چند انتہائی اہم موضوعات پر میری ریسرچ اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ میں ایک بار پھر پابندی کے ساتھ لکھنے کا سلسلہ شروع کرسکوں، لیکن آج کا مضمون بس ایک تمہید کی طرح ہے، اس لےے کہ میں اپنے اس سلسلہ وار مضمون کی آئندہ قسطوں میں کن کن موضوعات پر لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، یہ واضح کرسکوں۔ بیشک اس درمیان وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے دیگر موضوعات پر بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا، مگر جن خاص موضوعات کا انتخاب میں نے کیا ہے، وہ ہےں ’’مسئلہ کشمیر‘ ـ اس کی بنیادی وجوہات اور آج کے افسوسناک حالات‘‘۔ اس کے علاوہ ’سماجی انصاف‘، ’دہشت گردی‘ اور ’فرقہ پرستی‘ وہ موضوعات ہیں، جن پر پہلے بھی لکھا جاتا رہا ہے اور ایک بار پھر ان موضوعات پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔ دراصل یہ تمام موضوعات آپس میں ایک دوسرے سے ایک حد تک وابستہ ہیں کہ انہیں الگ الگ کرکے دیکھنے سے ان وجوہات کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا، جو ان مسائل کو جنم دینے والوں کی ذہنیت کو بے نقاب کرسکےں، لہٰذا آج کے اس تمہیدی مضمون میں، میں اپنے معزز قارئین سے ایک درخواست یہ بھی کرنا چاہوں گا کہ اگر واقعی اب تک آپ کے ذہن میں یہ بات ایک جگہ بناچکی ہے کہ ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘ محض ایک اخبارہی نہیں، بلکہ آپ کے دلوں کی آواز ہے، آپ کا ترجمان ہے اور میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، وہ محض چند مضامین نہیں، بلکہ اس دور کی تاریخ ہے، ایک مشن ہے، ایک تحریک ہے تو پھر مجھے یہ مؤدبانہ درخواست کرنے کی اجازت دیجئے کہ میں اس تحریک کو ریشمی رومال جیسی تحریک کا نام دے سکوں اور اس مشن کی کامیابی تبھی ممکن ہے کہ جب ہم اس تحریک کو جدوجہد آزادی کی تحریک ’ریشمی رومال‘ کی طرز پر قبول فرمائیں۔ نہ صرف یہ کہ ان مضامین کے پیغام کو آگے تک لے جائیں، بلکہ اس سوچ کو عملی جامہ بھی پہنائیں، جو آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اب سے کچھ لائحہ عمل پر بھی بات ہو۔ یہ کافی نہیں ہوگا کہ ہم گفتگو کے سلسلہ کو اس قدر طویل کردیں کہ یہ تمام باتیں سننے میں اچھی تو لگیں، مگر ہم کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکیں۔ اب چونکہ نتیجہ پر پہنچنا بیحد ضروری ہے اس لےے بحث کا سلسلہ بیشک جاری رہے، مگر ہم کوئی لائحہ عمل بھی تیار کرلیں۔ اس ضمن میں آج سے جو خاکہ ملک اور قوم کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے، ضروری نہیں کہ وہی اس کی آخری شکل ہو، مگر اسے سامنے رکھ کر آخری شکل دینے کی جستجو میں ہم ضرور لگ جائیں۔
اب تک جن موضوعات پر بات کی جاتی رہی ہے یا اب جن موضوعات پر بات کرنے کا ارادہ ہے اس سب کا مقصد یہی ہے کہ ملک کی تصویر بدلے، قوم کی تقدیر بدلے۔ وہی امن و اتحاد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی جو اس ملک کی شناخت تھی، پھر سے قائم ہو۔ اکثریت اور اقلیت کے درمیان پیدا ہوئے اختلافات کی وجوہات کو ہم سمجھنے اور ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اب چونکہ تقریباً تمام مسائل کا حل سیاست کے ذریعہ ہی ممکن نظر آتا ہے تو ہمارا یہ کہہ کر سیاست سے لاتعلقی ظاہر کرنا کارگر نہیں ہوگا کہ ہم سیاست میں بے حیثیت ہوگئے ہیں اور اب سیاست سے حاصل بھی کیا ہوسکتا ہے، کیوں کہ آج ہمارے سامنے جتنے بھی مسائل ہیں، وہ سب کے سب سیاست کے پیدا کردہ ہیں، ہندواور مسلم عوام کے نہیں اور ان تمام مسائل کا حل بھی سیاست کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ صرف ہندو اور مسلمانوں کے ذریعہ نہیں۔ اس لےے کہ یہ سیاست ہمیں جب جس طرح چاہتی ہے نچانے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے اور ہم جب اس کو سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تب تک اتنی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ نفرت کی کھائیوں کو پاٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
اب یہ سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت جو آزادی کے بعد سے آج تک ہمارے مسائل کو حل نہ کراسکی، کیا آج ہم اس سے امیدیں وابستہ کریں اور ہماری مسلم قیادت میں ایسا کون ہے، جس کی طرف ہم امید بھری نظروں سے دیکھ سکتے ہیں تو پھر میں بیحد ادب کے ساتھ یہ درخواست کرنا چاہوں گا کہ آزادی کے بعد سے آج تک ہماری صفوں میں سیاسی قیادت کا فقدان نہیں رہا، بلکہ تقسیم وطن کے بعد سے لے کر تاحال ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ بیشک ہم انہیں ناکام قرار دیتے رہے ہیں، جو کہ غلط بھی نہیں ہے مگر ان سب پر تنقید کرنے سے قبل ایک مرتبہ ہمیں خود بھی اپنے عمل پر غور کرنا ہوگا۔ کیا ہمارے ان تمام قائدین کو ہمارا اعتماد حاصل رہا ہے؟ کیا ہم نے ان پر بھروسہ کیا ہے؟ کیا ہم نے ان کو اپنی طاقت پر جتا کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بھیجنے کی کوشش کی ہے؟ کیا ہم ان کی پشت پناہی کے لےے آگے آتے رہے ہیں؟ کیا ہم ان کی شکست پر فکرمند ہوئے ہیں؟ جب تک ہم اپنے قائدین میں فرشتوں جیسی صفت تلاش کرتے رہیں گے، یہ تلاش جاری رہے گی اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ ضیاء الرحمن انصاری پر الزام لگے اور وہ بے توجہی کا شکار ہوجائیں، عارف محمد خان ایک غلطی کریں اور ان کا سیاسی کرئیر ختم ہوجائے، عبیداللہ خاں اعظمی ایک غلط فیصلہ کریں اور سیاسی حاشےے پر چلے جائیں، سی کے جعفرشریف، اے آر انتولے ایک بار الیکشن ہار جائیں اور بھلا دئے جائیں، شاہد صدیقی اپنے سیاسی کرئیر کی تلاش میں سیاسی پارٹیاں بدلنے کے لےے مجبور ہوں تو تنقید کا نشانہ بنا دئے جائیں، آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ کیا ہم اس معاملے میں دلتوں سے، یادوؤں سے، جاٹوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے؟ کیا ہمارے قائدین کی طویل فہرست میں مایاوتی، ملائم سنگھ یادو،لالوپرساد یادواور اجیت سنگھ کے قد کا کوئی چہرہ نظر نہیں آتا؟ نہیں، میں ایسا نہیں مانتا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں، مگر میں ان سب سے زیادہ باصلاحیت متعدد مسلم سیاسی قائدین کو مانتا ہوں، بس انہیں اپنی قوم کا اس طرح اعتماد حاصل نہیں ہوا ہے، جس طرح مذکورہ بالا لیڈران کو اپنی اپنی قوم کا اعتماد حاصل ہوا۔ احمد پٹیل، غلام نبی آزاد، محسنہ قدوائی،سلمان خورشید،طارق انور، مولانا محمود مدنی، مولانا اسرارالحق قاسمی، ظفر علی نقوی وغیرہ وغیرہ (مجھے معاف فرمائیں، میں اپنے سبھی سیاسی قائدین کے نام نہیں لکھ پارہا ہوں، مگر میری مراد سبھی سے ہے۔)ایسے مسلم سیاستداں ہیں، جن پر اگر بھروسہ کیا جائے تو سب کے سب بہت بااثرانداز میں قوم کی ترجمانی کرسکتے ہیں۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ سیدشاہنواز حسین اور مختارعباس نقوی ہی نہیں، محمدشہاب الدین، عتیق احمد، افضال انصاری، رضوان ظہیر وغیرہ کو بھی ایک دم سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہےے۔ کیاپھولن دیوی اور تحصیلدار سنگھ کی طرح ہم ان سے امیدیں وابستہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں میں اپنے نمائندوں کی ضرورت ہے، ہاں مگر وہ اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ قومی اور ملی مسائل پر اس وقت جبکہ واقعی اس کی ضرورت ہوتو اپنی قوم کی بھی ترجمانی کرتے نظر آئیں، بیشک چاہے یہ ان کی پارٹی کے اصولوں سے انحراف کرتی ہو، مگر چونکہ جمہوری اصولوں میں یہ گنجائش موجود ہے کہ آپ سوچوں میں اختلاف ہونے کے بعد بھی پارٹی میں رہ سکتے ہیں اور اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔
ہم ایسا کوئی کرشمائی چہرہ تلاش کرنے میں جٹ جائیں اور ان سب کو جنہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد سیاست میں اپنی جگہ بنائی ہے، نظرانداز کردیں تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جو جہاں ہے اور جس طرح بھی ملک و قوم کی بہتر خدمت انجام دے سکتا ہے، اسے ساتھ لے کر چلا جائے۔ میں اگر صحافت کے ذریعہ کچھ کرپارہا ہوں تو یہ کوشش جاری رہے۔ہمارے ادیب اور شعرا ایک بار پھر اسی طرح اپنی ادبی خدمات انجام دیں، قوم کو ایسے ہی نغمے دیں جو ہمیں مکمل انصاف دلا سکیں۔ ہمارے مسائل کے حل کی طرف عوام اور برسراقتدار جماعتوں کو متوجہ کرسکیں۔ ہمارے صحافی دوست پھر ایسی ہی قلمی تحریک چلائیں، جیسی ’الہلال البلاغ‘، ’زمیندار‘ اور ’ہمدرد‘ کے ذریعہ چلائی گئی تھی۔ ہمارے علمائے کرام پھر اسی طرح قوم کی رہنمائی فرمائیں، جس طرح انہوں نے جدوجہد آزادی کے دوران فرمائی تھی۔ اگر ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے تو چاہے برسراقتدار جماعت ہو، حزب اختلاف یا درمیانی راستہ اختیار کرنے والی سیاسی پارٹیاں، کوئی بھی ہمارے مسائل نظرانداز نہیں کرسکے گا۔
میں کل سے کشمیر کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، بلکہ صاف کہوں تو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے حل کی تلاش میں ایک سنجیدہ کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تبھی ممکن ہے، جب آپ سب کا بشمول دیگر ہم وطن بھائیوں کا تعاون حاصل ہو، اس لےے کہ کوئی بھی ملک اور قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی، جب تک کہ وہاں پرامن ماحول نہ ہو، آپس میں اتحادواخوت کا رشتہ نہ ہو۔ ساتھ ہی میں یہ کہنا بھی انتہائی ضروری سمجھتا ہوں کہ آج ہندوستان کو جتنے مسائل درپیش ہیں، اس کی بنیادی وجہ فرقہ واریت ہے، لہٰذا ایسے تمام عناصر کی حوصلہ شکنی بیحد ضروری ہے، جو ہمارے درمیان منافرت کے بیچ بوتے رہے ہیں۔ میں اس وقت سیاست پر بہت طویل گفتگو نہیں کرنا چاہتا، مگر یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست سے دور رہ کر بھی سیاست سے لاتعلق نہیں ہوں۔ سیاسی داؤپیچ خوب سمجھتا ہوں اور آپ سے بھی توقع رکھتا ہوں کہ آپ سیاست کو ریسرچ کا موضوع بنائیں، اس سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں اور اس کے لےے ضروری نہیں ہے کہ آپ سیاست میں داخل ہی ہوں۔ مجھے اپنے اخبار کی کارکردگی پر اطمینان بھی ہے اور فخر بھی کہ اس نے شبلی کالج اعظم گڑھ کی مسلم لڑکیوں کی تصویر کے غلط استعمال کو منظرعام پر لاکر نہ صرف ایک ایسے سیاستداں کی سوچ کو بے نقاب کیا، جس کے نام پر گجرات فسادات کا بدنما داغ ہے، بلکہ یہ واضح کیا کہ جس شخص کا نام گجرات سانحہ میں بے گناہ انسانوں بالخصوص مسلمانوں کے قتل کے لےے لیا جاتا رہا ہے، وہ بھی آج اپنی سیاست کے پیش نظر ریاست گجرات میں مسلمانوں کی خوشحالی اور تعلیمی میدان میں ترقی کو دکھانے کے لےے بیقرار نظر آرہا ہے اوراس کو ثابت کرنے کے لےے جو تصویر گجرات کے اشتہار میں استعمال کی گئی، وہ اسی اعظم گڑھ کی مسلمان لڑکیوں کی تھی، جسے ’آتنک گڑھ‘ کے نام سے بدنام کیا جاتا رہا۔ اگر ہم اس سچائی کو سامنے نہ رکھتے، اس کے دوررس نتائج کی جانب بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کو متوجہ نہیں کرتے تو شاید جنتا دل یونائیٹڈ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رشتے ابھی اور لمبے عرصہ تک جاری رہتے۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ بہار کے آئندہ انتخابات میں کس سیاسی پارٹی کو سرکار بنانے کا موقع ملے گا یا کون سی پارٹی نئی طاقت کے ساتھ سامنے آئے گی،مگر ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ ملک کی بقا سیکولرزم میں ہے، کوئی بھی سیکولر پارٹی ریاست میں برسراقتدار آئے، اگر وہ سیکولرزم کو مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس سے عوام کے دلوں سے نفرتیں کم ہوںگی اور وہ جو صرف دھرم کی بنیاد پر ہی سیاست کرتے رہے ہیں، انہیں ایک بار پھر یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہندوستان میں سیاسی اعتبار سے کامیاب ہونا ہے تو اس روش کو بدلنا ہوگا۔ ایک بار یا کبھی کبھار تو مذہبی منافرت پیدا کرکے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن ہندوستان کے عوام کا مزاج یہ نہیں ہے کہ ہمیشہ اسی پر گامزن رہ کر کامیابی کی منزلیں طے کی جاسکیں۔ ہاں، مگر جن کا نصب العین ہی ملک کو مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کردینا رہا ہو، ہندوستانی عوام کو ٹکڑوں میں بانٹ دینا رہا ہو، انہیں شاید اپنے مقاصد کی کامیابی اسی میں نظر آتی ہے۔ ہماری تحریک کا ایک مقصد اس منفی سوچ کو بدلنا بھی ہے اور ان تمام حقائق کو منظرعام پر لاکر اس منافرت کی وجہ ظلم و تعصب کا شکار بنے تمام مظلومین کو انصاف دلانا بھی ہے۔ ہم پرامید ہی نہیں ہیں، ہمیں یقین کامل ہے کہ یہ ہوگا اور بہت جلد ہوگا۔ ملاحظہ فرمائیں کل سے ’مسئلہ کشمیر‘ پر گفتگو، پھردیکھیں آپ کی مشترکہ کوششوں سے یہ تصویر بدلتی نظر آتی ہے کہ نہیں۔ یہ تباہی و بربادی کا سلسلہ رکتا ہے کہ نہیں۔ وادئ کشمیر میں پھر سے امن قائم ہوتا ہے کہ نہیں، ہمیں تو یقین ہے کہ ایسا ہوگا، ضرور ہوگا اور بہت جلد ہوگا، بس آپ کا تعاون درکار ہے۔
محترم ذاکر نائک صاحب کے تعلق سے چند جملے لکھے بغیر اگر آج کا مضمون ختم کردیا جائے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ کرنے کا حق تو برطانیہ کو ہے کہ وہ ذاکر نائک صاحب کو ویزا دے یا نہ دے، انہیں باعزت طریقہ سے اپنے ملک میں مدعو کرے یا آنے سے روک دے، مگر ان کے بیان کو غلط تناظر میں پیش کرکے ان کی شبیہ کو خراب کرنے کا حق برطانوی حکومت کو نہیں دیا جاسکتا۔ محترم ذاکر نائک نے بن لادن کی حمایت نہیں کی، بلکہ دہشت گرد طاقتوں کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی تائید کی ہے۔ ہاں، ان میں بن لادن جیسوں کے طریقۂ کار پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر جو اس طرح کے دہشت گرد پیدا کرتے ہیں اورپوری دنیا کو دہشت گردی میں جھونک دیتے ہیں، ان کے اس عمل کے بارے میں کیا کہا جائے اور جب کوئی ایسی دہشت گرد طاقتوں کے خلاف جنگ لڑتا نظر آئے تو امن پسند دنیا اسے کیا نام دے، یہ ذاکر نائک صاحب پر تنقید کرنے سے قبل تمام امن پسندوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور جواب دینا ہوگا
اب تک جن موضوعات پر بات کی جاتی رہی ہے یا اب جن موضوعات پر بات کرنے کا ارادہ ہے اس سب کا مقصد یہی ہے کہ ملک کی تصویر بدلے، قوم کی تقدیر بدلے۔ وہی امن و اتحاد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی جو اس ملک کی شناخت تھی، پھر سے قائم ہو۔ اکثریت اور اقلیت کے درمیان پیدا ہوئے اختلافات کی وجوہات کو ہم سمجھنے اور ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اب چونکہ تقریباً تمام مسائل کا حل سیاست کے ذریعہ ہی ممکن نظر آتا ہے تو ہمارا یہ کہہ کر سیاست سے لاتعلقی ظاہر کرنا کارگر نہیں ہوگا کہ ہم سیاست میں بے حیثیت ہوگئے ہیں اور اب سیاست سے حاصل بھی کیا ہوسکتا ہے، کیوں کہ آج ہمارے سامنے جتنے بھی مسائل ہیں، وہ سب کے سب سیاست کے پیدا کردہ ہیں، ہندواور مسلم عوام کے نہیں اور ان تمام مسائل کا حل بھی سیاست کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ صرف ہندو اور مسلمانوں کے ذریعہ نہیں۔ اس لےے کہ یہ سیاست ہمیں جب جس طرح چاہتی ہے نچانے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے اور ہم جب اس کو سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تب تک اتنی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ نفرت کی کھائیوں کو پاٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
اب یہ سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت جو آزادی کے بعد سے آج تک ہمارے مسائل کو حل نہ کراسکی، کیا آج ہم اس سے امیدیں وابستہ کریں اور ہماری مسلم قیادت میں ایسا کون ہے، جس کی طرف ہم امید بھری نظروں سے دیکھ سکتے ہیں تو پھر میں بیحد ادب کے ساتھ یہ درخواست کرنا چاہوں گا کہ آزادی کے بعد سے آج تک ہماری صفوں میں سیاسی قیادت کا فقدان نہیں رہا، بلکہ تقسیم وطن کے بعد سے لے کر تاحال ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ بیشک ہم انہیں ناکام قرار دیتے رہے ہیں، جو کہ غلط بھی نہیں ہے مگر ان سب پر تنقید کرنے سے قبل ایک مرتبہ ہمیں خود بھی اپنے عمل پر غور کرنا ہوگا۔ کیا ہمارے ان تمام قائدین کو ہمارا اعتماد حاصل رہا ہے؟ کیا ہم نے ان پر بھروسہ کیا ہے؟ کیا ہم نے ان کو اپنی طاقت پر جتا کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بھیجنے کی کوشش کی ہے؟ کیا ہم ان کی پشت پناہی کے لےے آگے آتے رہے ہیں؟ کیا ہم ان کی شکست پر فکرمند ہوئے ہیں؟ جب تک ہم اپنے قائدین میں فرشتوں جیسی صفت تلاش کرتے رہیں گے، یہ تلاش جاری رہے گی اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ ضیاء الرحمن انصاری پر الزام لگے اور وہ بے توجہی کا شکار ہوجائیں، عارف محمد خان ایک غلطی کریں اور ان کا سیاسی کرئیر ختم ہوجائے، عبیداللہ خاں اعظمی ایک غلط فیصلہ کریں اور سیاسی حاشےے پر چلے جائیں، سی کے جعفرشریف، اے آر انتولے ایک بار الیکشن ہار جائیں اور بھلا دئے جائیں، شاہد صدیقی اپنے سیاسی کرئیر کی تلاش میں سیاسی پارٹیاں بدلنے کے لےے مجبور ہوں تو تنقید کا نشانہ بنا دئے جائیں، آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ کیا ہم اس معاملے میں دلتوں سے، یادوؤں سے، جاٹوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے؟ کیا ہمارے قائدین کی طویل فہرست میں مایاوتی، ملائم سنگھ یادو،لالوپرساد یادواور اجیت سنگھ کے قد کا کوئی چہرہ نظر نہیں آتا؟ نہیں، میں ایسا نہیں مانتا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں، مگر میں ان سب سے زیادہ باصلاحیت متعدد مسلم سیاسی قائدین کو مانتا ہوں، بس انہیں اپنی قوم کا اس طرح اعتماد حاصل نہیں ہوا ہے، جس طرح مذکورہ بالا لیڈران کو اپنی اپنی قوم کا اعتماد حاصل ہوا۔ احمد پٹیل، غلام نبی آزاد، محسنہ قدوائی،سلمان خورشید،طارق انور، مولانا محمود مدنی، مولانا اسرارالحق قاسمی، ظفر علی نقوی وغیرہ وغیرہ (مجھے معاف فرمائیں، میں اپنے سبھی سیاسی قائدین کے نام نہیں لکھ پارہا ہوں، مگر میری مراد سبھی سے ہے۔)ایسے مسلم سیاستداں ہیں، جن پر اگر بھروسہ کیا جائے تو سب کے سب بہت بااثرانداز میں قوم کی ترجمانی کرسکتے ہیں۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ سیدشاہنواز حسین اور مختارعباس نقوی ہی نہیں، محمدشہاب الدین، عتیق احمد، افضال انصاری، رضوان ظہیر وغیرہ کو بھی ایک دم سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہےے۔ کیاپھولن دیوی اور تحصیلدار سنگھ کی طرح ہم ان سے امیدیں وابستہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں میں اپنے نمائندوں کی ضرورت ہے، ہاں مگر وہ اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ قومی اور ملی مسائل پر اس وقت جبکہ واقعی اس کی ضرورت ہوتو اپنی قوم کی بھی ترجمانی کرتے نظر آئیں، بیشک چاہے یہ ان کی پارٹی کے اصولوں سے انحراف کرتی ہو، مگر چونکہ جمہوری اصولوں میں یہ گنجائش موجود ہے کہ آپ سوچوں میں اختلاف ہونے کے بعد بھی پارٹی میں رہ سکتے ہیں اور اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔
ہم ایسا کوئی کرشمائی چہرہ تلاش کرنے میں جٹ جائیں اور ان سب کو جنہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد سیاست میں اپنی جگہ بنائی ہے، نظرانداز کردیں تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جو جہاں ہے اور جس طرح بھی ملک و قوم کی بہتر خدمت انجام دے سکتا ہے، اسے ساتھ لے کر چلا جائے۔ میں اگر صحافت کے ذریعہ کچھ کرپارہا ہوں تو یہ کوشش جاری رہے۔ہمارے ادیب اور شعرا ایک بار پھر اسی طرح اپنی ادبی خدمات انجام دیں، قوم کو ایسے ہی نغمے دیں جو ہمیں مکمل انصاف دلا سکیں۔ ہمارے مسائل کے حل کی طرف عوام اور برسراقتدار جماعتوں کو متوجہ کرسکیں۔ ہمارے صحافی دوست پھر ایسی ہی قلمی تحریک چلائیں، جیسی ’الہلال البلاغ‘، ’زمیندار‘ اور ’ہمدرد‘ کے ذریعہ چلائی گئی تھی۔ ہمارے علمائے کرام پھر اسی طرح قوم کی رہنمائی فرمائیں، جس طرح انہوں نے جدوجہد آزادی کے دوران فرمائی تھی۔ اگر ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے تو چاہے برسراقتدار جماعت ہو، حزب اختلاف یا درمیانی راستہ اختیار کرنے والی سیاسی پارٹیاں، کوئی بھی ہمارے مسائل نظرانداز نہیں کرسکے گا۔
میں کل سے کشمیر کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، بلکہ صاف کہوں تو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے حل کی تلاش میں ایک سنجیدہ کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تبھی ممکن ہے، جب آپ سب کا بشمول دیگر ہم وطن بھائیوں کا تعاون حاصل ہو، اس لےے کہ کوئی بھی ملک اور قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی، جب تک کہ وہاں پرامن ماحول نہ ہو، آپس میں اتحادواخوت کا رشتہ نہ ہو۔ ساتھ ہی میں یہ کہنا بھی انتہائی ضروری سمجھتا ہوں کہ آج ہندوستان کو جتنے مسائل درپیش ہیں، اس کی بنیادی وجہ فرقہ واریت ہے، لہٰذا ایسے تمام عناصر کی حوصلہ شکنی بیحد ضروری ہے، جو ہمارے درمیان منافرت کے بیچ بوتے رہے ہیں۔ میں اس وقت سیاست پر بہت طویل گفتگو نہیں کرنا چاہتا، مگر یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست سے دور رہ کر بھی سیاست سے لاتعلق نہیں ہوں۔ سیاسی داؤپیچ خوب سمجھتا ہوں اور آپ سے بھی توقع رکھتا ہوں کہ آپ سیاست کو ریسرچ کا موضوع بنائیں، اس سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں اور اس کے لےے ضروری نہیں ہے کہ آپ سیاست میں داخل ہی ہوں۔ مجھے اپنے اخبار کی کارکردگی پر اطمینان بھی ہے اور فخر بھی کہ اس نے شبلی کالج اعظم گڑھ کی مسلم لڑکیوں کی تصویر کے غلط استعمال کو منظرعام پر لاکر نہ صرف ایک ایسے سیاستداں کی سوچ کو بے نقاب کیا، جس کے نام پر گجرات فسادات کا بدنما داغ ہے، بلکہ یہ واضح کیا کہ جس شخص کا نام گجرات سانحہ میں بے گناہ انسانوں بالخصوص مسلمانوں کے قتل کے لےے لیا جاتا رہا ہے، وہ بھی آج اپنی سیاست کے پیش نظر ریاست گجرات میں مسلمانوں کی خوشحالی اور تعلیمی میدان میں ترقی کو دکھانے کے لےے بیقرار نظر آرہا ہے اوراس کو ثابت کرنے کے لےے جو تصویر گجرات کے اشتہار میں استعمال کی گئی، وہ اسی اعظم گڑھ کی مسلمان لڑکیوں کی تھی، جسے ’آتنک گڑھ‘ کے نام سے بدنام کیا جاتا رہا۔ اگر ہم اس سچائی کو سامنے نہ رکھتے، اس کے دوررس نتائج کی جانب بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کو متوجہ نہیں کرتے تو شاید جنتا دل یونائیٹڈ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رشتے ابھی اور لمبے عرصہ تک جاری رہتے۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ بہار کے آئندہ انتخابات میں کس سیاسی پارٹی کو سرکار بنانے کا موقع ملے گا یا کون سی پارٹی نئی طاقت کے ساتھ سامنے آئے گی،مگر ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ ملک کی بقا سیکولرزم میں ہے، کوئی بھی سیکولر پارٹی ریاست میں برسراقتدار آئے، اگر وہ سیکولرزم کو مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس سے عوام کے دلوں سے نفرتیں کم ہوںگی اور وہ جو صرف دھرم کی بنیاد پر ہی سیاست کرتے رہے ہیں، انہیں ایک بار پھر یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہندوستان میں سیاسی اعتبار سے کامیاب ہونا ہے تو اس روش کو بدلنا ہوگا۔ ایک بار یا کبھی کبھار تو مذہبی منافرت پیدا کرکے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن ہندوستان کے عوام کا مزاج یہ نہیں ہے کہ ہمیشہ اسی پر گامزن رہ کر کامیابی کی منزلیں طے کی جاسکیں۔ ہاں، مگر جن کا نصب العین ہی ملک کو مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کردینا رہا ہو، ہندوستانی عوام کو ٹکڑوں میں بانٹ دینا رہا ہو، انہیں شاید اپنے مقاصد کی کامیابی اسی میں نظر آتی ہے۔ ہماری تحریک کا ایک مقصد اس منفی سوچ کو بدلنا بھی ہے اور ان تمام حقائق کو منظرعام پر لاکر اس منافرت کی وجہ ظلم و تعصب کا شکار بنے تمام مظلومین کو انصاف دلانا بھی ہے۔ ہم پرامید ہی نہیں ہیں، ہمیں یقین کامل ہے کہ یہ ہوگا اور بہت جلد ہوگا۔ ملاحظہ فرمائیں کل سے ’مسئلہ کشمیر‘ پر گفتگو، پھردیکھیں آپ کی مشترکہ کوششوں سے یہ تصویر بدلتی نظر آتی ہے کہ نہیں۔ یہ تباہی و بربادی کا سلسلہ رکتا ہے کہ نہیں۔ وادئ کشمیر میں پھر سے امن قائم ہوتا ہے کہ نہیں، ہمیں تو یقین ہے کہ ایسا ہوگا، ضرور ہوگا اور بہت جلد ہوگا، بس آپ کا تعاون درکار ہے۔
محترم ذاکر نائک صاحب کے تعلق سے چند جملے لکھے بغیر اگر آج کا مضمون ختم کردیا جائے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ کرنے کا حق تو برطانیہ کو ہے کہ وہ ذاکر نائک صاحب کو ویزا دے یا نہ دے، انہیں باعزت طریقہ سے اپنے ملک میں مدعو کرے یا آنے سے روک دے، مگر ان کے بیان کو غلط تناظر میں پیش کرکے ان کی شبیہ کو خراب کرنے کا حق برطانوی حکومت کو نہیں دیا جاسکتا۔ محترم ذاکر نائک نے بن لادن کی حمایت نہیں کی، بلکہ دہشت گرد طاقتوں کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی تائید کی ہے۔ ہاں، ان میں بن لادن جیسوں کے طریقۂ کار پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر جو اس طرح کے دہشت گرد پیدا کرتے ہیں اورپوری دنیا کو دہشت گردی میں جھونک دیتے ہیں، ان کے اس عمل کے بارے میں کیا کہا جائے اور جب کوئی ایسی دہشت گرد طاقتوں کے خلاف جنگ لڑتا نظر آئے تو امن پسند دنیا اسے کیا نام دے، یہ ذاکر نائک صاحب پر تنقید کرنے سے قبل تمام امن پسندوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور جواب دینا ہوگا
1 comment:
Thanks for Sharing this article its a beautiful article
Post a Comment