Thursday, January 21, 2010

اجمل عامرقصاب کا اقبالیہ بیان-2
عزیز برنی..............................................قسط 82

(گزشتہ سے پیوستہ)
دو مہینے کے بعد ہم لوگوں کو والدین سے ملنے کی مہلت دی گئی۔ میں والدین کے ساتھ ایک مہینے رہا۔ اس کے بعد میں مظفر آباد میں شاویاں نالا میں واقع لشکر کے کیمپ میں ایڈوانس ٹریننگ کے لیے پہنچا۔ وہاں میری تصاویر اتاری گئیں اور کچھ فارم بھرے گئے۔ اس کے بعد ہمیں دورہ
¿ خاص کی ٹریننگ کے لیے چیلا بندی پہاڑی پر لے جایا گیا۔ یہ ٹریننگ تین مہینے کی تھی، جس کے دوران پی ٹی، ہر طرح کے ہتھیاروں سے فائر کرنے کی پریکٹس، ہتھ گولوں کے استعمال کرنے کی ٹریننگ، راکٹ لانچر اور مارٹر توپ کو چلانا سکھایا گیا۔ اس ٹریننگ کا روزانہ کا شیڈول مندرجہ ذیل تھا:۔
(4:15-5:00)۔ بیداری کا الارم اور نماز
(5:00-6:00)۔ پی ٹی کی ٹریننگ۔ ٹرینر- ابومعاویہ
(8:00)۔ ناشتہ
(8:30-11:30)۔ہر طرح کے ہتھیاروں کے استعمال اور ان سے فائر کرنے کی تربیت، ہتھ گولے استعمال کرنے کی ٹریننگ، راکٹ لانچر اور مارٹر، گرین زیرو، ایس کے ایس، یوزی گن پستول، ریوالور، ہتھ گولے، مارٹر، راکٹ لانچر وغیرہ۔ ٹرینر- ابومعاویہ
(11:30-12:00)۔ آرام کا وقفہ
(12:00-13:00)۔ لنچ
(13:00-14:00)۔ نماز
(1400:16:00)۔ ہتھیاروں کا استعمال اور ان سے فائر کرنے کی پریکٹس، ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں لکچر
(16:00-18:00)۔ پی ٹی
(18:00-20:00)۔ نماز اور دیگر کام
(20:00-21:00)۔ ڈنر
اس جگہ32 افرادکو ٹریننگ دی جا رہی تھی۔ ان میںسے 16 کو ایک خفیہ مشن کے لیے ذکی الرحمن چاچا نے منتخب کر لیا۔ ان 16 میں سے 3 کیمپ سے فرار ہو گئے۔ مذکورہ چاچا نے ان 13 افراد کو مریدکے کیمپ میںکافا نام کے ایک شخص کے پاس بھیج دیا۔ مریدکے کیمپ میں ہمیں تیرنے کے ساتھ ساتھ، ان حالات سے مقابلہ کرنے کی ٹریننگ دی گئی، جن کا مچھیاروں کو سمندر میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہم لوگوں نے لانچ کے ذریعہ سمندر میں کئی تجرباتی سفر بھی کیے۔ اس دوران ہمیں ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کے طریق کار کے بارے میں اطلاعات فراہم کی گئیں۔ ہمیں ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی کلپنگس بھی دکھائی گئیں۔
اس تربیت کی تکمیل کے بعد ہمیں سات دنوں کے لیے اپنے آبائی وطن جانے کی اجازت دی گئی۔ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ 7 دن رہ کر مظفر آباد میں واقع لشکر طیبہ کے کیمپ چلا گیا۔
ہم 13 افراد اس ٹریننگ کیمپ میں موجود تھے۔ اس کے بعد ہمیں ذکی الرحمن چاچا کے احکام پر کافا نام کا شخص مریدکے کیمپ میں ایک بار پھر ٹریننگ کے لیے اپنے ساتھ لے گیا۔ سمندری ماحول سے آگہی اور تیرنے کی یہ ٹریننگ پھر سے ایک ماہ تک چلی۔
اس ٹریننگ کے دوران ہمیں ’را‘ سمیت تمام انڈین خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں لیکچر دیے گئے۔ ہمیں اس بات کی بھی ٹریننگ دی گئی کہ کس طرح سیکورٹی دستوں سے ہم بچ سکتے ہیں۔ ہم لوگوں کو اس بات کے سخت احکام دیے گئے تھے کہ ہم ہندوستان پہنچنے کے بعد پاکستان ٹیلی فون نہیں کریں گے۔ اس ٹریننگ میں شامل ہونے والوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:۔
محمداجمل عرف ابو مجاہد، اسمٰعیل عرف ابوعمر، ابو علی، ابواقصیٰ، ابو عمیر، ابوشعیب، عبدالرحمن (بڑا)، عبدالرحمن (چھوٹا)، افضل اﷲ اور ابوعمر
اس ٹریننگ کے بعد 15ستمبر کو ذکی الرحمن عرف چاچا نے ہم میں سے 10 کو منتخب کر کے 5 دستے بنائے، جن میں سے ہر ایک میں 2 افراد تھے۔ میری ٹیم میں‘ میں اور اسمٰعیل تھے۔ ہمارا کوڈ تھا ’وی ٹی ایس‘ ہمیں انٹرنیٹ پر ’گوگل ارتھ‘ دکھائی گئی۔ ہمیں اسی سائٹ پر ممبئی کا آزاد میدان دکھایا گیا اور یہ بتایا گیا کہ ہمیں کہاں اتر کر، کیسے ممبئی میں داخل ہونا ہے۔ ہمیں وی ٹی اسٹیشن کی فلم بھی دکھائی گئی، جس میں رش کے وقت عوام کو ٹرین میں چڑھتے اور اترتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
ہم لوگوں کو صبح 7 سے 11 اور شام کو 7 سے 11 بجے کے دوران گولی چلانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کہا گیا تھا کہ ہم کچھ لوگوں کو یرغمال بنا کر پاس کی کسی بلڈنگ میں گھس کر اس کی چھت پر چڑھ جائیں گے اور اس کی چھت پر چڑھنے کے بعد ہم چاچا سے رابطہ قائم کریں گے۔ اس کے بعد چاچا ہمیں انڈین میڈیا کے ٹیلی فون نمبر دے گا۔ ان نمبروں پر ہم میڈیا کے لوگوں سے رابطہ قائم کریں گے اور چاچا کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق ہم یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مطالبات پیش کریں گے۔ یہی طریق کار ہمارے تربیت دہندگان نے طے کیا تھا۔
اس مہم کے لیے 27ستمبر کی تاریخ رکھی گئی تھی، لیکن کسی وجہ سے اس کو منسوخ کر دیا گیا۔ ہم کراچی میں ہی ٹھہرے رہے، ہم نے پھر سمندر میں اسپیڈ بوٹ میں سفر کرنے کے تجربے کیے۔ ہم وہاں 23نومبر تک رہے۔ دوسری ٹیموں میں شامل لوگوں کے نام درج ذیل ہیں:۔
ٹیم نمبر 2: ابواقصیٰ، ابوعمر
ٹیم نمبر 3: بڑا عبدالرحمن، ابوعلی
ٹیم نمبر 4: چھوٹا عبدالرحمن، افضل اﷲ
ٹیم نمبر 5: شعیب، ابوعمر
23نومبر کو ہماری ٹیم سمیت مذکورہ ٹیمیں ذکی الرحمن عرف چاچا اور کافا کے ہمراہ عزیزآباد (کراچی) سے روانہ ہوئیں۔ ہم لوگوں کو ایک قریبی ساحل پر لے جایا گیا، یہاں پر ہم ایک لانچ میں سوار ہو گئے۔ تقریباً 20-25 بحری میل چلنے کے بعدہمیں سمندر میں ایک بڑی لانچ ملی، کچھ دیر سفر کرنے کے بعد ہم لوگوں کو گہرے سمندر میں ایک بڑے جہاز الحسینی میں سوار کیا گیا۔ جہاز میںسوار ہوتے وقت ہم میں سے ہر ایک کو تھیلے دیے گئے، جن میں 8 ہتھ گولے، 1 اے کے 47 رائفل،200 گولیاں 2 میگزین اور رابطہ قائم کرنے کے لیے 1-1 سیل فون دیا گیا۔
پھر ہم ہندوستانی ساحل کی طرف چل پڑے، جب ہم ہندوستان کی آبی سرحد میں پہنچے، تو الحسینی پر سوار عملے نے ایک ہندوستانی لانچ کو اغوا کر لیا، اس لانچ میں سوار ملاحوں کو الحسینی میں منتقل کر دیا گیا اور مغویہ لانچ میں ہم لوگ سوار ہو گئے۔ ایک ہندوستانی ملاح کو ہمارے ساتھ رکھا گیا، بندوق کی نوک پر وہ ہمیں ہندوستان کے ساحل کی طرف لے چلا، 3 یا 4 دن سفر کرنے کے بعد ہم ممبئی کے ساحل کے نزدیک پہنچ گئے۔ جب ہم لوگ ممبئی کے ساحل سے کچھ ہی دور رہ گئے تو افضل اﷲ اور اسمٰعیل نے ہندوستانی ملاح (تانڈیل) کو لانچ کے تہہ خانے میں ہلاک کر دیا۔ پھر جیسی ہم سب کو ہدایت دی گئی تھی، ہم لوگ ربر کی چھوٹی چھوٹی ناﺅوں (ڈنگی) کے ذریعہ بدھوار پیٹھ کی جیٹی (ساحل) پر پہنچ گئے۔ بدھوار پیٹھ پر اترنے کے بعد میں اور اسمٰعیل ٹیکسی کے ذریعہ وی ٹی اسٹیشن کے لیے روانہ ہو گئے۔ وی ٹی اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد میں اور اسمٰعیل عوامی بیت الخلا میں داخل ہوئے جہاں ہم نے اپنے تھیلوں میں سے ہتھیار نکالے، ان کو لوڈ کیا اور باہر نکل کر مسافروں پر اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کر دیں۔
اچانک یونیفارم میں ملبوس ایک پولس والا ہماری طرف بڑھا اور اس نے گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ جواب میں ہم نے اس پر ہتھ گولہ پھینکا اور اس پر گولیاں بھی چلائیں، اس کے بعد ہم اسٹیشن کے اندر داخل ہوئے اور مسافروں پر بے دریغ گولیاں چلانا شروع کر دیں۔
بعد ازاں ہم ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل آئے اور ایک اونچی چھت والی بلڈنگ تلاش کرنے لگے، لیکن ہمیں کوئی مناسب عمارت نہیں ملی، تب ہم ایک پتلی گلی میں داخل ہو گئے اور ایک بلڈنگ میں گھس کر سیڑھیوں سے اوپر چلے گئے۔ تیسری اور چوتھی منزل پر ہم نے یرغمال بنانے کے لیے لوگوں کو تلاش کرنا شروع کیا، لیکن ہمیں پتہ چلا کہ وہ ایک رہائشی مکان نہیں، بلکہ ایک اسپتال ہے تب ہم باہر آنے لگے۔
اس موقع پر پولس نے ہم پر فائرنگ کرنا شروع کر دی اور ہم نے بھی ان پر ہتھ گولے پھینکے۔ جب ہم اسپتال سے واپس آرہے تھے تو اچانک ہم نے ایک پولس کی گاڑی کو اپنے سامنے سے گزرتے پایا تب ہم ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گئے۔ ایک اور گاڑی ہمارے سامنے سے گزری اور تھوڑی دور جاکر رک گئی۔ اس میں سے ایک پولس افسر اترا اور اس نے ہم پر فائرنگ کرنا شروع کر دی۔ ایک گولی میرے ہاتھ پر لگی اور میری AK47 رائفل گر گئی۔ میں اس کو اٹھانے کے لیے جھکا ہی تھا کہ دوسری گولی میرے اسی ہاتھ میں پیوست ہو گئی، میں زخمی ہو گیا۔ اسمٰعیل نے گاڑی میں بیٹھے افسروں پر فائرنگ جاری رکھی، وہ لوگ زخمی ہو گئے اور ان کی جانب سے گولی چلنا بند ہو گئی۔
ہم لوگوں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور پھر اس گاڑی کی طرف بڑھے، وہاں تین نعشیں پڑی تھیں۔ اسمٰعیل نے تینوں نعشوں کو ہٹایا اور گاڑی چلانا شروع کر دی، میں اس کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ جب ہم گاڑی میں آگے بڑھے تو کچھ پولس افسروں نے ہمیں روکنے کی کوشش کی۔ اسمٰعیل نے ان پر گولی چلا دی اور ہم آگے بڑھ گئے تب بڑے سے میدان کے پاس ہماری گاڑی میں پنکچر ہو گیا۔ اسمٰعیل نے ڈرائیور کی سیٹ سے اتر کر ایک کار کو روکا اور بندوق کی نوک پر اس میں سوارخواتین و مسافروں کو اتار دیا۔ اس کے بعد اسمٰعیل گھسیٹ کر مجھے کار میں لے گیا کیونکہ میں زخمی تھا اور پھر وہ گاڑی چلانے لگا۔ جب ہم سفر کر رہے تھے، تب ہمیں ساحل کے قریب ایک سڑک پر روکا گیا اور پولس نے ہماری سمت میں فائرنگ کی۔ پولس کی فائرنگ میں اسمٰعیل زخمی ہو گیا۔ پھر پولس نے ہمیں وین سے نکالا اور اسپتال لے گئی۔ جہاں مجھے پتہ چلا کہ اسمٰعیل نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا۔
میرا بیان میرے سامنے پڑھا گیا اور مجھے ہندی میں سمجھایا گیا اور یہ صحیح طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔

4 comments:

Mohammed Umar Kairanvi said...

qasab ko hindi men samjha diya gaya,,hamne uska bayan urdu men padh liya,,,,,aage besabri se intezar he

Bilal Bijrolvi said...

kiya qasab ke pas koi urdu akhbar phnchta he?

rahul said...

kiya qasb hindi janta tha? jo use hindi men samjha diya gaya

hamza said...

aaj ke papaer me maine parha ki rahul bhat ka statement to news channel headly FBI ka ajent tha...........................................................................