عنوان کا انتخاب کرتے وقت میں نے ذرا تکلف سے کام لیا۔ اگر میں یوں لکھتا کہ ملائم سنگھ کی معافی ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ یا میری تحریک کی کامیابی ہے تو بھی غلط نہ ہوتا، مگر میری یہ تنگ نظری ہوتی۔ دراصل عنوان ہونا چاہےے تھا ’’ملائم سنگھ یادو کی معافیـ مسلمانوں کی کامیابی‘‘۔ ہاں، یہی صحیح تھا، پھر بھی میں نے عنوان دیا ’’ملائم سنگھ کی معافیـسیکولرزم کی جیت‘‘، اس لےے کہ میں ملک کے سیکولرزم کو مضبوط ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور ملائم سنگھ کی معافی کو بھی اسی زاوےے سے دیکھ رہا ہوں۔ میری یادداشت میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب مسلمانوں کی مستقل مزاجی نے کسی بڑے سیاستداں کو اس طرح اپنا موقف بدلنے کے لےے مجبور کیا۔ ہم مسلمانوں کے سیاست میں مقام کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسے ایک خوش آئند پیغام سمجھ سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے ہمیں کھلے دل کے ساتھ ملائم سنگھ یادو کے معافی نامہ کو قبول کرلینا چاہےے، تاکہ وہ تمام سیکولر سیاستداں جن کے نزدیک کبھی مسلمان رہا، مگر ان کے مزاج میں تبدیلی آنے پر الگ ہوگیا، وہ یہ احساس کرسکیں کہ ان سے کب اور کہاں غلطی ہوئی …اور پھر اسی طرح اپنے فیصلوں پر نظرثانی کے لےے مجبور ہوں، ساتھ ہی اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ ملائم سنگھ یادو اپنی اس معذرت کے بعد کیا واقعی پھر سے مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں ان کی ترجمانی کا ارادہ رکھتے ہیں یا پھر یہ اپنی گھٹتی ہوئی سیاسی طاقت سے مجبور ہوکر کیا گیا ایک فیصلہ ہے۔
گزشتہ پارلیمانی الیکشن سے قبل ملائم سنگھ یادو نے جب کلیان سنگھ کا دامن تھاما تو روزنامہ راشٹریہ سہارا میں اپنے مضامین کے ذریعہ ہم نے ان کی سخت مخالفت کی تھی، اس لےے کہ ملائم سنگھ یادو کا ماضی ہمارے سامنے تھا، جنہیں ہم نے ہمیشہ مسلمانوں کا ہمدرد پایا۔ اچانک ان کے مزاج میں آئی تبدیلی سے ہم پریشان بھی تھے اورحیران بھی۔ بارہا ہم نے یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ ملائم سنگھ یادو کا ماضی اور ان کی پارٹی کا سیکولر مزاج انہیں ایسے کسی بھی قدم کی اجازت نہیں دیتا۔ بہت بہتر ہوتا، اگر اسی وقت انہوں نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلی ہوتی، لیکن دیر سے ہی کیا گیا ، ان کا یہ ایک درست فیصلہ ہے۔ اتنا تو وہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ اگر اس تاخیر کا کوئی نقصان پہنچا تو خود انہیںہی، مسلمانوں کو نہیں۔ ہاں، البتہ کانگریس کو اس کا فائدہ ضرور ہوا۔ جہاں تک مسلمانوں کو سیاست میں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کی بات ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ اس کے لےے سیکولر طاقتوں کا مضبوط ہونا بیحد ضروری ہے۔ کانگریس کی تمام خامیوں کے باوجود اس کا ساتھ دینے کے پیچھے اگر کوئی وجہ تھی تو صرف یہ کہ فرقہ پرست طاقتوںکو برسراقتدار آنے سے روکنا تھا۔ کانگریس آج بھی جہاں فرقہ پرست طاقتوں کو تنہا روکنے کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر توجہ دی جاسکتی ہے، مگر ملک میں سیکولرزم کو مضبوط کرنے کے لےے یہ بھی ضروری ہے کہ کانگریس کے علاوہ جو دیگر سیکولر سیاستداں یا سیاسی پارٹیاں ہیں، انہیں بھی کمزور نہ ہونے دیاجائے۔ ہاں، مگر کسی حالت میں بھی ووٹ کی تقسیم فرقہ پرستوں کو مضبوط نہ ہونے دے، اس کا خاص خیال رکھنا بیحد ضروری ہے۔
بہار میں نریندر مودی کی آمد سے قبل نتیش کمار کے معاملے میں بھی رائے یہی تھی کہ وہ سیکولر مزاج رکھتے ہیں اور ابھی بھی ان سے امیدیں ختم نہیں کی جانی چاہئیں، مگر بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کسی کے سہارے بھی مضبوط ہونے کا موقع ملتا ہے تو آنے والے وقت میں ہمیں اس کی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ اگر ہم ماضی میں کئے گئے اپنے ایک غلط فیصلہ کا تجزیہ کریں تو اس تلخ حقیت کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے بھارتیہ جنتا پارٹی کا دامن تھامنے اور مسلمانوں کے سامنے اپنا سیکولر چہرہ پیش کرکے اس کے لےے ووٹ مانگنے اور اسے اقتدار تک پہنچانے کا جو کام انہوں نے کیاتھا، اس کا خمیازہ مسلمان آج تک بھگت رہا ہے اور نہ جانے کب تک اسے بھگتنا ہوگا۔ آج کانگریس بیشک ایک سیکولر سیاسی پارٹی کی شکل میں حکمراں ہے، مگر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے دوراقتدار میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے وزیراعظم بننے کے دور سے لے کر 2004میں اٹل بہاری واجپئی کے و زیراعظم رہنے تک جب جب بھی اسے موقع ملا، اس نے اپنے ’کمیونل انجینئرنگ ‘Communal Engineering)کے فارمولہ کے ذریعہ بیوروکریسی اور فوج سمیت تقریباً تمام شعبوں میں ایسے عناصر داخل کردئے کہ اب کوئی بھی سرکار آسانی کے ساتھ اپنے تمام فیصلوں کو آسانی سے عملی جامہ نہیں پہناسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے وزیرداخلہ لال کرشن اڈوانی نہیں ہیں، مگر وہ چاہے شیوراج پاٹل رہے ہوں یا پی چدمبرم، مسلمانوں کے تئیں مزاج میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ بم دھماکوں کی تعداد میں کمی ضرور آئی ہے، مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بتا کر انکاؤنٹر میں مار دئے جانے کی رفتار میں کمی ضرور آئی ہے، مگر یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے، اب دہشت گردی کے الزام میں پھنسائے گئے بے گناہوں کو انصاف ملنے لگا ہے، یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ آج بھی ہمارے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ واضح طور پر کہتے ہیں کہ ’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر صحیح نہیں تھا اور سر پر پانچ گولیاں نہیں لگ سکتی تھیں‘، باوجود اس حقیقت بیانی اور تمام سیکولر پارٹیوں کے مطالبات کے سرکار ایماندارانہ جانچ کا فیصلہ نہیں لے سکی۔ کیا فرق رہا پی چدمبرم اور شیوراج پاٹل میں؟ آج بھی ہم ڈیوڈکولمین ہیڈلی جو ہندوستان میں سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کا کلیدی مجرم ہے، اس کے ذریعہ عشرت جہاں کو لشکرطیبہ کا ایجنٹ بتادینے پر اس کی تشہیر کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے میں جٹ جاتے ہیں کہ گویا نریندرمودی سرکار جو کہہ رہی تھی وہ سچ تھا اور ایف بی آئی و لشکرطیبہ کا مشترکہ ایجنٹ جو کہہ رہا ہے وہ سچ ہے۔
بہرحال ہم ذکر کررہے تھے ملائم سنگھ یادو کا کھلے دل کے ساتھ مسلمانوں سے معافی مانگنے کا۔ تو ہم بیحد ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب وقت بدل گیا ہے، اب ہم وعدوں اور جذبات کے سہارے فیصلہ لینے کا سلسلہ بند کرچکے ہیں اور صرف اس بات کے لےے کہ فلاں شخص یا پارٹی نے فرقہ پرست طاقتوں سے ٹکرانے کا اعلان کیا ہے، اب ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا۔ سیاست میں "Give, and Take"، یعنی اس ہاتھ لے، اس ہاتھ دے کی روش اب بالکل عام ہوگئی ہے، اسے صاف لفظوں میں ’سودا‘ بھی کہا جاسکتا ہے، لہٰذا ہم بھی ملائم سنگھ یادو کے سامنے ایسی ہی کچھ شرائط رکھیں تو بیجا نہ ہوگا کہ اگر انہیں ہماری حمایت درکار ہے، وہ کھوئی ہوئی اپنی سیاسی طاقت کو پھر سے حاصل کرنے کے لےے مسلمانوں کی مدد چاہتے ہیں تو الیکشن کے بعد وہ مسلمانوں کے لےے کیا کریں گے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ انہیں ابھی طے کرنا ہوگا کہ کیا آج وہ مسلمانوں کا اتنے ہی کھلے دل سے ساتھ دینے کے لےے تیار ہیں، جتنے کھلے دل سے انہوں نے معافی مانگی ہے یا پھر یہ محض ایک سیاسی حکمت عملی ہے، جیسا کہ ان کے کچھ مخالفین کہہ رہے ہیں۔ کیا وہ پارلیمنٹ میں مسلم مسائل پر آواز اٹھانے کا فیصلہ لینے کے لےے تیار ہیں؟ کشمیر میں دہشت گردی کی آڑ لے کر جو خونریزی کی جارہی ہے، 9سال تک کے بچوں کو ہلاک کیا جارہا ہے، کیا ان کی پارٹی پارلیمنٹ میں اس کے خلاف آواز بلند کرنے کے لےے تیار ہے؟ امرناتھ یاترا جو لال کرشن اڈوانی رتھ یاترا کی طرز پر پھر سے فرقہ وارانہ منافرت کی وجہ بنتی نظر آرہی ہے، کیا وہ اور ان کی پارٹی اس معاملہ میں حقیقت کو بے نقاب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ جس طرح یکے بعد دیگرے سنگھ پریوار کے کارنامے سامنے آنے لگے ہیں، دہشت گردی میں جن ہندوفرقہ پرست تنظیموں کے نام سامنے آنے لگے ہیں، کیا ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان کے خلاف آواز بلند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ بٹلہ ہاؤس سمیت دیگر متعدد انکاؤنٹرس یا بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر، جن بے گناہ نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے، کیا انہیں انصاف دلانے کا عزم رکھتے ہیں؟ بیشک اگر ان میں سے کچھ واقعی گنہگار ہیں تو انہیں سزا دلانے سے بھی گریز نہ کریں۔(تفصیلات ہم مہیا کریں گے) مسلمانوں کی تعلیمی درسگاہوں کو دہشت گردی کا اڈہ بتانے کی جو مہم سنگھ پریوار نے شروع کی ہے، کیا اس کے دفاع میں وہ اور ان کی پارٹی کھڑے ہونے کا ارادہ رکھتی ہے؟ یہ اس لےے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے دینی مدارس اور ان کی کارکردگی سے وہ بخوبی واقف ہیں اور ان مدارس نے بارہا بے غرض ان کا ساتھ دیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کا معاملہ ابھی تک التوا میں ہے، کیا وہ پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کرکے ان اداروں کو ان کا واجب حق دلانے میں کرسکتے ہیں؟ اگر ان جیسے تمام سوالوں کا جواب وہ خلوص دل سے ’ہاں‘ میں دیتے ہیں تو وہ اس قوم سے مثبت رویہ کی امید کرسکتے ہیں، ورنہ معافی کے چند جملے کتنے کارگر ہونے چاہئیں، اس کا اندازہ وہ خود کرسکتے ہیں۔
اب ہمارے سامنے کلیان سنگھ اور ملائم سنگھ کی دوستی جیسا دوسرا معاملہ بہار میں جے ڈی یو اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی دوستی کا ہے۔ شردیادو نے کھل کر یہ کہہ دیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہمارے دیرینہ مراسم ہیں اور ہم مل کر الیکشن لڑیں گے۔ بیشک وہ اپنے سیاسی مستقبل کو ذہن میں رکھ کر کوئی بھی فیصلہ لینے کے لےے آزاد ہیں۔ نتیش کمار سیکولر رہیں گے یا فرقہ پرست، یہ فیصلے بھی انہیں کو کرنا ہے۔ وہ نریندر مودی اور اس کی سوچ کے لوگوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں یا طاقتور بنانا چاہتے ہیں، یہ فیصلہ بھی انہیں ہی کرنا ہے۔ ہم نے سپول کے ایک جلسہ میں لاکھوں سامعین کی موجودگی میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضرت علی نے ہمارے دوستوں اور دشمنوںکی شناخت کرنے کا ایک فارمولہ ہمارے سامنے رکھا ہے، وہ یہ کہ ہمارے تین دوست ہیں اور تین دشمن۔ ہمارے تین دوست وہ ہیں جو کہ براہ راست ہمارے دوست ہیں، دوستوں کے دوست ہیں یا ہمارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔ اسی طرح ہمارے تین دشمن وہ ہیں، جو ہمارے دشمن ہیں، ہمارے دوستوں کے دشمن ہیں یا ہمارے دشمنوں کے دوست ہیں۔ اب وہ فیصلہ خود کرسکتے ہیں کہ اس فارمولہ کے تحت وہ کس زمرے میں آتے ہیں۔ گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں فرقہ پرست طاقتوں کے مضبوط ہونے کا ہم نے ہی نہیں اس ملک نے بڑا نقصان اٹھایا ہے۔ بہار کی سیکولرزمین فرقہ پرست طاقتوں کے حوالے کردینا ایک بڑی بھول ہوگی، بلکہ اب تو وہ وقت آگیا ہے کہ جن جن ریاستوں میں فرقہ پرست طاقتیں ذرا بھی مضبوط ہوگئی ہیں، وہاں انہیں کمزور کرنے کے لےے سبھی سیکولر طاقتوں کو متحد ہونا چاہےے، اسی میں ملک کا بھی بھلا ہے اور ہندوستانی عوام کا بھی۔ ابھی آئندہ چند ماہ میں بہار کا الیکشن ہمارے سامنے ہے، جو کچھ اترپردیش میں کلیان سنگھ اور ملائم سنگھ کے ساتھ کو لے کر ہم نے فیصلہ کیا، وہی فیصلہ نتیش کمار اور نریندر مودی کے سیاسی گٹھ جوڑ کو سامنے رکھ کر بہار میں کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ فیصلہ نتیش کمار کو کرنا ہے کہ وہ وقت رہتے ہوئے فرقہ پرست عناصر سے فاصلہ اختیار کرپاتے ہیں یا پھر ملائم سنگھ یادو کی طرح ٹھوکر کھانے کے بعد کوئی فیصلہ لینے کے بارے میں سوچیں گے، مگر یہاں ایک بات واضح کردینا بیحد ضروری ہے، وہ یہ کہ ملائم سنگھ یادو کا پورا سیاسی کرئیر ہمارے سامنے ہے، تقریباً 25برس تک سیکولرزم کے علمبردار بنے رہنے، بابری مسجد کو شہادت سے بچانے، مسلمانوں کی ہر موڑ پر ترجمانی کرنے، یہاں تک کہ مولانا ملائم سنگھ یادو کا خطاب حاصل کرنے والے شخص نے ایک غلطی کی اور ٹھوکر کھانے کے بعد معذرت کرلی۔ ان کے سابقہ کردار کو سامنے رکھ کر اس معافی کو قبول کرنے میں مسلمانوں کو شاید اتنی جھجھک نہ ہو، مگر یہی بات نتیش کمار کے معاملہ میں نہیں کہی جاسکتی، اس لےے کہ نہ تو وہ ملائم سنگھ یادو کی طرح سیکولرزم کے علمبردار رہے ہیں اور نہ مسلمانوں نے کبھی انہیں اپناترجمان سمجھا ہے۔ ہاں ان کے دوراقتدار میں مسلمانوں کو بی جے پی کا ہمنوا ہونے کے باوجود زیادہ شکایتیں نہیں رہیں، مگر جس طرح اب نریندر مودی اس ریاست میں فرقہ پرستی پھیلاتے نظر آرہے ہیں، ان کے خوفناک نتائج کو سمجھا جاسکتا ہے، لہٰذا مسلمان نتیش کمار کے کاندھوں پر سوار ہوکر نریندرمودی کو طاقتور بنانے کا فیصلہ نہیں لے سکتا۔ وہ یہ بات بھی ذہن سے نکال دیں کہ مسلمانوں میں اگڑے اور پچھڑے کی تفریق پیدا کرکے وہ انہیں دو ٹکڑوں میں بانٹنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ نریندر مودی یا فرقہ پرست طاقتوں کے سوال پر اس تفریق کے کوئی معنی نہیں ہیں، وہ سبھی آپ کو ایک ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ ملائم سنگھ یادوکی مثال آپ کے سامنے ہے اور ابھی فیصلہ کا موقع بھی آپ کے پاس ہے
گزشتہ پارلیمانی الیکشن سے قبل ملائم سنگھ یادو نے جب کلیان سنگھ کا دامن تھاما تو روزنامہ راشٹریہ سہارا میں اپنے مضامین کے ذریعہ ہم نے ان کی سخت مخالفت کی تھی، اس لےے کہ ملائم سنگھ یادو کا ماضی ہمارے سامنے تھا، جنہیں ہم نے ہمیشہ مسلمانوں کا ہمدرد پایا۔ اچانک ان کے مزاج میں آئی تبدیلی سے ہم پریشان بھی تھے اورحیران بھی۔ بارہا ہم نے یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ ملائم سنگھ یادو کا ماضی اور ان کی پارٹی کا سیکولر مزاج انہیں ایسے کسی بھی قدم کی اجازت نہیں دیتا۔ بہت بہتر ہوتا، اگر اسی وقت انہوں نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلی ہوتی، لیکن دیر سے ہی کیا گیا ، ان کا یہ ایک درست فیصلہ ہے۔ اتنا تو وہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ اگر اس تاخیر کا کوئی نقصان پہنچا تو خود انہیںہی، مسلمانوں کو نہیں۔ ہاں، البتہ کانگریس کو اس کا فائدہ ضرور ہوا۔ جہاں تک مسلمانوں کو سیاست میں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کی بات ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ اس کے لےے سیکولر طاقتوں کا مضبوط ہونا بیحد ضروری ہے۔ کانگریس کی تمام خامیوں کے باوجود اس کا ساتھ دینے کے پیچھے اگر کوئی وجہ تھی تو صرف یہ کہ فرقہ پرست طاقتوںکو برسراقتدار آنے سے روکنا تھا۔ کانگریس آج بھی جہاں فرقہ پرست طاقتوں کو تنہا روکنے کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر توجہ دی جاسکتی ہے، مگر ملک میں سیکولرزم کو مضبوط کرنے کے لےے یہ بھی ضروری ہے کہ کانگریس کے علاوہ جو دیگر سیکولر سیاستداں یا سیاسی پارٹیاں ہیں، انہیں بھی کمزور نہ ہونے دیاجائے۔ ہاں، مگر کسی حالت میں بھی ووٹ کی تقسیم فرقہ پرستوں کو مضبوط نہ ہونے دے، اس کا خاص خیال رکھنا بیحد ضروری ہے۔
بہار میں نریندر مودی کی آمد سے قبل نتیش کمار کے معاملے میں بھی رائے یہی تھی کہ وہ سیکولر مزاج رکھتے ہیں اور ابھی بھی ان سے امیدیں ختم نہیں کی جانی چاہئیں، مگر بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کسی کے سہارے بھی مضبوط ہونے کا موقع ملتا ہے تو آنے والے وقت میں ہمیں اس کی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ اگر ہم ماضی میں کئے گئے اپنے ایک غلط فیصلہ کا تجزیہ کریں تو اس تلخ حقیت کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے بھارتیہ جنتا پارٹی کا دامن تھامنے اور مسلمانوں کے سامنے اپنا سیکولر چہرہ پیش کرکے اس کے لےے ووٹ مانگنے اور اسے اقتدار تک پہنچانے کا جو کام انہوں نے کیاتھا، اس کا خمیازہ مسلمان آج تک بھگت رہا ہے اور نہ جانے کب تک اسے بھگتنا ہوگا۔ آج کانگریس بیشک ایک سیکولر سیاسی پارٹی کی شکل میں حکمراں ہے، مگر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے دوراقتدار میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے وزیراعظم بننے کے دور سے لے کر 2004میں اٹل بہاری واجپئی کے و زیراعظم رہنے تک جب جب بھی اسے موقع ملا، اس نے اپنے ’کمیونل انجینئرنگ ‘Communal Engineering)کے فارمولہ کے ذریعہ بیوروکریسی اور فوج سمیت تقریباً تمام شعبوں میں ایسے عناصر داخل کردئے کہ اب کوئی بھی سرکار آسانی کے ساتھ اپنے تمام فیصلوں کو آسانی سے عملی جامہ نہیں پہناسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے وزیرداخلہ لال کرشن اڈوانی نہیں ہیں، مگر وہ چاہے شیوراج پاٹل رہے ہوں یا پی چدمبرم، مسلمانوں کے تئیں مزاج میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ بم دھماکوں کی تعداد میں کمی ضرور آئی ہے، مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بتا کر انکاؤنٹر میں مار دئے جانے کی رفتار میں کمی ضرور آئی ہے، مگر یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے، اب دہشت گردی کے الزام میں پھنسائے گئے بے گناہوں کو انصاف ملنے لگا ہے، یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ آج بھی ہمارے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ واضح طور پر کہتے ہیں کہ ’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر صحیح نہیں تھا اور سر پر پانچ گولیاں نہیں لگ سکتی تھیں‘، باوجود اس حقیقت بیانی اور تمام سیکولر پارٹیوں کے مطالبات کے سرکار ایماندارانہ جانچ کا فیصلہ نہیں لے سکی۔ کیا فرق رہا پی چدمبرم اور شیوراج پاٹل میں؟ آج بھی ہم ڈیوڈکولمین ہیڈلی جو ہندوستان میں سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کا کلیدی مجرم ہے، اس کے ذریعہ عشرت جہاں کو لشکرطیبہ کا ایجنٹ بتادینے پر اس کی تشہیر کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے میں جٹ جاتے ہیں کہ گویا نریندرمودی سرکار جو کہہ رہی تھی وہ سچ تھا اور ایف بی آئی و لشکرطیبہ کا مشترکہ ایجنٹ جو کہہ رہا ہے وہ سچ ہے۔
بہرحال ہم ذکر کررہے تھے ملائم سنگھ یادو کا کھلے دل کے ساتھ مسلمانوں سے معافی مانگنے کا۔ تو ہم بیحد ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب وقت بدل گیا ہے، اب ہم وعدوں اور جذبات کے سہارے فیصلہ لینے کا سلسلہ بند کرچکے ہیں اور صرف اس بات کے لےے کہ فلاں شخص یا پارٹی نے فرقہ پرست طاقتوں سے ٹکرانے کا اعلان کیا ہے، اب ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا۔ سیاست میں "Give, and Take"، یعنی اس ہاتھ لے، اس ہاتھ دے کی روش اب بالکل عام ہوگئی ہے، اسے صاف لفظوں میں ’سودا‘ بھی کہا جاسکتا ہے، لہٰذا ہم بھی ملائم سنگھ یادو کے سامنے ایسی ہی کچھ شرائط رکھیں تو بیجا نہ ہوگا کہ اگر انہیں ہماری حمایت درکار ہے، وہ کھوئی ہوئی اپنی سیاسی طاقت کو پھر سے حاصل کرنے کے لےے مسلمانوں کی مدد چاہتے ہیں تو الیکشن کے بعد وہ مسلمانوں کے لےے کیا کریں گے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ انہیں ابھی طے کرنا ہوگا کہ کیا آج وہ مسلمانوں کا اتنے ہی کھلے دل سے ساتھ دینے کے لےے تیار ہیں، جتنے کھلے دل سے انہوں نے معافی مانگی ہے یا پھر یہ محض ایک سیاسی حکمت عملی ہے، جیسا کہ ان کے کچھ مخالفین کہہ رہے ہیں۔ کیا وہ پارلیمنٹ میں مسلم مسائل پر آواز اٹھانے کا فیصلہ لینے کے لےے تیار ہیں؟ کشمیر میں دہشت گردی کی آڑ لے کر جو خونریزی کی جارہی ہے، 9سال تک کے بچوں کو ہلاک کیا جارہا ہے، کیا ان کی پارٹی پارلیمنٹ میں اس کے خلاف آواز بلند کرنے کے لےے تیار ہے؟ امرناتھ یاترا جو لال کرشن اڈوانی رتھ یاترا کی طرز پر پھر سے فرقہ وارانہ منافرت کی وجہ بنتی نظر آرہی ہے، کیا وہ اور ان کی پارٹی اس معاملہ میں حقیقت کو بے نقاب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ جس طرح یکے بعد دیگرے سنگھ پریوار کے کارنامے سامنے آنے لگے ہیں، دہشت گردی میں جن ہندوفرقہ پرست تنظیموں کے نام سامنے آنے لگے ہیں، کیا ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان کے خلاف آواز بلند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ بٹلہ ہاؤس سمیت دیگر متعدد انکاؤنٹرس یا بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر، جن بے گناہ نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے، کیا انہیں انصاف دلانے کا عزم رکھتے ہیں؟ بیشک اگر ان میں سے کچھ واقعی گنہگار ہیں تو انہیں سزا دلانے سے بھی گریز نہ کریں۔(تفصیلات ہم مہیا کریں گے) مسلمانوں کی تعلیمی درسگاہوں کو دہشت گردی کا اڈہ بتانے کی جو مہم سنگھ پریوار نے شروع کی ہے، کیا اس کے دفاع میں وہ اور ان کی پارٹی کھڑے ہونے کا ارادہ رکھتی ہے؟ یہ اس لےے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے دینی مدارس اور ان کی کارکردگی سے وہ بخوبی واقف ہیں اور ان مدارس نے بارہا بے غرض ان کا ساتھ دیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کا معاملہ ابھی تک التوا میں ہے، کیا وہ پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کرکے ان اداروں کو ان کا واجب حق دلانے میں کرسکتے ہیں؟ اگر ان جیسے تمام سوالوں کا جواب وہ خلوص دل سے ’ہاں‘ میں دیتے ہیں تو وہ اس قوم سے مثبت رویہ کی امید کرسکتے ہیں، ورنہ معافی کے چند جملے کتنے کارگر ہونے چاہئیں، اس کا اندازہ وہ خود کرسکتے ہیں۔
اب ہمارے سامنے کلیان سنگھ اور ملائم سنگھ کی دوستی جیسا دوسرا معاملہ بہار میں جے ڈی یو اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی دوستی کا ہے۔ شردیادو نے کھل کر یہ کہہ دیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہمارے دیرینہ مراسم ہیں اور ہم مل کر الیکشن لڑیں گے۔ بیشک وہ اپنے سیاسی مستقبل کو ذہن میں رکھ کر کوئی بھی فیصلہ لینے کے لےے آزاد ہیں۔ نتیش کمار سیکولر رہیں گے یا فرقہ پرست، یہ فیصلے بھی انہیں کو کرنا ہے۔ وہ نریندر مودی اور اس کی سوچ کے لوگوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں یا طاقتور بنانا چاہتے ہیں، یہ فیصلہ بھی انہیں ہی کرنا ہے۔ ہم نے سپول کے ایک جلسہ میں لاکھوں سامعین کی موجودگی میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضرت علی نے ہمارے دوستوں اور دشمنوںکی شناخت کرنے کا ایک فارمولہ ہمارے سامنے رکھا ہے، وہ یہ کہ ہمارے تین دوست ہیں اور تین دشمن۔ ہمارے تین دوست وہ ہیں جو کہ براہ راست ہمارے دوست ہیں، دوستوں کے دوست ہیں یا ہمارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔ اسی طرح ہمارے تین دشمن وہ ہیں، جو ہمارے دشمن ہیں، ہمارے دوستوں کے دشمن ہیں یا ہمارے دشمنوں کے دوست ہیں۔ اب وہ فیصلہ خود کرسکتے ہیں کہ اس فارمولہ کے تحت وہ کس زمرے میں آتے ہیں۔ گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں فرقہ پرست طاقتوں کے مضبوط ہونے کا ہم نے ہی نہیں اس ملک نے بڑا نقصان اٹھایا ہے۔ بہار کی سیکولرزمین فرقہ پرست طاقتوں کے حوالے کردینا ایک بڑی بھول ہوگی، بلکہ اب تو وہ وقت آگیا ہے کہ جن جن ریاستوں میں فرقہ پرست طاقتیں ذرا بھی مضبوط ہوگئی ہیں، وہاں انہیں کمزور کرنے کے لےے سبھی سیکولر طاقتوں کو متحد ہونا چاہےے، اسی میں ملک کا بھی بھلا ہے اور ہندوستانی عوام کا بھی۔ ابھی آئندہ چند ماہ میں بہار کا الیکشن ہمارے سامنے ہے، جو کچھ اترپردیش میں کلیان سنگھ اور ملائم سنگھ کے ساتھ کو لے کر ہم نے فیصلہ کیا، وہی فیصلہ نتیش کمار اور نریندر مودی کے سیاسی گٹھ جوڑ کو سامنے رکھ کر بہار میں کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ فیصلہ نتیش کمار کو کرنا ہے کہ وہ وقت رہتے ہوئے فرقہ پرست عناصر سے فاصلہ اختیار کرپاتے ہیں یا پھر ملائم سنگھ یادو کی طرح ٹھوکر کھانے کے بعد کوئی فیصلہ لینے کے بارے میں سوچیں گے، مگر یہاں ایک بات واضح کردینا بیحد ضروری ہے، وہ یہ کہ ملائم سنگھ یادو کا پورا سیاسی کرئیر ہمارے سامنے ہے، تقریباً 25برس تک سیکولرزم کے علمبردار بنے رہنے، بابری مسجد کو شہادت سے بچانے، مسلمانوں کی ہر موڑ پر ترجمانی کرنے، یہاں تک کہ مولانا ملائم سنگھ یادو کا خطاب حاصل کرنے والے شخص نے ایک غلطی کی اور ٹھوکر کھانے کے بعد معذرت کرلی۔ ان کے سابقہ کردار کو سامنے رکھ کر اس معافی کو قبول کرنے میں مسلمانوں کو شاید اتنی جھجھک نہ ہو، مگر یہی بات نتیش کمار کے معاملہ میں نہیں کہی جاسکتی، اس لےے کہ نہ تو وہ ملائم سنگھ یادو کی طرح سیکولرزم کے علمبردار رہے ہیں اور نہ مسلمانوں نے کبھی انہیں اپناترجمان سمجھا ہے۔ ہاں ان کے دوراقتدار میں مسلمانوں کو بی جے پی کا ہمنوا ہونے کے باوجود زیادہ شکایتیں نہیں رہیں، مگر جس طرح اب نریندر مودی اس ریاست میں فرقہ پرستی پھیلاتے نظر آرہے ہیں، ان کے خوفناک نتائج کو سمجھا جاسکتا ہے، لہٰذا مسلمان نتیش کمار کے کاندھوں پر سوار ہوکر نریندرمودی کو طاقتور بنانے کا فیصلہ نہیں لے سکتا۔ وہ یہ بات بھی ذہن سے نکال دیں کہ مسلمانوں میں اگڑے اور پچھڑے کی تفریق پیدا کرکے وہ انہیں دو ٹکڑوں میں بانٹنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ نریندر مودی یا فرقہ پرست طاقتوں کے سوال پر اس تفریق کے کوئی معنی نہیں ہیں، وہ سبھی آپ کو ایک ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ ملائم سنگھ یادوکی مثال آپ کے سامنے ہے اور ابھی فیصلہ کا موقع بھی آپ کے پاس ہے
No comments:
Post a Comment