Monday, July 19, 2010

کب تک نہیں پہچانیں گے ہم اصل دہشت گردوں اور ان کے منصوبوں کو

عزیز برنی


کوئی حیرانی نہیں ہوئی مجھے اس وقت جب نائب صدرجمہوریہ جناب حامدانصاری صاحب کو قتل کرنے کی سازش کا رازفاش ہوا۔ دراصل ہمیں سنگھ پریوار کے پروردہ ناتھورام گوڈسے کے ہاتھوں مہاتماگاندھی کے قتل کے بعد ہی سمجھ لینا چاہےے تھا کہ ملک کی آزادی کے معنی فرقہ پرست طاقتوں کے لےے کیا ہیں اور ان کے ذہن میں کیسے ہندوستان کا تصور ہے اور اپنے اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لےے وہ کیسے کیسے خطرناک منصوبے بنا سکتے ہیں، کتنی قیمتی جانیں لے سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم نہیں سمجھ سکے ان کی ذہنیت کو، اس لےے کہ اس وقت ملک کے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل تھے، جن کی قیادت مہاتماگاندھی کے قاتلوں کے تحفظ کے لےے زیادہ فکرمند تھی، بالمقابل مہاتماگاندھی کی زندگی کو فاشسٹ طاقتوں سے بچانے کے۔ ہمیں بار بار لکھنا پڑتا ہے اس وقت کے حالات کو، سردار پٹیل کے نظریات کو، سنگھ پریوار کی کارکردگیوں کو، اس لےے کہ جس طرح ان تمام واقعات کو آزادی کے فوراً بعد سے ہی دبانے کی کوشش متواتر کی جاتی رہی ہے، وہ اس قدر زیادہ ہے کہ ہم اگر ان تمام حقائق کو سوبار منظرعام پر لائیں، تب بھی کل ہندوستان ان تمام حقائق سے واقف ہوپائے گا،یہ یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا۔ …لیکن فضا اب کچھ بدلتی نظر آرہی ہے۔ ایسی تمام خبریں جنہیں یا تو جگہ ہی نہیں ملتی تھی یا اگر کچھ جگہ مل بھی جاتی تھی تو اس طرح کہ انہیں شامل اشاعت تو کردیا جاتا، مگر وہ قارئین کی توجہ اپنی جانب مرکوز نہیں کرپاتیں۔ نتیجہ دہشت گردی کے تمام واقعات کو ایک مخصوص فرقہ سے جوڑ کر ہی پیش کیا جاتا رہا، کیوں کہ صرف ایسی ہی خبریں نمایاں طور پر جگہ پاتی رہیں، جن میں دہشت گرد مسلمان نظر آتے ہوں۔ انہی ناموں کی تشہیر کی جاتی رہی، جن کا تعلق ایک مخصوص مذہب سے رہا۔ مگر سچ سات پردوں میں ہو تب بھی ایک روز باہر آہی جاتا ہے۔
4
آج صبح جب میں دہلی سے شائع انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے صفحہـپر چھپی زیر نظر خبر کو پڑھ رہا تھا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ تو برسوں سے ان تمام واقعات کو منظرعام پر لاتا رہا ہے۔ مکہ مسجد بم بلاسٹ کی بات ہو یا خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ اجمیر کا واقعہ ہو، مالیگاؤں کا بم دھماکہ ہو یا سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ، لیکن پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے صحیح مجرموں تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں۔ راقم الحروف نے تواسی وقت حیدرآباد مکہ مسجد میں ہوئے بم دھماکہ کی جگہ پر جاکر اور ہلاک شدگان کے گھروں تک پہنچ کر ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی، متعدد عینی شاہدوں سے گفتگو کی اور اسی وقت یہ سچ سامنے آنے لگا کہ جن لوگوں کی گرفتاریاں کی گئی ہیں، ان میں پولیس کا تعصب صاف نظر آتا ہے تو آندھراپردیش کے وزیراعلیٰ وائی ایس آر ریڈی سے ملاقات کی۔ بعد میں کچھ بے گناہ ملزمین کورہائی بھی ملی، لیکن اس وقت اس آواز میں آواز ملانے والے عوام کی سطح تک تو موجود تھے، مگر ہمارے قومی میڈیا نے اس پر اتنی توجہ نہیں دی، جتنی کہ دی جانی چاہےے تھی۔ بہرحال اب اندازفکر بدلنے لگا ہے اور ان خبروں کو بھی جگہ دی جانے لگی ہے، جن میں دہشت گردی کی زد میں فرقہ پرست تنظیموں کے کارکنان وابستہ نظر آتے ہیں۔ زیرنظر خبر سی بی آئی کی جانچ پر مبنی ہے، لہٰذا آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ جن باتوں کی طرف اسی وقت سے اشارہ کرتا رہاتھا، اگر توجہ دی جاتی تو یہ حقیقت بہت پہلے منظرعام پر آسکتی تھی۔
kقارئین کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ کانپورکے رہائشی علاقہ میں ایک گھر کے اندر بم بنانے کی فیکٹری چلائی جارہی تھی۔ بجرنگ دل کے دوکارکن موقع پر ہی اس کوشش میں ہلاک ہوئے، لیکن کیا اس کی تہہ تک جاکر یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ ان بموں کا استعمال کہاںہونا تھا؟ یہ بم کن کے لےے بنائے جاتے تھے؟ اسی طرح کا واقعہ ناندیڑ اور اڑیسہ میں بھی سامنے آیا۔ انہیں بھی دبانے کی حتی الامکان کوشش کی گئی اور کامیاب کوشش کی گئی، جو کچھ بھی منظرعام پر لایا گیا وہ زیادہ تر اردو اخبارات کے ذریعہ ہی، جس میں اے ٹی ایس اور مقامی پولیس نے معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کو سامنے رکھا گیا، مگر ہماری خفیہ ایجنسیوں نے پوری سچائی کو سامنے لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہم پھر یہ کہنا چاہیں گے کہ ایک دہشت گرد صرف دہشت گرد ہے، اسے مذہب کے چشمہ سے نہ دیکھا جائے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو۔ مگر ان واقعات کو سامنے رکھ کر کچھ لکھنا اس لےے ضروری لگتا ہے کہ آج پوری دنیا میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے اور بدقسمتی سے ہندوستان میں بھی یہی ہورہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے دہشت گردی پر قابو پانا ہمارے لےے بہت مشکل ہوگیا ہے کہ ہم حقائق کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اصل مجرموں تک پہنچنا ہی نہیں چاہتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر بم دھماکہ کے بعد پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ پر ہی کام کیا جاتا ہے۔ بس کچھ نام بدل جاتے ہیں، کچھ مقام بدل جاتے ہیں۔ نتیجہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر جیسے واقعات کی شکل میں سامنے آتا ہے، جس پر آج تک مرکزی حکومت کوئی واضح موقف اختیار نہیں کرسکی ہے۔ بھلے ہی حکمراں جماعت کانگریس کے جنرل سکریٹری اور ترجمان دگ وجے سنگھ خود اس انکاؤنٹر پر سوال اٹھاتے رہے ہوں۔
گزشتہ چند روز سے میں اپنے اس قسط وار کالم میں کشمیر کے موضوع پر گفتگو کررہا تھا۔ بیشک ابھی بھی اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور انشاء اللہ رہے گی، لیکن تازہ انکشافات کی روشنی میں مجھے یہ ضروری لگتا ہے کہ کل سے کچھ روز تک دہشت گردی کے اس مخصوص چہرے کو سامنے رکھا جائے اور ایک بار پھر اس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے کہ شہید ہیمنت کرکرے کے دہشت گردانہ حملہ میں مارے جانے کا مکمل سچ کیا ہے۔
اگر وہ اس 26/11کے دہشت گردانہ حملہ کا شکار ہوئے، جو ہندوستان کی سالمیت پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا تو پھر اسے ایک حیران کن اتفاق ہی کہا جائے گا کہ 26/11سے چند روز قبل شہیدہیمنت کرکرے اپنی جان کو خطرہ محسوس کررہے تھے۔ انہیں فون پر دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ آخر وہ کون تھے اور کیوں ان کی جان لینا چاہتے تھے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا اظہار بھی کیا تھااور ایک انگریزی روزنامہ نے ایسی خبریں بھی شائع کیں، جن میں ہیمنت کرکرے کو جان سے مارنے کا ذکر تھا۔ وہ ٹیلی فون نمبربھی شائع کیا گیا، جس سے دھمکی دی گئی تھی۔ کیا اس سوال پر قطعاً غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آئی ایس آئی یاپاکستانی دہشت گرد شہید ہیمنت کرکرے کو کیوں مارنا چاہتے تھے۔ کیا انہیں مالیگاؤں انویسٹی گیشن سے کوئی پریشانی تھی؟ کیا پاکستانی دہشت گرد اور آئی ایس آئی نہیں چاہتے تھے کہ سادھوی پرگیہ سنگھ، کرنل پروہت اور اپادھیائے کے نام سامنے آئیں؟ کیا 26/11کے دہشت گردوں کو، سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ میں ملوث مجرموں کے سامنے آنے سے کوئی تکلیف تھی؟ وہ کیوں نہیں چاہتے تھے کہ آرڈی ایکس کس کے ذریعہ اور کہاں سے دستیاب ہوا، یہ منظرعام پر آئے؟
جب تک ہمارے ذہن میں صرف اور صرف ایک ہی بات نہیں ہوگی کہ ہمیں ہرحال میں اپنے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے، مجرم کوئی بھی ہو، اسے اس کے کیفرکردار تک پہنچانا ہے، یہ عزم نہیں ہوگا تو خودغرض سیاست کبھی فرقہ پرستی کے ذریعہ، کبھی دہشت گردی کے ذریعہ ہمارے ملک میں تباہی کا کھیل کھیلتی رہے گی اور ہم اس سازش کا شکار بنے رہیں گے۔ بات صرف اتنی سی نہیں ہے کہ دہشت گردی کے تمام واقعات سے ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں کو جوڑ دیاجاتا ہے۔ ان کے لےے دلوں میں نفرت پیداکی جارہی ہے، بلکہ اس سچ سے بھی نظریں کیسے چرائیں گے کہ بالآخر ہمارا ملک تباہ ہورہا ہے، بے گناہ انسان دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں اور ہم ترقی اور خوشحالی کی سمت میں آگے بڑھنے کی بجائے ایک منظم دہشت گردی کی گھناؤنی سازش کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا اگر یہ عزم کرلے کہ اپنے ملک کو بچانے کے لےے، دہشت گردی کو نیست و نابود کرنے کے لےے بلاتفریق مذہب و ملت جو بھی مجرمانہ چہرے سامنے آئیں گے، انہیں منظرعام پر لائے گا اور اس جنگ کو اس وقت تک جاری رکھے گا، جب تک کہ ’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘ واضح طور پر سامنے نہ آجائے… تو ہم امید کرسکتے ہیں کہ ملک دہشت گردی سے بھی پاک ہوگا اور فرقہ وارانہ منافرت بھی ختم ہوگی۔
مکہ مسجد، اجمیر درگاہ دھماکوں کے
ملزم کا منھ ہندو گروپ نے ہمیشہ کے لےے بند کردیا
ابھیشیک شرن
نئی دہلیـ سی بی آئی کو شک ہے کہ مہو کے آر ایس ایس پرچارک سنیل جوشی کا قتل انہی افراد نے کیا تھا، جن کا تعلق ہندو دہشت گردی کے ان کے اپنے نیٹ ورک سے تھا۔ خیال رہے کہ جوشی کا قتل جوکہ مئی 2007میں کئے جانے والے مکہ مسجد بم دھماکوں اور اکتوبر007-کے اجمیر درگاہ بم دھماکوں کے سلسلے میں تفتیشی ایجنسیوں کے شک کے گھیرے میں تھا، 29دسمبر007کو گولی مار کر کیاگیا تھا۔
سی بی آئی کے ایک افسر کے مطابق جوشی کا قتل اس وقت ہوا تھا، جبکہ تحقیقاتی ایجنسیاں ان کے اور ان کے ساتھیوں کے گرد اپنا دائرہ تنگ کرتی جارہی تھیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مکہ مسجد اور اجمیر درگاہ بم دھماکوں میں بھی ویسے ہی آتش گیر مادے کا استعمال کیا گیا تھا، جوکہ چار برس قبل جوشی نے بھوپال کے دینی اجتماع کو نشانہ بنانے کی کوشش کے تحت کیا تھا۔
’’یہی وہ وقت تھا، جب سنیل جوشی کی زبان بند کرنے کی غرض سے اسے ہمیشہ کے لےے خاموش کردیا گیا۔‘‘
ہندوستان ٹائمز نے سب سے پہلے یہ خبر شائع کی تھی کہ جوشی اور اس کے مفرور قریبی ساتھی رام چندر کالسنگارا نے، جوکہ اس کے ساتھ مکہ مسجد اور اجمیردرگاہ کے بم دھماکوں میں ملوث تھا، ان دھماکوں کی پہلی ریہرسل (DRY RUN) 23دسمبر003کو بھوپال میں دینی اجتماع کے شرکاء کو نشانہ بنانے کی اپنی کوشش کے تحت کی تھی۔ ان دونوں کا تیارکردہ یہ بم آر ڈی ایکس اور ٹی این ٹی کا مرکب ہی تھا، جسے 10انچ 3انچ طول وعرض کے ایک دھات والے پائپ میں پیک کیا گیا تھااور اسے ایک موبائل فون سے منسلک کیا گیا تھا، تاکہ موبائل فون پر گھنٹی دے کر اس بم دھماکے کی کارروائی کو انجام دیا جاسکے۔ سی بی آئی کو شبہ ہے کہ ستمبرـ008کے مالیگاؤں بم دھماکے کی ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر سے سنیل جوشی کی مبینہ قربت ہی اس کی موت کا سبب بنی تھی اور ملزمہ سے اس کے قریبی تعلقات اس کے نیٹ ورک کے دیگر ساتھیوں کو قطعی ناپسند تھے۔
پرگیہ ٹھاکر کی ایل ایم ایل فریڈم بائیک کا استعمال، جواس نے جوشی کو دی تھی، کا لسنگارا نے مالیگاؤں کے بم دھماکوں کے لےے کیا تھا۔ مدھیہ پردیش پولیس کو ابتدائی سطح پر یہ شبہ تھا کہ جوشی کا قتل شاید اس بناء پر کیا گیا تھا، کیوں کہ اس پر ایک مقامی کانگریسی سیاستداں اور اس کے بیٹے کے قتل کے سلسلے میں شک کیا جارہا تھا۔ اگرچہ پولیس نے جوشی کے قتل کے سلسلے میں اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا کو بھی اپنی چھان بین کے دائرے میں شامل کیا تھا، تاہم پولیس کو اس تنظیم کے خلاف کوئی بھی ثبوت حاصل کرنے میں کامیابی نہیں مل پائی تھی