Sunday, October 10, 2010

اب سب ایک رائے ہوں، سپریم کورٹ، سمجھوتہ یااس فیصلہ پر عمل!

عزیز برنی

قابل احترام ہیں مولانا سید احمد بخاری صاحب، وہ ہمیشہ ہی ملک کے سلگتے مسائل پر غوروفکر میں کوشاں رہتے ہیں، اکثر منتخب نمائندوں کو بلا کر صلاح مشورہ بھی کرتے ہیں، پھر جو رائے بنتی ہے اسے منظرعام پر لاتے ہیں۔ہر معاملے میں سبھی لوگ ان کی رائے سے اتفاق کریں، یہ ضروری نہیں ہی، مگر رائے کو یکسر نظرانداز کردیا جائے ، یہ بھی مناسب نہیں ہی۔ بابری مسجدملکیت کے حوالہ سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کا جو فیصلہ سامنے آیا ہی، اس سے اتنا تو ہوا کہ ملک کے امن و امان کو جس خطرے کا خدشہ محسوس ہورہا تھا، وہ ٹل گیا، مگر کس قیمت پر؟ ہمیں اسے بھی شامل حال رکھنا ہوگا۔ اس کے لئے جج صاحبان نے قانون کی کتابوں کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ان کے مطابق فیصلہ کرنے سے گریز کیا۔ کیوں؟ ان کے کردار پر انگلیاں اٹھانی، سوالات کھڑے کرنے سے پہلے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر ان کے سامنے ایسی کیا مجبوری رہی ہوگی کہ پوری زندگی قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے کوشاں رہی، مگر اپنی زندگی کے سب سے اہم فیصلے میں قانون کو ہی بے دست وپا بنادیا۔ بہرحال جہاں تک سوال سیداحمد بخاری صاحب کے اس فیصلہ سے عدم اتفاق اور اظہار برہمی کا ہے تو اس پر غور کئے جانے کی ضرورت ہی، اس لئے کہ وہ لوگ جو حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر اس فیصلہ کو مسجد کے حق میں مان رہے تھی، ان کے لئے یہ فیصلہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں تھا کہ اس پر خوشی کا اظہار کرتی۔ اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اپنے جذبات کے اظہار کا حق سبھی کو ہی۔ سپریم کورٹ جانے کی بات چاہے سنی سینٹرل وقف بورڈ نے کی ہو، دیگر نمائندہ تنظیموں نے یا آنے والے کل میں مسلم پرسنل لاء بورڈ اسی رائے کا اظہار کری، یہ آج بھی قانون میں ہمارے بھروسے کے قائم رہنے کی سب سے بڑی دلیل ہی، یعنی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے باوجود جو آستھا کی بنیاد پر دیا گیا، قانون پر ہمارا بھروسہ پوری طرح قائم ہے اور ہم سپریم کورٹ سے انصاف کی امید کرتے ہیں۔مولانا توقیر رضا خاں بریلوی کی اپنی ایک اہمیت ہی، ان کا موقف ابھی بہت واضح طور پر سامنے نہیں آیا ہی، وہ جو بھی ہو، بہرحال اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ ایک بڑا حلقہ ان کی بات کو اہمیت دیتا ہی۔کیوں کہ یہ مسئلہ اجودھیا سے تعلق رکھتا ہے اور لکھنؤ اس معاملہ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہی،لہٰذا مولانا خالد رشید فرنگی محلی کی رائے کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ گوکہ وہ پوری طرح فیصلہ سے متفق نہیں ہیں، اسے پوری طرح انصاف پر مبنی نہیں مانتی، تاہم اسے قابل غور بھی تسلیم کرتے ہیں اور مسجد اور مندر کی تعمیر اگر ممکن ہوسکتی ہے تو وہ اس کے حق میں نظر آتے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے مولانا محمود مدنی نے جس سنجیدہ رائے کا اظہار کیا ہی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آج کے ہندوستان کے ساتھ ساتھ کل کے ہندوستان کو بھی اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، لہٰذا ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو یکسر خارج کرنے کی بجائے قابل غور تسلیم کرتے ہیں۔ راقم الحروف کو اپنے پہلے مضمون کے بعد ہی ان کا ایک انتہائی اہم خط موصول ہوا تھا، جسے ابھی تک شامل اشاعت نہیں کیا گیاہی، حالانکہ اس کی ایک دستاویزی اہمیت ہے اور آئندہ کسی مضمون کا اہم جز ہوسکتا ہی۔
جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا ارشدمدنی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملی۔ ملاقات کے بعدجو بیان سامنے آیا، اس سے معلوم ہوا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر گفتگو ہوئی اور انہوں نے اس سلسلہ میں وزیراعظم کا موقف سامنے رکھا۔ پانچ روز قبل مولانا ارشدمدنی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اپنی رائے کا اظہار کرچکے تھے اور اس وقت یہی مسئلہ ملک اور قوم کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہی۔ ایسے موقع پر وزیراعظم سے ملاقات کا وقت ملنا بڑی بات ہی۔ اس ملاقات میں مسلم مسائل پر گفتگو کا ہونا اور اس موضوع پر بات چیت کا نہ ہونا حیران کن ہی۔ عین ممکن ہے کہ یہ مولانا ارشد مدنی صاحب کا انتہائی دانشمندانہ قدم رہا ہو کہ جو گفتگو اس موضوع پر ان کی وزیراعظم سے ہوئی، وہ انہیں اتنی حوصلہ افزا نہ لگی ہو کہ اسے قوم کے سامنے رکھنا مناسب سمجھتے اور بہرحال وزیراعظم کا احترام بھی ان کے ذہن میں رہا ہوگا، لہٰذا اس موضوع پر خاموشی اختیار کرنا ہی انہوں نے بہتر سمجھا ہوگا، لیکن یہ قیاس سے دور کی بات ہے کہ گفتگو آج کے اس سب سے اہم موضوع پر نہ ہوئی ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میں سبھی کے موقف کو درست قرار دے رہا ہوں، جب کہ سب ہی کی آرا میں تضاد ہے تو آخر میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟ میں پھر اپنے محترم قارئین اور قائدین کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست کے ساتھ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ اس موضوع پر پہلے دن سے جو میرا موقف تھا، آج بھی وہی ہی۔ وہ قابل رد ہوسکتا ہی، قابل تنقید ہوسکتا ہی، مگر نظریاتی اختلاف ذاتی اختلاف نہیں ہوتا،اسے ایک صحت مند جمہوری سوچ کی علامت سمجھنا چاہئی۔
جہاں تک میرے نظریے کا تعلق ہے تو چند وجوہات ہیں، جو سب کو ٹھیک ٹھہراتے ہوئے بھی مجھے وہی بات کہنے پر مجبور کرتی ہیں، جو میں روز اوّل سے کہتا چلا آرہا ہوں۔ بیشک ناامیدی کفر ہی، اللہ کے انصاف پر یقین کامل رکھنا چاہئے اور ہمیں عدلیہ سے بھی اپنی امیدیں قائم رکھنا چاہئی۔
عدلیہ پر مکمل اعتماد ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں ذہن یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہورہا کہ ہمیں سپریم کورٹ سے بھی وہ فیصلہ حاصل ہوجائے گا، جو کہ ہمارے دل و دماغ میں ہے اور جتنے لوگوں سے بھی اس سلسلہ میں بات ہوئی، تقریباً تمام نے ہی یہ اعتراف بھی کیا کہ اگر ایسا کوئی فیصلہ آبھی جاتا ہے تو اس کا نفاذ ممکن نہیں ہی۔ مولانا سید احمد بخاری سرکاروں کے ماضی کو سامنے رکھ کر حقیقت بیانی کریں یا کوئی اور تنقیدی رُخ اختیار کریں، انہیں اور ہم سب کو تسلیم تو یہ حقیقت بھی کرنا ہوگی کہ یہ مسئلہ آج کا نہیں ہی، آزادی کے فوراً بعد سے ہی ہم اس مسئلہ سے نبردآزما رہے ہیں۔ اس درمیان سبھی کو سرکاروں میں رہنے کا موقع ملا ہی۔ کس نے ایسا فیصلہ ہمارے سامنے رکھا، جسے ہم مکمل انصاف قرار دے سکتے اور یہ مسئلہ حل ہوجاتا، بے گناہ انسانوں کی جانیں نہ جاتیں اور اس سے قطع نظر اگر ہم مستقبل کے لئے بہت پرامید ہوگئے ہیں تو وہ کون سی سرکار ہوسکتی ہی، جو ہمیں ہماری پسند کا یا حقائق پر مبنی،یعنی جہاں بابری مسجد تھی، ازسرنو وہاں بابری مسجد کی تعمیر کا فیصلہ دے دے گی، اس فیصلہ کا نفاذ کرادے گی اور ملک کا امن و امان بھی قائم رہے گا۔ ممکن ہے کہ میں بہت کشادہ ذہن نہ ہوں، بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کی عادت نہ رکھتا ہوں، مگر مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی جھجھک نہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی سرکار، کوئی بھی سرکار بھلے ہی اس کا وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کی طرح کسی اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والا ہو، یعنی مسلمان ہو تو بھی وہ ایسے کسی فیصلہ کو عمل درآمد کرا سکے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس ڈر سے ناانصافی کو قبول کرلیں، کوئی جدوجہد نہ کریں، نہیں، جدوجہد ضرور کی جانی چاہئی، حصول انصاف کے لئے آخری حد تک جانا چاہئی، مگر محض جذبات کے سہارے نہیں، بلکہ مکمل ہوشمندی کے ساتھ۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے نہیں، بلکہ سب کو ساتھ لے کر۔ ہم باربار ان جج صاحبان کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، جنہوں نے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ دیا۔ قانون کے نقطۂ نظر سے تنقید یا نشانہ بنایا جانا حق بجانب ہوسکتا ہی، مگر اس معاملے میں زیادہ بہتر رائے دینے کا حق توماہرقانون رکھتے ہیں، جنہیں اس کی سمجھ ہی، لیکن جہاں تک میری نظر جاتی ہی، اگر اس فیصلہ کو لینے میں اتنا طویل عرصہ لگا اور تینوںجج صاحبان کی رائے میں اتنا تضاد ہونے کے باوجود بھی انہوں نے یہ فیصلہ سامنے رکھنا منظور کیاتو ہمیں اس کے معنوں کو سمجھنا ہوگا، ان کی ذہنی کیفیت کو سمجھنا ہوگا، ان خدشات کو سمجھنا ہوگا، ان مقاصد کو ذہن میں رکھنا ہوگا، جو سب اس دوران جج صاحبان کے پیش نظر رہے ہوں گی۔ وہ ایک دوسرے کی رائے سے انحراف رکھتے ہیں، کیا ایسا نہیں لگتا کہ انہوں نے خود کو نشانہ بنائے جانے کی پروا نہ کرتے ہوئے بھی الگ الگ ہی سہی، ان سب کی دلجوئی کا خیال رکھا، جن کے جذبات یکطرفہ فیصلہ سے مجروح ہوسکتے تھی۔ بیشک یہ کہا جاسکتا ہے کہ قانون کے لحاظ سے یہ فیصلہ رد کئے جانے کے لائق ہی، مگر ہم اس وقت کیوں بہت خوش ہوتے ہیں، جب ہماری پنچایتیں کوئی ایسا فیصلہ سناتی ہیں، جس میں بھلے ہی ایک فریق دبا ہوا نظر آئی، مگر فیصلہ اس گاؤں کی سلامتی کے لئے صحیح نظر آتا ہو۔ ہم کیوں اس وقت سنیماہال سے تالیاں بجاتے ہوئے باہر نکلتے ہیں، جب فلمی جج قانون کے تقاضوں سے پرے کوئی ایسا فیصلہ سناتا ہی، جس میں انسانیت کا پہلو صاف جھلکتا ہو۔ آپ میرے اگلے جملہ پر مجھ سے ناراض ہوسکتے ہیں۔ خاص طور سے وہ لوگ جو صرف اور صرف سپریم کورٹ جانے کی صلاح دے رہے ہیں۔ کسی کی نیت پر شک تو نہیں کیا جاسکتا، سب ہماری بہتری کے بارے میں ہی سوچ رہے ہوں گی، مگر اس خدشہ سے پوری طرح انکار کون کرے گا کہ اگر سپریم کورٹ سے آنے والا فیصلہ ہماری مسجد کے لحاظ سے اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہوا تو ہمارے لئے کیا گنجائش باقی ہی۔ آج جو پاسکتے ہیں، اگر کل وہ بھی کھو دیا تو پھر آج کے اس فیصلہ پر ہماری اس وقت رائے کیا ہوگی، جس تیزی سے ملک میں فرقہ پرست سوچ میں اضافہ ہوا ہی، ان کی سیاسی طاقت بڑھی ہی، جس طرح خود کو سیکولرزم کا علمبردار کہنے والے الگ الگ موقعوں پر ان کے ساتھ جاکر ان کی سرکاریں بنواتے رہے ہیں، کل اگر ان کی سیاسی طاقت اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ واضح اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں ہوں تو پھر آپ کتنی امیدیں وابستہ کرسکتے ہیں؟ یہی ایک خدشہ ہے سپریم کورٹ کے متوقع فیصلہ کو لے کر بھی، آنے والے کل کی سیاسی صورتحال کو لے کر بھی، جسے ذہن میں رکھ کر پہلے دن ہی یہ لکھا گیا تھاکہ اگر اس فیصلہ سے ہمیں کوئی موقع ایسا مل سکتا ہے کہ مسجد بھی بنے اور مندر بھی بنی، مسجد بننے میں ہندوؤں کا تعاون اور خیرسگالی ہمارے ساتھ ہو اور مندر بننے میں ہمارا تعاون اور جذبہ خلوص ان کے ساتھ ہو۔ برسہابرس سے دلوں میں نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے والا یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائی، وہ لوگ جو مندر کی سیاست کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس قدر طاقتور بن گئے کہ ملک کے بڑے بڑے فیصلے کرسکیں۔ آپ کے لئے بڑی بڑی مصیبتیں کھڑی کرسکیں، ان کے ہاتھ سے یہ ایشو جاتا رہی، اب اور آگے اس ایشو پر سیاست نہ ہو، بلکہ اب بات یہ ہو کہ جنہوں نے مسجد شہید کی، انہیں سزا ملے اور وہ سزا بھی ایسی نہ ہو کہ وہ اس سزا کو اپنی قربانی بناکر پیش کرسکیں۔ خود کو ہیرو کی شکل میں سامنے رکھ سکیں۔ قانون انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیاست کے لئے نااہل قرار دے دے اور وہ تمام ذمہ دار افراد جن کی مختلف آرا کا ذکر مضمون کی ابتدائی سطروں میں کیا تھا، ایک بار پھر ٹھنڈے دل سے اپنی رائے پر نظرثانی فرمائیں، باوجود اس حقیقت کے کہ یہ فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہی۔ باوجود اس سچائی کے کہ وہاں مسجد تھی اور مسجد ہی بننی چاہئی۔ باوجود تمام سرکاروں اور سیاسی پارٹیوں کی کوتاہیوں کے آج ہمارے سامنے راستہ کیا ہی۔ وہ کون سی عدالت یا سیاسی طاقت ہی، جس نے ہماری امیدوں کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ ہم اس فیصلہ کو رد کرتے ہوئی، اس فیصلہ کا انتظار کریں جو یقینا ہمارے حق میں ہی ہوگا۔ یہ جذباتی باتیں کہنے سننے میں اچھی لگ سکتی ہیں کہ ہم ہزار سال تک مقدمہ لڑنے کے لئے تیار ہیں، ہزاروں جانیں چلی جائیں ہمیں اس کی پروا نہیں، ہمیں ہر حالت میں اس جگہ مسجد ہی چاہئی، زمین سے لے کر آسمان تک، آج سے لے کر رو زِقیامت تک وہاں مسجد تھی اور صرف اور صرف مسجد ہی رہے گی، مگر کیا یہ تمام جذباتی باتیں حقیقت کی شکل اختیار کرسکتی ہیں؟ کیا آج ہمارے کانوں میں وہ آوازیں نہیں گونجتیں، جب ہم ملک کے ذمہ دار نمائندوں کو ببانگ دہل یہ کہتے ہوئے سنتے تھے کہ جو بابری مسجد کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا، ہم اس آنکھ کو پھوڑ دیں گی۔ بابری مسجد مسمار کردی گئی، آپ کو کتنی آنکھیں پھوٹی ہوئی نظر آئیں۔ آپ کو یہ جملہ یاد ہوگا کہ ’میرے سامنے جو آپ دیکھ رہے ہیں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، اگر اسے میں ایک اشارہ کردوں تو یہ سرکاروں کو تہس نہس کردے گا۔‘ کیا ہوا ان تمام جوشیلے بیانات کا۔ ہم نے بابری مسجد کو کھودیا۔ ہم نے اپنے ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کو کھودیا۔ دیگر ہم وطن بھائی بھی اس آگ سے بچ نہیں سکی۔ دلوں میں نفرتیں اس درجہ بڑھیں کہ ہم انہیں بھی شک کی نظر سے دیکھنے لگی، جو کبھی ہمارے ہم نوالہ وہم پیالہ ہوا کرتے تھی۔ آج ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہمیں اپنے وقار کی جنگ جیتنی ہے یا پیار کی جنگ جیتنی ہی۔ مسجد سے دستبردار ہونے کی مجبوری اس فیصلہ میں اگر ہوتی تو یہ فیصلہ قطعاً قابل غور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ہاں، ہم کچھ کھورہے ہیں، کچھ پارہے ہیں، مسجد تھی، مسجد تو پھر بھی پاہی رہے ہیں، مگر اسی مقام کے ایک تہائی مقام پر، جو مسجد کا تھا۔ اس کے علاوہ باقی بچی6ایکڑ زمین میں سے کتنی زمین ہمیں مل سکتی ہی، جو اس کی بھرپائی کرسکے اور ایک ایسی شاندار مسجد تعمیر کرنے کا موقع مل سکی، مناسب لگے تو اس پر بھی ذرا غور ہو۔

No comments: