Sunday, April 3, 2011

اس ٹیم کے فاتحانہ جذبہ کو سلام!

عزیز برنی

ایک دن کے لئے اس سلسلہ کو روکنا ہوگا، جو جاری تھا۔ میری مراد ’اسیمانند کے اقبالیہ بیان‘ سے ہے اور اس کی وجہ کوئی معمولی نہیں، جس کے لئے میں آج کے مضمون کی ابتدا اسیمانند کے بیان سے نہیں کرنا چاہتا۔ دراصل ہندوستانی کرکٹ ٹیم کا ورلڈ کپ جیتنا اپنے آپ میں بہت بڑی بات تھی۔ یہ بہت بڑی بات کئی معنوں میں ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرے وہ قارئین جو میرے مضامین کا ریکارڈ رکھتے ہیں، انہیں اس ورلڈ کپ کی کامیابی پر میرے تاثرات پڑھنے اور یکجا کرنے کا موقع نہ ملی۔
میں نے پہلی بار یہ دیکھا کہ ایک ہی میچ کے لئے ایک ہی وقت میں ٹاس دو بار کیا گیا۔ شاید کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب میچ شروع ہونے سے قبل دونوں کپتانوں کے ذریعہ کئے گئے ٹاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ موسم اور ماحول کا اثر اکثر میچ پر تو ہوتا رہا ہی، لیکن ٹاس پر یہ پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ شور کی وجہ سے ریفری یہ سن نہیں پائے کہ سری لنکا کے کپتان نے کیا کہا ہی، مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ کیا خودسری لنکائی کپتان کمارسنگاکارا اور ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مہندرسنگھ دھونی نے بھی نہیں سنا کہ دھونی کے سکے کی اچھال پر کمارسنگاکارا کی کال کیا تھی۔ اسٹیڈیم میں موجود سامعین کا شور اتنا تھا کہ کچھ بھی سنائی نہیں دے سکا۔ دونوں کپتان، میچ ریفری اور سکے کے اچھال کے وقت وہاں موجود روی شاستری، یہ سبھی اتنے ایکسائٹڈ تھے کہ ورلڈ کپ فائنل کی شروعات کے سب سے اہم مرحلہ میں ہی چوک ہوگئی۔ بہرحال ٹاس دوبارہ کیا گیا۔ ٹاس کا جیتنا ایک اہم بات تھی، دونوں کپتانوں میں سے کوئی بھی اس بات پر بضد کیوں نہیں ہوا کہ ایک بار ٹاس ہوچکا ہے اور وہ جیت چکا ہے تو دوسری بار کیوں۔ مہندرسنگھ دھونی کی باڈی لینگویج بتارہی تھی کہ پہلی بار سکے کے اچھال میں وہ جیت چکے تھی، میں اس وقت لائیو ٹیلی کاسٹ کے ساتھ ساتھ ’’اسٹارنیوز‘‘ بھی دیکھ رہا تھا۔ جہاں باربار اس منظرکو دکھایا گیا اور دیر تک اس موضوع پر بحث جاری رہی۔ مہندر سنگھ دھونی کا رویہ بہت مثبت تھا اور دوسری مرتبہ میں ٹاس ہار جانے کے بعد بھی ان کے چہرے پر کوئی ملال نظر نہیں آیا۔ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم فائدے میں نظر آرہی تھی، باوجود اس کے کہ مسٹر کول ’کول‘ ہی رہے اور اپنی ٹیم کے ساتھ میدان کی طرف کوچ کرگئی۔ ظہیر خان نے اپنے پہلے تینوں اوور لگاتار ’میڈن‘ رکھ کر اس بات کا اشارہ دیا کہ ورلڈ کپ جیتنے کے لئے یہ ٹیم جان لڑا دینے کا ارادہ رکھتی ہی۔ حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ میں سری لنکا کے سلامی بلے باز اس پورے ٹورنامنٹ کے دوران سب سے بہتر جوڑی ثابت ہوئے اور انہیں پہلے دس اوور تک بہت خاموش رہنے اور احتیاط سے رن بنانے کے لئے مجبور کردینا ایک بہت بڑی بات ہی۔ اس درمیان ظہیر خان نے سری لنکائی سلامی بلے بازاُپل تھرنگا کو وکٹ کے پیچھے اپنے کپتان دھونی کے ہاتھوں کیچ کراکر سری لنکا کے بلے بازوں کو یہ احساس دلایا کہ ہندوستان کے خلاف کامیابی کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہی، تاہم آہستہ آہستہ سری لنکا مضبوطی کی طرف بڑھتا گیا۔ مہیلا جے وردھنے نے اپنی بہترین بلے بازی کے ذریعہ جیتنے لائق اسکور کھڑا کرلیا۔ آخری پانچ اوور میں سری لنکا کے بلے بازوں نے کمال کردیا۔ صرف0گیندوں میں 67رن بہت بڑی بات ہی۔ جب سری لنکا کی اننگ ختم ہوئی تو ان کا اسکور پانچ وکٹ پر 274رن تھا، یعنی ہندوستان کو جیت کے لئے 275رن درکار تھی۔ اسکور بڑا تھا اور اسے پار کرنا آسان کام نہیں تھا، لیکن ہندوستان کے پاس دنیا کے بہترین بلے باز ہیں، اس لئے یہ ہدف مشکل تو لگتا تھا، مگر ناممکن نہیں۔ ہمیں بہت بھروسہ تھا اپنی سلامی جوڑی پر۔ ویریندر سہواگ ایک مضبوط اور تیز شروعات دیں گی، اس کی امید کی جارہی تھی۔ سچن تندولکر اس پورے ٹورنامنٹ میں لگاتار اچھی بلے بازی کررہے تھی۔ آخری مقابلہ شروع ہونے سے قبل دو سنچری سمیت 464رن بنا چکے تھی۔ بلے بازی کے اس مقابلہ میں ان سے آگے صرف ایک سری لنکائی بلے باز تلک رتنے دلشان تھے اور ان کے بھی محض 3رن زیادہ تھی، یعنی قوی امکان تھا کہ سچن تندولکر نہ صرف ان سے آگے نکل جائیں گی، بلکہ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رن بنانے والے بلے باز قرار دئے جائیں گی، ساتھ ہی جس شدت کے ساتھ ان کی 100ویں سنچری کا انتظار تھا، اس کے لئے بھی امید کی جارہی تھی کہ ان کے گھریلو میدان پر اس عظیم بلے باز سے ہمیں یہ کارنامہ بھی دیکھنے کو ملے گا، مگر افسوس یہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔ ویریندر سہواگ صرف دو گیندیں کھیل کر ملنگا کی بال پر ایل بی ڈبلیو قرار دئے گئی۔ اس طرح ہندوستان کا جب پہلا وکٹ گرا،اسکور صفر تھا۔ آؤٹ دئے جانے کا فیصلہ بہت صاف شفاف نہیں تھا۔ پوری طرح شک و شبہات سے بھرا تھا۔ آخری فیصلہ کے لئے تھرڈ امپائر کی مدد لی گئی۔ بار بار ایکشن ری پلے میں دکھایا گیا، گیند نے بلے کو چھوا تھا یا نہیں، یہ اتنا واضح نہیں ہورہا تھا کہ پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکے اور شک کا فائدہ بلے باز کو ملنا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا ویریندر سہواگ آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ آئی۔ ہندوستانی ٹیم اور شائقین کے لئے پہلا مگر بہت بڑا جھٹکا تھا۔ تیزی سے رن بنائے جانے کی امیدیں دم توڑنے لگی تھیں، تاہم سچن تندولکر کی موجودگی قابل اطمینان تھی، لیکن یہ کیا محض 14 گیند پر صرف 18 رن بناکر آؤٹ، کرکٹ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ واپس لوٹ رہا تھا۔ 100ویں سنچری کی بات تو دور، آج ان کے نام کے ساتھ اتنے رن بھی نہیں تھے کہ ہندوستان جیت کے لئے ایک امید بھری شروعات کرپاتا۔ اب میدان پر گوتم گمبھیر اور وراٹ کوہلی کی جوڑی تھی۔ دونوں ہی اچھے بلے باز تھی، ان کے بعد آنے والے بلے بازوں سے بھی امیدیں کی جاسکتی تھیں، مگر جس طرح ویریندرسہواگ اور سچن تندولکر آؤٹ ہوئی، ایسا لگا کہ ہندوستان اس میچ سے باہر ہوچکا ہی، اب وہ جیت کی لڑائی نہیں لڑپائے گا، بس میدان پر خانہ پری ہوگی اور سری لنکا فائنل جیت جائے گا۔ جلد ہی وراٹ کوہلی بھی آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ گئی، اب میدان پر یووراج سنگھ کو آنا تھا اور ان کے بعد سریش رینا کو، تب جاکر بیٹنگ آرڈر کے حساب سے کپتان مہندرسنگھ دھونی آتی، لیکن یہ کیا جب اسکور صرف 3 وکٹ پر14رن بنا تھا اور جیت کے لئے 161رن درکار تھی، بہت مشکل نظر آرہا تھا، کپتان مہندرسنگھ دھونی خود میدان پر آکر کھڑے ہوگئی۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں یعنی ورلڈ کپ کے تمام میچوں کے دوران ایک بلے باز کی حیثیت سے دھونی کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی تھی اور اس موقع پر شائقین کا ان سے امیدیں وابستہ کرلینابہت مشکل نظر آرہا تھا، لیکن کمال کی خوداعتمادی کا مظاہرہ کیا ہندوستانی کپتان مہندرسنگھ دھونی نی۔ وہ جیسے یہ فیصلہ کرکے آئے تھے کہ اب میں میدان پر جارہا ہوں تو ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرکے ہی واپس لوٹوں گا اور ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے گوتم گمبھیر کے ساتھ مل کر ہار کے خطرے سے گزررہی ٹیم کو فتح کی طرف گامزن کیا اور جب یہ لگنے لگا تھا کہ ہندوستان کی یہی جوڑی جیت کے لئے ضروری رن بنانے میں کامیاب ہوجائے گی، تب ہی ایک زوردار شاٹ لگانے کی کوشش میں گوتم گمبھیر آؤٹ ہوگئی۔ اس وقت تک گوتم گمبھیر 97رن بناچکے تھے اور اگر آؤٹ نہ ہوتے تو یہ شاٹ ان کی سنچری کو مکمل کرسکتا تھا۔ اب میدان پر یووراج سنگھ اپنے کپتان کا ساتھ دینے کے لئے آئی۔ یووراج سنگھ نے اس پورے ٹورنامنٹ میں گیند اور بلے سے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا تھا، لیکن کرکٹ کے کھیل میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہم نے اسی ٹورنامنٹ کے دوران اپنی ٹیم کو ایک وکٹ پر66 رن بناتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور پھر محض 29رن کے دوران 9وکٹوں کو بھی گرتے دیکھا ہی۔ گیند جب ملنگا جیسے خطرناک بالر کے ہاتھ میں ہواور سہواگ اور تندولکر جیسے بلے بازوں کے وکٹ گرچکے ہوں تو بہت اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ گمبھیر کے آؤٹ ہونے کے بعد باقی بچے 51 رن بھی بہت آسانی سے بن جائیں گی، لیکن یووراج سنگھ بھی جیسے فیصلہ کرکے آئے تھے کہ بس اب اور نہیں، جتنے وکٹ گرنے تھے گرچکی۔ جیت کی منزل تک ہمیں ہی پہنچنا ہی۔ شاید یہ بھی ان کے ذہن میں تھا کہ ’مین آف دی ٹورنامنٹ‘ کا خطاب ان سے بہت دور نہیں ہی۔ چار بار ’مین آف دی میچ‘ کا خطاب اسی ٹورنامنٹ میں وہ پہلے ہی جیت چکے تھی، لہٰذا بہت اعتماد اور سنجیدگی کے ساتھ انہوں نے اپنے کپتان کا ساتھ نبھایا۔ اب ہمارے پاس وکٹ بھی تھی، گیندیں بھی تھیں اور رن بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ آہستہ آہستہ چل کر بھی منزل تک پہنچ سکتے تھی، لیکن خوداعتمادی سے بھرے کپتان مہندرسنگھ دھونی کو جیسے ثابت کرنا تھا کہ آج کے ہندوستانی کرکٹ ٹیم ایک ایسی مضبوط اور مکمل ٹیم ہی، جس کا ہرہر کھلاڑی ٹیم کو فتح دلانے کی حیثیت رکھتا ہی۔ ایک دو تین مایہ ناز بلے بازوں کا جلد آؤٹ ہوجانا مخالف ٹیم کے لئے فتح کی امیدیں نہیں جگاسکتا اور ان کے بعد بھی یہ ٹیم شاہانہ انداز میں فتح حاصل کرسکتی ہی، لہٰذا آخری مرحلہ میں انہوں نے جس طرح جارحانہ بلے بازی کی، اسے کرکٹ شائقین ایک لمبے عرصہ تک یاد رکھیں گی۔ اس مکمل مضمون میں اگر دھونی کے وننگ شاٹ کا ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہے گی، جس طرح نوان کلشیکھرا کی بال پر مہندرسنگھ دھونی کے ایک زوردار شاٹ نے گیند کو میدان کے باہر بھیجا، سارا ہندوستان تالیوں سے گونج اٹھا۔ اب یہ میچ صرف ممبئی کے وانکھیڑے اسٹیڈیم تک محدود نہیں تھا، مہندرسنگھ دھونی کے اس وننگ شاٹ کی دھوم ہر گھر میں سنائی دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ یوپی اے کی چیئرپرسن سونیاگاندھی بھی فتح کے اس جشن میں شامل ہونے کے لئے اپنے گھر سے باہر نکل آئی تھیں۔ ہم کیسے کم کرکے آنک سکتے ہیں اس شاندار جیت کو۔ دنیا کے عظیم بلے باز سچن تندولکر کے لئے ورلڈ کپ جیتنے کا یہ تحفہ، ایک ایسا یادگار تحفہ ہے جس کے وہ واقعی مستحق تھے اور ہمیں یہ دیکھ کر اس وقت اور بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ کپتان مہندرسنگھ دھونی ظہیرخان کی بانہوں میں بانہیں ڈالے نظر آئے اور کرکٹ کا شہنشاہ سچن تندولکر یوسف پٹھان کے کاندھوں پر تھا۔ سلام اس بھارتیہ کرکٹ ٹیم کو، جس نے ہندوستان کو عظمتوں سے ہمکنار کیا۔
امید ہے میرے قارئین کو یہ گراں نہیں گزرا ہوگا کہ میں نے آج کے مضمون میں اسیمانندکے ادھورے بیان کو مکمل نہیں کیا۔ دراصل میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی فتح پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ رہا سوال اسیمانند کے بیان کو مکمل کرنے اور اس پر تبصرہ کا تو یہ انشاء اللہ جاری رہے گا۔ بیان کے بقیہ اہم اقتباسات بھی اور میرا تبصرہ بھی۔ ویسے بھی یہ بیان چونکہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور تقریباً تمام ہندوستان اس سے واقف ہی، یہاں ہم اس بیان کے اس پہلو کو واضح کرنے کے لئے ہی ایک بار پھر دے رہے ہیں کہ اگر تمام ملزمین کے اقبالیہ بیانات اسی طرح ان کے بدلے ہوئے بیانات کی وجہ سے مشکوک قرار دئے جاتے رہی، یعنی پہلا بیان صحیح تھا یا بعد کا، یہ ایک پیچیدہ سوال بن گیا ہی، تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم کسی بھی دہشت گردانہ حملہ کے اصل مجرموں تک کیسے پہنچیں گی، سچائی کاپتہ کیسے لگائیں گے اور کوئی بھی سزا کا مستحق کس طرح ثابت ہوپائے گا۔
اس وقت جب میں آج کے مضمون کو آخری شکل دے رہا ہوں، اترولا(گونڈا، یوپی) سے منتظمین کے ذریعہ فون پر رابطہ قائم کرنے کی برابر کوشش کی جارہی ہی۔ اس وقت بات کرنا بھی مشکل ہے اور کل یعنی 4اپریل011کو منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شرکت بھی نہیں کرپاؤں گا، دراصل اس وقت صحت اور مصروفیت کا تقاضا سفر کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے 27مارچ011کو حکومت ہند کی جانب سے بیرون ممالک دوحہ، دارالسلام، عدیس ابابا اور خرطوم کے دورہ پر جانے والے میڈیا ڈیلی گیشن میں جانا تھا۔ تمام تیاریاں مکمل ہونی، ٹکٹ تک آجانے کے باوجود یہ ممکن نہ ہوسکا، اس لئے کہ ڈاکٹر کی اجازت نہیں تھی۔ یہی صورتحال آج بھی ہی، اس لئے میں تمام منتظمین اور سامعین سے معذرت خواہ ہوں کہ چاہ کر بھی ان کے درمیان حاضر نہیں ہوپارہا ہوں۔انشاء اللہ پھر کبھی……
…………

No comments: