوار کے حوالہ سے ہوںیا کسی اور کے حوالہ سے۔ ویسے بھی جب وہ سرکار میں شامل ایک حلیف پارٹی کے سینئر لیڈرہوں گے تو کانگریس سے فاصلہ بھی کب تک نہ مٹے گا۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر میں سرکار پر دبدبہ قائم ہونے پر تو کسی شک کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔ نہ ابوعاصم کو منسٹر بنانا مشکل ہوگا اور نہ ان کے ذریعہ ریاستی سرکار پر گرفت مضبوط کرنا۔ امرسنگھ کے لےے تو جتنی پولیٹیکل انڈسٹری اہم ہے، اتنا ہی فلم انڈسٹری بھی۔ سیاسی گلیمر نہ سہی، فلمی گلیمر تو بھرپور ان کے ساتھ رہے گا ہی۔ اس کے علاوہ ایک موقع اور بھی ہے۔بھارتیہ جنتاپارٹی پرمودمہاجن کے بعد اقتصادی معاملات میں خود کو کمزور پاتی ہے۔ امرسنگھ کا ساتھ مل گیا تو یہ کمی دور ہوجائے گی، ویسے بھی بی جے پی میں امرسنگھ کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پارٹی بڑی ہے، امرسنگھ کا قد بڑا ہے، امرسنگھ کے ساتھ آنے سے یوپی میں بی جے پی کی امیدیں بڑھ جائیں گی اور ملائم سنگھ سماجوادی پارٹی سے بڑی سیاسی پارٹی کے نیتا بن جائیں گے۔ کون جانے ان کے سیاسی رسوخ بی جے پی کے خیمہ میں کچھ نئے علاقائی نیتاﺅں کو بھی شامل کرادےں اور نیم مردہ حالت میں پہنچ رہی پارٹی کو ایک نئی زندگی مل جائے اور وہ ساڑھے چار سال بعد ہی سہی ایک نعم البدل سرکار کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ ابھی سے شروع کیا جاسکتا ہے۔یہ تمام باتیں محض قیاس آرائی پر مبنی ہیں، لیکن سیاست میں منزل پر پہنچنے کے راستہ اتنے کم ہوتے ہیں کہ بہت زیادہ ادھر اُدھر جانے کی گنجائش ہوتی ہی نہیں۔ امرسنگھ اگر اپنا استعفیٰ واپس نہیں لیتے تو اس کے علاوہ راستہ بچتا ہی کیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی بنائےں، شردپوار کا دامن تھامیں یابھارتیہ جنتا پارٹی کا۔ کانگریس کے بارے میں کچھ زیادہ سوچنے کی گنجائش نہیں لگتی۔ ایک تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے قدآور لیڈران کی موجودگی میں اپنی جگہ بنانا بہت مشکل ہوگا،پھر اگر وہ سماجوادی پارٹی میں اپنی نمبر-2کی پوزیشن سے بھی مطمئن نہیں تھے تو کانگریس میں تو ایک سے دس نمبر تک کی جگہ خالی ہی نہیں ہے اور اس کے بعد کی ویٹنگ لسٹ بھی خاصی طویل ہے۔ ایسی صورت میں وہاں جاکر وہ کس طرح مطمئن ہوسکتے ہیں؟ پھر سماجوادی پارٹی سے الگ ہوکر تو کئی پارٹیوں میں جانے کی گنجائش نکل آتی ہے، کیوں کہ ساتھ جانے والے مل جاتے ہیں، مگر کانگریس سے تو نرائن دت تیواری اور ارجن سنگھ جیسے لیڈران کو بھی چھوڑ کر جانے کے بعد کیا ملا؟
No comments:
Post a Comment