Saturday, February 19, 2011

خدا کرے کہ یہ اندیشی، اندیشے ہی رہیں، حقیقت نہ بنیں!

عزیز برنی

دارالعلوم دیوبند کے طلبا کے لئے ابھی تک براہِ راست کچھ بھی نہیں لکھا، لیکن یہ ساری جدوجہد انہیں کے لئے ہی۔ میں انہیں صرف طلبا کی نظر سے نہیں دیکھ رہا ہوں، بلکہ وہ میرے نزدیک قوم وملت کا سرمایہ ہیں، ملک کا مستقبل ہیں۔ آنے والے کل میں انہیں کے ذریعہ دکھائی جانے والی دین کی روشنی میں اس قوم کو چلنا ہی۔ کل ان میں سے کون کس دارالعلوم کا مہتمم ہوگا، کون کس دینی درسگاہ کا نگہبان ہوگا، کس کی امامت میں ہم نماز ادا کررہے ہوں گی، کس کے ذریعہ دینی درسگاہوں میں تعلیم دی جارہی ہوگی، ابھی کیا کہا جاسکتا ہی، لیکن آج انہیں جن حالات سے گزرنا پڑسکتا ہی، یہ ہم سب کے لئے انتہائی افسوس کا مقام ہی۔ پھر بھی اللہ پر بھروسہ ہے کہ وہ کوئی ایسا راستہ ضرور نکالے گا کہ دارالعلوم دیوبند پر چھائے پریشانی کے یہ بادل جلد چھٹ جائیں اور ایک نیا سورج طلوع ہوگا، جس کی شعاعیں ہر طرف سے ہم سب کو نور کی روشنی سے بھردیں گی۔ مجھے آج گفتگو کرنی ہے دارالعلوم دیوبندکے مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کے حوالہ سی۔ ایسے تمام اندیشوں اور امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئی، جنہیں سامنے رکھ کر بعض سیاستدانوں نے جس طرح ماحول کو گرما دیا ہے کہ ان کے ذریعہ چلائی جانے والی اس پروپیگنڈہ مہم کے نتائج کیا کیا ممکن ہیں اور ہمیں کس طرح پیش بندی کرنا ہے کہ کسی طرح کے بھی ناخوشگوار حالات سے اب اور نہ گزرنا پڑی۔ تاہم صرف ایک جملہ طلبا ئے کرام کی خدمت میں عرض کردینے کے بعد میں آج کی تحریر کا آغاز کروں گا اور وہ یہ کہ ان سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ اس دینی درسگاہ میں جو تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں، وہی آپ کا نصب العین ہے اور ہونا بھی چاہئی۔ اگر کہیں سے بھی کسی بھی طرح کوئی ایسی کوشش کی گئی، کی جارہی ہی،کی جاسکتی ہی، جو آپ کو کسی کی موافقت یا مخالفت میں کھڑا کردے تو خدارا اس سے گریز کریں۔ آپ سب متحد رہیں اور صرف اور صرف اس مقصد کی طرف توجہ دیں، جس کو ذہن میں لے کر آپ اس عظیم درسگاہ میں داخل ہوئے ہیں اور فراغت کے بعد جس مقصد کو لے کر یہاں سے جانا ہی، اس لئے کہ ہمیں یقین ہے کہ آج الگ الگ دکھائی دینے والے گروپ کل انشاء اللہ متحد نظر آئیں گے اور ان کا ’اتحاد‘ شکست ہوگی ان تمام تخریب کاروں کے لئے جو اپنے اپنے مقاصد کے لئے حالات کو اس طرح پیچیدہ بنا کر پیش کررہے ہیں، گویا دارالعلوم دیوبند الگ الگ مکتبۂ فکر یا اقتدار کی جنگ کی طرف گامزن ہے یا قائدین ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ ماضی میں کیا ہوا، اسے ماضی کی بات سمجھا جائی، اسے نظیر بناکر ہم آج کے ماحول کو متاثر نہ کریں، ماضی کا سنہرا کل ہمارے لئے مشعل راہ ہوسکتا ہی، لیکن اگر کوئی تاریک لمحہ بھی تاریخ کے اوراق میں درج ہے تو اسے بھولنا ہی بہتر ہی۔
آئیے اب ذرا غور کریں ان اندیشوں پر جو تنازع بڑھنے کی صورت میں تخریبی ذہن رکھنے والے سیاستدانوں کا منصوبہ ہوسکتے ہیں اور پھر ہم غور کریں کہ کس طرح ایسے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنایا جائی، سب کو متحد رکھا جائے اور دارالعلوم دیوبند کی عظمت کو پوری آن بان شان کے ساتھ برقرار رکھا جائی۔
اب شروع کرتے ہیں گفتگو مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کے دارالعلوم دیوبند کا مہتمم رہنے یا نہ رہنے کے سوال پر۔ ایک بار پھر آپ کا یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ میں بات اس متنازع جملے یا عمل پر کیوں نہیں کررہا ہوں، جس کو لے کر یہ تنازع کھڑا ہوا ہی۔ کیوں بچنا چاہتا ہوں میں اس سوال پر اپنی رائے دینے سی، جسے واضح طور پر حمایت یا مخالفت سمجھا جاسکی۔ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہی۔ نہ تو رائے دینے سے بچا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے عمل پر گفتگو کرنے سی، لیکن آج میں ان تمام نشیب و فراز پر آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، جو مولانا غلام وستانوی صاحب کے دارالعلوم دیوبند کا مہتمم رہنے یا نہ رہنے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو باوجود تمام تنازعات کے 23فروری011کو یہ فیصلہ ہوجائے کہ وستانوی صاحب اپنے عہدہ پر برقرار رہیں گی، بھلے ہی ان کے ساتھ کچھ شرطیں نافذ کردی جائیں یا پھر یہ کہ مولانا وستانوی صاحب اب اس عہدہ پر نہیں رہیں گی۔ اس کے علاوہ ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود ہی استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیں۔ آئیے اب ذرا غورکرتے ہیں ان تینوں صورتحال پر۔ پہلی یہ کہ اگر مولانا وستانوی اس عہدے پر برقرار رہتے ہیں تو……
سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رہے کہ نتیجہ کچھ بھی ہو، مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کو جو بھی نقصان ہوسکتا تھا وہ ہوچکا، اب وہ ہر حالت میں فائدہ میں رہنے والے ہیں۔ انہیں کسی طرح کا مزید کوئی نقصان نہیں ہوگا، جبکہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے طلبا کا نقصان صاف صاف دکھائی دے رہا ہی۔ ان کے فائدہ کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آتی۔ خدا کرے کہ ہمارا یہ اندازہ غلط ثابت ہو اور کوئی صورت ایسی نکلے کہ کم از کم دارالعلوم دیوبند اور طلبا کا کوئی نقصان نہ ہو، لیکن اس وقت تک کے حالات سے جو اندازہ ہوتا ہی، وہ یہ کہ اب یہ معاملہ خالص مذہبی نہیں رہ گیا ہے اور اب یہ معاملہ صرف دارالعلوم دیوبند کا بھی نہیں رہ گیا ہی۔ فیصلہ بیشک مجلس شوریٰ کو کرنا ہی، مگر کچھ فیصلے اس کے باہر بھی ہونے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مولانا غلام محمد وستانوی صاحب اب کسی طرح بھی خسارے میں نہیں رہیں گی۔ اس کی وجہ یہ کہ دارالعلوم دیوبند کا مہتمم بننے کے بعد محض چند دن میں انہوں نے جو مقبولیت حاصل کرلی ہی، وہ برسوں میں بھی حاصل نہیں ہوتی اور اگر تھوڑی سی تنقید کی بات جانے دیں تو اس کے بعد جتنی تعریف انہوں نے حاصل کی ہی، خاص طور سے ان حلقوں میں جو ہمیشہ دارالعلوم دیوبند کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، یہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، لہٰذا اس کے دوررس نتائج پر بھی غور کرنا ہوگا۔ مولانا غلام محمد وستانوی نے گجرات یا نریندر مودی کے تعلق سے جو بھی کہا، وہ ارادتاً تھا یا غیرارادتاً، انہوں نے جو بھی وضاحت دی وہ قابل قبول تھی یا قابل رد، اس سب سے قطع نظر جس طرح ایک بڑے طبقہ نے ان باتوں کو ان کی آفیشیل لائن (Official Line)قرار دے دیا۔ ان باتوں کو ان کے نظریہ سے جوڑ دیا اور پھر ان دو جملوں کی روشنی میں ان کی مکمل شخصیت کو ایک خاص شکل دے دی گئی ہی، کیا وہ اس سے باہر نکل پائیں گی۔ کیا انہیں اس سے باہر نکلنے دیا جائے گا۔ آج مولانا غلام محمد وستانوی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سامنے ایک ایسا چہرہ بنا دئے گئے ہیں، جو دنیا کی سب سے بڑی دو دینی درسگاہوں میں سے ایک یعنی دارالعلوم دیوبند کے سب سے ذمہ دار عہدہ پر ہیں، یعنی مہتمم دارالعلوم دیوبند اور ان کا کہنا ہے کہ گجرات فساد آٹھ برس پرانا ہی، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہی۔ یہ جملہ اسی طرح کہا گیا یا نہیں، لیکن میڈیا کے ذریعہ جس طرح پیش کیا گیا وہ یہی ہی۔ یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی جو بہت منظم انداز میں اپنے حساب سے ان کے اس عمل کو ان کے ترقی پسند نظریات ثابت کرتے ہوئے ان کے اس جملہ کی روشنی میں ان کی شخصیت کو جس طرح پیش کررہی ہی، کیا مولانا وستانوی صاحب اس دائرہ کو توڑپائیں گی۔ اگر وہ اس کو توڑ دینے کا فیصلہ کربھی لیتے ہیں تو دارالعلوم دیوبند اور ہندوستانی قوم میں انہیں کتنی پذیرائی حاصل ہوگی اور اگر نہیں توڑتے ہیں تو ایک سیاسی پارٹی انہیں قومی یکجہتی کا علمبردار بناکر ایک دیندار اور ترقی پسند مسلمان کی حیثیت سے عالمی سطح پر جس شکل میں پیش کرے گی، وہ ان دونوں صورتوں میں سے کس بات کو زیادہ پسند کریں گی۔ سوچ کے دیکھیں کہ وہ خود استعفیٰ دے کر اس عہدہ سے دستبردار ہوجاتے ہیں اور اخباری اطلاعات کے مطابق ان کے مدارس میں تقریباً دو لاکھ طلبا آج بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ایک بڑی پارٹی جس کی سات ریاستوں میں سرکاریں ہیں اور دو ریاستوں میں اس کی مدد سے سرکاریں چل رہی ہیں۔ ان کی اس بھرپور حمایت کے بعد ان کے تعاون سے ان کے مدارس اور طلبا کی تعداد میں کس حد تک اضافہ ہوسکتا ہی، اس کا قیاس کیا جاسکتا ہی۔ گجرات کی ترقی کی بات ان کے مدارس کی ترقی میں کس حد تک کارگر ثابت ہوسکتی ہی، اس کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے اور اگر انہوں نے ان علمائے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جو مذہب کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی دلچسپی لیتے رہے ہیں، اس پارٹی کے ساتھ ایک فاصلہ کے ساتھ ہی سہی کھڑے ہونا قبول کرلیا تو اندازہ کریں کہ ان کی پوزیشن کیا ہوگی۔ انہیں پوری دنیا میں اس انداز میں پیش کیا جائے گا کہ یہ کٹرمسلمانوں کی تنگ نظری کے شکار ایک ایسے عالم دین ہیں، جو جدید تعلیم سے بھی آراستہ ہیں اور ترقی کی بات کرتے ہیں، اپنی قوم کو ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ انہیں ڈاکٹر، انجینئر، وکیل بنانا چاہتے ہیں۔کمپیوٹر کی تعلیم دلانا چاہتے ہیں، ساتھ ہی دین کی تعلیم بھی دلانا چاہتے ہیں، یعنی یہ انہیں کنوئیں کا مینڈک نہیں بنے رہنے دینا چاہتی، ان کے لئے ترقی کی راہیں ہموار کردینا چاہتے ہیں، مگر اس قوم نے ان کے ساتھ بڑی زیادتی کی، جو خود کو بدلنا نہیں چاہتی۔ انہیں ان کے عہدہ سے ہٹنے کے لئے مجبور کردیا۔ ایسی صورت میں اگر یہ چہرہ پورے ہندوستان میں اس پیغام کے ساتھ پہنچایا گیا تو مسلمانوں تک پہنچنے کا خواب دیکھنے والی ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی اس میں حقیقت کا رنگ بھر سکتی ہی۔
اگر مولانا غلام وستانوی خود استعفیٰ نہیں دیتی، بلکہ انہیں شوریٰ کی طرف سے استعفیٰ دینے کے لئے مجبور کردیا جاتا ہے تو یہ باتیں اور بھی مدلل انداز میں پیش کی جائیں گی اور شوریٰ کے اس قدم کو انتہائی جارحانہ قدم قرار دیتے ہوئے کہا جائے گا کہ وہ قوم کیا ترقی کرے گی، جو ایک ذرا سی بات پر اتنا بڑا فیصلہ لینے پر اڑ جاتی ہی۔ کیاان سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی امید کی جائی، جو اپنی ہی قوم کے سب سے قابل آدمی کو ایک ذرا سی بات پر نظروں سے گرا دیتے ہیں، منصب سے ہٹادیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس بات کا اثر اور بھی زیادہ ہوگا اور تیسری صورت یعنی تمام تر صورتحال پر غور کرنے کے بعد مجلس شوریٰ یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ مولانا وستانوی اپنے عہدہ پر برقرار رہیں، بس اپنے نظریات کو ذرا سا واضح کردیں، تاکہ جن کے دلوں میں بدگمانی ہے وہ دور ہوجائے تو اب یہ فیصلہ مولاناوستانوی کے ہاتھ میں ہے کہ وہ یہ محسوس کرتے ہوئے بھی کہ مجلس شوریٰ کے پاس یہی آخری فیصلہ ہی، اسے قبول کرلیں، چاہیں تو تھوڑی بہت وضاحت کردیں یا پھر کہہ دیں کہ جو وضاحت کی جاچکی ہے وہی کافی ہی، اب اس سلسلہ میں مجھے کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں ہی۔ بہرحال اس طرح مولانا وستانوی اپنے عہدہ پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی دارالعلوم دیوبند اور طلبا کو کیا ملے گا، کیا ان تمام تنازعات کے بعد دارالعلوم دیوبند یہ محسوس کرسکے گا کہ اس کا وقار اسی طرح قائم ہی، جس طرح تھا۔ کیا دارالعلوم دیوبند کے طلبا یہ محسوس کرسکیں گے کہ اس ہنگامہ کے باوجود ماحول میں کسی طرح کا کوئی بدلاؤ نہیں ہی۔ اس درمیان وہ جس تنازع سے گزری، جس طرح ان کا ذہن منتشر رہا، وہ سب گزرے وقت کی باتیں ہیں، اب سب کچھ معمول پر آگیا ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ دینی علم اپنی جگہ، دنیا میں ترقی کے لئے کچھ سیاسی سمجھ بھی درکار ہی۔ ہمیں اب اپنے مہتمم سے سبق حاصل کرنا چاہئی۔ ظاہر ہے جو جس شعبہ میں ہوتا ہے وہ اس شعبہ کی آخری منزل تک پہنچ جانے والے شخص کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہی، اس جیسا بننا چاہتا ہی، اس کے جیسا مقام و مرتبہ پانا چاہتا ہی۔ اب ان کے آئیڈیل کے طور پر ان کے سامنے ان کے مہتمم کی جو شخصیت ہے وہی ان کے لئے مشعل راہ ہی۔ وہ دین کی روشنی کے ساتھ ساتھ ایسی ہی سیاسی سمجھ بھی حاصل کرنے کے خواہشمند ہوسکتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے مولاناغلام وستانوی صاحب کو دیکھا ہی۔ سب نہ سہی اگر کچھ طلبا بھی ان واقعات سے متاثر ہوتے ہیں اور اس سمت میں چل پڑتے ہیں تو یہ دارالعلوم دیوبند کے لئے نفع بخش ہے یا نقصاندہ۔ طلبا کے مستقبل کے لئے بہتر ہے یا نہیں۔ مجلس شوریٰ کو اس سوال پر بھی غور کرنا ہوگا۔
oاب یہ ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے یا بنادیا گیا ہی۔ ایک سطر میں رائے دے دینا اتنا آسان کام نہیں ہی۔ یہ بات اسی وقت ختم ہوجاتی تو اچھا تھا، بند کمرے میں مولانا وستانوی صاحب کے بیان پر گفتگو ہوتی اور کمرے کے باہر نکلتے تو سب کچھ نارمل ہوتا۔ اب اس معاملہ نے اس قدر طول پکڑلیا ہے کہ ہر پہلو پر غور کرنا ہوگا، اس کی وجہ کیا ہی، یہ سب جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہی، تاہم جو بھی حالات درپیش ہیں ان کا سامنا تو کرنا ہی ہوگا۔ تمام خدشات کو سامنے رکھنے کی کوشش اسی لئے کی گئی کہ جب ہم کوئی آخری فیصلہ کرنے بیٹھیں تو کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ان سب باتوں پر غور کرلیں۔
…………