Thursday, December 2, 2010

امریکی کردار کا آئینہـوکی لیکس

عزیز برنی

میرا اندازفکر ذرا مختلف ہی۔ کچھ لوگوں کے لئے قابل اعتراض اور یکطرفہ بھی ہوسکتا ہی۔ مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں، مگر ایک مؤدبانہ درخواست ضرور ہے کہ اگر الزام مسلسل یکطرفہ لگائے جاتے رہیں تو پھر آپ کے ذہن میں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ یہ اندازفکر یکطرفہ ہی۔ پھر اگر اس کے برعکس دفاع میں کوئی شخص وہی اندازفکر اختیار کرے تو اعتراض کیوں؟ مجھے لکھنے ہیں اس وقت چند جملی، وکی لیکس کے انکشافات پر۔ کوئی نئی بات نہیں ہی، اس وقت اس موضوع پر دنیا کے تمام میڈیا ہاؤس لکھ رہے ہیں۔ سب کا اپنا اپنا انداز ہی۔ کہیں تعریف تو کہیں تنقید، مگر میں ذرا ہٹ کر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ چند برسوں میں بالخصوص 9/11/2001 کو ورلڈٹریڈ ٹاور پر حملہ کے فوراً بعد سے امریکہ مسلمانوں پر یکطرفہ الزام لگاتا رہا اور ساری دنیا کے سامنے مذہب اسلام اور مسلمانوں کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا رہا، جس میں ان کا چہرہ ایک دہشت گرد چہرہ نظر آئے اور ان کا مذہب یعنی اسلام دہشت گردی کی ترغیب دینے والا مذہب نظرآئی۔ اب اگر کچھ لوگ یہ کہنا چاہیں کہ یہ الزام تو بن لادن اور القاعدہ پر تھا، آپ اسے تمام مسلمانوں یا مذہب اسلام سے کیوں جوڑ رہے ہیں؟ تو ایک بار پھر میں بیحد ادب کے ساتھ ان سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ بیشک کھلے لفظوں میں تنقید بھلے ہی بن لادن اور القاعدہ پرکی جارہی ہو، مگر پس پردہ نشانے پر تو اسلام اور مسلمان ہی تھی، یعنی جو مذہب اور قوم متاثر ہورہی تھی، وہ مسلمان اور اسلام ہی تھی۔ امریکی اطلاعات کے مطابق بن لادن آج بھی زندہ ہی۔ جب جب انہیں اس کی کیسٹ یا بیان کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں کہیں نہ کہیں سے دستیاب ہوجاتا ہے اور کسی نہ کسی میڈیا ہاؤس کے ذریعہ منظرعام پر لادیا جاتا ہی، شاید وہ اسی لئے آن ریکارڈ زندہ ہی، مگر بن لادن کے افغانستان میں چھپے ہونے کی اطلاع نے ہزاروں افغانیوں کو موت کی نیند سلادیا۔ ان سے ان کا ملک، ان کی آزادی چھین لی گئی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان پر حکمراں تو ایک افغانستانی ہی ہی، مگر مجھے پھر عرض کرنا ہوگا کہ کون سا افغانستانی؟ وہی نہ جو امریکی اشاروں پر چلنے کے لئے تیار ہو، جس کے لئے اپنے ملک اور اپنے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی اہمیت رکھتی ہو۔ حامد کرزئی ایک ایسے ہی افغان حکمراں ہیں۔ اب آپ خود اس سچائی پر غور کریں کہ اگر 9/11کے لئے ذمہ دار بن لادن اور القاعدہ ہے تو نشانہ صرف اور صرف وہی ہونے چاہئیں تھے افغانستان اور افغانستان کے عوام کیوں…؟۔ اس جرم میں اگر قتل واجب تھا تو بن لادن اور اس کے کارکنان کا، بے گناہ افغانستان کے عوام کا کیوں؟ اسی طرح عراق کے صدر صدام حسین اور عراق کے عوام کو کس جرم کی سزا ملی؟ 9/11سے تو ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ خود امریکہ کے سابق صدر جارج واکر بش نے بھی بعد میں تسلیم کر لیا تھا کہ صدام حسین کا 9/11سے کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔ یہی بات رپورٹس پہلے سے کہہ رہی تھیں، خود صدام حسین کا بھی یہی کہنا تھا۔ پھر کس لئے صدام حسین کو ایک فرضی مقدمہ میں سزائے موت کا اعلان کرکے پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور ہزاروں عراقیوں کو بغیر کسی جرم کے قتل کردیا گیا؟ اگر اس کی وجہ اسلام دشمنی یا مسلم دشمنی نہیں تھی تو امریکہ بتائے کہ وہ وجہ کیا تھی اور آپ سب اپنے دل سے پوچھیں کہ وجہ کیا تھی؟
K
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں وکی لیکس کے انکشافات کا ذکرکررہا ہوں یا افغانستان اور عراق کا درد بیان کررہا ہوں یا پھر 9/11کے حوالہ سے گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کررہا ہوں؟ آپ جو سمجھیں، مگر میں بات وکی لیکس کے انکشافات کی ہی کررہا ہوں۔چلئے براہ راست وکی لیکس پر ہی بات کرتے ہیں۔ چند امریکہ نواز میڈیا کو چھوڑ دیں تو تقریباً تمام میڈیا بشمول پرنٹ اور الیکٹرانک اس بات کے لئے امریکہ کی تنقید کررہا ہے کہ وہ دیگر ممالک کے داخلی معاملات میں اس درجہ دخل کیوں دیتا ہی؟ کیوں اس نے خود کو پوری دنیا کا چودھری مان لیا ہی؟ کیوں اس طرح کی سازشیں رچتا رہتا ہی، جس سے دوسرے ممالک کا امن و سکون درہم برہم ہو، خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوں یا دو ممالک کے درمیان تنازع پیدا ہو؟ ان انکشافات سے امریکہ کا کون سا چہرہ سامنے آیا؟ اب ذرا میرے ابتدائی جملوں پر غور کریں، میں نے یہی لکھا تھا نہ کہ اسلام اور مسلمان امریکہ کے نشانہ پر رہے اور اس کا خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا، مسلم ممالک کو بھگتنا پڑا۔ مسلمان ہی وہ واحد قوم تھی، جو امریکہ کی سب سے زیادہ اس کی ایسی ہی پالیسیوں کی بنا پر تنقید کرتی رہی۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ تنقید کرنے والی قوم درست تھی یا غلط؟ اگر آج آپ ایسی ہی وجوہات کی بنا پر امریکہ کی تنقید کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو پھر جو قوم آج تک یہی کام کررہی تھی، وہ غلط کہاں تھی؟ وکی لیکس نے آج جو انکشافات کئے ہیں، وہ ساری دنیا کے لئے دستاویزی ثبوت کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے وہ امریکہ کی تنقید کررہے ہیں اور جو قوم بہت پہلے ہی امریکہ کی نیت کو پڑھ کر اسی نتیجہ پر پہنچی تو کیا وہ صحیح نہیں تھی؟ پھر اگر ہم یہ کہیں کہ ہم زیادہ دوراندیش ہیں، ہم دل پر لکھی عبارت کو بھی پڑھ لیتے ہیں، آپ کو کاغذ کے ٹکڑے کا انتظار رہتا ہے تو پھر کیا غلط ہوگا؟ اب یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ امریکہ کو اپنے انداز فکر کو بدلنے پر مجبور کیا جائے یا نہیں؟ اسے تمام ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہنے کی ہدایات دی جائیں یا نہیں؟
مجھے چند جملے ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے بھی لکھنے ہیں اور ہندوستان اور پاکستان کے حوالہ سے بھی؟ لیکن پہلے دو باتیں وکی لیکس کے سربراہ جولین اسنج (Julian Assange) کے تعلق سی۔ جولین اسنج (Julian Assange)کو گرفتار کرنے کے لئے ریڈکارنر نوٹس جاری کردیا گیا ہی، مگراس جرم میں نہیںجس کا چرچا آج سارے جہان میں ہی، بلکہ اس جرم کے لئے جس کا اندازہ اس سے پہلے کسی کو تھا ہی نہیں۔ اس سلسلہ میں پہلے کبھی کوئی گفتگو ہوئی ہی نہیں۔ ریڈکارنر نوٹس جاری ہوا ہی، کسی خاتون کے ساتھ جبراً جنسی تعلقات قائم کرنے کے جرم میں اور کسی کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے کی بناپر۔ جولین اسنج (Julian Assange)کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ الزام جھوٹا ہی۔ تعلقات اس کی مرضی سے قائم کئے گئے تھی۔ سچ جو بھی ہو، تعلقات رضامندی سے قائم کئے گئے ہوں یا جبراً، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جرم پر توجہ پہلے کیوں نہیں دی گئی۔ یعنی امریکہ پر جب تک خود آنچ نہیں آئی، اس آسٹریلیائی نوجوان کے اس جرم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ نہ ریڈکارنر نوٹس جاری ہوا اور نہ ان جنسی جرائم کی خبروںکو کوئی خاص اہمیت دی گئی۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ یہ امریکی حکمت عملی کا حصہ ہی، اسے جب جس کے لئے زمین تنگ کرنا ہوتا ہے تو ڈھیروں وجوہات پیدا کرلی جاتی ہیں۔ ساری دنیا کے سامنے اس کی کردار کشی کی جاتی ہی، اسے موردالزام ٹھہرایا جاتا ہی، پھر سولی پر چڑھا دیا جاتاہی۔ یہی صدام حسین کے ساتھ ہوا، یہی بن لادن کے ساتھ، واضح ہو کہ بن لادن اس وقت امریکہ کا بہترین دوست تھا، جب بن لادن سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں اس کی مدد کررہا تھا اور صدام حسین اس وقت امریکہ کے بہترین دوست تھی، جب وہ جنگ ایران کے ساتھ لڑرہے تھے اور اب یہی وکی لیکس کے بانی کے ساتھ ہورہا ہی۔ ہم نہیں جانتے یہ شخص کون ہی، ہمیں نہیں معلوم اس کے جس جرم کے خلاف ریڈکارنر نوٹس جاری ہوا ہی، اس نے وہ جرم کیا ہے یا نہیں۔ نہ ہم اس کے دفاع میں کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف امریکی حکمت عملی کا تذکرہ کررہے ہیں۔ اب رہا اس کا وہ جرم جو جگ ظاہر ہی، بیشک کسی بھی ملک کے خفیہ دستاویزات جعلسازی سے حاصل کرکے انہیں منظرعام پر لادینا جرم سمجھا جانا چاہئی، لیکن اگریہ جرم انسانیت کے حق میں ہو، اس سے ایسے رازافشا ہوتے ہوں، جس سے امریکہ کی دوغلی پالیسی سامنے آتی ہو، جن ممالک کو وہ اپنا دوست کہتا ہی، پردے کے پیچھے انہیں بھی دشمن کی طرح دیکھتا ہو تو کم سے کم وہ تمام ممالک اور ان کے عوام جو امریکہ کی سچائی جان کر اپنے دفاع میں محتاط قدم اٹھانے کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں، کم سے کم وہ تو وکی لیکس کی اس حرکت کو کوئی جرم نہیں سمجھیں گی، کیونکہ اس جرم میں ان کی بھلائی پوشیدہ ہی۔
آئیے اب ذکر کرتے ہیں سعودی عرب کے ذریعہ ایران پر حملے کی منشا اور ہندوستان، پاکستان کی ممکنہ جنگ کے حوالہ سی۔
سعودی عرب کے شاہ ایران کی تباہی کے خواہشمند تھی۔ لیک ہوئے خفیہ دستاویز یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں چاہتے تھی، کیا رنجش تھی یا ہے سعودی بادشاہ کی ایران سی۔ بظاہر تو امریکہ ایران کی تباہی چاہتا تھا اور اپنی اسی خواہش کے پیش نظر وہ ایران کو متواتر دھمکیاں بھی دیتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے ان دھمکیوں کے سامنے کبھی سرنگوں نہیں کیا اور یہ حقیقت بھی کس سے پوشیدہ ہے کہ سعودی عرب امریکی دباؤ میں ہی۔ ہوسکتاہے امریکہ کی منشا کو سمجھتے ہوئے امریکی حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے پیش نظر سعودی بادشاہ نے ایران کے خلاف زہرافشانی کی ہو۔ شاید اسی بنیادی وجہ کو سمجھتے ہوئے محمود احمدی نژاد نے وکی لیکس کے انکشافات کے بعد بھی یہ کہہ دیا کہ سعودی عرب سے ان کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اب رہا سوال ہندوستان کے حوالے سے ہوئے انکشافات کا تو پاکستان کی منشا کو سمجھتے ہوئے بھی امریکہ پاکستان کی مدد کرتا رہا اور ہندوستان سے دوستی کا دم بھرتا رہا۔ اس وقت اس ضمن میں تفصیل سے گفتگو نہیں کی جاسکتی جبکہ یہ ایک سنجیدہ موضوع ہی، جس پر بہت کچھ لکھا جانا چاہئی۔ انشاء اللہ پھر کبھی، لیکن کیا اب بھی ہماری حکومت امریکہ کے ساتھ اپنے رشتوں پر نظرثانی نہیں کرے گی۔
اور آخر میں چند جملے اپنی صفائی میں، اس لئے کہ آپ کی عدالت میں مجھ سے بھی یہ جرم سرزد ہوا ہے کہ میرے اس مسلسل کالم کا سلسلہ کئی روز تک منقطع رہا۔ مبارکپور گرلز ڈگری کالج، اعظم گڑھ کی تقریب میں شرکت تو چند گھنٹے کے لئے تھی اور کافی تھا کہ صرف ایک دن کے لئے یہ سلسلہ رک جاتا، مگر پھر کئی روز لگے قلم اٹھانے میں۔ دراصل اپنی زیرطبع کتاب ’’آر ایس ایس کی سازشـ6/11؟‘‘ ، جس کی رسم اجرا 6دسمبرکو دہلی میں ہونی ہے اور یہ تاریخ دانستہ بابری مسجد کی شہادت کے روز رکھی گئی، تاکہ میں اس موقع پر دونوں واقعات کو ایک ساتھ جوڑ کر کچھ کہہ سکوں، لہٰذا کچھ وقت اس کام کے لئے بھی درکار تھا، اس لئے یہ سلسلہ رکا اور مبارکپور جہاں بنارسی ساڑیاں بنانے کی صنعت اس بستی کے ہر گھر سے جڑی ہی، ان کی مشکلات پر لکھنے کا بھی وعدہ تھا میرا، جسے پورا کرنا ہی۔ میں کوشاں ہوں ان تمام دقتوں کو یکجا کرنے میں اور جلد ہی انشاء اللہ اس سلسلہ میں نہ صرف لکھا جائے گا، بلکہ یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ مسئلہ کا حل نکلی۔ اس لئے کہ یہ ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا سوال بھی ہے اور بنارسی ساڑی جو ہماری شناخت کا ایک حصہ بن چکی ہی، اس کے تحفظ کا سوال بھی ہی۔ ساتھ ہی مجھے وہ چہرہ، وہ دردمندانداز، وہ آنسوؤں میں بھیگی تحریر بھی یاد ہی، جس میں ایک باپ نے اپنی تین بالغ بیٹیوں کے لاپتہ ہوجانے کی روداد بیان کی ہی۔ یقینا اس سمت میں بھی جدوجہد کی جائے گی، تاکہ ماں باپ اپنی بچھڑی ہوئی بچیوں سے مل سکیں۔ دراصل ہر روز لکھنا مجھے بھی بے پناہ پسند ہی، مگر زندگی کی کچھ مجبوریاں ایسی بھی ہیں، جو کبھی کبھی اس سلسلہ کو روک دیتی ہیں۔ یہ تسلسل اس وقت بھی ٹوٹتا ہی، جب مجھے آپ سننا چاہتے ہیں اور کئی بار آپ کے بیچ نہ آنے کا احساس بھی ہوتا ہی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں منعقد ’’انٹرنیشنل کانفرنس آف مولانا رومی‘‘ اور میوات کے گھاسیڑا میں منعقد "Educational Awareness & Help of the needy" میں شرکت نہ کرپانے کا احساس بھی ہے مجھی، انشاء اللہ پھر کبھی۔ اللہ سے دعا کیجئے کہ کچھ ایسی سبیل پیدا ہو کہ نہ لکھنے کا سلسلہ رکی، نہ بولنے کا اور جو زندگی کی رفتار ہی، وہ بھی یونہی چلتی رہی، بیشک یہ آپ کی دعاؤں کے سبب ہی ممکن ہی، ورنہ ایک ادنیٰ صحافی اور یہ کام… اللہ، اللہ۔
……………

No comments: