اسیمانند کے بیان کا بقیہ حصہ مجھے آج قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ہی، حالانکہ یہ تسلسل میں چار روز قبل ہی قارئین کی خدمت میں پیش کردیا جاناچاہئے تھا، مگر کرکٹ ورلڈ کپ میں ہندوستان کی شاندار فتح اور چندناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ بیان کا ابتدائی حصہ ہم 3اپریل011کی اشاعت میں قارئین کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔ ابتدائی حصہ کے مقابلہ آج کا اختتامی حصہ کہیں زیادہ اہم ہی، جو ہم آج کی تحریر کے شروعاتی جملوں کے بعد آپ کی خدمت میں پیش کرنے جارہے ہیں۔ اسیمانند نے اپنے بیان کی شروعات میں اپنی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالی تھی۔ کہاں، کس گھر خاندان میں پیدا ہوئی، بچپن کس طرح گزارا، مذہبی خیالات نے کب ان کے دل و دماغ میں جگہ بنائی، سوامی وویکانند کی شخصیت سے متاثر ہونا، آدی واسیوں کی خدمت کا جذبہ دل میں پیدا ہونا، بچپن ہی سے سنگھ پریوار سے وابستگی، پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے باقاعدہ ان کی تحریک میں شامل ہونا۔ اقبالیہ بیان کا باقی حصہ پیش کرنے سے قبل ہم اس ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گی۔ ابھی ہم اس نتیجہ پر نہیں پہنچنا چاہتے کہ اسیمانند نے 18دسمبر010 کو مجسٹریٹ دیپک دباس کی عدالت میں جو بیان دیا، وہ بغیر کسی دباؤ کے تھا یا دباؤ کے تحت دیا گیا۔ جہاں تک ابتدائی زندگی کے حالات کا تعلق ہے تو اس میں پولیس کی کیا دلچسپی ہوسکتی ہے اور اگر یہ بیان دباؤ میں دلوایا گیا، کیا پولیس کو اس بات کی ضرورت تھی کہ اسیمانند کے بیان میں ان کی ابتدائی زندگی کے وہ پہلو سامنے رکھیں، جن کا بم دھماکوں کے کیس سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ سنگھ پریوار سے ان کے قریبی رشتے رہی۔ لیکن004سے پہلے کے قریبی رشتے اس نوعیت کے نہیں تھے کہ انہیں قابل اعتراض کہا جاسکے اور وہ تمام باتیں جو اقبالیہ بیان کے ابتدائی حصہ میں تھیں، پولیس کی اطلاعات سے کہیں زیادہ خود اسیمانند کی جانکاری پر ہی مبنی نظر آتی ہیں۔ اپنی زندگی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنی، آدی واسیوں کی خدمت میں کام کرنے کے سلسلہ میں وہ کہاں کہاں گئی، کتنے روز کہاں رکی، یہ سب پولیس کی دلچسپی کا موضوع نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ نہ تو اس دوران کسی مجرمانہ سرگرمی سے ان کا کوئی تعلق رہا اور نہ اس دوران کوئی ایسا شخص ان کی زندگی میں آیا، جس سے کہ پولیس نے ان پر نظر رکھنی شروع کی ہوتی۔ جنوری003کے بعد کے جو واقعات ملتے ہیں، جب ان کی سادھوی پرگیہ سنگھ سے ملاقات ہوئی اور یہ بات انہیں جینتی بھائی کیوٹ کے ذریعہ معلوم ہوئی کہ سادھوی پرگیہ سنگھ ان سے ملنا چاہتی ہی۔ اس سے پہلے اکتوبر002تک آدی واسیوں کی خدمت کے لئے 9دن تک ضلع ڈانگ میں انہوں نے شبری کمبھ کے نام سے کیمپ چلایا، تب تک ایسی کسی بھی مشتبہ سرگرمی سے اسیمانند کی وابستگی ظاہر نہیں ہوتی۔ اکتوبر002 کے ’’شبری کمبھ آیوجن‘‘ کے دوران ہی آر ایس ایس کے ان کارکنان سے اسیمانند کی ملاقات نظر آتی ہی، جن سے آگے چل کر بم دھماکوں کا رشتہ جڑتا ہی، لیکن اکتوبر002سے پہلے تک پولیس کے ذریعہ اسیمانند پر نظر رکھے جانے کی کوئی وجہ نہیں ملتی۔ اس سے پہلی کی زندگی کے بارے میں انہوں نے جو بھی بتایا ہی، وہ سب کچھ اسیمانند کی خود کی جانکاری پر ہی منحصر نظر آتا ہی۔
اب پیش ہے اسیمانند کے بیان کا بقیہ حصہ، اس کے بعد گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا:
’’اس کے دوتین مہینے بعد ایک فون آیا کہ سنیل آپ کو فون کرنے کی کوشش کررہا ہی، لیکن فون نہیں لگ رہا ہے اورایک دودن میں وہ آپ کے پاس آکر ملے گا۔دوتین دن بعد سنیل میرے پاس آیا اور اس کے ساتھ میں دو لڑکے تھے جن کے نام راج اور میہُل تھی۔راج اور میہُل شبری دھام میںسنیل کے ساتھ پہلے بھی تین چار بار آچکے تھی۔سنیل نے مجھے بتایاکہ اجمیر میںجو بم دھماکہ ہواہی، وہ ہمارے لوگوں نے ہی کیاہی۔سنیل نے یہ بھی بتایا کہ وہ بھی وہاںپر تھا۔میں نے سنیل سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ اور کون لوگ تھی۔سنیل نے مجھے بتایا کہ ہمارے ساتھ اور دومسلمان لڑکے تھی۔میں نے سنیل جوشی سے یہ پوچھا کہ مسلم لڑکے تمہیں کیسے ملے تو سنیل جوشی نے کہا کہ لڑکے اندریش جی نے دیے تھی۔میں نے سنیل جوشی کو بتایا کہ اندریش جی نے اگر آپ کو مسلم لڑکے دیے ہیں تو آپ جب پکڑے جائیں گے تو اندریش جی کا نام بھی آسکتاہی۔میں نے سنیل جوشی کو کہا کہ اس کو اندریش جی سے جان کا خطرہ ہی۔میں نے سنیل جوشی کویہ بھی کہا کہ تم نے مسلمان لڑکوں سے کام کروایا ہے توتمہیں مسلمانوں سے بھی اپنی جان کا خطرہ ہی۔میں نے سنیل جوشی کو کہا کہ تم کہیں مت جائو بلکہ یہیں پر رکو۔سنیل جوشی نے مجھے بتایا کہ اسے دیواس (مدھیہ پردیش) میں کچھ کام ہے اور وہ جلد جاکر جلد ہی واپس آجائے گا۔سنیل نے کہا کہ راج اور میہُل کو وہ وہیں پر چھوڑ کر جائے گا۔سنیل جوشی نے یہ بھی بتایا کہ راج او رمیہُل بڑودہ بیسٹ بیکری واقعہ میں بھی مطلوب ہیں۔میں نے سنیل کو کہا کہ بیسٹ بیکری واقعہ بھی گجرات کا ہے او رشبری دھام بھی گجرات میں ہی، اس لیے ان کو یہاں رکھنا ٹھیک نہیںہے ،اس لیے یہاں سے انہیں لے جائو۔سنیل جوشی ان دونوںکو لے کر دوسرے دن دیواس (مدھیہ پردیش) نکل گیا۔اس کے کچھ دن بعد بھرت بھائی کا فون آیا کہ خبر ملی ہے کہ سنیل جوشی کا قتل ہوگیاہی۔میں نے اسی دن کرنل پروہت کو فون کیا اور بتایا کہ سنیل جوشی کا قتل ہوگیا ہے جو اجمیر بم دھماکہ میں شامل تھا ۔میں نے کرنل پروہت کو کہا کہ تم تو انٹلی جنس میں ہو ، پتہ کرکے بتائو کہ سنیل جوشی کا قتل کس نے کیاہی۔کرنل پروہت نے مجھے بعد میں بتایاکہ سنیل جوشی نے پہلے بھی قتل کیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ اسی کا بدلہ اس سے لیا گیا ہی۔
2005میں شبری دھام میں اندریش جی جو آرایس ایس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن ہیں،ہمیں ملے تھی۔ان کے ساتھ آرایس ایس کے سبھی بڑے عہدیداران تھی۔آرایس ایس کے سو رت اجلاس کے بعد سبھی شبری دھام کے درشن کے لیے آئے تھی۔اس کے بعد پمپا سروور میں جہاں شبری کمبھ کا انعقاد ہورہا تھا، وہا ں ایک ٹینٹ میں اندریش جی ہم کو ملے تھی۔اس وقت سنیل جوشی بھی وہاں پر تھی۔اندریش جی نے ہمیں بتایاکہ آپ جو بم کا جواب بم سے دینے کی بات کرتے ہو، وہ آپ کا کام نہیں ہی۔آرایس ایس سے آپ کو حکم ملاہے کہ آدی واسیوں کے درمیان میں کام کرواور بس اتنا ہی کرو۔انہوں نے اوربتایا کہ آپ جو سوچ رہے ہیں ہم لوگ بھی اس موضوع پر سوچتے ہیں ۔سنیل کو اس کام کے لیے ذمہ داری دی گئی ہی۔اندریش جی نے کہا کہ سنیل کو جو مدد چاہیی، وہ ہم کریں گی۔
مجھے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ سنیل جوشی بھرت بھائی کے ساتھ ناگ پور میںاندریش جی سے ملے تھے اور اندریش جی نے بھرت بھائی کے سامنے سنیل کو 50,000روپے دیے تھی۔کرنل پروہت نے بھی ایک بارمجھے بتایاتھا کہ اندریش جی آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں او راس کے پورے کا غذی ثبوت ان کے پاس موجود ہیں،لیکن کرنل پروہت نے مجھے وہ کاغذات کبھی نہیں دکھائی۔
اپریل 2008میں بھوپال میں ابھینوبھارت کی ایک بڑی میٹنگ ہوئی تھی۔اس میٹنگ میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر،بھرت بھائی،کرنل پروہت، دیانندپانڈی،سدھاکرچترویدی،سمیرکلکرنی،ہمانی ساورکر، تپن گھوش، ڈاکٹر آرپی سنگھ،راجیشور سنگھ وغیرہ موجودتھی۔اس میٹنگ میں میں نے بم کا جواب بم سے دینے کی تجویز رکھی تھی۔وہاں ابھینو بھارت کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں پرشانت وغیرہ کا انتخاب ہوا ۔جنوری 2007میں بھی ابھینوبھارت کی ایک میٹنگ میں ،میں کرنل پروہت سے ملا تھا۔پونے میں بھی کرنل پروہت کے ساتھ میں ایک میٹنگ میں موجود تھا۔
اکتوبر008میں سندیپ ڈانگے کا فون میرے پاس آیا ، میں اس وقت شبری دھام میں ہی تھا ۔سندیپ نے مجھے بتایا کہ وہ ویاراواس جگہ پر ہے اور شبری دھام آنا چاہتاہے او ردوچار دن رکنا چاہتا ہی۔میں نے اسے بتایا کہ میں ابھی ناڈیاڈ جانے کی تیاری میں ہوں اور میرے نہ ہونے سے اس کا وہاں رہنا مناسب نہیں ہوگا۔سندیپ نے کہا کہ آپ اگر نانڈیاڈ جارہے ہیں تو ہمیں بھی لے کر چلیے ہم بڑودہ تک آپ کے ساتھ جائیں گی۔میں اپنی سینٹروکار میں شبری دھام سے ویارا بس اسٹینڈ پر آیا۔سندیپ کے ساتھ ایک اور آدمی تھا اور وہ دونوں بڑی جلدی اور ہڑبڑی میں میری گاڑی میں بیٹھ گئی،جن کے پاس دو تین وزنی سامان کے بیگ بھی تھی۔میں نے ان سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو، انہو ںنے کہا کہ مہاراشٹر سے آرہے ہیں۔وہ ٹھیک سے بات نہیں کرپارہے تھی۔میں ان کو لے کر راج پپلا ہوکر بڑودہ راج پپلا روڈ کے جنکشن تک لے کر آیا۔وہ لوگ جنکشن پر اتر گئی۔مجھے بعد میں احساس ہوا کہ وہ دونوں مالیگائوں بم دھماکہ کے اگلے دن ہی مجھے وہاں ملے تھی۔سندیپ کے ساتھ میں جو دوسرا آدمی تھا مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نام رام جی تھا۔
بم دھماکہ کے ہرواقعہ سے قبل یا ایک دودن بعد سنیل مجھے بتاتاتھا کہ یہ ہمارے لوگوں نے کیا ہی، لیکن مالیگائوں کے 2008کے دھماکہ تک سنیل کا قتل ہوچکاتھااورمجھے بعدمیں پتہ چلا کہ مالیگائوں بم دھماکہ بھی ہمارے لوگوں نے ہی کیا تھا۔جب تک سنیل زندہ تھا سبھی بم دھماکے ہم لوگوں نے مل کر کیی، لیکن اب مجھے لگتاہے کہ ہم نے جو بھی کیا وہ غلط کیا۔مجھے اندر سے بہت اذیت ہورہی تھی، اس لیے میں نے یہ قبول کیا ہے ۔میںاورکچھ نہیں کہنا چاہتا۔ ‘‘
مندرجہ بالا اقبالیہ بیان میں جو باتیں انتہائی اہم ہیں، وہ ہیں سنیل جوشی کی بم دھماکوں سے وابستگی۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزم اور رام سنگھ سے ملاقات کا ذکر اور سنیل جوشی کے حوالہ سے آر ایس ایس کے سینئررکن اندریش کا ذکر۔ جب اندریش کا نام سامنے آیا تھا، تب سنگھ پریوار کے خیمہ میں زبردست ہلچل پیدا ہوئی تھی۔ یہ مالیگاؤں بم دھماکوں کی تفتیش کررہے شہید ہیمنت کرکرے کے ذریعہ ہی سامنے آگیا تھا، جس میں آئی ایس آئی سے ان کے رشتوں کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ یہی بات اسیمانند کے اقبالیہ بیان میں سامنے آئی، لہٰذا اقبالیہ بیان کے اس حصہ میں اندریش کا ذکر ایک ایسا پہلو ہی، جس پر آگے بھی بحث کی ضرورت باقی ہی۔ دوسری اہم بات سنیل جوشی کا اجمیردرگاہ، مکہ مسجد بم بلاسٹ اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں میں ان کے اپنے لوگوں کا ہاتھ بتایا جانا، یعنی سنگھ پریوار سے ان کے تعلق کا اشارہ۔ سنیل جوشی کا قتل کیا جاچکا ہی، سنیل جوشی کے قتل کردئے جانے کا اندیشہ سوامی اسیمانند کو بھی تھا اور انہوں نے سنیل جوشی کو اس خطرے سے آگاہ بھی کیا تھا۔ اسیمانند نے سنیل جوشی کو اندریش سے اپنی جان کا خطرہ بتایا تھا اور ان مسلم لڑکوں سے بھی جو بم دھماکوں میں شامل تھے اور اندریش کے ذریعہ بھیجے گئے تھی۔ اب تین باتیں انتہائی اہم ہیں، جو اس بیان کے بدلنے کی وجہ بھی ہوسکتی ہیں۔ سنیل جوشی کا مندرجہ بالا بم دھماکوں میں ملوث ہونا، بعد میں اس کا قتل ہوجانا، بقول اسیمانند سنیل جوشی کی جان کو اندریش سے خطرہ ہونا۔ ظاہر ہے یہ تفتیش اس سمت میں آگے بڑھتی ہے اور جو باتیں اسیمانند نے کہی ہیں، وہ ثابت ہوتی ہیں تو شک کے دائرے میں اندریش کے آنے کو روکا نہیں جاسکتا۔ ظاہر ہے سنگھ پریوار کے لئے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہی۔ اب اگر یہ بیان سوامی اسیمانند نے پہلے کسی دباؤ کے بعد دیا تھا تو اس کی نوعیت ایک دم مختلف ہوجاتی ہے اور اسی طرح اگر بعد میں دیا گیا بیان دباؤ کی وجہ سے ہے تو بھی اس کیس پر گہرا اثر پڑتا ہی۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کے سلسلہ میں رہائی کی آس لگائے مسلم نوجوانوں کے لئے دقت پیدا ہوسکتی ہی۔ یہ قانونی پہلو ہی، جس پر ہم مشہوروکیل مجیدمیمن سے گفتگو کررہے ہیں، ان سے بات چیت کے بعد ایک بار پھر اس موضوع پر اور اس اقبالیہ بیان کے مضمرات پر گفتگو کی جائے گی، لیکن آج کے مضمون میں بس اتنا ہی۔
…………
No comments:
Post a Comment