ہماری دقت یہ ہے کہ ہم کسی بھی مسئلہ پر ایک رائے نہیں ہوپاتی، بالخصوص قومی مسائل پرتو ہر بار یہی ہوتا ہے اور ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اکثر دوسرے لوگ اٹھاتے رہتے ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہی، ہم ہر معاملے میں خسارے میں ہیں، کوئی ہمارا پرسان حال نہیں اور ہمارے رہبر کسی ایک رائے پر اتفاق کرنے کی بجائے اپنی انا کے لئے لڑ رہے ہوتے ہیں یا اپنی رائے کو مقدم ٹھہرانے کی جستجو میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہی اب تک ہوتا رہا ہے اور آج پھر وہی صورتحال ہمارے سامنے ہی۔ اس وقت ہم ایک ایسے مسئلہ پر غوروفکر میں مبتلا ہیں، جو برسہابرس سے ہمارے سامنے ہے اورہمارے لئے فکر اور پریشانی کا باعث بنا ہوا ہی۔ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو متاثر کررہا ہے اور ہم (ہندو، مسلمان نمائندی)اس سلسلہ کو زندہ رکھنے کے راستے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اسے پوری طرح ختم کردینے کی ایسی صورت پر سرجوڑ کر آج بھی نہیں بیٹھ رہے ہیں کہ آبرو بھی بچی رہی، خدا کا گھر بھی بن جائے اور امن و اتحاد بھی قائم رہی۔ ہم بخوبی واقف ہیں کہ یہ مسئلہ ہمیں آزادی کے بعد وراثت میں ملا ہی۔ گزشتہ 60برسوں میں ہم کسی طرح بھی اس کا حل تلاش نہیں کرپائے ہیں۔ نہ عدالت کے ذریعہ، نہ عدالت کے باہربات چیت کے ذریعہ۔ کوئی بھی ایسا فیصلہ جو ہم سب کو مطمئن کردی، آج بھی خارج ازامکان ہی، عدالت کے باہر بھی، ہائی کورٹ کے ذریعہ بھی، سپریم کورٹ کے ذریعہ بھی۔ بالفرض محال اگر کوئی فیصلہ ایسا آبھی جائے جسے ہم اس ملک کی اکثریت، اکثریت سے مراد ہندو حضرات نہیں ہیں، بلکہ آبادی کے لحاظ سے ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہندو بھی اور مسلمان بھی، اگر تسلیم کرنے کے لائق سمجھ لیں تو بھی باقی بچے لوگ خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گی، اس کے نفاذ میں رکاوٹ نہیں بنیں گی، ایسا سوچنا بھی محال ہی۔ یہ قیاس کی بات نہیں، بلکہ آج تک کے حالات کا تجربہ ہی، جو صرف میرے ہی نہیں، سارے ہندوستان کے سامنے ہی۔
Uہماری دوسری دقت یہ ہے کہ ہم میںسے قابل اور ذمہ دار لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہی، سب کا اپنا اپنا حلقہ ہی، سب کے اپنے اپنے مرید وں، چاہنے والوں یا ماننے والوں کی ایک بڑی تعداد ہی، ان میں سے کوئی ایسا نظر نہیں آتا، جس کی رائے کو یکسر نظرانداز کردیا جائے یا اسے غیرذمہ دار کہہ کر اس کی رائے کو خارج کردیا جائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دور کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنے والے ہماری اس الجھن کا فائدہ اٹھا کر اندر ہی اندر کسی ایک رائے پر اتفاق کرنے لگتے ہیں، یعنی اپنی حکمت عملی بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر میڈیا و سرکار کے سامنے دو فریق ہوتے ہیں۔ ایک فریق وہ، جو کسی ایک رائے پر مستحکم ہیں۔ اگر اس طبقہ کے کچھ لوگ اس رائے سے اتفاق نہیں رکھتے تو اس درجہ مخالف بھی نہیں ہوتے کہ محاذآرائی پر اترآئیں۔ وہ مخالف نظریہ کے باوجود بھی خاموش رہتے ہیں، جسے نیم رضامندی تسلیم کرلیا جاتا ہی۔ اب رہا سوال دوسرے فریق کا تو ان کی آرا اتنی متضاد ہوتی ہیں کہ سب ایک دوسرے سے الجھتے نظر آتے ہیں۔ کسی کی رائے ہوگی کہ فیصلہ سراسر ہمارے خلاف ہے اور پوری طرح ناقابل قبول ہی، ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہی، فریب ہوا ہی، ہمیں پوری جگہ مسجد کے لئے چاہئی۔ دوسری طرف سے آواز آئے گی، ہم اس فیصلہ کو ناپسند تو کرتے ہیں، ہماری حق تلفی کی گئی ہی، ہمیں انصاف نہیں ملا ہی، مگر ہم ملک کے امن و امان کی خاطر یہ قربانی دینے کے لئے تیار ہیں کہ مسجد کے لئے مختص کی گئی یہ ایک تہائی زمین بھی مندر کے لئے دے دی جائی، ہم اس سے دستبردار ہوجاتے ہیں، جیسے کہ یہ ان کے دائرۂ اختیار میں ہی، ان کی ذاتی ملکیت ہے اور انہیں حق حاصل ہے اسے کسی کو بھی بخش دینے کا۔ ان کے علاوہ ایک طبقہ فیصلہ کو نامنظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کی بات کرتا ہی، غالباً اسے سوفیصد امید ہے کہ سپریم کورٹ سے آنے والا فیصلہ پوری طرح قانون کی روشنی میں ہوگا، ان کے حق میں ہوگا اور اس کا نفاذ بھی کیا جاسکے گا، حالانکہ سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ درست قرار دیا جاسکتا ہی، مگر ذہنی طور پر اس بات کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا کہ مزید پانے کی امید میں جو مل سکتا ہے یا جو کچھ دئے جانے کا اعلان کیا گیا ہی، کہیں وہ بھی ہاتھ سے نہ جاتا رہی۔ ایک طبقہ وہ بھی ہی، جو نئے سرے سے بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہوگیا ہی۔ ہاشم انصاری 49برس سے اس مسئلہ کے اہم پیروکار ہیں اوروہ اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت گیان داس سے بات چیت کرنے کی پیش رفت کرچکے ہیں، مگر ساتھ ہی انہوں نے اپنی جان کو لاحق خطرے کی بات بھی کہی ہی۔ ان پر ایک ناکام حملہ ہوبھی چکا ہی۔ اس وقت وہ سینٹرل سنی وقف بورڈ کے موقف کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں، یعنی ہمارے دو پیروکارجو اب تک مقدمہ لڑتے رہے ہیں، ان میں ایک ہاشم انصاری اور دوسرا سینٹرل سنی وقف بورڈ اب ایک رائے نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اپنی ایک اہمیت ہی۔ ملک کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے مسلم دانشور اور علمائے کرام اس میں شامل ہیں۔ آئندہ 9اکتوبر کو اس موضوع پر ایک کانفرنس کرنے جارہے ہیں، ان کا موقف کیا ہوگا، دو روز بعد وہ بھی سامنے آجائے گا۔ شاہی امام سید احمد بخاری کی اپنی ایک اہمیت ہی، وہ آج یعنیاکتوبر کو بابری مسجد اراضی کی ملکیت کے تعلق سے 30ستمبر کو کئے گئے فیصلہ پر ایک میٹنگ بلا کر کچھ قرارداد پاس کرچکے ہیں، جن کا ذکر آئندہ کسی مضمون میں کیا جائے گا۔ ان کے علاوہ ہمارے نمائندوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں، جو اس فیصلہ کو ناپسند تو کرتے ہیں، اس سے انہیں کوئی اتفاق نہیںہی، وہ اسے نہ تو انصاف پر مبنی مانتے ہیں اور نہ ہی قانون کی روشنی میں کیا گیا فیصلہ، تاہم ملک کی صورتحال کے مدنظر اسے سرے سے خارج بھی نہیں کرتی۔ وہ اس فیصلہ کی روشنی میں امن و اتحاد کے رہتے ہوئے کوئی ایسی درمیانی راہ نکلنے کے لئے پرامید ہیں، جس سے مندر اور مسجد کا وجود قائم رہے اور کسی طرح کے ناخوشگوار حالات بھی پیدا نہ ہوں۔ بھلے ہی وہ ہائی کورٹ کے اسی فیصلہ سے ہوجائے یا پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی کچھ اس شکل میں سامنے آئے کہ دونوں طبقوں کو قابل قبول ہو، مندر بننے کی گنجائش بھی رہے اور مسجد کا وجود بھی قائم رہی۔ ایسی سوچ رکھنے والوں میں جمعیۃ علماء ہند کے مولانا محمودمدنی اورعیش باغ عید گاہ، لکھنؤ کے نائب امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا نام لیا جاسکتا ہی۔ معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے کے لئے ایک طبقہ کی جانب سے سنیوں اور شیعوں کے درمیان تنازع کھڑا کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے یہ اعلان کردیا کہ اس معاملے میں سنی اور شیعہ دونوں کی رائے ایک ہی مانی جائے گی، الگ الگ نہیں۔ اب یہ صورتحال ہے آپ کے سامنے اپنی قوم کے نمائندگان کی۔ اس سب کو ذہن میں رکھئے اور قیاس کیجئے کہ کس طرح کا فیصلہ آپ کے سامنے آسکتا ہی، جبکہ دوسری طرف اب اس طرح کی آوازیں واضح طور پر اٹھنے لگی ہیں کہ رام مندر بننے کی راہ ہموار ہوچکی ہی، خود لال کرشن اڈوانی کا بھی یہی کہنا ہی، جس کو رد کرتے ہوئے مرکزی وزیر کپل سبل نے کہا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ اخذ کرلینا قبل ازوقت ہوگا۔ وشوہندوپریشد سے وابستہ لوگ اب کھلے طور پر پوری زمین پر رام مندر کی تعمیر کی بات کرنے لگے ہیں، یعنی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو آئے ابھی دس دن بھی نہیں گزرے ہیں اور جو ایک تہائی زمین مسجد کے لئی، ایک تہائی مندر کے لئے اور ایک تہائی نرموہی اکھاڑے کو دئے جانے کے فیصلہ پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کررہے تھی، اب وہ ایک ہفتہ گزرتے گزرتے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پوری زمین مندر کو دینے کی بات کرنے لگے ہیں۔ اب مجھے میرے قارئین معاف فرمائیں، اگر آپ کو یہ فیصلہ قانون کے تقاضوں کو درکنار کرتے ہوئے جذبات اور آستھا کو سامنے رکھ کر لیا گیا فیصلہ لگتا ہی، جو کہ واقعی ہے بھی تو کیا اب آپ کو یقین ہے کہ وہی ذہنی دباؤ، وہی صورتحال، وہی لاء اینڈ آرڈر کا معاملہ، وہی آستھا کا سوال کیا سپریم کورٹ میں سامنے نہیں آئے گا؟ کپل سبل مرکزی وزیر ہی نہیں، ایک مشہور قانون داں بھی ہیں اور ملک ان کی اس حیثیت سے بخوبی واقف ہی۔ ان کا اپنا ماننا ہے کہ یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ جائے گا۔ سپریم کورٹ یا تو ہائی کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرلے گا یا اسے درکنار کردے گا۔ اگر اسے تسلیم کرلے گا تو …یہ بیان ایک ماہر قانون داں اور مرکزی وزیر کا ہی، جسے یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،پھر آپ کن امیدوں کے سہارے بیٹھے ہیں کہ سپریم کورٹ میں فیصلہ صرف اور صرف قانون کی روشنی میں ہوگا۔ وہاں جذبات اور آستھا کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ قانون کی گہری سمجھ رکھنے والے مرکزی وزیر کپل سبل اگر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ یہی فیصلہ سپریم کورٹ کا بھی ہوسکتا ہے تو کیا یہ واضح اشارہ نہیں ہے کہ جو آستھا ہائی کورٹ میں دکھائی دی، وہی آستھا سپریم کورٹ کے فیصلہ میں بھی دکھائی دے سکتی ہی۔ دوسری بات جو انہوں نے کہی کہ اس فیصلہ کو درکنار کیا جاسکتا ہی، ہاں اس کے بھی امکان زندہ ہیں، مگر ہم انہیں صرف اور صرف اپنے حق میں ہی مان کر چلیں تو کیا یہ بھاری بھول نہیں ہوگی؟ ہم جتنا انہیں اپنے حق میں مان کر چل رہے ہیں، اتنا اپنے خلاف سوچ کر بھی دیکھیں اور یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوا تو کون سی سرکار اس کا نفاذ کراپائے گی؟ اور آپ کے خلاف ہوا تو آپ کی کون سی طاقت یا قانونی چارہ جوئی اسے عمل میں لانے سے روک پائے گی۔ بہت سے بہت یہی کیا جاسکے گا کہ فیصلہ کے خلاف ہر طرح سے آوازیں بلند ہوں گی، کچھ بند کمروں میں تو کچھ سڑکوں پر اتر کر بھی اپنے جذبات کا اظہار کریں گی۔ نتیجہ کیا ہوسکتا ہی، کہنے کی ضرورت نہیں ہی۔ ماضی کے تلخ تجربات کی ایک لمبی داستان ہمارے سامنے ہی۔
Kایسی ہی تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے فوراً بعد راقم الحروف کے ذریعہ یہ حقیر سی رائے پیش کی گئی تھی کہ پہلے اس پر یقین دہانی تو کرلیںکہ جو کچھ ہائی کورٹ نے آپ کو دیا ہے یا دینے کا اعلان کیاہی، وہ بھی سچ مچ آپ کو مل سکتا ہی، اس پر شدید اعتراض کا اظہار کرکے یہ پیغام تو نہ دیں کہ آپ نے خود ہی اس فیصلہ کو نامنظور کرکے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا، ورنہ ملک کی اکثریت نی، ہندو تنظیموں نے بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نتن گڈکری اور نریندر مودی جیسے لوگوں نے بھی بخوشی اس فیصلہ کو تسلیم کرلیا تھا۔ یہ تو آپ ہی تھی، جنہیں یہ فیصلہ قبول نہیں تھا۔ راقم الحروف کو اس سلسلہ کا پہلا مضمون قلمبند کرتے وقت بھی بخوبی اندازہ تھا کہ اس فیصلہ پر خوشی کا اظہار کرنے والے محض ایک فریب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ نظریاتی اعتبار سے ٹکڑوں میں بٹے مسلمان خود اسے نامنظور کردیں گے اور پھر ان کے پاس رام مندر تعمیر کی بات بہت موثرانداز میں کہنے کا جواز موجود ہوگا، جو آج آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ اب آپ کے پاس کیا راستہ بچا ہی؟ ملک اور قوم کے حق میں کیا ہی، اس پر کچھ خود بھی غوروفکر کریں، صرف ان کے سہارے نہ بیٹھے رہیں، جنہیں قومی نمائندہ ہونے کا تمغہ حاصل ہی، اس لئے کہ تمام مخالف حالات کا سامنا عام لوگوں کو زیادہ کرنا پڑتا ہی، خاص لوگوں کو نہیں اور آپ کے غوروفکر کا مرکز ہوسکتی ہیں مساجد اور مدارس۔ آج جمعہ کا دن بھی ہی۔ اللہ کے گھر کے لئے اللہ کے گھر میں بیٹھ کر فیصلہ لینے سے بہتر جگہ کون سی ہوسکتی ہے یا وہ جگہ جہاں خدا کو پہچاننے کی تعلیم دی جاتی ہی۔ اب یہ فیصلہ آپ پر کہ رائے کا انتظار یا اپنی رائے کا اظہار۔
No comments:
Post a Comment